بیوی کی خدمت کی خاطر کرشن نگر بازار جانا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا بازار ہی بند ہے ۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ بازار کے ایک ہردلعزیز حاجی انور خان کا تین سالہ بیٹا ارحم خان فوت ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بازار کی بہت سی دوکانیں سوگ میں بند ہیں ۔
میں بڑا حیران ہوا کہ آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ ایک بچے کی خاطر بازار کو بند کرنا پڑا ۔تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ بچے نے مورٹین آئل کی شیشی میں لگی سٹک کو چوس لیا تھا جس کی وجہ سے بچے کی طبعیت خراب ہو گئی ۔۔طبعیت خراب ہونے پر بچے کو میوہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا جہاں وہ بارہ گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
حیرت اور سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ مورٹین سے مچھر تو مرتا نہیں پھر یہ بندہ آخر کیسے مر گیا ۔ مورٹین کی پروڈکٹ کو اگر ہم دیکھیں تو اس کی جلیبی ( کوائل ) کو بند کمرے میں لگا کر سوئیں تو صبح آپ جاگتے نہیں ملیں گے ۔۔اسی طرح اگر آپ اس کا بغیر خوشبو کا سپرے لا کر کمروں میں چھڑکیں تو مچھر تو چھوڑو مکھیاں اور بھنبھنانا شروع کر دیتی ہیں ۔مورٹین آئل کی تو بات ہی نہ کریں اس کی تازہ مثال تو لوگوں نے ایک زندہ بچے کا اللہ کے ہاں پہنچنا دیکھ ہی لیا ہے۔
مورٹین والوں کو چاہئے کہ اپنی ہر پروڈکٹ پر نمایاں حروف میں ‘‘ خطرناک دوائی ‘‘ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ‘‘ آنکھوں اور منہہ کو بچا کر رکھیں ‘‘ جیسے الفاظ ضرور لکھیں ۔۔اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہئے کہ وہ پاکستانیو کی جاں بخشی کر کے جاپان میں اپنی پروڈکٹ متعارف کروائیں جہاں ہر دسویں بندے کو خودکشی کے لئے کسی اچھی دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔