ماضی کے جوگیوں، مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات کے ملازمین وغیرہ کو چھوڑ کر یعنی بطور سیاح بہت کم لوگ اتنی دفعہ ٹلہ گئے ہوں گے کہ جتنی دفعہ جوگی منظرباز جا چکا ہے۔ اس سیروسیاحت میں ٹلہ کا چپا چپا چھان مارا مگر قسمت دیکھیئے کہ کوشش کے باوجود بھی کبھی موروں کا دیدار نہ ہوا۔ طاؤسِ ٹلہ کی فقط اک جھلک بھی نصیب نہ ہوئی۔ بس ایک دو دفعہ جنگل میں مور پنکھ ملے تو میں انہیں ہی اعزاز سمجھ لیتا۔ اور پھر حالیہ ”بہارِ ٹلہ“ کی پہلی یاترا ہوئی تو صبح فجر کے وقت جنگلوں کو نکل گیا۔ اچانک ایک جگہ مور نظر آیا تو جیسے سانسیں تھم سی گئیں، میں ساکت ہو گیا، کچھ گھبرا سا گیا۔ اور پھر افسوس! شومئی قسمت کہ ← مزید پڑھیے