PTI لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
PTI لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 17 جولائی، 2018

تجربات سے سیکھنا اور "کمینگی" ۔۔۔۔ یاسر جاپانی



آ ئیے آپ کو "تجربات" کا سفر پڑھائیں :D

یکسانیت کے شکار ہوں یا تکرار مسلسل لگے تو مرغِ بسمل کی طرح بانگنا منع نہیں ہے :D

مسلمانوں کی "معصومیت" صدیوں سے "مشہور ومعروف" ہے اور "یہود ونصاری" کی عیارانہ و مکارانہ "سازشیں" بھی صدیوں سے مشہور و معروف ہیں۔۔

اسپین میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوئیں مسلمان کو سپین سے مار نکال دیا گیا۔

اٹلی کے "سسلی" اور سابقہ "صقیلیہ" میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔

اور مسلمان "سسلی" میں اپنی عظیم والشان نشانیاں ہی چھوڑ گئے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ "پناہ گزین" مسلمان اب بھی اسپین اور اٹلی میں ہی اپنی جان ومال و عزت مسلم ممالک کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔

ھندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی ۔

مسلمانوں کی "سلطنت" ختم ہونے کے قریب ہی تھی کہ

"احمد شاہ ابدالی" نے "مرہٹوں" کو ایسی شکست فاش دی کہ "مرہٹے" ہمیشہ ہمیشہ کیلئے "پانی پت " میں نیست و نابود ہوگئے۔

پھر "برطانوی گوروں " نے "سازش کرکے "مسلمانوں" کی حکومت کا خاتمہ کیا اور "جھوٹا" بیان دے دیا کہ

ہم نے تو انڈیا کا "اقتدار" مسلمانوں سے نہیں "مرہٹوں" سے چھینا ہے۔

"مغل شہنشاہیت" ایک "نشانی" کے طور پر وجود ضرور رکھتی تھی۔

زیادہ تر "مولوی" اور "شاعر" اس شہنشاہت کے "ٖخطبے و قصیدے" پڑھتے رہتے تھے۔

اور ہندوں سکھوں اور مسلمانوں کے راجاؤں ،نوابوں اور نکے نکے بادشاہوں کی اپنی اپن ریاستیں تھیں۔

جو کہ ایک دوسرے سے ہمیشہ "خطرے" میں ہی رہتی تھیں۔جیسے ہی "بیرونی" طاقت کو دیکھا سب ایک دوسرے کے خوف سے اس "بیرونی" طاقت کے ہاتھ پاؤں مضبوط کرنا شروع ہوگئے تھے اور ہوجاتے تھے۔

"خلافت عثمانیہ" کی بحالی تحریک "ہندوستان " میں زور وشور سے جاری تھی۔۔۔

"عرب" ترکوں سے "آزادی" کی جنگ لڑ رہے تھے۔یہودی اسرائیل کے قیام کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔

تھوڑا ماضی میں جائیں تو "برصغیر" کا یہی حال تھا۔ہر "بیرونی طاقت" سے مل کر ایک دوسرے کی "بینڈ " ہی بجائی جاتی تھی۔

اللہ انگریز کی عمردراز کرے اور برطانیہ کو تاقیامت قائم رکھے۔ کہ وکٹوریائی ہندوستان کے تمام راجے مہاراجے نواب وغیرہ کے خاندان اب بھی اپنے لئے "لندن" کو ہی زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

اور اپنی "بادشاہت" کے مزے لینے کیلئے سال میں چند بار انڈیا پاکستان بھی آجاتے ہیں۔

ہم نے اپنے تجربے سے یہی سیکھا ہے کہ " ہندوستانی ، پاکستانی ، افغانستانی" مسلمان نے ہر حال میں ایک دوسرے کے "خلاف" سازش کرنی ہوتی ہے۔

چاھے اس کا ایک ٹکے کا فائدہ بھی نہ ہو۔

فیس بک کی وجہ سے جاپان میں بھی "پاکستانی و جاپانی " ہمارے "انجانے" جاننے والے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جس کا ہمیں کافی عرصے بعد "علم" ہوا۔

وہ بھی اس طرح کہ فیس بک نے پرانی آئی ڈی بلاک کردی تو

"تھرتھلی" مچ گئی۔۔۔

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا ۔۔۔۔روزانہ کوئی نا کوئی کسی ناکسی طریقے سے "کھوج " لگا رہاہے۔!!

بس کچھ ایسی ہی حالت تھی۔

ابے ۔۔اگر پڑھتے دیکھتے تھے تو "لائیک " ہی کر دیا کرتے؟

یا کم ازکم "اچھا یا برا" کمنٹ ہی کردیا کرتے تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوا۔ آپ کو ہمارا "لکھا" سمجھ آیا ہے کہ نہیں؟ یا کم ازکم "مہذب" انداز میں آپ اپنی "رائے" کا اظہار ہی کردیتے؟

تاکہ ہم ہی آپ سے کچھ سیکھ سکتے۔

غیر ضروری "سازشی" ذہنیت کا آخری تازہ تازہ انتہائی "بے فضول تجربہ " ہمارے ساتھ تین چار ماہ پہلے واقعہ ہوا تھا کہ

ایک جاننے والے جو کہ کافی " کمپلیکیٹڈ پرسنالٹی" ہیں۔ کبھی کبھی ملاقات کرنے آجاتے تھے۔ تو ہم بھی "مروت"میں صاف انکار نہیں کرتے تھے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بھی اچھی بات نہیں ہے۔

ایک بارریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ بل ادائیگی کے وقت "میں دوں گا ، میں دوں گا" کا ڈرامہ چلا اور آخر کار "ہیرو" کا سین مجھے مل گیا۔

جب میں بل ادا کر رہا تھا۔ تو سامنے "کھڑکی کے شیشے" پر نظر پڑی رات کا وقت تھا۔ دیکھا ایک "ارب پتی " بزنس مین کرسی پہ بیٹھے بیٹھے ہی خوشی میں دیوانگی سے ہاتھ اٹھائے ناچ رہے ہیں۔

ارے۔۔پین دی سری ۔انہیں کیا ہوا؟!!

حیرت سے گردن موڑ کردیکھا تو

بالکل سنجیدہ چہرے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔!!!

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا؟!!

ظاہر ہے ہم نے اپنی " سادگی" کے باوجود دنیا دیکھی ہے۔بندے کے "اندر کا چینل" میرے خیال میں ، میں بہت اچھی طرح "پڑھ " لیتا ہوں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ عموماً "نظر انداز" کر دیتا ہوں۔ جس سے مجھے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اچھے برے لوگوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

بحرحال ۔۔۔

کہنے کا مقصد یہ ہے۔

کم ازکم پاکستانی "عیاری و مکاری و چالاکی" موقعہ پرستی، مفاد پرستی ، خود غرضی اور خاص کر ضروری و غیر ضروری سازشیں کرنے میں "اپنی مثال" آپ ہیں۔

مجھے ان "ارب پتی" صاحب کی حرکت کا "مقصد" بالکل سمجھ نہیں آیا تھا اور نا ہی آیا ہے۔

شاید ان کی " خوشی " کی وجہ

1ٓ- ہم لوگوں نے جو مشترکہ کھانا پینا کیا تھا اس کا خرچہ میری جیب سے کروانا انہیں میرا نقصان لگا تھا اور انہیں میرے نقصان کی "خوشی" ہوئی تھی۔

حالانکہ ان سے میری نا ہی دوستی ہے اور نا ہی کوئی کاروباری تعلق!۔

بس ایک "مشترکہ " دوست یا جاننے والے صاحب کی وجہ سے دسترخوان کااشتراک ہوگیا تھا۔

2- ان صاحب کے دل میں میرے لئے کسی "وجہ" سے شدید کا قسم کا "بغض و عناد یا حسد" جڑ پکڑے بیٹھی تھی۔

اور ان کے خیال میں "بل" کی ادائیگی کرنے سے میرا "نقصان" ہوا ہے ۔ اور میرے جیسے غریب مسکین بندے کیلئے یہ بہت بڑا" جانی نقصان" ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہوئی تھی؟

3- یا صرف صدیوں کی اپنے آپ کو "مسلمان" کہنے والی "ذہنیت" کی "گندگی" تھی ۔

جو کہ وجہ بلاوجہ ایک دوسرے کے خلاف موقعہ پاتے ہی متحرک ہو جاتی ہے۔ اور "تعلق واسطے رشتے" کی کوئی بھی کم سے کم شکل ہونے کی صورت میں "تکلیف" پہونچانے کی "کمینگی" اچھل کر باہر آگئی تھی؟۔

*

ہماری یہ "کمینگی" اس وقت "پائے تسکین" پہونچتی ہے۔ جب تک ہم "دوسرے" کا جانی مالی نقصان نہ کردیں۔

یہ "کمینگی" ہمیں سماجی ، معاشرتی معاملات میں "اکثر" دکھائی دیتی ہے اور ہم بہت اچھی طرح اس "کمینگی" سے واقف ہیں۔

ملکی قومی اور سیاسی سطح پر آجکل ہمیں "باپ بیٹی " کا جیل جانا ایک عجیب سی "کمینی قسم " کی "تسکین" دے رہا ہے ۔

سابقہ بیوی ریحام خان کی "کتاب" کے بارویں باب کے بعد جو "رنگین" قسم کی "تذلیل" پڑھنے کو ملتی ہے اس کا اپنا ہی مزا ہے۔

اور عمران خان کا "پٹواریوں" اور لہوریوں کا "کھوتا" کہنے کے انداز نے جو لطف دیا اس "کمینگی" کو لہوریوں کی کھوتا خوری سے جوڑ کر جو مزا آیا اس کے کیا کہنے۔

اور ڈی چوک میں کٹی پتنگ کی طرح جھوم جھوم کر ناچ گانا کرنے والے پرویز خٹک کا "ناچ گانا" کرنے والوں کے گھر کو جھنڈے والا"طوائف" کا گھر کہنے سے "دل ہی دل" میں جو "کمینی سی خوشی" ہوئی اس کا تو جواب ہی نہیں۔ :D

مندرجہ بالا تمام "کمینگیوں" پر غور کیجئے۔!!

ان کے فوائد بھی اور نقصانات بھی "ہم سب" کے "مشترکہ" ہیں۔

جب ہم "خاک" ہو جائیں گئے۔

تو "یاد " کرنے والے "اچھے یا برے" الفاظ میں ہمیں ضرور یاد کریں گے۔

لیکن کیا ہے کہ

ہم نہ ہوں گے۔ اور دنیا چند دنوں کی ہی ہے۔

ہم صدیوں سے "جاری " کمینگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔۔

جو کہ

"بارودی جیکٹ" پہن کر پھٹے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ :D

خلافت راشدہ جیسی "بابرکت و مقدس" ریاست تاقیامت قائم نہ رہ سکی تو ہماری تمہاری "ڈیڑھ اینٹ " کی "عبادت گاہ" کس کھیت کی مولی ہے۔

بحرحال "خدا" واقعی ہمیں "تجربات" سے "سیکھنے" کا موقعہ دیتا ہے۔

اور ہمارے اندر کی "کمینگی" ہمیں "سیکھنے " نہیں دیتی۔

جمعرات، 28 جون، 2018

کیا عمران خان ہنی ٹریپ کا شکار ہوچکے ہیں؟؟ ۔۔ مہتاب عزیز






کیا عمران خان ہنی ٹریپ کا شکار ہوچکے ہیں؟؟

حالات تو اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 66 سال کا جہاندیدہ سیاستدان کیا دامِ الفت (honey trap) کا شکار ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے، دنیا کے کئی سیاسی اور عسکری رہنماوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جہیں ڈھلتی یا آخری عمر میں دامِ الفت (honey trap) میں پھنسا کر استعمال کیا گیا۔

خصوصا پاکستانی سیاستدانوں اور فوجی سربراہوں کے ریکارڈ تو اس سلسلے میں بہت خراب ہے۔ یوں تو اس دامِ الفت (honey trap) میں پھنسنے والوں میں پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ جن کا تعلق پنجاب کے علاقے کرنال سے تھا۔ جنہوں نے 38 سال کی عمر میں دوسری شادی بیگم رعنا سے 1936 میں ہوئی۔ بیگم رعنا کی پیدائش ہندوستان کے علاقے اترکھنڈ میں الموڑہ کے مقام پرایک عیسائی خاندان میں ہوئی اور ان کے والد ڈینیل پنت نے ان کا نام شیلا آئرین پنت رکھا تھا۔ شیلا آئرین پنت نے بعد میں لیاقت علیخان کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنا مذہب تبدیل کیا۔ اور شادی کے بعد رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔ پاکستان آرمی نے انہیں پہلی خاتون بریگیڈئر جنرل کا اعزاز دیا۔آپ نے پاکستان کی پہلی خاتون سفیر کے طور نیدرلینڈ، اٹلی اور تیونس میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر رہیں۔بعدازاں بھٹو نے انہیں سندھ کی پہلی خاتون گورنر کے طورپر تعنیات کیا۔ بیگم رعنا پاکستان میں خواتین کو گھروں سے نکالنے، آزاد خیالی اور پردے کی مخالفت کی بانی ہیں۔ انہوں نے اپوا کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کی ابتدا سے شرعی قوانین کے نفاذ کی مخالفت کی۔

دامِ الفت (honey trap) کا باقاعدہ شکار ہونے والا پہلا پاکستانی سربراہ گورنر جنرل غلام محمد تھا۔ فالج کا شکار یہ معذور شخص آخری عمر میں ایک جرمن نژاد امریکی خاتون روتھ بورال کی زلف کا اسیر ہوا۔ یہ ایک ایسا سربراہ تھا فالج کی وجہ سے جس کی زبان بھی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اور نہ ہی یہ کسی کاغذ پر دستخط کر سکتا تھا۔ اس کے بیانات اورہر طرح کے احکامات پر دستخط اس کی امریکی سیکریٹری ہی جاری کرتی تھی۔ اس حالت میں اس نے امریکیوں کو پہلی بار پاکستان میں مداخلت کا موقعہ دیا۔ اور پشاور کے نزدیک بڈبھیر کا ہوائی اڈا امریکیوں کو دیا۔ اسی نے اسمبلیاں توڑ کر غلط رسم کا آگاز کیا، امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا کو اچانک وزیر اعظم مقرر کر کے پورے ملک کو حیران کر دیا۔ یہی دور تھا جب پاکستان امریکی کالونی بنا۔

امریکی میں تعنات پاکستانی سفیر کو اچانک پاکستان کا تیسرا وزیراعظم محمد علی بوگرہ بنائے گئے تھے۔ جن کے دور میں پاکستان میں امریکیوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوئیں۔ بوگرا صاحب بھی امریکی میں تعناےی کے دوران دامِ الفت کا شکار ہوئے۔ انکی دوسری بیوی عالیہ سدی لبنانی نژاد امریکی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

پاکستان کے ایک اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی دام الفت کا شکار ہوئے۔ اُن کی دوسری اہلیہ کا تعلق روس سے تھا۔ وہ ماسکو آرٹ تھیٹر سے وابستہ ایک روسی اداکارہ تھیں۔ ان کا نام ویرا الیگزینڈرونا کالڈر تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حسین شہید سہروردی کا پاکستان میں جاری روس امریکہ کشمکش کے دوران جھکاو روس کی جانب تھا۔

پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی اہلیہ بیگم وقار النسا نون کا تعلق اسٹریا سے تھا۔ ان کا پیدائشی نام وکٹوریہ ریکھی تھا۔ ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان کی ملاقات وکٹوریہ سے ہوئی۔ جس کے بعد دونوں کی محبت کا آغاز ہوا جو شادی پر منتہج ہوئی۔ بعد ازاں وکٹوریہ اپنا مذہب اور نام ترک کر کے بیگم وقار النسا نون ہوگئیں۔ یہ خواتین کی آزاد خیالی کی حامی اولین تنظیم اپواء کے بانیوں میں شامل تھیں۔ پاکستان میں تعلیم کو سیکولر خطوط پر ڈھالنے میں ان کا اہم کردار ہے۔

ہنی ٹریپ کا دوسرا شکار پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر سکندر مرزا تھا۔ جسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ معروف غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ اس کی دوسری اہلیہ ناہید افغامی سے محبت اور شادی کو باقاعدہ ایرانی انٹیلیجنس کا کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت کی ایرانی انٹیلیجنس امریکی سی آئی اے کا ایک ذیلی ادارہ سمجھی جاتی تھی۔ نائید افغامی پاکستان میں ایران کے ملٹری اتاشی کی بیوی کی حیثیت سے پاکستان آئیں۔ ایران کے ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ کی حیثیت سے اُن کی ملاقات اُس وقت کےڈیفنس سیکرٹری میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوئی۔ ملاقاتیں محبت میں بدل گئیں۔ پھر نائید نے اپنے ایرانی شوہر سے طلاق حاصل کر کے اسکندر مرزا سے شادی کر لی۔ میجر جنرل سکندر مرزا کے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے بعد نائید ملک کے سیاہ اور سفید کی مالک بن گئیں۔ اس دور میں ایران اور امریکہ کے مفاد میں ہونے والے اقدامات کی تفصیل کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے۔

پاکستان کے دوسرے فوجی آمر آغا محمد یحیٰ خان کا کردار اتنا گھنونہ ہے کہ اُس پر بات کرت ہوئے گھن آتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یحیٰ خان کی داشتہ اقلیم اختر المعروف جنرل رانی بھی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایجنٹ تھی۔

ایرانی انٹیلیجنس کا دوسرا کارنامہ ذولفقار علی بھٹو کو دام الفت میں گرفتار کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ بیگم نصرت اصفحانی کا تعلق ایران کے شہر اصفحان سے تھا۔ وہ گریجویشن کے بعد پاکستان آئیں، جہاں کراچی میں اُن کی ملاقات بھٹو سے کرائی گئی۔ جو پہلے محبت اور پھر شادی کا باعث بنی۔ ذولفقار علی بھٹو کے کئی اقدامات کے پیچھے نصرت بھٹو کی وساطت سے ایرانی اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے ذولفقار علی بھٹو کی اقتدار سے برطرفی کے بعد میں سزائے موت کے بعد ان کا خاندان افغانستان اور پھر شام منتقل ہوا۔ دونوں ممالک اُس وقت ایران کے زیر اثر تھے۔ خاندان کے باقی افراد بعد ازاں مغربی ممالک چلے گئے لیکن دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں پاکستان کو مطلوب میر مرتضیٰ بھٹو شام میں ہی مقیم رہے۔ جن کی اہلیہ غنویٰ بھٹو کا تعلق بھی شام سے ہے۔

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

پی ٹی آئی ، عمران خان ‘‘ کے سپورٹرز کون لوگ ہیں ؟

qadiani-02اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ‘‘ پی ٹی آئی ، عمران خان ‘‘ کو منکرین حدیث ، قادیانیت نواز ، دہرئے ،گوہر شاہی اور مادر پدر آزاد قسم کے لوگ سپورٹ کر رہے ہیں ۔

دوہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے عمران خان کی جانب سے قادیانی ہیڈ کواٹرز لندن میں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایک وفد بھیجا گیا تھا جس میں قادیانی خلیفہ مرزا مسرور احمد نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مجھے عمران خان کی جانب سے یہ پیغام ملا تھا کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو اسمبلی میں آپ کے خلاف کی گئی قرارداد پر نظرثانی کریں گے۔

دوہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے عمران خان کی جانب سے قادیانی ہیڈ کواٹرز لندن میں ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے جو وفد بھیجا گیا تھا اس کی سربراہی ‘‘ نادیہ رمضان چوہدری ‘‘ جو کہ پاکستان تحریک انصاف سیکرٹریٹ عمران خان کے ساتھ کام کرتی ہیں ، کر رہی تھی ۔ان کا قادیانی خلیفہ مرزا مسرور احمد کو کہنا تھا کہ قادیانی تحریک کا جو منشور ہے وہ ہمارے منشور کے ساتھ بہت زیادہ مطابقت رکھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس الیکشن میں آپ کی کیمونٹی ہمیں سپورٹ کرے ۔

قادیانی خلیفہ نے اس ملاقات میں یہ کہا کہ جب تحریک انصاف بنی اس وقت میں پاکستان کا ناظم اعلیٰ تھا اور اس وقت عمران خان میں نے میرے پاس ایک وفد کو بھیجا کہ ہم ایک نئی پارٹی بنا رہے ہیں آپ ہمیں الیکشن میں ووٹ اور سپورٹ کریں ۔قادیانی خلیفہ کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں باور کروایا کہ ہمارا تو ووٹ ہی نہیں ہے ۔۔ جس پر عمران خان کے ہرکارے نے کہا کہ آپ سپورٹ کریں جب ہم اسمبلی میں جائیں گے تو ہم آپ کا حق بھی دلوائیں گے۔

لندن کی بیٹھک میں نادیہ رمضان چوہدری کا پھر کہنا تھا کہ آپ ہمیں سپورٹ کریں ہمارا منشور تمام لوگوں کے لئے ہے ۔قادیانی خلیفہ کے ایک سوال کے جواب میں کہ ہماری بھی پاکستانی شہری کے حساب سے جسٹیفیکیشن ہونی چاہئے پر کہا کہ یہ ہم آپ کے لئے کر رہے ہیں ۔

qadiani-01

نوٹ ۔نادیہ رمضان چوہدری نے اپنے ویڈیو پیغام میں اپنی کہی گئی باتوں کی تردید بھی کی تھی جو کہ سراسر ایک بھونڈی اور عام آدمی کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے ۔

دوسری جانب گوہر شاہی کا نمبر ون چیلا ‘‘ یونس گوہر شاہی ‘‘ جو کہ سرعام اللہ رسول کا مذاق اڑاتا رہتا ہے اور خانہ کعبہ کو گالیاں بکتا ہے کے ورکرز آجکل دھرنے میں بڑے بڑے بینر اٹھائے عمران خان کو سپورٹ کرتے نظر آرہے ہیں۔یونس گوہر شاہی اپنی ویڈیوز میں سرعام مسلمانوں کوگندی غلیظ گالیوں سے نواز رہا ہے ۔

دھرنے اور عمران خان کو سپورٹ کرنے والوں میں منکرین حدیث غلام احمد پرویز ، منکرین حدیث جاوید احمد غامدی کے چاہنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے ۔جبکہ دہرئے اور مادر پدر آزاد قسم کے تمام لوگ عمران خان کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں ۔

عمران خان کی تحریک کا اگر ہم ایک سرسری سا جائزہ بھی لیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمران خان کا ایجنڈا ‘‘ ارادی یا غیر ارادی طور پر ‘‘ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے ۔سول نافرمانی کی تحریک کا بیان ہو یا ، ہنڈی کے زریعہ سے باہر پیسہ منگوانا یا بھیجنا جیسے بیان یا کہ پاکستان کے لئے گئے قرضے واپس نہ کرنے جیسے بیانات نے عمران خان کی اصلیت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔