mazar لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
mazar لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 29 جون، 2018

مرشد پاک ۔۔۔سچی کہانی ۔۔یاسر جاپانی




سخت گرمی کا موسم تھی۔

"بھوک پیاس افلاس" کی شدت تھی۔

لیکن "مرشد" مجبور تھے۔

سفر کئے بغیر چارہ نہیں تھا۔ غریب عوام کی "حاجت روائی مشکل کشائی" کا فریضہ انجام دیناتھا۔

"عوام الناس" بہت دکھی تھی۔ کوئی سر پہ دستِ شفقت رکھنے والا نہیں تھا۔

ایک طویل تھکا دینے والا سفر کرکے "مرشد" نے اس "وحشت زدہ" شہر میں قدم رنجہ فرمایا تھا۔

منزل مقصود پر پہونچتے ہی "مرشد" پر "بھوک و پیاس" نے شدت سے حملہ کر دیا۔
"مرشد " نے آسمان کو دیکھا نیچے زمین کو دیکھا۔
لوگوں سے "کھانا پانی" کا تقاضا کیا۔

لوگ " بے راہرو راہنجار" تھے۔ "مذہب" سے دوری لوگوں کے چہروں پر نحوست برسا رہی تھی۔

ہر طرف سے "انکار" ہوا۔

ایک قصائی چھیچھڑے اور ھڈیاں علیحدہ کرکرکے دکان کے تھڑے تلے بیٹھے کتوں کے سامنے پھینک رہا تھا۔

قصائی کی نظر اچانک ۔۔۔۔۔"مرشد " پر پڑی تو اس کے "دل" میں رحم کا جھماکا ہوا۔۔۔۔۔۔اور قصائی نے سب سے اچھا گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر "مرشد" کی خدمت میں پیش کردیا۔

"مرشد" گلی گلی لوگوں کے در در پھرے کہ کوئی "آگ" دےدے تاکہ "گوشت" بھون کر اپنی بھوک مٹا سکیں۔

لیکن "بے رحم و ظالم" لوگوں نے "آگ" نہ دی۔

"مرشد" کو جلال آگیا۔۔اینج کرکے۔۔۔

مرشد نے ہاتھ لمبا کیا اور "سورج" کو اینج کرکے نیچے لے آئے اور سورج کی تپش سے "گوشت " کا ٹکڑا بھون کراپنی بھوک مٹائی۔

بس اس دن کے بعد "شہر" کے لوگوں کو سزا کے طور پر مسلسل صدیوں سے سورج کی "گرمی" سے ساڑے ہی جارہے ہیں۔

قصائی کے احسان کا صلہ اسطرح عطا کیا کہ
قصائی کو "برف کا کار خانہ " عطا کر دیا۔

اب قصائی مزے سے ٹھنڈے برف خانے میں بیٹھے برف بیچ رہا ہوتا ہے۔

اور ملتانی ۔۔۔۔۔۔۔استغفراللہ
ملتان تاں بھوں گرمی پیندی ھو۔۔۔۔۔۔اللہ ھو۔

نوٹ؛- چیلنج کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی مائی کا لال اس کہانی کو جھوٹا ثابت کرکے دکھائے۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔پُرتقدس انداز میں بیان کوئی بھی کر سکتا ہے۔۔

اور انیس بیس کا فرق تو چل ہی جاتا ہے۔۔انداز اپنا اپنا :D

دلچسپ بات ایک یہ بھی ہے کہ "تمام" مرشدان پاک موجودہ دور کے سیاستدانوں کیطرح علاقے بانٹا کرتے تھے۔