quran لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
quran لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 4 ستمبر، 2015

اسلام نافذ کر دیا گیا ہے

آج ایک بحث کے دوران بات قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنے کی بات چل نکلی ۔سن سینتالیس سے لے کر آج تک حکمرانوں کو بے نقط سنائی گئی اور مولویوں کا تو مت پوچھیں کیا کیا حال کیاگیا ۔۔۔بہت عرصہ سے میں مذہب پر گفتگو نہیں کرتا شاید اس لئے کہ میرے موقف کو کوئی نہیں مانتا اور منفی بحث کو میں اپنے لئے زہر قاتل جانتا ہوں اس لئے اس سے کوسوں دور بھی ہوں ۔۔ آج چونکہ بحث تازہ تھی سوچا کیوں نہ سب کو ایک بار پھر اپنی سوچ سے آگاہ کیا جائے ۔

میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے ۔اور نہ ہی یہ کسی مفتی ، کسی عالم ،کسی مولوی ، کسی مسلک یا فرقے کی تحریک کی وجہ سے آئے گا کیونکہ دین اسلام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نافذ کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول کر بھی بتا دیا۔بس اب اس پر عمل درآمد کرنا ہے ۔کیونکہ کوئی بھی حکومت یا کوئی بھی فرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں ہے یا قرآن کا کوئی ایسا حکم یا قانون نہیں ہے جو کہ نیا آئے گا۔اس لئے جو چیز ( دین اسلام ) جب نافذ ہو چکی اور اس میں ردوبدل بھی ممکن نہیں تو اس کو دوبارہ سے نافذ کرنے کی باتیں میری سمجھ سے بالاتر اور میرے نزدیک فساد کی جڑ کے ساتھ ساتھ روٹی روزی کمانے کا دھندہ بھی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے زمانے ، ملکی حالات اور معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے دین اسلام کے قوانین پر عمل کیا جائے گا ۔۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ دین اسلام اب بھی نافذ ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لئے ہمیں انفرادی سے لے کر اجتماعی طور پر اپنی ذہنی گندگی صاف کرنی پڑے گی ۔ تب تک یہ ممکن نہیں ۔۔۔چونکہ میری نظر میں اسلام اب بھی نافذ ہے ۔۔۔ بس عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ عمل درآمد کیسے ہو گا۔۔۔انفرادی طور پر ۔۔۔۔ یعنی جب ہم میں سے ہر فرد اللہ کے احکامات ماننے اور اس پر عمل کرنے والا بن جائے ۔۔۔۔۔۔ جب یہ احکامات ماننے اور عملی اقدامات کرنے کا عمل انفرادی طور سب میں آگیا تو جان لیجئے گا کہ اجتماعی طور پر اس گھر ، محلے ، گاؤں ، شہر اور ملک میں اسلام نافذ ہوگیا ۔۔

اب دوسری اہم بات کہ کونسا اسلام نافذ ہوگا ۔۔۔ کس فرقے کا ہوگا یا کس مسلک سےگا ۔۔۔۔ یہاں ہمیں یہ بات جاننی چاہئے کہ اسلام ایک ہی ہے جس کا نام ‘‘دین اسلام ‘‘ہے جسے قرآن کے زریعہ سے نافذ کیا گیا اور جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کھول کر بتایا اور سمجھایا ۔
اگر ہم فرقے اور مسلک کی بات کریں تو چلیں انفرادی طور پر اسی کو اپنے اندر نافذ کر لیں کیونکہ کوئی بھی مسلک کوئی بھی فرقہ جو کہ ‘‘ دین اسلام کے ساتھ منسلک ہے ‘‘ ۔ جھوٹ ، بے ایمانی ، بے انصافی ، بے راہ روی اور قتل و غارت گری کا درس نہیں دیتا ۔دین اسلام امن اور انصاف کا مذہب ہے اور امن اسی صورت میں ممکن ہے جب انصاف ہوگا اور انصاف صرف دین اسلام کے آنے سے ہی ممکن ہے ۔

یاد رکھئے آگے جاکر حساب کتاب ہم نے اپنا یعنی انفرادی دینا ہے اجتماعی نہیں ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کے ملک میں اسلام نافذ تھا یا کسی مسلک یا فرقے کے چاہنے والوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن کے پیچھے تم تھے انہوں نے اسلام نافذ نہیں کروایا اس لئے تم بخش دئے گئے ہو ۔

اسلام نافذ کر دیا گیا ہے ۔۔۔ ۔ بس عمل کرو ۔۔۔۔ جب عمل کرو گے تو یہی دین اسلام تمہارے اندر نافذ ہوجائے گا پھر تمیں اپنے رب کے علاوہ کسی کی خوشنودی کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کا ڈر ہوگا اور نہ ہی خوف ۔۔۔۔۔

اس موضوع پر مزید تفصیل پڑھنے کے لئے محترم افتخار اجمل بھوپال کی تحریر اسلام اور ہم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

منگل، 30 جون، 2015

روزہ خور کا پہلا روزہ

ماضی کے جھروکوں میں جانے کے لئے بس آنکھیں بند کرنے کی دیر ہوتی ہے تو آپ نے جہاں جانا ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔صفدر گھمن صاحب نے ماضی کے جھروکوں سے اپنے پہلے روزے کا احوال لکھ کر ساتھ ہی دوسروں کو بھی تحریک دے دی ۔ کوثر بہن اور نعیم خاں نے بھی اپنی اپنی خوبصورت یادوں سے روداد پیش کی ۔اب جانے نعیم خاں صاحب کو ہمارے روزہ خور کے بارے میں کس نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں بھی کہہ ڈالا ۔۔۔۔۔ شاید انہیں طاہر القادری کی طرح عالم رویا میں کسی نے بتایا ہوگا ۔۔۔۔

میں جب اپنے ماضی میں جھانکتا ہوں تو مجھے ایک ایک لمحے کی بات یاد آتی ہے ۔ میں پانچویں کلاس میں تھا جب میں نے پہلا روزہ رکھا ۔سخت گرمیوں کے دن تھے ۔ہر دس منٹ بعد میں پانی کی ٹونٹیوں پر جا کر کبھی سر میں پانی ڈالتا تھا اور کبھی منہہ میں پانی لے کر کلیاں کرتا جاتا تھا۔افطار تک وقت کیسے گزرا ۔۔۔ بس مت پوچھئے ۔۔۔۔ بس اس ایک روزے کے بعد مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بہت عرصہ تک روزہ نہیں رکھا۔

1986 کو میری شادی ہوئی تب تک اور شادی کے بعد بھی میں نے کسی رمضان میں پندرہ یا سولہ روزوں سے زیادہ کبھی نہیں رکھے وہ بھی صرف ایک یا دو دفعہ ۔۔۔ ورنہ کبھی کسی رمضان میں دو رکھ لئے کسی میں تین ۔۔۔البتہ میں سحری بڑے اہتمام سے کرتا تھا یعنی پراٹھے وغیرہ کھا کر صبح پھر ناشتہ پھڑکا دینا۔۔۔جہاں تک نماز کی بات ہے تو جمعہ ضرور پڑھتا تھا مگر وہ بھی باقاعدہ نہیں ۔

1992 میری زندگی کا ایسا سال ہے جس میں اللہ کی رحمت سے میں بالکل تبدیل ہوگیا ۔۔۔ اسی سال میں نے الحمدللہ حج کی سعادت حاصل کی اور بعد ازاں آج تک الحمدللہ کبھی روزہ اور نماز نہیں چھوڑی ۔۔۔
میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دیتا ہے کہ میں روزہ رکھوں اور نماز پڑھوں ۔۔۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ معاف کردے اور مجھے بخش دے ۔ اور میں جب تک زندہ رہوں مجھے صحت و تندرستی کے ساتھ توفیق دے کہ میں اس کی عبادت کرتا رہوں ۔آمین