urdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
urdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 17 جولائی، 2018

تجربات سے سیکھنا اور "کمینگی" ۔۔۔۔ یاسر جاپانی



آ ئیے آپ کو "تجربات" کا سفر پڑھائیں :D

یکسانیت کے شکار ہوں یا تکرار مسلسل لگے تو مرغِ بسمل کی طرح بانگنا منع نہیں ہے :D

مسلمانوں کی "معصومیت" صدیوں سے "مشہور ومعروف" ہے اور "یہود ونصاری" کی عیارانہ و مکارانہ "سازشیں" بھی صدیوں سے مشہور و معروف ہیں۔۔

اسپین میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوئیں مسلمان کو سپین سے مار نکال دیا گیا۔

اٹلی کے "سسلی" اور سابقہ "صقیلیہ" میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔

اور مسلمان "سسلی" میں اپنی عظیم والشان نشانیاں ہی چھوڑ گئے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ "پناہ گزین" مسلمان اب بھی اسپین اور اٹلی میں ہی اپنی جان ومال و عزت مسلم ممالک کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔

ھندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی ۔

مسلمانوں کی "سلطنت" ختم ہونے کے قریب ہی تھی کہ

"احمد شاہ ابدالی" نے "مرہٹوں" کو ایسی شکست فاش دی کہ "مرہٹے" ہمیشہ ہمیشہ کیلئے "پانی پت " میں نیست و نابود ہوگئے۔

پھر "برطانوی گوروں " نے "سازش کرکے "مسلمانوں" کی حکومت کا خاتمہ کیا اور "جھوٹا" بیان دے دیا کہ

ہم نے تو انڈیا کا "اقتدار" مسلمانوں سے نہیں "مرہٹوں" سے چھینا ہے۔

"مغل شہنشاہیت" ایک "نشانی" کے طور پر وجود ضرور رکھتی تھی۔

زیادہ تر "مولوی" اور "شاعر" اس شہنشاہت کے "ٖخطبے و قصیدے" پڑھتے رہتے تھے۔

اور ہندوں سکھوں اور مسلمانوں کے راجاؤں ،نوابوں اور نکے نکے بادشاہوں کی اپنی اپن ریاستیں تھیں۔

جو کہ ایک دوسرے سے ہمیشہ "خطرے" میں ہی رہتی تھیں۔جیسے ہی "بیرونی" طاقت کو دیکھا سب ایک دوسرے کے خوف سے اس "بیرونی" طاقت کے ہاتھ پاؤں مضبوط کرنا شروع ہوگئے تھے اور ہوجاتے تھے۔

"خلافت عثمانیہ" کی بحالی تحریک "ہندوستان " میں زور وشور سے جاری تھی۔۔۔

"عرب" ترکوں سے "آزادی" کی جنگ لڑ رہے تھے۔یہودی اسرائیل کے قیام کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔

تھوڑا ماضی میں جائیں تو "برصغیر" کا یہی حال تھا۔ہر "بیرونی طاقت" سے مل کر ایک دوسرے کی "بینڈ " ہی بجائی جاتی تھی۔

اللہ انگریز کی عمردراز کرے اور برطانیہ کو تاقیامت قائم رکھے۔ کہ وکٹوریائی ہندوستان کے تمام راجے مہاراجے نواب وغیرہ کے خاندان اب بھی اپنے لئے "لندن" کو ہی زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

اور اپنی "بادشاہت" کے مزے لینے کیلئے سال میں چند بار انڈیا پاکستان بھی آجاتے ہیں۔

ہم نے اپنے تجربے سے یہی سیکھا ہے کہ " ہندوستانی ، پاکستانی ، افغانستانی" مسلمان نے ہر حال میں ایک دوسرے کے "خلاف" سازش کرنی ہوتی ہے۔

چاھے اس کا ایک ٹکے کا فائدہ بھی نہ ہو۔

فیس بک کی وجہ سے جاپان میں بھی "پاکستانی و جاپانی " ہمارے "انجانے" جاننے والے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جس کا ہمیں کافی عرصے بعد "علم" ہوا۔

وہ بھی اس طرح کہ فیس بک نے پرانی آئی ڈی بلاک کردی تو

"تھرتھلی" مچ گئی۔۔۔

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا ۔۔۔۔روزانہ کوئی نا کوئی کسی ناکسی طریقے سے "کھوج " لگا رہاہے۔!!

بس کچھ ایسی ہی حالت تھی۔

ابے ۔۔اگر پڑھتے دیکھتے تھے تو "لائیک " ہی کر دیا کرتے؟

یا کم ازکم "اچھا یا برا" کمنٹ ہی کردیا کرتے تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوا۔ آپ کو ہمارا "لکھا" سمجھ آیا ہے کہ نہیں؟ یا کم ازکم "مہذب" انداز میں آپ اپنی "رائے" کا اظہار ہی کردیتے؟

تاکہ ہم ہی آپ سے کچھ سیکھ سکتے۔

غیر ضروری "سازشی" ذہنیت کا آخری تازہ تازہ انتہائی "بے فضول تجربہ " ہمارے ساتھ تین چار ماہ پہلے واقعہ ہوا تھا کہ

ایک جاننے والے جو کہ کافی " کمپلیکیٹڈ پرسنالٹی" ہیں۔ کبھی کبھی ملاقات کرنے آجاتے تھے۔ تو ہم بھی "مروت"میں صاف انکار نہیں کرتے تھے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بھی اچھی بات نہیں ہے۔

ایک بارریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ بل ادائیگی کے وقت "میں دوں گا ، میں دوں گا" کا ڈرامہ چلا اور آخر کار "ہیرو" کا سین مجھے مل گیا۔

جب میں بل ادا کر رہا تھا۔ تو سامنے "کھڑکی کے شیشے" پر نظر پڑی رات کا وقت تھا۔ دیکھا ایک "ارب پتی " بزنس مین کرسی پہ بیٹھے بیٹھے ہی خوشی میں دیوانگی سے ہاتھ اٹھائے ناچ رہے ہیں۔

ارے۔۔پین دی سری ۔انہیں کیا ہوا؟!!

حیرت سے گردن موڑ کردیکھا تو

بالکل سنجیدہ چہرے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔!!!

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا؟!!

ظاہر ہے ہم نے اپنی " سادگی" کے باوجود دنیا دیکھی ہے۔بندے کے "اندر کا چینل" میرے خیال میں ، میں بہت اچھی طرح "پڑھ " لیتا ہوں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ عموماً "نظر انداز" کر دیتا ہوں۔ جس سے مجھے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اچھے برے لوگوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

بحرحال ۔۔۔

کہنے کا مقصد یہ ہے۔

کم ازکم پاکستانی "عیاری و مکاری و چالاکی" موقعہ پرستی، مفاد پرستی ، خود غرضی اور خاص کر ضروری و غیر ضروری سازشیں کرنے میں "اپنی مثال" آپ ہیں۔

مجھے ان "ارب پتی" صاحب کی حرکت کا "مقصد" بالکل سمجھ نہیں آیا تھا اور نا ہی آیا ہے۔

شاید ان کی " خوشی " کی وجہ

1ٓ- ہم لوگوں نے جو مشترکہ کھانا پینا کیا تھا اس کا خرچہ میری جیب سے کروانا انہیں میرا نقصان لگا تھا اور انہیں میرے نقصان کی "خوشی" ہوئی تھی۔

حالانکہ ان سے میری نا ہی دوستی ہے اور نا ہی کوئی کاروباری تعلق!۔

بس ایک "مشترکہ " دوست یا جاننے والے صاحب کی وجہ سے دسترخوان کااشتراک ہوگیا تھا۔

2- ان صاحب کے دل میں میرے لئے کسی "وجہ" سے شدید کا قسم کا "بغض و عناد یا حسد" جڑ پکڑے بیٹھی تھی۔

اور ان کے خیال میں "بل" کی ادائیگی کرنے سے میرا "نقصان" ہوا ہے ۔ اور میرے جیسے غریب مسکین بندے کیلئے یہ بہت بڑا" جانی نقصان" ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہوئی تھی؟

3- یا صرف صدیوں کی اپنے آپ کو "مسلمان" کہنے والی "ذہنیت" کی "گندگی" تھی ۔

جو کہ وجہ بلاوجہ ایک دوسرے کے خلاف موقعہ پاتے ہی متحرک ہو جاتی ہے۔ اور "تعلق واسطے رشتے" کی کوئی بھی کم سے کم شکل ہونے کی صورت میں "تکلیف" پہونچانے کی "کمینگی" اچھل کر باہر آگئی تھی؟۔

*

ہماری یہ "کمینگی" اس وقت "پائے تسکین" پہونچتی ہے۔ جب تک ہم "دوسرے" کا جانی مالی نقصان نہ کردیں۔

یہ "کمینگی" ہمیں سماجی ، معاشرتی معاملات میں "اکثر" دکھائی دیتی ہے اور ہم بہت اچھی طرح اس "کمینگی" سے واقف ہیں۔

ملکی قومی اور سیاسی سطح پر آجکل ہمیں "باپ بیٹی " کا جیل جانا ایک عجیب سی "کمینی قسم " کی "تسکین" دے رہا ہے ۔

سابقہ بیوی ریحام خان کی "کتاب" کے بارویں باب کے بعد جو "رنگین" قسم کی "تذلیل" پڑھنے کو ملتی ہے اس کا اپنا ہی مزا ہے۔

اور عمران خان کا "پٹواریوں" اور لہوریوں کا "کھوتا" کہنے کے انداز نے جو لطف دیا اس "کمینگی" کو لہوریوں کی کھوتا خوری سے جوڑ کر جو مزا آیا اس کے کیا کہنے۔

اور ڈی چوک میں کٹی پتنگ کی طرح جھوم جھوم کر ناچ گانا کرنے والے پرویز خٹک کا "ناچ گانا" کرنے والوں کے گھر کو جھنڈے والا"طوائف" کا گھر کہنے سے "دل ہی دل" میں جو "کمینی سی خوشی" ہوئی اس کا تو جواب ہی نہیں۔ :D

مندرجہ بالا تمام "کمینگیوں" پر غور کیجئے۔!!

ان کے فوائد بھی اور نقصانات بھی "ہم سب" کے "مشترکہ" ہیں۔

جب ہم "خاک" ہو جائیں گئے۔

تو "یاد " کرنے والے "اچھے یا برے" الفاظ میں ہمیں ضرور یاد کریں گے۔

لیکن کیا ہے کہ

ہم نہ ہوں گے۔ اور دنیا چند دنوں کی ہی ہے۔

ہم صدیوں سے "جاری " کمینگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔۔

جو کہ

"بارودی جیکٹ" پہن کر پھٹے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ :D

خلافت راشدہ جیسی "بابرکت و مقدس" ریاست تاقیامت قائم نہ رہ سکی تو ہماری تمہاری "ڈیڑھ اینٹ " کی "عبادت گاہ" کس کھیت کی مولی ہے۔

بحرحال "خدا" واقعی ہمیں "تجربات" سے "سیکھنے" کا موقعہ دیتا ہے۔

اور ہمارے اندر کی "کمینگی" ہمیں "سیکھنے " نہیں دیتی۔

بدھ، 20 جون، 2018

جانگلوس ۔۔۔ سب رنگ کا مشہور سلسلہ ۔۔حصہ دوم


جانگلوس کہانی کا دوسرا حصہ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کرین

جانگلوس ۔۔۔ سب رنگ کی ایک مشہور اور بہترین کہانی تھی جو کافی سال تک قسط وار سب رنگ ڈائجسٹ کی زینت بنی رہی ۔۔یہ کہانی ہمارے آس پاس رہنے والے انسانوں کی ہے جو زندگی کے دشوار گزار رستوں میں گزرتے ہوئے اپنے نقوش چھوڑتے چلے جاتے ہیں۔

جمعرات، 29 جون، 2017

ساتوں رنگ ۔۔۔۔ ناصر کاظمی کے دیوان اور مختلف اشعار کا انتخاب

ناصر کاظمی ایک بلند پایہ شاعر تھے ۔۔ ان کی شاعری اپنی مثال آپ ہے ۔۔ساتوں رنگ میں اعجاز عبید صاحب نے ناصر کاظمی کے دیوان اور مختلف کتب سے بہترین اشعار کا انتخاب کیا ہے ۔ساتوں رنگ کتاب ورڈ فارمیٹ میں پیش کی جارہی ہے جسے آپ یہاں سے کلک کر کے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں ۔

ساتوں رنگ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا

حالِ دل ہم بھی سُناتے لیکن
جب وہ رُخصت ہوا تب یاد آیا

بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

منگل، 9 جون، 2015

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں قیصرانی بھائی کے ساتھ ایک تعزیتی نشست

زندگی میں انسان کو بہت سے لوگ ملتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے غرض اور بے لوث ہوتے ہیں ۔ منصور محمد المعروف قیصرانی بھائی بھی انہیں میں سے ایک شخصیت ہیں ۔قیصرانی بھائی سے میری شناسائی تب سے ہے جب اردو محفل نئی نئی وجود میں آئی تھی ۔ زیادہ یاد اللہ ان سے تقریباً چار سال پہلے ہوئی ۔انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کی ترویج میں قیصرانی بھائی کا نام بھی صف اول کے مجاہدوں میں شمار ہوتا ہے اور اردو بلاگنگ کی تاریخ میں قیصرانی بھائی کا نام شروع کے چند بلاگرز میں آتا ہے۔

پچھلے دنوں قیصرانی بھائی کی والدہ ماجدہ کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا تھا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔ اپنی والدہ کی وفات کی وجہ سے وہ پاکستان تشریف لائے ۔ میں ، ساجد بھائی اور عاطف بٹ بھائی تعزیت کرنے کے لئے ان کے گھر گئے ۔بعد ازاں گزشتہ روز پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جہاں فاتحہ خوانی کی گئی اور دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ والدہ محترمہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔

پاک ٹی ہاؤس لاہور کی اس تعزیتی نشست میں قیصرانی بھائی کے ساتھ ساجد شیخ ، عاطف بٹ ، محمد شاکر عزیز ، بابا جی ، حسیب نذیرگل اور خاکسار نجیب عالم نے شرکت کی ۔

تمام تصاویر آپ گوگل میں میری پروفائل سے بھی ڈانلوڈ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

[gallery link="file" ids="2034,2033,2032,2031,2030,2025,2026,2027,2028,2029,2024,2020,2021,2022,2023,2010,2011,2012,2013,2014,2009,2008,2007,2006,2005,2001,2003,2004,2015,2016,2017,2018,2019"]

ہفتہ، 13 دسمبر، 2014

چوبرجی ائیرپورٹ سے براہ راست

pia-chauburji-01
اگر آپ لاہور کچہری سے تقریباً ایک کلومیٹر دور چوبرجی چوک سے تھوڑا پیچھے یونیورسٹی گراؤنڈ سے متصل ‘‘ چوبرجی ائیرپورٹ ‘‘ پر جائیں تو وہاں آپ کو آجکل رنگا رنگ میلہ دیکھنے کوملے گا ۔۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت بچوں کے ساتھ حسین چہرے آسمان کی وسعتوں میں ستاروں کی کھوج لگانے آئے ہوئے نزدیک کھڑے اس پی آئی اے کے جہاز کو گھور رہے ہوتے ہیں جس کے نیچے گندہ پانی کھڑا پی آئی اے انتظامیہ کا منہہ چڑا رہا ہوتا ہے ۔

pia-chauburji-02
پی آئی اے نے لاہور چوبرجی چوک میں یہ پلانٹ ائیریم 1987 میں بنایا تھا جس کو پی آئی اے میوزم اور سیارگاہ کا بھی نام دیا گیا ۔اور اس کو تعلیمی اور علمی مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ۔اس پلانٹ ائیریم کے اگر آپ مین گیٹ سے داخل ہو کر دائیں ہاتھ دیکھیں تو ایک جہاز چپ چاپ کھڑا پی آئی اے کی بے حسی پر آنسو بہارہا ہوگا۔اور اگر آپ کی نگاہ بائیں ہاتھ جاتی ہے تو ایک بڑا سا سرخ رنگ کا گنبد نما ہال آپ کو نظر آئے گا جس پر سالوں سے رنگ نہیں کیا گیا۔اس کے نزدیک جانے پر اندر داخلہ کے لئے آپ سے فی بندہ و بچہ سو روپیہ سکہ رائج الوقت کا تقاضا کیا جائے گا۔

pia-chauburji-03
اگر آپ ان مراحل سے گزر کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اندر داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ دوسری دنیا میں تشریف لے جارہے ہیں ۔۔۔آسمان کی وسعتوں کی سیر کرنے کے لئے جونہی بتی گل کی جاتی ہے ، لگتا یوں ہے جیسے آپ کی بتی بھی گل ۔۔۔ انتہائی گھٹن کا ماحول ۔۔۔ گھپ اندھیرا ۔۔۔۔ آب و ہوا کی صحیح نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے بندہ دم گھٹنے کی کفیت محسوس کرتا ہے ۔اگر آپ چاہیں کہ آپ وہاں سے نکل جائیں تو آپ کو نکلنے نہیں دیا جائے گا ۔پھر ہو گا یہ کہ اگر آپ زندہ رہے تو آپ تب تک اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں گے جب تک پی آئی اے کا یہ سیارگاہ کے شو کا اختتام نہیں ہوجاتا۔
کسی مزار کے گنبد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگر آپ اس کے نیچے بنی قبر کا تصور کرنا چاہیں تو یہ اس سیارگاہ کی صحیح تصویر کشی ہوگی

pia-chauburji-04
شنید ہے (جس کی میں نے بذات خود تصدیق نہیں کی) کہ پی آئی اے پلانٹ ائیریم ( چوبرجی ائیرپورٹ ) پر کھڑا یہ وہ جہاز ہے جس کو الذوالفقار تنظیم نے اغوا کیا تھا ۔الذوالفقار نامی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس کا سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا اور بے نظیر بھٹو کا بھائی مرتضی بھٹو تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت عظمی سے برطرف کرکے جب جیل میں ڈالا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں بیٹے مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے والد کی رہائی کیلئے بین الاقوامی طور پر مہم چلائی اور کئی ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی بے گناہی کا یقین دلایا اور انہیں رہا کروانے کی بھرپور کوششیں کیں ۔جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہورہی تو انہوں نے افغانسان میں روسی نواز کمیونسٹ حکومت کی مدد سے الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کی بنیاد ڈالی ۔ جس نے ضیاءالحق کے دور حکومت میں حکومت مخالف کارروائیاں بھی کیں تاہم دونوں بھائیوں کی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور ان کے والد کو 1979 میں پھانسی کی سزا دے دی گئی ۔

pia-chauburji-05
۔1981ء میں پی آئی اے کے جہاز کو اغواء کر لیا گیا اور اس کے اغوا میں اسی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کاہاتھ تھا۔ جہاز کے اغواء کے دوران ہائی جیکرز نے پاک فوج کے آفیسر لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی مار کر جہاز سے باہر پھینک دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو نے ماری تھی ۔ہائی جیکرز نے اپنے مطالبات میں پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جو اس وقت پورا کرلیا گیا - اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کا نام مختلف کارروائیوں میں لیا جاتا رہا ۔بعدزاں پل چرخی جیل میں سلام اللہ ٹیپو کو بھی ثبوت مٹانے کی خاطر مرتضی بھٹو کے حکم پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے اپنے ہی دور حکومت میں اس کے بھائی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے بانی و سربراہ مرتضی بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔جس کا ثبوت آج بھی پولیس کی فائیلوں میں گم ہے ۔

نوٹ ۔۔ پی آئی اے پلانٹ ائیریم چو برجی کو ‘‘ چوبرجی ائیرپورٹ ‘‘ کا نام ازراہ مذاق دیا گیا ہے ۔دو تین دفعہ نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ کا ذکر ہے کہ جب یہ پی آئی اے کا پلانٹ ائیریم نیا نیا بنا اور اس پر جہاز لا کر کھڑا کیا گیا تو فنکار لوگوں نے دبئی جانے کے خواہشمند کئی حضرات سے پیسے لے انہیں یہاں چھوڑ دیا تھا ۔۔۔
یہ کہانی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔ کیونکہ یار زندہ صحبت باقی

میں اس تحریر میں تصحیح کروانے پر محترم ریاض شاہد کا بے حد مشکور ہوں

ہفتہ، 28 جون، 2014

آسان ترجمے کے ساتھ قرآن کریم ڈاؤنلوڈ کریں

q-0001قرآن مجید کا یہ ترجمہ حافظ نذر احمد کا لکھا ہوا ہے اور اس ترجمہ کو تمام مسالک کے علما کرام نے متفقہ طور پر منظور کیا ہوا ہے جبکہ اس ترجمے پر تینوں مسالک کے علماء کرام نے نظر ثانی کر کے اسے متفقہ طور پر منظور کیا ہے ۔

قرآن مجید کا یہ ترجمہ کئی اعتبار سے منفرد ہے ۔ یعنی کہ قرآن پاک کے ہر لفظ کا جدا جدا ترجمہ اور ساتھ ہی مکمل آسان ترجمہ شامل ہے ۔قرآن کے اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ عربی سے ناواقف بھی چند پارے پڑھ کر آسانی سے ترجمہ قرآن سمجھ سکتا ہے۔

آسان ترجمے کے ساتھ قرآن کریم یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں




منگل، 10 جون، 2014

فیض احمد فیض کی شاعری ڈاؤنلوڈ کریں

فیض احمد فیض کی شاعری یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ فیض احمد فیض برصغیر کی تہذیب کی جمالیات سے رشتہ رکھتے ہں جس کی جڑیں اس زمین کی گہرائیوں مںو پیوست اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہں ، جس کی خوبصورت روایتیں تاریخ مں مسلسل سفر کرتی رہی ہںت اور جس نے اس عہد مںا اپنی تاریخی، سماجی اور سیاسی حیثیتوں کو زندگی کی معنویت کے ساتھ اُجاگر کر رکھا ہے۔
فیض احمد فیض کی شخصیت کا ارتقاء اسی تہذیب مںت ہوا ہے، ان کی شاعری اسی تہذیب کی جمالیات کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتی ہے، ان پہلوؤں اور جہتوں کو ’ہیومنزم‘ کے جمالیاتی مظاہر سے تعبیر کرنا مناسب ہوگا۔ فیض احمد فیض کا اپنا منفرد رومانی،جمالیاتی شعور و احساس ہے جو اس عہد کی دین ہے۔ ’ہیومنزم‘ کے جمالیاتی مظاہر، معاشرے کے مختلف طبقوں کے احساس و شعور کا حصہ بن کر ’’جمالیاتی ثقافت‘‘ کی حیثیت اختیار کر لیتے ہںخ ۔


میں فیض احمد فیض کی اس قیمتی شاعری کے لئے اردو محفل خصوصاً اعجاز عبید صاحب ، جویریہ مسعود صاحبہ ، منصور قیصرانی صاحب ، فرخ منظور صاحب سیدہ شگفتہ صاحبہ ، نبیل نقوی صاحب ، شعیب افتخار (فریب) صاحب، محب علوی صاحب، رضوان صاحب ، شمشاد صاحب سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ اردو محفل لائبریری کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے انٹرنیٹ کی دنیا میں یونی کوڈ کتابوں کے حصول کو آسان اور مفت بنا دیا

بدھ، 4 جون، 2014

جون ایلیا کی غزلیں، نظمیں، قطعات ڈاؤنلوڈ کریں

جون ایلیا کی غزلیں، نظمیں، قطعات یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

جون ایلیا ایک عجیب اور منفرد شاعر جو کہ چھوٹے بحر کی شاعری میں کمال کا درجہ رکھتا تھا ۔۔۔ ایسا شاعر جو تھوڑے الفاظ میں بہت کچھ کہہ جاتا تھا ۔ جون ایلیا ایک جگہ کہتا ہے ۔اپنی شاعری کا جتنا منکر میں ہوں، اتنا منکر کوئی نہ ہو گا. کبھی کبھی تو مجھے اپنی شاعری اشتعال انگیز حد تک بری اور بے تکی لگتی ہے.

میں جون ایلیا کی ان قیمتی غزلوں ، نظموں اور قطعات کے لئے اردو محفل خصوصاً اعجاز عبید صاحب ، جویریہ مسعود صاحبہ ، منصور قیصرانی صاحب ، فرخ منظور صاحب سیدہ شگفتہ صاحبہ ، نبیل نقوی صاحب ، شعیب افتخار (فریب) صاحب، محب علوی صاحب، رضوان صاحب ، شمشاد صاحب سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ اردو محفل لائبریری کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے انٹرنیٹ کی دنیا میں یونی کوڈ کتابوں کے حصول کو آسان اور مفت بنا دیا

جمعرات، 29 مئی، 2014

مرزا اسد اللہ خان غالب کے دیوان غالب ڈاؤنلوڈ کریں

مرزا اسد اللہ خان غالب کے دیوان اور ان سے متعلق کتابیں ڈاؤنلوڈ کریں

تمام کتابیں ورڈ فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

آپ ان کتابوں کو اپنے موبائل میں بھی پڑھ سکتے ہیں
موبائل پر پڑھنے کے لئے آسان طریقہ استمال کریں ۔۔ یعنی جو میل ایڈریس آپ اپنے موبائل پر استمال کرتے ہیں وہاں یہ فائل بھیج کر اپنے موبائل میں ڈاؤنلوڈ کر لیں

میں غالب کے ان قیمتی نسخوں کے لئے اردو محفل خصوصاً اعجاز عبید صاحب ، جویریہ مسعود صاحبہ ، منصور قیصرانی صاحب ، فرخ منظور صاحب سیدہ شگفتہ صاحبہ ، نبیل نقوی صاحب ، شعیب افتخار (فریب) صاحب، محب علوی صاحب، رضوان صاحب ، شمشاد صاحب سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ اردو محفل لائبریری کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے انٹرنیٹ کی دنیا میں یونی کوڈ کتابوں کے حصول کو آسان اور مفت بنا دیا

اتوار، 16 فروری، 2014

نئے اردو بلاگر ٹمپلیٹ ( سانچے ) ڈانلوڈ کریں

کافی عرصہ سے بہت سے دوست شکوہ کر رہے تھے کہ بلاگسپاٹ کے ٹملیٹ ( سانچے ) پرانے ہو گئے ہیں۔اردو کے نئے اور جدید سانچے ہونے چاہیں۔آج کام کم ہونے کی وجہ سے ہم نے سات عدد بلاگسپاٹ سانچوں کو آپ کے لئے اردو میں ڈھال دیا ہے۔

یہ سانچے بظاہر سادے مگر انتہائی جازب نظر ہیں ۔ان میں سے کچھ سانچے تین کالمی ہیں باقی دوکالمی سانچوں کی چوڑائی کو بڑا رکھا گیا ہے۔فونٹ سائز کو مناسب رکھا گیا ہے۔پھر بھی اگر کسی صاحب کو فونٹ سائز یا کلر سکیم اچھی نہ لگے تو تبصرے میں شکوہ شکایت کر سکتا ہے۔

سانچہ اپنے بلاگ میں ڈالنے سے پہلے یا بعد میں اپنے بلاگ کی زبان اردو میں ضرور کیجئے گا۔یہ بہت اہم ہے ۔بلاگ کی زبان اردو میں کرنے کے لئے نیچے تصاویر دی جارہی ہیں جن سے آپ اپنے بلاگ کی زبان آسانی سے اردو میں کر سکتے ہیں

اردو بلاگسپاٹ ٹمپلیٹ ( سانچے) یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

ٹمپلیٹ ( سانچوں ) کو اپ ڈیٹ کر کے ان کی تعداد ٢٠ بیس کر دی گئی ہے ۔۔۔ انشااللہ جلد ہی اور جدید ٹملیٹ مہیا کر دئے جائیں گے

بلاگ کی زبان اردو میں کرنے کے لئے نیچے دی گئی تصاویر کو کلک کر بڑا کر کے دیکھیں





جمعرات، 13 فروری، 2014

شورہ ۔۔۔۔ شوربہ نہیں بن سکتا


شورہ پنجابی زبان کا لفظ ہے ۔آپ اس لفظ کو پنجابی کی گالی بھی کہہ سکتے ہیں۔ہمارے لاہوریوں میں یہ گالی کثرت سے نکالی جاتی ہے ۔یعنی اگر کوئی شخص گندہ ، غلیظ ہو یا کہ اس کی عادتیں غلیظ ہوں اس کو عموماً ‘‘ شورہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔کچھ لوگ لڑکیوں کے دلال جسے عرف عام میں پنجابی زبان میں ‘‘ دلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔۔ کو بھی شورہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
ضروری نہیں کہ دلال کو ہی شورہ کہا جاتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو بغل میں چھری منہہ میں رام رام کی مالا جپتے نظر آتے ہیں ۔۔یعنی منافق کو۔۔۔ کو بھی لاہوری ‘‘ شورہ ‘‘ کے لقب سے پکارتے ہیں ۔
ایک آدمی میں بہت سی بری عادتیں جمع ہوں اور اس کی حرکتیں بھی گندی ہوں جو کہ اس کے قول فعل سے ظاہر بھی ہوتی ہوں تو اسے بھی ‘‘ شورہ ‘‘ کہتے ہیں ۔


کچھ ایسے لوگوں کو بھی ‘‘ شورہ ‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے جن کو عزت راس نہ آئے ۔۔ یعنی کہ ان کی عزت کی جائے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہیں ۔ ۔۔ اس لئے انہیں شورہ کا لقب دیا جاتا ہے اور انہیں جتایا جاتا ہے کہ تم شورے ہی رہو گے شوربے نہیں بن سکتے ۔


اب ‘‘ شورے ‘‘ اور ‘‘ شوربے ‘‘ میں کیا فرق ہے ۔کسی بھی سالن میں پانی میں مرچ مصالحے ڈال شوربہ تیار کیا جاسکتا ہے ۔پتلے اور زیادہ شوربے کے لئے زیادہ پانی اور گاڑھے شوربے کے لئے مصالحہ جات کے ساتھ کم پانی استمال کر کے شوربہ بنایا جاتا ہے۔


اسی طرح ‘‘ شورہ ‘‘ معاشرے کے مصالحہ جات سے پک کر تیار ہوتا ہے ۔اس کی ابیاری اس کے گھر سے ہوتی ہے ۔بعد ازاں اس میں تمام بری عادتیں ڈال کر اس کو پکایا جاتا ہے تب جاکر اسے اس عظیم نام ‘‘ شورہ ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔


اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی اپنی بولی اور مزاج کے حساب سے مختلف الفاظ رائج ہیں ۔ جو کہ اپنے آپ میں معنی خیز ہوتے ہوئے ایک پوری تاریخ رکھتے ہیں ۔اسی طرح لفظ ‘‘ شورے ‘‘ کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد تقریباً ١٩٥٠ میں پہلی دفعہ یہ لفظ ‘‘ شاہی محلے ‘‘ میں ‘‘ استاد فیقے ‘‘ نے بولا تھا۔کنجروں کے مستند زرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ استاد فیقے کی معشوقہ ایک دن کوٹھے پر ڈانس کے لئے نہیں آئی تو اس کے دلال کو استاد فیقے نے ‘‘ شورے ‘‘ کے الفاظ سے پکارا تھا ۔۔۔ صحیح الفاظ کے بارے میں کوئی سند تو نہیں مل سکی البتہ تاریخ ( بڑے بوڑھوں کی زبانی تاریخ ) میں جو الفاظ ملتے ہیں وہ کچھ یوں تھے‘‘‘‘‘ اوئے شورے اج ننھی مجرے تے نہی آئی ‘‘‘‘

جمعہ، 31 جنوری، 2014

علم والوں اور بے علموں کو ایک جیسا ہی دیکھا گیا ہے

کبھی کبھی تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ آپ ترقی کے اس دور جدید کے ہوتے ہوئے بھی پتھر ہی کے دور میں رہ رہے ہیں ۔انسان اتنا پڑھنے ، سمجھنے اور تجربات حاصل کرنے کے باوجود بھی جانور سے بدتر ہی ہے ۔میں نے تو علم والوں اور بے علموں کو بھی ایک جیسا ہی دیکھا اور پرکھا ہے ۔بلکہ کبھی کبھار تو ‘‘ بے علم ‘‘ علم والوں سے کئی درجے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔

بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ ‘‘ زن ، زر اور زمین ‘‘ انسان کو گمراہ کر دیتے ہیں ۔بڑے بوڑھے صحیح کہتے ہیں مجھے ان کی باتوں کو ترازو کے پلڑے میں تولنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ میں تو یہ  کہنا چاہوں گا کہ ‘‘ جاہ ‘ یعنی حکمرانی ، طاقت ، اکڑ اور غرور بھی انسان کو تباہی کے دہانے میں لے جا پھینکتے ہیں ۔

انسان مرد اور عورت میں سے کسی بھی روپ میں ہو ۔۔۔ اس کو سمجھنے کا دعوٰی کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ انسان اپنی ‘‘ خو ‘‘ میں رہتے ہوئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ جس میں اچھائی اور برائی کے دونوں پہلو شامل ہیں ۔
آج میں کیا کہنا چاہتا ہوں یہ میں خود بھی جان نہیں پا رہا ۔۔۔ جبکہ سوچ اور قلم بھی ساتھ دے رہے ہیں ۔۔۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں اسے میں دوسروں کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتا۔

قارئین کرام نوٹ فرما لیں ! 
بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر میں نے اپنے ذاتی بلاگ کو یہاں بلاگسپاٹ پر منتقل کر دیا ہے ۔ہو سکتا ہے آپ کو بعض تصاویر و تحریر یا کہ تبصرے نظر نہ آئیں ۔انشااللہ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی اصل حالت میں شائع کر دیا جائے گا۔

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2013

علماء سُو کے بعد شعراء سُو پر تحریر زنی

فیس بک کی شخصیت عبدالمختار صاحب کہتے ہیں کہ
"پاکستان" کا کوئی شاعر ،ادیب یا لکھاری۔۔۔غربت،بھوک،افلاس یا مہنگائی وغیرہ سےنہ مرا ہے اور نہ مرے گا !!
یہ ہہت ہی سخت جان مخلوق ہے.....!

ہم یہ کہتے ہیں کہ ،
آپ اگر نظر کا زاویہ تھوڑا وسیع کر لیں تو پوری دنیا میں آج تک کوئی بھی شاعر غربت ، بھوک و افلاس یا مہنگائی سے نہیں مرا ۔۔۔۔ البتہ شاعروں نے اپنے شعروں کے زریعہ سے آج تک لاکھوں انسانوں کو غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی سے ٹھکانے ضرور لگایا ہے ۔
اگر کوئی غلطی سے ساغر صدیقی جیسے اکا دکا عظیم شاعر کی مثال دینا چاہے تو اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے شاعر غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی وغیرہ سے نہیں بلکہ چرس ، گانجا ، افیون ، بھنگ ، شراب ، مارفین کے انجکشن ، ڈیزی پام کی گولیوں اور دیگر نشوں سے زندگی کی رعنائیوں کو سمییٹتے ہوئے اب اپنے مقبروں میں آرام فرما ہیں ۔

دیکھا جائے تو ویسے بھی ہمارے شعرا کرام نے عوام کی خدمت کی بجائے کنجر خانوں اور نگار خانوں کی خدمت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان کی خوبصورت اور دلفریب شاعری سے مزین کانوں میں رس گھولتے ہوئے گانوں نے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بوڑھوں کو بھی جہنم کا ایندھن بنا دیا ہے ۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہی عظیم شعرا کرام نے حسین زلفوں میں جوؤں کا ذکر کئے بغیر اپنے شعروں کی خوشبو سے ازہان کو معطر کر کے نوجوان نسل کو تعلیم سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ عاشقی کے گہرے سمندر میں پھینکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے



علماء سُو کے بعد شعراء سُو پر تحریر زنی

فیس بک کی معروف شخصیت عبدالمختار صاحب کہتے ہیں کہ
"پاکستان" کا کوئی شاعر ،ادیب یا لکھاری۔۔۔غربت،بھوک،افلاس یا مہنگائی وغیرہ سےنہ مرا ہے اور نہ مرے گا !!
یہ ہہت ہی سخت جان مخلوق ہے.....!

ہم یہ کہتے ہیں کہ ،
آپ اگر نظر کا زاویہ تھوڑا وسیع کر لیں تو پوری دنیا میں آج تک کوئی بھی شاعر غربت ، بھوک و افلاس یا مہنگائی سے نہیں مرا ۔۔۔۔ البتہ شاعروں نے اپنے شعروں کے زریعہ سے آج تک لاکھوں انسانوں کو غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی سے ٹھکانے ضرور لگایا ہے ۔
اگر کوئی غلطی سے ساغر صدیقی جیسے اکا دکا عظیم شاعر کی مثال دینا چاہے تو اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے شاعر غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی وغیرہ سے نہیں بلکہ چرس ، گانجا ، افیون ، بھنگ ، شراب ، مارفین کے انجکشن ، ڈیزی پام کی گولیوں اور دیگر نشوں سے زندگی کی رعنائیوں کو سمییٹتے ہوئے اب اپنے مقبروں میں آرام فرما ہیں ۔

دیکھا جائے تو ویسے بھی ہمارے شعرا کرام نے عوام کی خدمت کی بجائے کنجر خانوں اور نگار خانوں کی خدمت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان کی خوبصورت اور دلفریب شاعری سے مزین کانوں میں رس گھولتے ہوئے گانوں نے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بوڑھوں کو بھی جہنم کا ایندھن بنا دیا ہے ۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہی عظیم شعرا کرام نے حسین زلفوں میں جوؤں کا ذکر کئے بغیر اپنے شعروں کی خوشبو سے ازہان کو معطر کر کے نوجوان نسل کو تعلیم سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ عاشقی کے گہرے سمندر میں پھینکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے



منگل، 16 جولائی، 2013

صرف پانچ منٹ میں اردو بلاگر بنئے

بہت عرصہ بعد میں اپنے دو بہترین دوستوں محترم عاطف بٹ اور محترم ساجد شیخ کی سفارش پر بلاگسپاٹ پر بالکل آسان انداز میں اردو میں بلاگ بنانے کا طریقہ بتا رہا ہوں ۔ مجھے امید ہے اس طریقے سے میرے جیسے بالکل کورے انسان بھی پانچ منٹ میں بلاگسپاٹ پر اپنا اردو کا بلاگ بنا کر اپنی تحریروں کے زریعہ سے ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے ۔

بلاگسپاٹ گوگل والوں کی بلاگنگ کی ایک مفت سروس ہے جس کے لئے گوگل کی دوسری مفت سروس کی طرح جی میل کا اکاؤنٹ ہونا ضروری ہے ۔اگر آپ کے پاس جی میل کا اکاؤنٹ بنا ہوا ہے تب تو صحیح ہے اگر نہیں تو سب سے پہلے آپ جی میل کا اکاؤنٹ بنا لیں ۔۔ جی میل کا اکاؤنٹ بنانے سے آپ کو گوگل کی تمام سروس تک رسائی ہو جائے گی اور آپ اسے اسی اکاؤنٹ سے استمال بھی کر پائیں گے ۔ جی میل اکاؤنٹ بنانے کے لئے آپ نیچے دئے گئے ایڈریس پر جائیں۔

gmail.com

جی میل کا اکاؤنٹ بنانے کے بعد آپ نیچے دئے گئے لنک کے زریعہ سے بلاگسپاٹ پر جائیں

http://www.blogger.com
یا
http://www.blogspot.com

اگر آپ جی میل سے لوگن نہیں تو آپ کے پاس یہ صفحہ کھلے گا ۔۔ دیکھیں تصویر ۔۔۔ تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-01

اور اگر آپ لوگن ہیں تو آپ کے پاس یہ پیج کھلے گا ۔۔ دیکھیں تصویر ۔۔۔ تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-02

آپ کے بائیں ہاتھ اوپر ‘‘ نیو بلاگ ‘‘ لکھا ہوا ہو گا ۔۔۔ اسے کلک کریں ۔۔
New blog

۔ ‘‘ نیو بلاگ ‘‘ کو کلک کرنے سے آپ کے پاس ایک صفحہ کھلے گا جس پر آپ نے اپنے بلاگ کا نام اور ایڈریس لکھنا ہے ۔ دیکھئے تصویر ۔۔۔۔۔تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-03

لیجئے جناب آپ بلاگر بن گئے ۔۔ اب آپ نے اسے اردو میں ڈھالنا ہے تو نیچے دئے گئے لنک پر جا کر اردو تھیم گیلری سے ہمارے محترم اردو بلاگر ساتھیوں کے بنائے ہوئے میں سے کوئی سا بھی اپنی پسند کا اردو تھیم اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کر کے اسے ان زپ کر لیں۔اس میں سے آپ کے پاس ایک ‘‘ ایکس ایم ایل ‘‘ فائل برامد ہوگی ۔۔۔۔ بس اسے اپ لوڈ کرنا ہے ۔۔۔۔

http://urdutheme.blogspot.com/
اردو تھیم گیلری میں آپ اگر اپنے بائیں ہاتھ دیکھیں تو
Blogger Urdu Theme
لکھا ہو گا اس کو کلک کر کے آپ بلاگر اردو ٹملیٹ ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ انشاللہ جلد ہی میں ادھر اپنے بلاگ پر بھی وہ سارے ٹمپلیٹ ار کچھ اپنے بنائے ہوئے ٹمپلیٹ بھی مہیا کردوں گا۔جس سے آپ کو اور آسانی ہوجائے گی

اگر آپ کو اردو تھیم گیلری میں مشکل پیش آئے تو آپ بلاگر ٹمپلیٹ ہمارے ڈراپ بکس سے ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

اگر آپ کو اردو تھیم کسی بھی لنک سے دستیاب نہ ہوں تو تو آپ بلاگر ٹمپلیٹ ہماری گوگل ڈرائیو سے ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں


بلاگ بنانے کے بعد آپ اپنے بلاگ کا اندرونی منظر کچھ ایسا دیکھیں گے ۔۔۔ دیکھیں تصویر ۔۔۔ جہاں تیر کا نشان ہے وہاں کلک کریں ۔۔۔۔۔تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-04

اب ٹمپلیٹ پر کلک کریں

blogger-05

ٹمپلیٹ کو کلک کرنے سے آپ کے پاس کچھ ایسا منظر ہو گا ۔۔۔ یہاں دائیں ہاتھ اوپر اگر آپ دیکھیں تو ‘‘ بیک اپ ، ری سٹور ‘‘ لکھا ہو گا ۔۔۔۔اس کو بے دھڑک ہو کر کلک کر دیں
Backup/Restore

دیکھیں تصویر ۔۔۔۔۔ ۔تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-06

اس کو کلک کرنے سے آپ کے پاس ایک صفحہ کھلے گا جس پر ‘‘ چوز فائل ‘‘ لکھا ہوگا ۔۔ اس کو کلک کر کے اپنے کمپیوٹر سے وہ ٹپلیٹ فائل جو آپ نے ڈاؤنلوڈ کر کے ان زپ کی تھی اسے اپ لوڈ کر دیں ۔۔۔

blogger-07


لیجئے جناب آپ اردو بلاگر بن گئے اب نیچے دی گئی تصویر کے مطابق ‘‘ نیو پوسٹ ‘‘ پر کلک کر کے جو جی چاہے لکھیں


blogger-08

بدھ، 13 فروری، 2013

میں سلام پیش کرتا ہوں امانت علی گوہر ، نبیل نقوی اور شارق مستقیم کو

میں سلام پیش کرتا ہوں امانت علی گوہر کو ۔۔ جس نے سب سے پہلا انپیج تو یونی کوڈ کنورٹر ( انپیج سے تحرہری اردو کو تبدیل کرنے کا آلہ ) ایجاد کیا ۔مجھے یاد ہے جب کمپیوٹر پر اردو لکھنا خواب تھا ۔۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ لوگوں کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انٹرنیٹ پر بھی کبھی اردو لکھی جاسکے گی ۔
امانت علی گوہر ایک ایسا انسان جس نے اردو کی بے لوث خدمت کی ۔۔ آج وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں کہیں گم ہے ۔
امانت علی گوہر ایک ایسا انسان جس نے کبھی اردودانوں پر اپنا احسان نہیں جتایا۔
امانت علی گوہر ہم آپ کے اردو پر کئے گئے احسان کو کبھی نہیں بھلا سکتے

میں سلام پیش کرتا ہوں نبیل نقوی کو ۔۔۔ جس نے اردو ایڈیٹر اور اردو ویب پیڈ تخلیق کر کے ویب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا
میں سلام پیش کرتا ہوں شارق مستقیم کو ۔۔۔۔ جس نے سب سے پہلے ونڈو ٩٨ اور ونڈو ایکس پی کے لئے اردو انسٹالر بنایا
میں سلام پیش کرتا ہوں شارق مستقیم کو ۔۔۔۔ جس نے امانت علی گوہر کے بعد سب سے بہترین انپیج ٹو یونیکوڈ کنورٹر بنایا
میں شاباش دیتا ہوں خود ( پردیسی ) کو بھی ۔۔۔ جس نے سب سے پہلے اردو ویب سائٹ کے سانچے تیار کئے ۔۔آج انٹر نیٹ پر اردو کی ہزاروں نہیں لاکھوں ویب سائٹ موجود ہیں
میں شاباش دیتا ہوں خود ( پردیسی ) کو ۔۔۔ جس نے سب سے پہلے ورڈ پریس کو اردو میں ڈھالا

میں سلام پیش کرتا ہوں ان سب کو جو آج بھی اردو کی ترویج کے لئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں



اتوار، 27 جنوری، 2013

اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد اور اردو بلاگرز

پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد مورخہ 26-27 جنوری 2013ء کو ایوانِ صنعت و تجارت لاہور پاکستان میں کیا گیا

سب سے پہلے تو اتنی اچھی کانفرنس کے انعقاد پر میری طرف سے اور تمام اردو بلاگرز کیمونٹی کی طرف سے محسن عباس کو خراج تحسین اور بہت مبارکباد

اچھی مینجمنٹ کی بدولت اس کانفرنس کو سال کے شروع کی بہترین کانفرنس کہا جا سکتا ہے
ایسی کانفرنس جو نظم ظبط کا اعلی ترین نمونہ تھی جس میں تمام اردو بلاگرز کو عزت و احترام دیا گیا
اس کانفرنس میں ناشتے اور کھانے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا
لاہور شہر سے باہر والوں کی خصوصی نگہداشت اور ان کے آرام کا خیال رکھا گیا اور انہیں لاہور کے مقامات کی سیر بھی کروائی گئی

پچھلے چند سالوں میں اردو زبان نے انٹرنیٹ پر بہت تیزی سے ترقی کی ہے جس کا فائدہ جہاں اردو دانوں کو ہوا ہے وہاں بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی سنجیدگی سے اس طرف دھیان دینا شروع کر دیا ہے ۔کیونکہ جو بات کسی کو اس کی مادری زبان میں سمجھائی یا دماغ میں ڈالی جا سکتی ہے وہ دوسری زبان میں نہیں ۔سوچوں کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سوچوں کے انداز کو اپنا کر انہیں اپنا رنگ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔

میری نظر میں اس کانفرنس کے مقاصد یہ تھے

گزشتہ تین چار ماہ سے سوشل میڈیا والوں نے پاکستانی ٹی وی میڈیا کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ۔ان کا سد باب کرنا
تمام پاکستانی اردو بلاگرز کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا
ایسے بلاگرز کی نشان دہی اور جانکاری جو انتہا پسند خیالات کے مالک ہیں
اردو بلاگرز کی سالوں میں کی گئی محنت سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا
پروفیشنل صحافیوں کو بلاگنگ کی تربیت کے لئے اردو بلاگرز کی گئی کاوشوں سے استفادہ حاصل کروانا
خام مال کو اپنے لئے حاصل کرنا۔۔۔خام مال سے مراد ایسے اردو بلاگرز جن کے ذہن ابھی پختہ نہ ہوئے ہوں
خاص کر گاؤں ، دیہات یا کہ چھوٹے شہروں کے بلاگرز کو ترجیح دے کر ان کی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان سے کام لینا
مصر میں بلاگرز کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر اسی کے مطابق ان سے کام لینا ۔
اردو بلاگرز کو اپنے دئے گئے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا
بلتستان ، پختونخواہ سے بلاگرز تیار کرنا تاکہ وہ اپنی زبان میں اپنی قوم کی رہنمائی کر سکیں

[gallery ids="426,424,425,427,428,433,432,431,430,429,434,435,436,437,438,443,442,441,440,439,444,445,446,447,448,453,452,451,450,449,454,455,456,457,422,458,459,460,461,462,463,464,465,466,467,468,469,470,471,472,473,474,475,476"]



جمعہ، 18 جنوری، 2013

بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟

اردو محفل پر ایک محترم ساتھی نے سوال کیا کہ ۔۔۔۔۔بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا یا جاننا پڑے گا کہ ادب کیا ہے ؟

بغیر کسی تہمید یا آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اپنی حدود میں قید خوبصورت الفاظوں سے سجی سنوری تحریر جس میں کوئی مقصد چھپا ہو کو ہم ادبی تحریر کہہ سکتے ہیں ۔
کچھ لوگ کسی اچھی تحریر کو بھی ادبی کہتے ہیں جو کہ پابند ہو اپنے اسلوب کی
ویسے شاعری بھی ادب کا ہی حصہ ہے
اب آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب کہ ،بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟
پہلے یہ دیکھا جائے بلاگ کہتے کس کو ہیں۔۔۔۔یعنی کہ ایک ایسی ڈائری جس میں آپ اپنی سوچ کو اتارتے ہیں، یعنی یوں جانئے کہ آپ کی وہ تمام یادیں جسے آپ تحریری طور پر محفوظ کر رہے ہیں۔
اب کچھ سوچیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ بالکل ذاتی ہیں اور کچھ سوچیں ایسی جسے آپ دوسروں کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں یا بانٹنا چاہتے ہیں۔
ایک ذاتی ڈائری میں تو آپ انہیں علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں۔۔۔یعنی کچھ لکھیں اور کچھ کسی خوف سے نہ لکھیں
مگر بلاگ ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔جو جی چاہے لکھیں۔۔بالکل آزادی سے اور بے فکری سے۔۔(یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسی اآزادی نہیں ہے) ۔
اب رہ گئی بات کہ یہ تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔ اس کا بالکل سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ کی تحریریں ادب کا اعلی اور بہترین نمونہ ہیں تو ایک بلاگر کی تحریریں بھی ادب کا اعلی ترین نمونہ ہیں اور ادب کا ہی حصہ ہیں
منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ نے وہ لکھا جو انہوں نے محسوس کیا
اور بلاگر بھی وہی لکھتا ہے جو وہ محسوس کرتا ہے