Get Updates

08 Feb 2020
2 تبصرے

پہاڑوں پر شام اُتر رہی تھی مگر ہم پہاڑ چڑھ رہے تھے۔ اُس دن کی آخری چڑھائی ختم ہونے کو تھی اور میں دن بھر کی تھکاوٹ سے بے حال ہوا پڑا تھا۔ ایک جگہ سانس لینے رُکا۔ نظر اٹھائی تو سورج کی آخری کرنیں نانگاپربت کا بوسہ لے رہی تھیں۔ اس شاندار نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اچانک ایک سوال کوندا کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ اتنا کشٹ کیوں کر رہا ہوں؟ آخر میں نے تصویریں بھی کیونکر بنائی؟ اگلے ہی لمحے کچھ لہریں دماغ تک پہنچیں، قدرت نے جوابات عنایت کر دیئے۔ یہیں پر سیاحت کی ترقی و ترویج اور لوگوں کی راہنمائی جیسے مضحکہ خیر نعرے ←  مزید پڑھیے
Pak Urdu Installer
05 Feb 2020
2 تبصرے

بالائی پہاڑوں پر برف پڑنے کی وجہ سے ٹھنڈ تھی مگر ارمان بہت گرم تھے۔ لہٰذا ہم دریائے کنہار کنارے جا بیٹھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ مگر یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ تبھی ہم نے جانا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔ کیا آپ نے وہ گانا سنا ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی اور کوئی اسے گرم دیکھ کر ←  مزید پڑھیے
22 Jan 2020
1 تبصرہ

اب باباجی کا ڈیرہ ایک بڑے کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پاک و ہند سے سکھ برادری کے ساتھ ساتھ مسلمان یاتری بھی جوق در جوق جاتے ہیں۔ اور ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور گئے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ بلکہ گندم کی وسیع و عریض فصلوں کے بیچ و بیچ سفید چونے سے ڈھکی ایک عمارت تھی۔ جس کے اردگرد ماحول ایسا تھا کہ میری سوچیں بے اختیار ”ٹائم ٹریول“ کیے دیتیں اور اک باباجی کنویں سے پانی نکال کر فصلوں کر سیراب کرتے۔ پیاری پیاری محبت بھری باتیں کرتے۔ فطرت سے محبت اور امن کا پیغام پھیلاتے۔ وہ وہی بابا گرو نانک تھے کہ جنہیں مسلمان اپنا بزرگ ←  مزید پڑھیے
16 Jan 2020
تبصرہ کریں

محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، جناب فلاں صاحب کے لئے، ٹھپ دستخط۔۔۔ کچھ یوں مجھ جیسے عام قارئین کے لئے اکثر بڑے لکھاری اپنی کتاب دستخط کرتے ہیں۔ مگر میری لائبریری میں ایک کتاب سوچ زار ایسی بھی ہے کہ جس کی مصنفہ مریم مجید ڈار نے ناچیز کے لئے ایسا لکھا کہ فطرت کے صد رنگ چہرے کو صورتِ عکس قید کرنے والے جوگی ایم بلال ایم کے لیئے۔ ستائیس افسانوں پر مشتمل یہ کتاب منجمد سوچ پر ہتھوڑے چلائے، معاشرتی بگاڑ پر کوڑے برسائے اور معاشرے کو جھنجھوڑے ہی جھنجھوڑے۔ مصنفہ کا بے باک قلم یہاں تک لکھتا ہے کہ ←  مزید پڑھیے
11 Jan 2020
تبصرہ کریں

حرارت زندگی ہے مگر حرارت کی بے احتیاطی موت ہے۔ خود سوچیں! اس معاشرے کا کیا ہو گا، جہاں احتیاط کو بزدلی اور بیوقوفی کو بہادری سمجھا جاتا ہو۔ خیر کوئی جو بھی سمجھے، ہمارا کام ہے کہہ دینا۔ مثلاً ایک دفعہ دور دراز پہاڑوں میں کیمپ سائیٹ پر ایک بندے کو چھوٹے سے خیمے کے اندر چولہا جلائے دیکھا تو اسے منع کیا۔ سیدھی سی بات تھی مگر وہ آگے سے اپنے دلائل دینے لگا کہ کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں نے تنگ آ کر کہا، بھائی ہمیں بتا دو کہ جب تمہیں آگ لگے تو آیا جلتے ہوئے کو اٹھا کر نیچے کھائی میں بہتے دریا میں پھینک دیں یا پھر جب تم راکھ بن جاؤ تو تب تمہیں دریا میں بہائیں۔ اور پھر ہوا بھی یوں کہ ←  مزید پڑھیے