نیوزی لینڈ پر دہشتگردی کا حملہ اور فاشزم کا بین الاقوامی خطرہ

18 March 2019

گزشتہ جمعہ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر فاشسٹ حملوں میں اموات کی تعداد50تک پہنچ گئی ہے ہلاک ہونیوالوں میں سب سے کم عمر3سالہ لڑکے کی تھی۔34افراد اب تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں12افراد کی حالت نازک ہے جس میں ایک 4سالہ لڑکی بھی شامل ہے جو شدید زخمی ہے۔

اس ہولناک نسلی قتل عام کے واقع نے پوری دنیا کے لوگوں کو خوفزدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس دہشتگردی کا نشانہ بے کس مسلمان مرد،عورتیں اور بچے بنے جب وہ نماز ادا کررہے تھے۔دنیا بھر میں اور لاکھوں افراد نے نیوزی لینڈ میں ان افراد اور انکی فیملی کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طورپر شمعیں روشن کیں اور تارکین وطن کا دفاع کیا۔

نیوزی لینڈ کی پولیس اب یہ کہہ رہی ہے کہ 28سالہ بریٹن ٹرینٹ آسٹریلیا کا پیدائشی تھاجس کے پاس بندوق کے علاوہ اور کوئی مددگار نہیں تھا۔ وہ قتل کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہوا۔نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا دونوں ملکوں کی انتظامیہ یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ کبھی بھی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی نظر میں نہیں رہا لہٰذا اس لئے وہ واچ لسٹ پر نہیں تھا۔

ٹرینٹ کو تنہاء پسند،اب نارمل’’لون ولف‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش اور یہ دعویٰ کہ وہ ہمارے’’نوٹس‘‘ میں نہیں تھا یہ دعویٰ بالکل بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔ٹرینٹ نے جو74صفات پر مشتمل منشور اجراء کیا ہے جو صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ سنگ دل کارروائی بین الاقوامی فاشسٹ اور سفید نسل پرستی کے نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی ہے ۔جنکے ساتھ اسکا کئی سالوں سے جاری تعاون اور کھلے رابطے تھے۔

ٹرینٹ کا منشور آج کے ماڈرن وقت کا ’’Mein kampf‘‘ہے (میری جدوجہد کتاب جو ہٹلر نے لکھی تھی) جس میں کچھ اس طرح کا ملاجلا موجود ہے کہ نسل کشی پر مبنی تشدد اور خانہ جنگی کے ذریعے یورپ میں باہر سے آئے ہوئے ’’حملہ آورں‘‘کو یورپ، امریکہ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے زبردستی باہر نکلا جائے بشمول مسلمانوں ،یہودیوں،افریکن،ایشین اور روم سے تعلق رکھنے والوں کو،اس کے علاوہ اس رحجان میں سوشلزم سے شدید نفرت پائی جاتی ہے ۔ یہ رحجان سفید نسل پرستی انتہائی تنگ نظر قوم پرستی’’ خون اور مٹی‘‘ جیسے عطائی نسخوں سے لیس ہے جسے نازی ازم اور دوسری فاشسٹ تحریکوں نے1920اور1930میں متحرک کیا تھا ۔

اس دہشتگرد نے لکھا ہے کہ اس نے ’’بہت سارے قوم پرست گروپوں کو عطیہ اور بہت سارے گروپوں کے ساتھ رابطہ کیا ہے‘‘۔ مزید یہ کہ2012سے اس نے بلغاریہ،ہنگری،سربیا،کرویشیا،بوسنیا،فرانس، برطانیہ، سپین،ترکی،پاکستان اور یہاں تک کہ شمالی کوریا کا سفر کیا۔اور پھر آسٹریلیا آیا وہاں سے نیوزی لینڈ گیا۔

اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ2017میں دو ماہ کے یورپی دورے کے دوران دہشت گردی کی جانب مائل ہوا جب فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی نیشنل فرنٹ کو الیکشن میں شکست ہوئی۔ٹرینٹ نے نام نہاد نائٹ ٹیمپلر سے رابطہ کیا یہ وہ تنظیم تھی جس سے وابستہ فاشسٹ ایندرس بری ویک نے ناروے میں قتل عام کیاتھا۔ اس نے مزید کہا کہ کرائسٹ چرچ کے دہشت گرد حملے میں اسے اس کی آشیر باد حاصل تھی۔نیوزی لینڈ میں آنے کے بعد وہ انتہاء پسند رحجان کے سوشل میڈیا کے بالگ میں متحرک تھا اور گن کلب میں بھی شمولیت اختیار کی۔ اس نے کہاکہ اس نے دہشت گردی کے حوالے سے نیوزی لینڈ کو اس لئے چنا تھا کہ وہ یہ بتا سکے کہ ’’ غیر سفید‘‘ والوں کیلئے ’’ دنیا کئیں بھی محفوظ نہیں ہے‘‘

دنیا میں اگر یہ سب کچھ سیکورٹی فورسز کے ’’ ریڈر کے نیچے‘‘ ہورہا ہے تو ٹرینٹ کا منشور اس کی وضاحت یوں کرتا ہے۔اس نے دعویٰ کیا بہت سارے فاشسٹ گروپ گہرے طور پر فوج،پولیس اور ریاستی اپریٹس سے جڑے ہوئے ہیں۔وہ لکھتا ہے :’’کہ ٹوٹل افراد جو ان تنظیموں کے ساتھ منسلک ہیں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔۔۔۔ لیکن غیر متناسب طورپر فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں میں ملازم ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ قوم پرست اور نسل پرست ان علاقوں میں ملازمت کرتے ہیں جہاں وہ اپنی قوم اور کمیونٹی کی خدمت کرسکیں۔ ٹرینٹ کے تخمینہ کے مطابق وہ زور دیتا ہے ۔’’لاکھوں‘‘ یورپی سپاہی اور پولیس’’ قوم پرست گروپوں‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔

کرائسٹ چرچ کے حملے۔۔۔۔۔جس سوچ اور فکر نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔۔۔۔۔عالمی محنت کش طبقے اور درمیانے طبقے کے ترقی پسند حلقوں کو ان دہشتگرد حملوں کو ایک مہلک وارننگ کے طور پر لینا چاہئے کیونکہ اس عمل کو شعوری طور پر گھڑاگیا ہے۔جسے ہی عالمی محنت کش طبقے کی جدوجہد سماجی عدم مساوات اور جنگ کے خطرے کیخلاف نئی سرگرمی میں داخل ہو کر آگے کی جانب بڑھ رہی ہے حکمران طبقات ایک بار پھر جیسا کہ انہوں نے1920اور1930میں کیا تھا کہ فاشسٹ قوتوں کے ذریعے محنت کشوں کو تقسیم کریں انہیں ڈرائیں دھمکیں اور سرمایہ دارانہ نظام اور قومی ریاستوں کے بحران اور دیوالیہ پن کیخلاف انکی جدوجہد کو فاشسٹ قوتوں کے ذریعے دباسکیں۔

وہ سیاسی پارٹیاں اور افراد جو کہ بریٹن ٹرینٹ کے سو چ اور فکر سے کچھ زیادہ فرق نہیں رکھتیں یورپ کے تمام ممالک کینیڈا،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ بشمول امریکی کانگریس اور وائٹ ہاؤس میں پائی جاتی ہیں۔

جرمنی میں مارکل کی مخلوط حکومت نے فاشسٹ الٹرنیٹیو فار جرمنی(AFD)جو کہ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف میں بیٹھی ہوئی ہے اس کی پالیسیوں کو اپنایا ہوا ہے گزشتہ ستمبر کو کیمنیرٹس میں نیو فاشسٹ احتجاج میں جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ سیہو فر مظاہرے کے پیچھے کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا اگر وہ وزیر نہیں ہوتا تو ان فاشسٹوں کے ہمراہ ان کے ساتھ مارچ کرتا۔اسی طرح ہنس جارج میسن نے بھی کیمنیرٹس کے مظاہرے کی حمایت کی بعد میں جب وہ جرمن خفیہ سروس کا صدر بنا تو اس نے تارکین وطن کیخلاف اور اپنے فاشسٹ کردار کی تردید کی۔

جرمنی کی مسلح افواج میں حال ہی میں شدت پسند دہشت گرد گروپ بے نقاب ہوا ہے، جس کے سینکڑوں ممبرز ہیں۔ اس نیٹ ور کے ممبروں کو عدالتی نظام نے بچایا۔ جنہوں نے ایک تفصیلی پلان تشکیل دیا تھا اس پلان کے مطابق گورنمنٹ کے نمایاں شخصیات کا قتل اور یہودیوں اور مسلمانوں کی تنظیموں کو نشانہ بنانا شامل تھا۔

امریکہ کی دونوں پارٹیاں،ربپیلکن اور ڈیموکریٹس تارکین وطن کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے انہیں سماجی بحران کا ذمہ دار بنا کر پیش کرتی ہیں یہ دونوں پارٹیاں نسلی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ کوششیں کررہی ہیں کہ محنت کش طبقے کو تقسیم کیا جائے۔

صدر ٹرمپ جسے ٹرینٹ نے ’’ سفید شناخت کی علامت‘‘ سے نوازا۔۔۔ نے کوششیں کی کہ فاشسٹ حلقہ کی پرورش کرے ۔ٹرمپ نے اپنی فاشسٹ بنیاد کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے رپورٹر کو کرائسٹ چرچ کے دہشت گرد حملے کے بعد اپنے بیان میں کہاکہ میں نہیں سمجھاتا کہ’’سفید قوم پرستی‘‘ کوئی خطرہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے قتل عام سے دو دن پہلے اس نے ایک واضح دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے حمایتوں کو جو کہ فوج ،پولیس اور بدمعاش گروپوں میں ہیں جیسا کہ ’’بیکرز فار ٹرمپ‘‘ کو اپنے مخالفین کیخلاف متحرک کریگا یہ بات اس نے بریت برٹ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی کہ’’ لیفٹ‘‘ کے مقابلے میں یہ زیادہ ’’سخت ‘‘ ہیں۔

یہ باتیں اس نے فروری میں فاشسٹ یو ایس کوسٹ گارڈ افیسر کرسٹو فرپال ہنس جو کہ ٹرمپ کا حمایتی تھا کہ حراست میں لینے کے بعد کئیں۔جس کا پلان تھا کہ نمایاں افریکن۔امریکن اور یہودی افراد اور ڈیموکریٹس، سوشلسٹ آف امریکہ(ڈی ایس اے) کے ممبروں کو قتل کرنا تھا۔

کرائسٹ چرچ کے حملے سے پہلے بائیں بازو کے وینگ کے ناقدین کی اسرائیلی حکومت کی فلسطینیوں کیخلاف وحشیانہ اقدامات پر انہیں بدنام کرنے کیلئے ایک کمپین شروع کی گئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے مسلمان نمائندے ریحان عمر پر الزام عائد کیا کہ وہ ’’یہودی مخالف‘‘ ہے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ’’صہیونی حامی‘‘ لابی ان دونوں پارٹیوں پر کس قدر گہرا اثر رکھتی ہے۔

الزام تراشی کی اس کمپین کی باز گشت برطانیہ کی لیبر پارٹی میں بھی گونج رہی ہے لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کاربین اور سینکڑوں پارٹی کے ممبروں کیخلاف ’’ یہودی مخالف ‘‘ الزام لگایا جارہا ہے جس کا مقصد انہیں غیر قانونی قراردیکر برطانیہ کی حزب اختلاف سے لیفٹ وینگ کو خارج کرنا ہے تاکہ برطانوی سامراج کی مخالفت کو روکا جائے۔

آسٹریلیااور نیوزی لینڈ کے سیاستدان منافقانہ بیانات دیکر نسل پرستی اور تشدد کی مذمت کررہے ہیں جبکہ انکی اسٹبلشمنٹ2001سے مسلمان مہاجرین کو خطرے کی علامت اور انہیں طاقتور’’ فیفت کالم‘‘ کے طو رپر پیش کررہی ہیں اور تارکین وطن کو ہر سماجی مصیبت کا ذمہ دار گرادنتی ہیں۔

نیوزی لینڈ کی فسٹ پارٹی جنکے پاس وزارت دفاع اور خارجہ کی وزارتیں لیبر پارٹی کی مخلوط حکومت میں ہیں جو بار بار مطالبہ کررہی ہیں کہ مسلمانوں اور ایشیاء سے بڑی’’امیگریشن‘‘ ۔۔۔کو روکا جائے۔۔۔۔ اور وہ زبان استعمال کررہے ہیں جو ٹرینٹ اور دوسرے دائیں بازو کے انتہاء پسندوں سے مختلف نہیں ہیں۔

کرائسٹ چرچ پر وحشیانہ حملہ اور بربریت انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل کی وارننگ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جو اس نے اپنے 3جنوری2019کے بیان عالمی طبقاتی جدوجہد کی حکمت عملی اور2019میں سرمایہ داری کے ردعمل کیخلاف سیاسی لڑائی میں دیا تھا۔

فاشزم ابھی تک بڑی تحریک بن کر نہیں ابھرا، جس کو حکمران طبقوں کے حلقوں ،ریاست اور اسٹبلشمنٹ کے میڈیا کی حمایت حاصل ہے ۔ بیان میں کہاگیا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کی تنظیمیں عوام میں پھیلی ہوئی مایوسی اور غصے کو لفاظی طور پر استعمال کریں گے بیان میں ضرور دیتے ہوئے کہاکہ:’’تمام تاریخی تجربات اور خاص کر 1930کے واقعات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ فاشزم کیخلاف لڑائی صرف محنت کش طبقے کو خود مختار بنیادوں پر سرمایہ داری کیخلاف متحرک کرتے ہوئے لڑی جاسکتی ہے‘‘۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل اہم تاریخی اسباق سے حاصل کیے ہوئے تجربات کو عمل میں لاتے ہوئے ہر اول کے طور پر ان قوتوں کیخلاف جدوجہد کررہی ہے جو فاشزم کو جرمنی،یورپی اور بین الاقوامی سطح پر فروغ دے رہے ہیں ،یورپین سیکشنز نے الیکشن کمپین میں اس لڑائی کو مرکزی نقطے کے طور پر رکھا ہے پبلک میٹنگز کا سلسلہ یورپ سے امریکہ تک شروع کیا جارہا ہے جس کا عنوان ہے ’’ فاشزم کا خطرہ اور اس سے کیسے لڑا جائے‘‘ ان پبلک میٹنگز میں جرمنی کی سوشلسٹ ایکوٹیلٹی پارٹی کے لیڈنگ ممبر کریس ٹوپ وہنڈرییر خطاب کرینگے جو اس کتاب کا مصنف ہے ’’وہ کیوں دوبارہ آئے‘‘ تاریخ کی جعلسازی ،سیاسی سازشیں اور جرمنی میں فاشزم کی واپسی۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل کو متحدہ بین الاقوامی سوشلسٹ محنت کش طبقے کی تحریک کی لیڈر شپ کے طور پر بنایا جائے جو اس قابل ہو کہ فاشزم کی ہولناکیوں،تباہیوں کو سماج پر غالب ہونے سے روک سکے جو کہ ماضی کے مقابلے میں1920-30-40سے کئی زیادہ بڑے پیمانے پر ہونگی۔

ٹوم پیٹر