Get Updates

29 Nov 2022
تبصرہ کریں

بچپن میں ایک دفعہ ملتان گیا تھا اور پھر ستائیس سال بعد اس شہر میں دوبارہ قدم رکھا۔ بس جی اک شام محبوب کے پہلو میں بیٹھ کر عکس بنانا تھا۔ اور یہاں بھی ”تیرے“ نام کا دیا جلانا تھا۔ اور جو تھل جیپ ریلی دیکھنے پہنچے تو رات ملتان میں، پاکستان کے مشہور و معروف برڈر اور فوٹوگرافر ڈاکٹر سید علی حسان کے آستانے پر ٹھہرے۔ باقی پیر محبوب کو قدموں میں لاتے ہیں مگر ہمارے مرشد ہمیں ہی محبوب کے قدموں میں لے گئے۔ ویسے بھی عشق کا تقاضا یہی ہے کہ تو زیر ہو، تو قدموں میں بیٹھ، نہ کہ محبوب۔ پاکستان کے دیگر خوبصورت چوک چوراہوں کی طرح ملتان کا گھنٹہ گھر چوک بھی زبردست ”فوٹوجینک“ ہے۔ اوپر سے یہاں تاریخ تہہ در تہہ پروئی ہوئی ہے۔ جس طرف بھی کیمرہ کر کے تصویر بناؤ تو کچھ نہ کچھ تاریخ عکس بند ہو ہی جاتی ہے۔ اگر اک طرف قلعہ کہنہ قاسم میں بہاؤ الدین زکریا اور شاہ رکن عالم کے مزارات اور دیگر عمارتیں ہیں تو دوسری طرف انگریز دور کا گھنٹہ گھر ہے۔ بہرحال اُس رات جب گھنٹہ گھر چوک پہنچے تو تصویر بنانے کے لئے جگہ ڈھونڈ ہی لی۔ اور وہ تھی دم دمہ آرٹ گیلری کی چھت۔۔۔ مگر ہوا یوں کہ ←  مزید پڑھیے
Pak Urdu Installer
13 Sep 2022
تبصرہ کریں

کیا آپ کا محبوب بھی چاند ہے؟ بس جی! پھر آہیں بھریں اور محبوب کو دور سے ویسے ہی دیکھیئے ”چاند کو جیسے دیکھتا چکور ہے“۔ وہ کیا ہے کہ آپ کی طرح کے اک پرندے چکور کے بارے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چاند کا عاشق ہے۔ ویسے ہے ناں حیرانی کی بات کہ عاشق چکور کے جیسے خوبصورت اور محبوب چاند کی طرح کدو سے اور بلیک اینڈ وائٹ۔۔۔ خیر ہم نے ٹلہ جوگیاں کے راستے سے چکوروں کے غول در غول اڑتے دیکھتے ہیں۔ گویا ہم کہیں گے کہ روہتاس کے بعد ”سڑک جو جائے ٹلے… تو جوگی رُلے… گل کِھلے… مور ملے، چکور ملے“۔۔۔ ویسے اس راستے کی عجب ←  مزید پڑھیے
19 Aug 2022
تبصرہ کریں

جوگی نے ایک میلے خوبصورت دیوی کو دیکھا تو اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اگر ایک طرف رانجھا عشق میں ناکامی کے بعد جوگی بنتا ہے تو دوسری طرف کوئی جوگی واپس پلٹا بھی کھا سکتا ہے۔ لہٰذا جوگیوں سے بچ کے رہنا۔۔۔ بہرحال جوگی کو دیوی سے محبت ہوئی اور جب اسے زیر کرنا چاہا تو دیوی اپنے آپ کو بچانے کے لئے وہاں سے بھاگی اور ایک پہاڑ کی غار میں جا پناہ لی۔ اس تصویر کے درمیان میں آپ کو وہی ”تری کوٹہ“ یعنی تین چوٹیوں والا پہاڑ نظر آ رہا ہے۔ یہ تصویر میں نے سرحد کے پار بہت دوری سے بنائی ہے۔ پہاڑ دکھتا چہرہ، اس تصویر اور جوگی کی مکمل کہانی یہ ہے کہ ←  مزید پڑھیے
28 Jul 2022
تبصرہ کریں

اگر میں کہوں کہ مجھے گوجرانوالہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور نانگاپربت کی چوٹی نظر آئی ہے تو کیا آپ مان لو گے؟ اور اگر اس کی تصویر بھی دکھاؤں تو کیا یقین کر لو گے؟ بہرحال ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں ہم اک روز فجر کے وقت، گوجرانوالہ کے قریب لودھی مسجد کی فوٹوگرافی کرنے گئے۔ اک خوبصورت صبح کا سندیسہ لئے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی کہ میں نے شور مچا دیا، گاڑی روکو، گاڑی روکو... وہ دیکھو پہاڑ۔۔۔ باقی ٹیم نے یقیناً یہی سوچا ہو گا کہ جس طرح بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہوتے ہیں، ایسے ہی منظرباز کے خوابوں میں پہاڑ... بھلا گوجرانوالہ سے پہاڑ کہاں نظر آنے لگے... مگر وہ ایسی حقیقت تھی کہ ←  مزید پڑھیے
09 Jul 2022
تبصرہ کریں

گو کہ بات شغل میلے کی ہے، مگر کئی نام نہاد ”ٹریولرز اور ٹریکرز“ وغیرہ کی جانب سے بڑا ظالم طنز ہے۔ اور وہ یہ کہ ”مری جانے پر ہی بلندی کی وجہ سے جن کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، وہ لوگ بھی خود کو ٹریولر کہتے ہیں“۔۔۔ وڈے ٹریولرز دی ایسی دی تیسی۔ جبکہ آپ خود کو ہلکا مت لیں۔ طبیعت کی خرابی کو لے کر چھوٹے چھوٹے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چلیں آئیں آج بلندی کے اثرات پر کچھ بات کرتے ہیں۔ کئی پہاڑی علاقوں میں ایک اصطلاح ”ہائیٹ ہونا یا ہائیٹ لگنا“ استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً فلاں کو ہائیٹ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بلندی کے اثرات کی وجہ سے فلاں کی طبیعت خراب ہو چکی ہے۔ اس خراب طبیعت کو نظرانداز کیا جائے تو بات موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ جبکہ اس کا علاج یہ ہے کہ ←  مزید پڑھیے