ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

تھوکا تھوکی تھوکاڑ

thookاس سے پہلے کہ میں ‘‘ تھوکا تھوکی تھوکاڑ ‘‘ کے بارے کچھ عرض کروں میں تینوں فارموں کی تشریح کرنا چاہوں گا۔
تھوکا ۔۔۔ ایک عام تھوک ( منہہ کا گندہ پانی ) جو ایک وقت میں ایک ہی بار ایک عام مقدار میں پھینکی جائے اسے میں نے تھوکا کا نام دیا ہے
تھوکی ۔۔ یہ ایک ایسی تھوک ہے جو ایک انسان راہ چلتے ہوئے بار بار پھینکتا ہے ۔۔۔ اسے میں نے تھوکی کا نام دیا ہے
تھوکاڑ ۔۔۔ یہ ایک ایسی تھوک ہے جو ایک انسان ریشے سے بھری ، یا پان کی پیک سے بھری، یا جان بوجھ کر منہہ بھر کر پھینکتا ہے ۔۔ اسے میں نے تھوکاڑ کا نام دیا ہے۔

گھر ہو یا باہر کچھ لوگ اس ‘‘ تھوکا تھوکی تھوکاڑ ‘‘ کی لت کا ایسا شکار ہیں کہ نہ آگے دیکھتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ، منہہ بھر کے اپنا لعاب دہن دھاڑ سے سڑک کے بیچ دے مارتے ہیں ۔۔۔ بندہ پوچھے بھائی اگر آپ نے تھوک پھینکنی ہی ہے تو آرام سے سائٹ پر ہو کر بھی پھینکی جا سکتی ہے ۔

دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ عموماً موٹر سائکل سوار چلتی ہوئی موٹر بائک سے ایسا تھوکاڑ مارتے ہیں کہ پیچھے آنے والا یا پیدل چلنے والا بیچارہ اس گندگی سے اپنا منہہ صاف کرتا اور اسے برا بھلا کہتا ہی نظر آتا ہے ۔

کئی بسوں کے مسافروًں میں بھی یہ حرکت دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ کھڑکی سے منہہ باہر نکال کو تھوکاڑ دے مارتے ہیں جس سے سڑک پر کھڑے لوگ اس کی اس حرکت پر عموماً غیلظ گالیوں سے نوازتے بھی دیکھے گئے ہیں ۔

اس گندی حرکت میں کرکٹ اور فٹ بال کے کئی نامور کھلاڑی بھی مبتلا پائے گئے ہیں جو کہ کھیل کے دوراں عموماً گراؤنڈ میں ‘‘ تھوکا ، تھوکی ‘‘ کرتے نظر آتے ہیں ۔
چائے کا ہوٹل ہو یا روٹیوں کا تنور ( تندور ) وہاں کے کام کرنے والے بھی عموماً کام کے دوران کھانے پینے کی چیزوں کے درمیان ہی ‘‘ تھوکا ، تھوکی ‘‘ کرتے نظر آتے ہیں جس دیکھنے والے کی طبعیت مکدر ہوجاتی ہے اور وہ اسی وقت ساری عمر روٹی کھانے سے بھی توبہ کر بیٹھتا ہے ۔۔۔ مگر تھوڑے وقت بعد ہی وہ سب کچھ بھلا کر یہی سب کچھ کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔کیونکہ بھوک گندگی اور تہذیب پر حاوی ہوتی ہے ۔

پان کی دوکانوں کے سامنے تو ایسے ایسے تھوکاڑ پڑے نظر آتے ہیں کہ بندہ اسے دیکھتے ہی الٹیاں کرنا شروع کر دے ۔کراچی اور حیدرآباد شہر کی کوئی گلی ، محلہ ، سڑک ، فیلٹ اور اس کی سیڑھیاں ایسی نہیں ہیں جہاں تھوکاڑ کی بھرمار نہ ہوئی ہو ۔۔ ایسی ایسی پان کی پیکیں کہ تجریدی آرٹ بنانے والا اپنا سر پیٹ لے ۔

اگر رات کو ہم ٹوتھ پیسٹ کر کے اور اپنا ناک اور منہہ اچھی طرح صاف کر کے سوئیں اور صبح اٹھ کر بھی یہ صفائی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ سارا دن آپ اپنے منہہ کے گندے فالتو پانی سے بچ نہ سکیں۔

جب بھی کوئی چیز کھائیں فوراً اپنا منہہ صاف کریں ، یعنی اچھی طرح کلیاں کر لیں ۔۔ اس سے آپ کی صحت بھی صحیح رہے گی اور دوسرے بھی آپ کی ‘‘ تھوکا تھوکی تھوکاڑ ‘‘سے بچیں گے ۔
آخری بات ان لوگوں کے لئے جن کے منہہ سے بدبو آتی ہے ۔۔۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ادرک کی ایک چھوٹی سی کاش کاٹ کر اپنے منہہ میں رکھ لیا کریں ان کے منہہ کی بو ختم ہو جائے گی


پیر، 25 نومبر، 2013

انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے

1tکہتے ہیں کتے اور انسان کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور کہتے یہ بھی ہیں کہ جہاں انسان ہوتا ہے وہاں کتا بھی پایا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں کتا ہو وہاں انسان کا پایا جانا لازم نہیں ہے ۔جیسا کہ سننے میں آتا ہے انسان اور کتے کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور اب صدیوں میں دونوں نے ایک دوسرے سے کیا کیا سیکھا اس کے بارے میں تحقیق ہونا ابھی باقی ہے ۔۔کتے کے ‘‘ کتے پن ‘‘ پر تو تحقیق کرنا انتہائی آسان ہے مگر اس عرصہ میں انسان پر کتنا ‘‘ کتا پن ‘‘ چڑھا ، اس پر تحقیق کرنا از حد ضروری ہے ۔

کتوں کی پچاس سے زیادہ مقبول نسلیں ہیں ۔۔۔ جن میں جرمن شیفرڈ ، بیلجئیم شیفرڈ ، شیفرڈ سکاٹش ، پوائینٹر، افغان ہاؤنڈ ، اکیتا ہاؤنڈ ، بیگل ، باکسر، بلڈاگ ، فرانسیسی بلڈاگ ، بل ٹیریر - چیوہاؤ ، سکیں سکیں ، کوکر ، فاکس ٹیریر ،گولڈن ،ہسکی سائبیرین ، لیبرے ڈار ، مالٹی ، نیپولٹن ، سان برنارڈو ، سیٹر - آئرش سیٹر ، سکاٹش ٹیریر ، ویلش ٹیریر ، یارکشائر ٹیریر ۔۔۔۔ مقبول ترین ہیں

ان کتوں سے انسانوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے ہر کتے کا روزانہ کا خرچہ پاکستان کے ایک ہزار غریب آدمیوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور اگر آپ ان کتے کی نسلوں سے انسان کے پیار کا اندازہ لگانا اور ساتھ ہی اس کا نظارہ بھی کرنا چاہیں تو ان کے بیڈ رومز میں جا کر کر سکتے ہیں ۔

میری ذاتی تحقیق کے مطابق کتوں کی ان عظیم نسلوں میں سے کسی انسان کو میں نے ایسا نہیں دیکھا جو کہ ان کتوں کے ساتھ بیٹھنے میں اپنی تحقیر محسوس کرتا ہو ۔ہاں یہ ضرور ہے اور اس بارے میں بھی ابھی تحقیق ہونا باقی ہے کہ خود اعلیٰ نسل کے ان کتوں میں سے کسی کتے یا کتے کے بچے کو انسان کے ساتھ بیٹھنا یا میل ملاپ رکھنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔

کتوں کی ان عظیم نسلوں کے علاوہ ایک عظیم اور قدیم نسل اور بھی ہے جسے میں ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گل یڑ ) ۔( گلی کے آوارہ کتے ) کہتا ہوں ۔اسی نسل کو سب سے زیادہ ٹھڈے ، جوتے اور ڈنڈے بھی پڑتے ہیں اور گالیوں کا تو بس نہ ہی پوچھیں ۔۔۔مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی جب آپ اس کو روٹی کا ٹکڑا دیتے ہیں تو اس نسل یعنی ‘‘ گلیڑ ‘‘ کتے کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آپ صاف دیکھ سکتے ہیں ۔

کتوں کی اتنی عظیم نسلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی اگر کسی سیانے نے ‘‘ کتوں جیسی بے عزتی ‘‘ کا محاورہ ایجاد کر ہی دیا تھا تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تو ہوگی ۔اور جب یہ محاورہ ایجاد ہو ہی گیا تو لاگو بھی ہو گا اور جب لاگو ہوگا تو محسوس بھی ہوگا۔۔۔۔۔ مگر سیانوں کی باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور سیانے کہتے ہیں ۔ ‘‘ سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کرو گے اتنی زیادہ لگے گی ‘‘ ۔

کتے تو پھر کتے ہیں ان کو کیا کہنا ۔۔۔۔ انسانوں کی بات کیجئے جی ۔۔۔کیونکہ انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے مگر کتا انسان نہیں بن سکتا ۔



پیر، 11 نومبر، 2013

باجی کنجری ہار موتیے دے

motia-gajraسردیوں کی ٹھنڈی شامیں شروع ہوتے ہی موتیا کے پھولوں کا موسم بھی شروع ہو چکا ہوتا ہے ۔ویسے تو گلاب کو پھولوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے مگر موتیا کی خوشبو بھی اپنی مثال آپ ہے ۔بس یوں جانئے کہ اگر گلاب مرد ہے تو موتیا عورت ۔۔۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس دنیا میں عورت جیسی خوشبو کا بھی بھلا کوئی جوڑ ہوسکتا ہے ۔

موتیا کی خوشبو ایسی مدھر ہوتی ہے کہ مانو جیسے سونگھتے ہی مدہوشی چھا جائے ۔۔۔ ایسی مدہوشی کہ بندے کا دل چاہے کہ بس اسی خوشبو کی فضاؤں میں بیٹھا رہوں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پھولوں کے بادشاہ کی موجودگی میں بھی عورتیں موتیا کی خوشبو کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔۔۔ شاید کہ موتیا کی خوشبو میں انہیں خود کی خوشبو نظر آتی ہو ۔۔۔

لاہور شہر میں داتا دربار سے تھوڑا آگے دائیں ہاتھ کو جائیں تو ٹکسالی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے ۔جسے عرف عام میں ہیرا منڈی بھی کہا جاتا ہے ۔آجکل ہیرا منڈی محرم کے احترام میں بند ہے ۔رمضان سمیت باقی کے گیارہ مہینوں میں ہیرا منڈی رات گیارہ سے ایک بجے تک کھلی رہتی ہے ۔ان دو گھنٹوں میں گانے بجانے کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ۔باقی کے ٢٢ گھنٹوں میں چھپ چھپا کر ہیرا منڈی میں گاہکوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جو اپنی اپنی پسند کی مہہ جبیں کی زلفوں کے سائے تلے کچھ وقت گزار کر اپنی اپنی راہ لیتے نظر آتے ہیں ۔۔

لوگ کہتے ہیں اب ہیرا منڈی کی وہ بہاریں کہاں ۔۔۔۔۔۔ اب تو لوگ ہیرا منڈی میں صرف پاوے کھانے آتے ہیں ۔۔۔۔ اب کہاں باجی کنجری اور کہاں ہار موتیے کے ۔۔۔۔۔اب تو ایسی آوازیں بھی خواب ہوئیں ۔۔۔
باجی کنجری ہار موتیے دے



اتوار، 20 اکتوبر، 2013

معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام

عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تعزیتی نشست کی صدارت کے فرائض محترم عاطف بٹ نے انجام دئے جبکہ اس نشست کے مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائے ہوئے بلاگر اور لکھاری سکندر حیات بابا تھے۔ دیگر بلاگرز میں لاہور کے ہر دلعزیز بلاگر ساجد نامہ کے محترم ساجد شیخ اور شیخو و پردیسی بلاگ کے بانی نجیب عالم نے شرکت کی ۔

IMG_6174 (Custom)

یاد رہے کہ معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کا ٢٢ اکتوبر ٢٠١٢ء بروز سوموار کو کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔اردو بلاگنگ میں ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی روح کے ایصال ثواب کے لئے آج مورخہ ٢٠ اکتوبر ٢٠١٣ کو بمقام پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر عنیقہ ناز کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور ڈاکٹر صاحبہ کے لئے دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

IMG_6175 (Custom)


معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام

dr-aniqa-nazآج مورخہ ٢٠ اکتوبر ٢٠١٣ کو بمقام پاک ٹی ہاؤس لاہور میں معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تعزیتی نشست کی صدارت کے فرائض محترم عاطف بٹ نے انجام دئے جبکہ اس نشست کے مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائے ہوئے بلاگر اور لکھاری سکندر حیات بابا تھے۔ دیگر بلاگرز میں لاہور کے ہر دلعزیز بلاگر ساجد نامہ کے محترم ساجد شیخ اور شیخو و پردیسی بلاگ کے بانی نجیب عالم نے شرکت کی ۔

IMG_6174 (Custom)

یاد رہے کہ معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کا ٢٢ اکتوبر ٢٠١٢ء بروز سوموار کو کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔اردو بلاگنگ میں ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی روح کے ایصال ثواب کے لئے آج مورخہ ٢٠ اکتوبر ٢٠١٣ کو بمقام پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر عنیقہ ناز کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور ڈاکٹر صاحبہ کے لئے دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

IMG_6175 (Custom)


ہفتہ، 12 اکتوبر، 2013

علماء سُو کے بعد شعراء سُو پر تحریر زنی

فیس بک کی شخصیت عبدالمختار صاحب کہتے ہیں کہ
"پاکستان" کا کوئی شاعر ،ادیب یا لکھاری۔۔۔غربت،بھوک،افلاس یا مہنگائی وغیرہ سےنہ مرا ہے اور نہ مرے گا !!
یہ ہہت ہی سخت جان مخلوق ہے.....!

ہم یہ کہتے ہیں کہ ،
آپ اگر نظر کا زاویہ تھوڑا وسیع کر لیں تو پوری دنیا میں آج تک کوئی بھی شاعر غربت ، بھوک و افلاس یا مہنگائی سے نہیں مرا ۔۔۔۔ البتہ شاعروں نے اپنے شعروں کے زریعہ سے آج تک لاکھوں انسانوں کو غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی سے ٹھکانے ضرور لگایا ہے ۔
اگر کوئی غلطی سے ساغر صدیقی جیسے اکا دکا عظیم شاعر کی مثال دینا چاہے تو اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے شاعر غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی وغیرہ سے نہیں بلکہ چرس ، گانجا ، افیون ، بھنگ ، شراب ، مارفین کے انجکشن ، ڈیزی پام کی گولیوں اور دیگر نشوں سے زندگی کی رعنائیوں کو سمییٹتے ہوئے اب اپنے مقبروں میں آرام فرما ہیں ۔

دیکھا جائے تو ویسے بھی ہمارے شعرا کرام نے عوام کی خدمت کی بجائے کنجر خانوں اور نگار خانوں کی خدمت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان کی خوبصورت اور دلفریب شاعری سے مزین کانوں میں رس گھولتے ہوئے گانوں نے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بوڑھوں کو بھی جہنم کا ایندھن بنا دیا ہے ۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہی عظیم شعرا کرام نے حسین زلفوں میں جوؤں کا ذکر کئے بغیر اپنے شعروں کی خوشبو سے ازہان کو معطر کر کے نوجوان نسل کو تعلیم سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ عاشقی کے گہرے سمندر میں پھینکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے



علماء سُو کے بعد شعراء سُو پر تحریر زنی

فیس بک کی معروف شخصیت عبدالمختار صاحب کہتے ہیں کہ
"پاکستان" کا کوئی شاعر ،ادیب یا لکھاری۔۔۔غربت،بھوک،افلاس یا مہنگائی وغیرہ سےنہ مرا ہے اور نہ مرے گا !!
یہ ہہت ہی سخت جان مخلوق ہے.....!

ہم یہ کہتے ہیں کہ ،
آپ اگر نظر کا زاویہ تھوڑا وسیع کر لیں تو پوری دنیا میں آج تک کوئی بھی شاعر غربت ، بھوک و افلاس یا مہنگائی سے نہیں مرا ۔۔۔۔ البتہ شاعروں نے اپنے شعروں کے زریعہ سے آج تک لاکھوں انسانوں کو غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی سے ٹھکانے ضرور لگایا ہے ۔
اگر کوئی غلطی سے ساغر صدیقی جیسے اکا دکا عظیم شاعر کی مثال دینا چاہے تو اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے شاعر غربت ، بھوک و افلاس اور مہنگائی وغیرہ سے نہیں بلکہ چرس ، گانجا ، افیون ، بھنگ ، شراب ، مارفین کے انجکشن ، ڈیزی پام کی گولیوں اور دیگر نشوں سے زندگی کی رعنائیوں کو سمییٹتے ہوئے اب اپنے مقبروں میں آرام فرما ہیں ۔

دیکھا جائے تو ویسے بھی ہمارے شعرا کرام نے عوام کی خدمت کی بجائے کنجر خانوں اور نگار خانوں کی خدمت کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان کی خوبصورت اور دلفریب شاعری سے مزین کانوں میں رس گھولتے ہوئے گانوں نے نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ بوڑھوں کو بھی جہنم کا ایندھن بنا دیا ہے ۔
اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہی عظیم شعرا کرام نے حسین زلفوں میں جوؤں کا ذکر کئے بغیر اپنے شعروں کی خوشبو سے ازہان کو معطر کر کے نوجوان نسل کو تعلیم سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ عاشقی کے گہرے سمندر میں پھینکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے



منگل، 8 اکتوبر، 2013

پیشانی پر رکھا پردیسی نام تبدیل کر دیا گیا

محترم قارئین کرام !!!! بلاگ کی پیشانی پر رکھا '' پردیسی بلاگ '' کا نام تبدیل کر کے پرانا نام '' شیخو بلاگ '' رکھ دیا گیا ہے ۔ اگر کسی صاحب کو پرانے نام سے کچھ لینا دینا ہو تو اسی نئے نام سے رابطہ کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے ۔۔۔


منگل، 17 ستمبر، 2013

میکرو ( مائکرو ) بلاگنگ کیا ہے ؟

keybord

جوں جوں ویب اپنا سفر طے کر رہی ہے ہر چیز میں جدت آتی جارہی ہے ۔کل کلاں کو لوگ صرف ویب پر تحریر پڑھا اور پھر لکھا کرتے تھے ، اس کے بعد تصویر کا سفر شروع ہوا ، پھر آڈیو یعنی صوتی سفر اور بعد آزاں ویڈیو نے آکر ویب کی دنیا میں چار چاند لگا دئے۔
اسی طرح آج کل بلاگنگ میں بھی جدت آتی جارہی ہے ۔سادہ بلاگنگ سے بلاگنگ پوڈ کاسٹنگ میں تبدیل ہوئی ۔۔۔ابھی ہمارے اردو بلاگر پوڈ کاسٹنگ کو ہی سمجھ نہیں پائے تھے کہ بلاگنگ نے میکرو ( مائکرو ) بلاگنگ کی جانب سفر شروع کیا ہوا ہے۔

میکرو ( مائکرو ) بلاگنگ کیا ہے ؟
میکرو بلاگنگ ( مائکرو بلاگنگ ) ‘‘ بلاگنگ کے ساتھ ساتھ اپنی پروفائل پر چھوٹے پیغامات شائع کرنے کا ایک مجموعہ ہے ۔ بالکل ٹیوٹر کی طرز کے پر چھوٹے پیغامات شائع کرنا ۔۔۔ جو کہ پوری دنیا میں کسی بھی موبائل فون پر بھی پڑھے جاسکیں ۔ایسے چھوٹے پیغامات جن سے پڑھنے والے پر پیغام کا مطلب واضح ہو سکے ۔ ان پیغامات میں تحریر ، لنک ، آڈیو اور ویڈیو پیغامات شامل ہوتے ہیں ۔
اصل میں میکرو بلاگنگ سے آپ کسی اکیلے آدمی ، گروپ یا عوام تک تیزی سے اپنا پیغام منتقل کر سکتے ہیں جو کہ عام بلاگنگ سے ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔

پچھلے سالوں میں بڑی حکومتوں نے خصوصاً عراق ، افغانستان ، مصر میں پیغام رسانی کے لئے بلاگنگ اور ٹیوٹر کو بڑے احسن طریقے سے استمال کیا ہے جس سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ اب میکرو بلاگنگ کی اہمیت اور افادیت دوسرے لوگوں اور حکومتوں کی نظروں میں بڑھتی جا رہی ہے ۔

اب ایک دو سوال میکرو بلاگنگ کے سلسلے میں
کیا ہم ورڈ پریس کے زریعہ سے میکرو بلاگنگ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں بالکل کر سکتے ہیں ۔۔۔ اس کے پلنگ ان آپ کو ورڈ پریس کی سائٹ سے مل جائیں گے
کیا ہم بلاگ سپاٹ بلاگنگ کے زریعہ سے میکرو بلاگنگ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں ممکن ہے ۔۔


ہفتہ، 14 ستمبر، 2013

بہن چود ۔۔۔۔۔ کتے کا بچہ

بہن چود اور کتے کا بچہ ۔۔۔ یہ دونوں گالیاں بڑی پیار بھری ہیں ۔۔۔ کون سا ایسا گھر ہوگا جہاں یہ پیار بھری گالیاں نہ نکالی جاتی ہوں ۔کسی گھر میں ایک خوبصورت سا بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اس کے منہہ سے ‘‘ بہن چود ‘‘ کی گالی کتنی خوبصورت لگتی ہے ۔۔ یہ وہی لوگ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں جو اس گالی کے مفہوم سے آشنا ہوتے ہوئے بھی انجان بنے رہنا چاہتے ہیں ۔

کتے کا بچہ ، حرامزادہ ، خنزیر ، دلا اور سور جیسی گالیاں ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔حتٰکہ کئی گھروں میں میں نے بذات خود ماں بہن کو گشتی یا گشتی کی بچی جیسے القاب سے بھی مستفید ہوتے سنا ہے اور کئی معزز گھروں میں کنجر یا کنجری کی گالی اتنی کثرت سے دی جاتی ہے کہ مانو لگتا ہے جیسے ان کا گھر ہیرا منڈی میں واقع ہو ۔

ہر زبان میں گالی کی ایک علیحدہ چبھن ہے مگر کہتے ہیں جو چبھن گالی کی پنجابی زبان میں ہے وہ کسی میں نہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گالی دینا بھی ایک فن ہے اور اس فن کو سیکھنے کے لئے بڑے بڑے ‘‘ گلیڑ استاد ‘‘ گالی نوازوں کی شاگردی حاصل کرنا پڑتی ہے ۔کہتے ہیں مقابلے میں ایک اچھے گلیڑ استاد کا سیکھا ہوا ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گالی نکالنے والا ) کبھی ایک نکالی گئی گالی دوسری بار نہیں نکالتا ۔اگر غلطی سے اس کی زبان سے ایک ہی گالی دوبار ادا ہوگئی تو اس کی دوبارہ ٹرینگ کے لئے اسے چھ ماہ ہیرا منڈی میں کسی کنجری کے کوٹھے پر گاہکوں کی چانپی کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے ۔

بہن چود ۔۔۔۔۔ کتے کا بچہ

بہن چود اور کتے کا بچہ ۔۔۔ یہ دونوں گالیاں بڑی پیار بھری ہیں ۔۔۔ کون سا ایسا گھر ہوگا جہاں یہ پیار بھری گالیاں نہ نکالی جاتی ہوں ۔کسی گھر میں ایک خوبصورت سا بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اس کے منہہ سے ‘‘ بہن چود ‘‘ کی گالی کتنی خوبصورت لگتی ہے ۔۔ یہ وہی لوگ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں جو اس گالی کے مفہوم سے آشنا ہوتے ہوئے بھی انجان بنے رہنا چاہتے ہیں ۔

کتے کا بچہ ، حرامزادہ ، خنزیر ، دلا اور سور جیسی گالیاں ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔حتٰکہ کئی گھروں میں میں نے بذات خود ماں بہن کو گشتی یا گشتی کی بچی جیسے القاب سے بھی مستفید ہوتے سنا ہے اور کئی معزز گھروں میں کنجر یا کنجری کی گالی اتنی کثرت سے دی جاتی ہے کہ مانو لگتا ہے جیسے ان کا گھر ہیرا منڈی میں واقع ہو ۔

ہر زبان میں گالی کی ایک علیحدہ چبھن ہے مگر کہتے ہیں جو چبھن گالی کی پنجابی زبان میں ہے وہ کسی میں نہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گالی دینا بھی ایک فن ہے اور اس فن کو سیکھنے کے لئے بڑے بڑے ‘‘ گلیڑ استاد ‘‘ گالی نوازوں کی شاگردی حاصل کرنا پڑتی ہے ۔کہتے ہیں مقابلے میں ایک اچھے گلیڑ استاد کا سیکھا ہوا ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گالی نکالنے والا ) کبھی ایک نکالی گئی گالی دوسری بار نہیں نکالتا ۔اگر غلطی سے اس کی زبان سے ایک ہی گالی دوبار ادا ہوگئی تو اس کی دوبارہ ٹرینگ کے لئے اسے چھ ماہ ہیرا منڈی میں کسی کنجری کے کوٹھے پر گاہکوں کی چانپی کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے ۔

پیر، 9 ستمبر، 2013

پاکستان کے مستقبل کا لیڈر

shahrukh-001مستقبل کے بارے میں صرف اللہ تعالی ہی جانتے ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقلِ سلیم سے بھی نوازا ہے اور پھر یہی انسان اس عقل سے بہت سے چھوٹے موٹے کام بھی لے لیتا ہے جیسا کہ حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھ کر آنے والے وقت کے بارے میں کوئی رائے دینا یا کہ اپنے چھوڑے ہوئے شتونگڑوں یا موکلوں سے کوئی جانکاری حاصل کر کے اس کا تجزیہ کرنا۔
ہم نے بھی سوچا کہ آج پھر ایک بار اپنی ناقص عقل کا سہارا اور اپنے شتونگڑوں اور موکلوں کی رائے کو سامنے رکھ کر ایک پشین گوئی عوام کے سامنے پھینک دینی چاہئے تاکہ وہ وقت آنے پر اپنے دانتوں میں اپنی یا کسی اور کی انگلیاں نہ چبائیں
اپنی تحریر کے نیچے ہم جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ جناب عزت ماٰب شاہ رخ جتوئی صاحب کی ہے ۔یہ محترم پاکستان کے مستقبل میں اہم وزرا میں شمار ہوں گے ۔

shahrukh-001

منگل، 16 جولائی، 2013

صرف پانچ منٹ میں اردو بلاگر بنئے

بہت عرصہ بعد میں اپنے دو بہترین دوستوں محترم عاطف بٹ اور محترم ساجد شیخ کی سفارش پر بلاگسپاٹ پر بالکل آسان انداز میں اردو میں بلاگ بنانے کا طریقہ بتا رہا ہوں ۔ مجھے امید ہے اس طریقے سے میرے جیسے بالکل کورے انسان بھی پانچ منٹ میں بلاگسپاٹ پر اپنا اردو کا بلاگ بنا کر اپنی تحریروں کے زریعہ سے ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے ۔

بلاگسپاٹ گوگل والوں کی بلاگنگ کی ایک مفت سروس ہے جس کے لئے گوگل کی دوسری مفت سروس کی طرح جی میل کا اکاؤنٹ ہونا ضروری ہے ۔اگر آپ کے پاس جی میل کا اکاؤنٹ بنا ہوا ہے تب تو صحیح ہے اگر نہیں تو سب سے پہلے آپ جی میل کا اکاؤنٹ بنا لیں ۔۔ جی میل کا اکاؤنٹ بنانے سے آپ کو گوگل کی تمام سروس تک رسائی ہو جائے گی اور آپ اسے اسی اکاؤنٹ سے استمال بھی کر پائیں گے ۔ جی میل اکاؤنٹ بنانے کے لئے آپ نیچے دئے گئے ایڈریس پر جائیں۔

gmail.com

جی میل کا اکاؤنٹ بنانے کے بعد آپ نیچے دئے گئے لنک کے زریعہ سے بلاگسپاٹ پر جائیں

http://www.blogger.com
یا
http://www.blogspot.com

اگر آپ جی میل سے لوگن نہیں تو آپ کے پاس یہ صفحہ کھلے گا ۔۔ دیکھیں تصویر ۔۔۔ تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-01

اور اگر آپ لوگن ہیں تو آپ کے پاس یہ پیج کھلے گا ۔۔ دیکھیں تصویر ۔۔۔ تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-02

آپ کے بائیں ہاتھ اوپر ‘‘ نیو بلاگ ‘‘ لکھا ہوا ہو گا ۔۔۔ اسے کلک کریں ۔۔
New blog

۔ ‘‘ نیو بلاگ ‘‘ کو کلک کرنے سے آپ کے پاس ایک صفحہ کھلے گا جس پر آپ نے اپنے بلاگ کا نام اور ایڈریس لکھنا ہے ۔ دیکھئے تصویر ۔۔۔۔۔تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-03

لیجئے جناب آپ بلاگر بن گئے ۔۔ اب آپ نے اسے اردو میں ڈھالنا ہے تو نیچے دئے گئے لنک پر جا کر اردو تھیم گیلری سے ہمارے محترم اردو بلاگر ساتھیوں کے بنائے ہوئے میں سے کوئی سا بھی اپنی پسند کا اردو تھیم اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کر کے اسے ان زپ کر لیں۔اس میں سے آپ کے پاس ایک ‘‘ ایکس ایم ایل ‘‘ فائل برامد ہوگی ۔۔۔۔ بس اسے اپ لوڈ کرنا ہے ۔۔۔۔

http://urdutheme.blogspot.com/
اردو تھیم گیلری میں آپ اگر اپنے بائیں ہاتھ دیکھیں تو
Blogger Urdu Theme
لکھا ہو گا اس کو کلک کر کے آپ بلاگر اردو ٹملیٹ ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ انشاللہ جلد ہی میں ادھر اپنے بلاگ پر بھی وہ سارے ٹمپلیٹ ار کچھ اپنے بنائے ہوئے ٹمپلیٹ بھی مہیا کردوں گا۔جس سے آپ کو اور آسانی ہوجائے گی

اگر آپ کو اردو تھیم گیلری میں مشکل پیش آئے تو آپ بلاگر ٹمپلیٹ ہمارے ڈراپ بکس سے ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

اگر آپ کو اردو تھیم کسی بھی لنک سے دستیاب نہ ہوں تو تو آپ بلاگر ٹمپلیٹ ہماری گوگل ڈرائیو سے ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں


بلاگ بنانے کے بعد آپ اپنے بلاگ کا اندرونی منظر کچھ ایسا دیکھیں گے ۔۔۔ دیکھیں تصویر ۔۔۔ جہاں تیر کا نشان ہے وہاں کلک کریں ۔۔۔۔۔تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-04

اب ٹمپلیٹ پر کلک کریں

blogger-05

ٹمپلیٹ کو کلک کرنے سے آپ کے پاس کچھ ایسا منظر ہو گا ۔۔۔ یہاں دائیں ہاتھ اوپر اگر آپ دیکھیں تو ‘‘ بیک اپ ، ری سٹور ‘‘ لکھا ہو گا ۔۔۔۔اس کو بے دھڑک ہو کر کلک کر دیں
Backup/Restore

دیکھیں تصویر ۔۔۔۔۔ ۔تصویر کو کلک کر کے بڑا کر لیں

blogger-06

اس کو کلک کرنے سے آپ کے پاس ایک صفحہ کھلے گا جس پر ‘‘ چوز فائل ‘‘ لکھا ہوگا ۔۔ اس کو کلک کر کے اپنے کمپیوٹر سے وہ ٹپلیٹ فائل جو آپ نے ڈاؤنلوڈ کر کے ان زپ کی تھی اسے اپ لوڈ کر دیں ۔۔۔

blogger-07


لیجئے جناب آپ اردو بلاگر بن گئے اب نیچے دی گئی تصویر کے مطابق ‘‘ نیو پوسٹ ‘‘ پر کلک کر کے جو جی چاہے لکھیں


blogger-08

ہفتہ، 6 جولائی، 2013

جہازوں کی دنیا سے ۔۔۔ کچھ شابو پہلوان کی باتیں

pomi1ہم ٢٠١٣ میں داخل ہو چکے ہیں مگر ہمارے پاکستان کے تقریباً ہر گلی محلے میں آپ کو آج بھی نشے کے عادی انسان کسی نالی میں گرے پڑے نظر آتے ہیں ۔آئیے آج ہم ایسے ہی ایک نشے کے عادی انسان سے باتیں کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں


pomi2


[audio: http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/07/pomi.mp3]


ایچ ٹی ایم ایل فائیو آڈیو پلئر




ہفتہ، 29 جون، 2013

لنگوٹ کے پکے اور گانٹھ کے پورے حافظ سے چند باتیں

hafiz-pic

لیجئے قارئین و سامعین کرام آج ہم ایک نوجوان حافظ صاحب سے ملتے ہیں ۔ حافظ صاحب ٢٤ سال کے نوجوان لڑکے ہیں ۔شریف انسان ہیں جس کی گواہی ان کے محلے کی لڑکیاں اور عورتیں ہمہ وقت دے سکتی ہیں ۔محلے کے لڑکوں سے میں ملا نہیں اس لئے اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔

لیجئے آڈیو پلئیر سے حافظ صاحب کی خوبصورت اور دور اندیش باتوں سے سبق حاصل کریں

بدھ، 26 جون، 2013

وڈے ( بڑے ) حکیم کا مختصر تعارف

لیجئے جناب آج ہم بڑے ( وڈے ) حکیمم صاحب کو اپنے بلاگ پر کھینچ لائے ہیں ۔آج صرف ان کی چند باتیں اور ان کی زبانی ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔وڈے حکیم صاحب ہر فن مولا ہیں ۔سادہ بندے ہیں ۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی خاک چھاننے کے بعد بھی ان سب سے بہتر اپنے ملک کو گروانتے ہیں اور اپنے ملک کے اندھیروں میں بیٹھ کر بھی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ آج صرف ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔ ان کی حکمت کی باتیں گاہے بگاہے آپ تک پہنچاتا رہوں گا

[audio:http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/06/hakeem-26-06-13-final.mp3]




وڈے ( بڑے ) حکیم کا مختصر تعارف

لیجئے جناب آج ہم بڑے ( وڈے ) حکیمم صاحب کو اپنے بلاگ پر کھینچ لائے ہیں ۔آج صرف ان کی چند باتیں اور ان کی زبانی ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔وڈے حکیم صاحب ہر فن مولا ہیں ۔سادہ بندے ہیں ۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی خاک چھاننے کے بعد بھی ان سب سے بہتر اپنے ملک کو گروانتے ہیں اور اپنے ملک کے اندھیروں میں بیٹھ کر بھی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ آج صرف ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔ ان کی حکمت کی باتیں گاہے بگاہے آپ تک پہنچاتا رہوں گا

اتوار، 23 جون، 2013

شہرِ خموشاں سے تازہ بہ تازہ

umer-farooq-01
ہفتہ بھر میں ایک بار میں ضرور اپنے ماں باپ کی قبر پر جاتا ہوں ۔۔ شاید دعائیں لینے ۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں اور اس پر میرا ایمان بھی ہے کہ مردے کبھی کچھ نہیں دے سکتے۔۔ کیونکہ جو خود کے لئے کچھ نہیں کر سکتے وہ دوسروں کو کیا دیں گے۔ بس مجھے اپنے ماں باپ سے انسیت ہے ، پیار ہے ۔۔ شاید اس لئے میں ان کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتا ۔قبرستان جانے کے لئے میں نے کوئی دن مخصوص نہیں کر رکھا اور نہ ہی میں قبروں یا مزاروں کا ماننے والا ہوں ۔۔۔ میں سیدھا اللہ سے مانگتا ہوں اور وہی میری مرادیں پورا کرتا ہے ۔

بات ہو رہی تھی قبرستان یعنی شہر خموشاں کی ۔۔۔ جہاں خموشی ہوتی ہے وہاں انسان ارادی یا غیر ارادی طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا ضرور ہے ۔اور اس سوچ میں کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے ۔اب آپ یہی دیکھیں بیت الخلا کی خاموشی میں بیٹھ کر بہت سے لوگ شاعر بن بیٹھے اور کچھ فلسفی ۔۔۔۔۔۔ ٹویٹر اور فیس بک اس کی زندہ مثال ہیں

ہمیں بھی کچھ نیا سوجھا ہے مگر ہمیں بیت الخلا کی خاموشی میں نہیں بلکہ قبرستان کی خموشی میں کچھ نیا سوجھا ہے ۔وہاں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اب بلاگنگ کو نیا رنگ دیا جائے یعنی تحریر کے ساتھ ساتھ اب آڈیو اور ویڈیو بلاگنگ کو پاکستان میں متعارف کروایا جائے تو اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ہم نے قبرستان کے گورکن کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا ہے جو کہ آپ کی نظر ۔۔۔انٹرویو دو حصوں پر محیط ہے پہلا حصہ تقریبا پندرہ منٹ اور دوسرا ڈیڑھ منٹ کا ہے ۔تو آئیے سنتے ہیں ۔۔۔


[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-001.mp3]


[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-002.mp3]


umer-farooq-02



شہرِ خموشاں سے تازہ بہ تازہ

umer-farooq-01
ہفتہ بھر میں ایک بار میں ضرور اپنے ماں باپ کی قبر پر جاتا ہوں ۔۔ شاید دعائیں لینے ۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں اور اس پر میرا ایمان بھی ہے کہ مردے کبھی کچھ نہیں دے سکتے۔۔ کیونکہ جو خود کے لئے کچھ نہیں کر سکتے وہ دوسروں کو کیا دیں گے۔ بس مجھے اپنے ماں باپ سے انسیت ہے ، پیار ہے ۔۔ شاید اس لئے میں ان کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتا ۔قبرستان جانے کے لئے میں نے کوئی دن مخصوص نہیں کر رکھا اور نہ ہی میں قبروں یا مزاروں کا ماننے والا ہوں ۔۔۔ میں سیدھا اللہ سے مانگتا ہوں اور وہی میری مرادیں پورا کرتا ہے ۔

بات ہو رہی تھی قبرستان یعنی شہر خموشاں کی ۔۔۔ جہاں خموشی ہوتی ہے وہاں انسان ارادی یا غیر ارادی طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا ضرور ہے ۔اور اس سوچ میں کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے ۔اب آپ یہی دیکھیں بیت الخلا کی خاموشی میں بیٹھ کر بہت سے لوگ شاعر بن بیٹھے اور کچھ فلسفی ۔۔۔۔۔۔ ٹویٹر اور فیس بک اس کی زندہ مثال ہیں

ہمیں بھی کچھ نیا سوجھا ہے مگر ہمیں بیت الخلا کی خاموشی میں نہیں بلکہ قبرستان کی خموشی میں کچھ نیا سوجھا ہے ۔وہاں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اب بلاگنگ کو نیا رنگ دیا جائے یعنی تحریر کے ساتھ ساتھ اب آڈیو اور ویڈیو بلاگنگ کو پاکستان میں متعارف کروایا جائے تو اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ہم نے قبرستان کے گورکن کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا ہے جو کہ آپ کی نظر ۔۔۔انٹرویو دو حصوں پر محیط ہے پہلا حصہ تقریبا پندرہ منٹ اور دوسرا ڈیڑھ منٹ کا ہے ۔تو آئیے سنتے ہیں ۔۔۔


پیر، 10 جون، 2013

اختیار کا ہونا بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو استمال کرنا بڑی بات ہے

اختیارات کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو دھڑلے سے استمال کرنا ایک بڑی بات اور فن ہے۔جس کا استمال تھوڑے دل کا، بزدل یا بیوقوف آدمی نہیں کر سکتا ۔اب یہی دیکھیں کہ اگر ایک چوڑا ( جمعدار ) جس کے پاس لیٹرین کے اندر داخل کرنے کا اختیار ہے اگر وہ اپنے اختیار کو سمجھتے ہوئے اسے استمال کرنے کا فن جانتا ہوگا تو وہ ایک صدر کو اپنی لیٹرین کے باہر تب تک روک کر رکھ سکتا ہے جب تک اس کا پاخانہ نہ نکل جائے ۔

قانون کیا کہتا ہے یا قوانین کیا ہیں ۔ آپ اپنے عہدے کے ساتھ اپنے اختیارات قوانین کے دائیرے میں رہ کر کیسے استمال کرنے ہیں یہ ایک فن ہے ۔ ویسے بھی اختیارات کے ہوتے ہوئے اختیارات کا صحیح طریقے سے استمال کرنا خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے ۔

میاں محمد اظہر گورنر تھا ۔۔۔منظور وٹو وزیراعلیٰ تھا ۔۔۔اختیارات کے استمال کا فن منظور وٹو کو تھا ۔۔۔ میاں اظہر ماں کی خدمت کرنے گھر چلا گیا ۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھا ۔۔۔ پرویز مشرف جنرل تھا ۔۔۔ اختیارات کے استمال کا فن مشرف کو تھا ۔۔۔ میاں صاحب اللہ کے گھر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔۔ زرداری صدر مملکت ۔۔۔ پانچ سال سب کو تگنی کا ناچ نچا دیا ۔۔۔ آج بھی صدر ہے

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔ رحمان ملک وزیر داخلہ ۔۔۔ ایسا وزیر داخہ جس کا پورے ملک پر راج ۔۔۔ جو کہتا تھا کردیتا تھا ۔۔۔ جھوٹ کو سچ پر منوانے کا فن بھی جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی پنجاب میں حکومت تھی ۔۔۔۔ کچھ نہ بگاڑ سکے۔

اور اب مسلم لیگ نون کی اختیارات والی حکومت ۔۔۔ دس دن ہونے کو ہیں ۔۔۔ تمام ٹولہ پیپلز پارٹی کا موجود ۔۔۔۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔۔۔ اختیارات استمال کرنے کا سلیقہ ہی نہیں ۔۔۔ ڈاکو لٹیرے اپنی سیٹوں پر جوں کے توں براجمان ۔۔۔ملک ابھی تک اندھیرے میں

اور آج صدر زرداری نے دھڑلے سے اسمبلی میں اپنے سامنے بے نظیر کی تصویر رکھ کر اسمبلی میں خطاب کیا ۔۔۔ کسی مسلم لیگی کی ہمت تک نہ ہوئی کہ وہ اٹھ کر کہہ سکے کہ یہ پیپلز پارٹی کی اسمبلی نہیں ہے اور نہ ہی تمہارے باپ کی جاگیر ۔۔۔ حتکہ سپیکر صاحب کو اپنے اختیارات تک کا نہیں پتہ کہ وہ صدر کو منع کرسکتا تھا کہ یہاں اسمبلی میں تصویر صرف قائد اعظم کی لگے گی۔۔بے نظیر کی نہیں ۔۔۔۔۔

واہ رے مسلم لیگ تیری حکومت
ملک ابھی تک اندھیرے میں ہے

اٹھو مسلم لیگی حکمرانوں ۔۔۔اگر بچنا ہے تو ۔۔۔۔۔ روشن پاکستان بنانا ہے تو ۔۔۔۔۔ کرو اپنے اختیارات کا استمال ۔۔۔۔ چوروں ڈاکؤں لٹیروں کو کھڈے لائن لگا دو





اختیار کا ہونا بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو استمال کرنا بڑی بات ہے

اختیارات کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو دھڑلے سے استمال کرنا ایک بڑی بات اور فن ہے۔جس کا استمال تھوڑے دل کا، بزدل یا بیوقوف آدمی نہیں کر سکتا ۔اب یہی دیکھیں کہ اگر ایک چوڑا ( جمعدار ) جس کے پاس لیٹرین کے اندر داخل کرنے کا اختیار ہے اگر وہ اپنے اختیار کو سمجھتے ہوئے اسے استمال کرنے کا فن جانتا ہوگا تو وہ ایک صدر کو اپنی لیٹرین کے باہر تب تک روک کر رکھ سکتا ہے جب تک اس کا پاخانہ نہ نکل جائے ۔

قانون کیا کہتا ہے یا قوانین کیا ہیں ۔ آپ اپنے عہدے کے ساتھ اپنے اختیارات قوانین کے دائیرے میں رہ کر کیسے استمال کرنے ہیں یہ ایک فن ہے ۔ ویسے بھی اختیارات کے ہوتے ہوئے اختیارات کا صحیح طریقے سے استمال کرنا خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے ۔

میاں محمد اظہر گورنر تھا ۔۔۔منظور وٹو وزیراعلیٰ تھا ۔۔۔اختیارات کے استمال کا فن منظور وٹو کو تھا ۔۔۔ میاں اظہر ماں کی خدمت کرنے گھر چلا گیا ۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھا ۔۔۔ پرویز مشرف جنرل تھا ۔۔۔ اختیارات کے استمال کا فن مشرف کو تھا ۔۔۔ میاں صاحب اللہ کے گھر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔۔ زرداری صدر مملکت ۔۔۔ پانچ سال سب کو تگنی کا ناچ نچا دیا ۔۔۔ آج بھی صدر ہے

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔ رحمان ملک وزیر داخلہ ۔۔۔ ایسا وزیر داخہ جس کا پورے ملک پر راج ۔۔۔ جو کہتا تھا کردیتا تھا ۔۔۔ جھوٹ کو سچ پر منوانے کا فن بھی جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی پنجاب میں حکومت تھی ۔۔۔۔ کچھ نہ بگاڑ سکے۔

اور اب مسلم لیگ نون کی اختیارات والی حکومت ۔۔۔ دس دن ہونے کو ہیں ۔۔۔ تمام ٹولہ پیپلز پارٹی کا موجود ۔۔۔۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔۔۔ اختیارات استمال کرنے کا سلیقہ ہی نہیں ۔۔۔ ڈاکو لٹیرے اپنی سیٹوں پر جوں کے توں براجمان ۔۔۔ملک ابھی تک اندھیرے میں

اور آج صدر زرداری نے دھڑلے سے اسمبلی میں اپنے سامنے بے نظیر کی تصویر رکھ کر اسمبلی میں خطاب کیا ۔۔۔ کسی مسلم لیگی کی ہمت تک نہ ہوئی کہ وہ اٹھ کر کہہ سکے کہ یہ پیپلز پارٹی کی اسمبلی نہیں ہے اور نہ ہی تمہارے باپ کی جاگیر ۔۔۔ حتکہ سپیکر صاحب کو اپنے اختیارات تک کا نہیں پتہ کہ وہ صدر کو منع کرسکتا تھا کہ یہاں اسمبلی میں تصویر صرف قائد اعظم کی لگے گی۔۔بے نظیر کی نہیں ۔۔۔۔۔

واہ رے مسلم لیگ تیری حکومت
ملک ابھی تک اندھیرے میں ہے

اٹھو مسلم لیگی حکمرانوں ۔۔۔اگر بچنا ہے تو ۔۔۔۔۔ روشن پاکستان بنانا ہے تو ۔۔۔۔۔ کرو اپنے اختیارات کا استمال ۔۔۔۔ چوروں ڈاکؤں لٹیروں کو کھڈے لائن لگا دو

پیر، 3 جون، 2013

لوڈ شیڈنگ کم ہونے جارہی ہے ۔۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

سخت گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے گھٹا ٹوپ اندھرے میں ہمارے موکلوں نے دعوٰی کیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے حلف اٹھانے کے ایک ہفتہ بعد ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔موکلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین ماہ سے چھ ماہ میں پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا روزانہ کا دورانیہ ٥ سے ٦ گھنٹے رہ جائے گا۔ انڈسٹری ایریا میں صرف ٣ گھنٹے روزانہ لوڈ شیڈنگ ہوا کرے گی ۔



لوڈ شیڈنگ کم ہونے جارہی ہے ۔۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

سخت گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے گھٹا ٹوپ اندھرے میں ہمارے موکلوں نے دعوٰی کیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے حلف اٹھانے کے ایک ہفتہ بعد ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔موکلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین ماہ سے چھ ماہ میں پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا روزانہ کا دورانیہ ٥ سے ٦ گھنٹے رہ جائے گا۔ انڈسٹری ایریا میں صرف ٣ گھنٹے روزانہ لوڈ شیڈنگ ہوا کرے گی ۔

بدھ، 29 مئی، 2013

بندر اور انسان میں فرق

بندر اور انسان میں خاصا فرق ہے ، ہاں بندر اور بلبل میں کوئی خاص فرق نہیں ہے وہ اس لئے کہ دونوں پیچھے سے لال ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
رہی بات بندر اور انسان کے خاندانی پس منظر کی تو ان میں کوئی خاصا فرق نہیں ہے ان دونوں کا خاندانی پس منظر کتے کی ایک خاص نسل بگھیاڑ سے جا ملتا ہے۔جو وقت آنے پر ایک دوسرے کو بھی چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں




بندر اور انسان میں فرق

بندر اور انسان میں خاصا فرق ہے ، ہاں بندر اور بلبل میں کوئی خاص فرق نہیں ہے وہ اس لئے کہ دونوں پیچھے سے لال ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
رہی بات بندر اور انسان کے خاندانی پس منظر کی تو ان میں کوئی خاصا فرق نہیں ہے ان دونوں کا خاندانی پس منظر کتے کی ایک خاص نسل بگھیاڑ سے جا ملتا ہے۔جو وقت آنے پر ایک دوسرے کو بھی چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں

اتوار، 26 مئی، 2013

اردو بلاگرز اور اردو محفل کے دوستوں کے ساتھ ایک شام

تقریباً ایک ہفتہ قبل فیس بک پر انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) نے میرا دروازہ کھٹکایا اور کہا کہ بھائی آپ ابھی تک سوئے پڑے ہیں کیا کوئی لاہور میں ہلاگلا کرنے کا ارادہ بھی ہے یا کہ نہیں ۔۔۔ ہم نے بھی ایک آنکھ کھول کر پہلے انکل ٹام کو دیکھا پھر سوچا کہ کہیں یہ ٹام اینڈ جیری والے ٹام نہ ہوں اس لئے دوسری آنکھ کھول کر ہم نے فوراً کہا کہ کیوں نہیں جب کہیں بنا لیتے ہیں پروگرام ۔۔۔۔۔۔ ہم نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کو اگلے ہی ہفتہ میں یعنی گذشتہ روز چھبیس مئی دوہزار تیرہ بروز اتوار شام چھ بجے کا کہہ دیا ۔

گذشتہ روز سخت گرمی میں ایک خوبصورت شام تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ ہم پونے چھ بجے ہی پاک ٹی باؤس جاکر بیٹھ گئے اور لگے بھائی لوگوں کا انتظار کرنے ۔سب سے پہلے محفل کے ہمارے خوبصورت اور دبنگ دوست بابا جی سرکار تشریف لائے ۔پھر اپنے ساجد بھائی اپنے دو عدد مہمانوں کے ساتھ تشریف لائے ۔جن میں سے ایک گلگت کے معروف صحافی تھے اور ایک لاہور کے معروف لکھاری ۔۔۔ بعد ازاں انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) محمد عبداللہ اپنے ایک کزن کے ساتھ تشریف لائے ان کے ساتھ ساتھ حجاب شب ، عاطف بٹ صاحب ، سبہانی صاحب اور دیگر دوست بھی تشریف لے آئے ۔

چائے کا دور شروع ہوا ۔۔سب کو پوچھنے کے بعد میں نے خصوصی طور پر ارسلان شکیل سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے ۔۔ارسلان کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کھانا بلکہ وہ ہمارے سب کے لئے ٹورنٹو ( کینڈا) سے پیزا بنوا کر لائے ہیں۔میرے سمیت سب بڑے حیران ہوئے ۔۔ کیونکہ ہمیں بلکل بھی نہیں پتہ تھا کہ انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں ۔ارسلان شکیل کا کہنا تھا کہ میں دو دن سے بالکل بھی نہیں سویا ہوں اور اس وقت مجھے کولڈ کافی کی طلب ہو رہی ہے ۔۔۔ اب ہم جہاں بیٹھے تھے وہاں کولڈ کافی تو ملنی مشکل تھی اس لئے انہیں معذرت کے ساتھ جوس پیش کیا گیا ۔اور ہم سب نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کے والد صاحب کا خصوصی طور پر بنایا گیا ایک انتہائی لذیز پیزا چائے کے ساتھ نوش کیا۔ اور ساتھ اللہ کی قدرت کی تعریف کی کہ کس پانی ، اجزا اور کہاں اور کس کے ہاتھ کا بنا ہوا پیزا کس جگہ اور کون لوگ کھا رہے ہیں ۔۔۔ یعنی دانے دانے پر مہر ہوتی ہے ۔۔۔کوئی کسی کا لقمہ نہ تو چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا لقمہ کھا سکتا ہے ۔۔جب تک پروردگار نہ چاہے ۔

چائے کے دوران اور چائے کے بعد معلوماتی باتیں اور گپ شپ ہوتی رہی ۔ محمد عبداللہ ذرا تھوڑے کم گو تھے اس لئے انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں مگر سب کی باتوں میں سے تجربے کی باتیں اپنی پٹاری میں جمع کرتے رہے ۔عاطف بٹ ، ساجد ، بابا جی اور ہمارے درمیان حسب معمول جگت بازی ، چٹکلے اور شرارتیں چلتی رہیں ۔ آخر کار نو بجے کے قریب یہ خوبصورت شام اختتام پذیر ہوئی ۔

[gallery ids="994,995,996,997,998,999,1000,1001,1002,1003,1004,1005,1006,1007,1008,1009,1010,1011,1012,1013,1014,1015,1016,1017,1018,1019,1020,1021,1022,1023,1024,1025,1026,1027,1028,1029,1030,1031,1032,1033,1034,1035,1036,1037,1038,1039,1040,1041,1042,1043,1044,1045,1046,1047,1048,1049,1050,1051,1052,1053,1054,1055,1056,1057,1058,1059,1060,1061,1062,1063,1064"]



اردو بلاگرز اور اردو محفل کے دوستوں کے ساتھ ایک شام

تقریباً ایک ہفتہ قبل فیس بک پر انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) نے میرا دروازہ کھٹکایا اور کہا کہ بھائی آپ ابھی تک سوئے پڑے ہیں کیا کوئی لاہور میں ہلاگلا کرنے کا ارادہ بھی ہے یا کہ نہیں ۔۔۔ ہم نے بھی ایک آنکھ کھول کر پہلے انکل ٹام کو دیکھا پھر سوچا کہ کہیں یہ ٹام اینڈ جیری والے ٹام نہ ہوں اس لئے دوسری آنکھ کھول کر ہم نے فوراً کہا کہ کیوں نہیں جب کہیں بنا لیتے ہیں پروگرام ۔۔۔۔۔۔ ہم نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کو اگلے ہی ہفتہ میں یعنی گذشتہ روز چھبیس مئی دوہزار تیرہ بروز اتوار شام چھ بجے کا کہہ دیا ۔

گذشتہ روز سخت گرمی میں ایک خوبصورت شام تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ ہم پونے چھ بجے ہی پاک ٹی باؤس جاکر بیٹھ گئے اور لگے بھائی لوگوں کا انتظار کرنے ۔سب سے پہلے محفل کے ہمارے خوبصورت اور دبنگ دوست بابا جی سرکار تشریف لائے ۔پھر اپنے ساجد بھائی اپنے دو عدد مہمانوں کے ساتھ تشریف لائے ۔جن میں سے ایک گلگت کے معروف صحافی تھے اور ایک لاہور کے معروف لکھاری ۔۔۔ بعد ازاں انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) محمد عبداللہ اپنے ایک کزن کے ساتھ تشریف لائے ان کے ساتھ ساتھ حجاب شب ، عاطف بٹ صاحب ، سبہانی صاحب اور دیگر دوست بھی تشریف لے آئے ۔

چائے کا دور شروع ہوا ۔۔سب کو پوچھنے کے بعد میں نے خصوصی طور پر ارسلان شکیل سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے ۔۔ارسلان کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کھانا بلکہ وہ ہمارے سب کے لئے ٹورنٹو ( کینڈا) سے پیزا بنوا کر لائے ہیں۔میرے سمیت سب بڑے حیران ہوئے ۔۔ کیونکہ ہمیں بلکل بھی نہیں پتہ تھا کہ انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں ۔ارسلان شکیل کا کہنا تھا کہ میں دو دن سے بالکل بھی نہیں سویا ہوں اور اس وقت مجھے کولڈ کافی کی طلب ہو رہی ہے ۔۔۔ اب ہم جہاں بیٹھے تھے وہاں کولڈ کافی تو ملنی مشکل تھی اس لئے انہیں معذرت کے ساتھ جوس پیش کیا گیا ۔اور ہم سب نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کے والد صاحب کا خصوصی طور پر بنایا گیا ایک انتہائی لذیز پیزا چائے کے ساتھ نوش کیا۔ اور ساتھ اللہ کی قدرت کی تعریف کی کہ کس پانی ، اجزا اور کہاں اور کس کے ہاتھ کا بنا ہوا پیزا کس جگہ اور کون لوگ کھا رہے ہیں ۔۔۔ یعنی دانے دانے پر مہر ہوتی ہے ۔۔۔کوئی کسی کا لقمہ نہ تو چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا لقمہ کھا سکتا ہے ۔۔جب تک پروردگار نہ چاہے ۔

چائے کے دوران اور چائے کے بعد معلوماتی باتیں اور گپ شپ ہوتی رہی ۔ محمد عبداللہ ذرا تھوڑے کم گو تھے اس لئے انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں مگر سب کی باتوں میں سے تجربے کی باتیں اپنی پٹاری میں جمع کرتے رہے ۔عاطف بٹ ، ساجد ، بابا جی اور ہمارے درمیان حسب معمول جگت بازی ، چٹکلے اور شرارتیں چلتی رہیں ۔ آخر کار نو بجے کے قریب یہ خوبصورت شام اختتام پذیر ہوئی ۔

[gallery ids="994,995,996,997,998,999,1000,1001,1002,1003,1004,1005,1006,1007,1008,1009,1010,1011,1012,1013,1014,1015,1016,1017,1018,1019,1020,1021,1022,1023,1024,1025,1026,1027,1028,1029,1030,1031,1032,1033,1034,1035,1036,1037,1038,1039,1040,1041,1042,1043,1044,1045,1046,1047,1048,1049,1050,1051,1052,1053,1054,1055,1056,1057,1058,1059,1060,1061,1062,1063,1064"]

اردو محفل میں عسکری کے ساتھ گزارے چند لمحات

عسکری ( عمران ) ایک محنتی ، خوبصورت اور باعمل انسان ۔۔ میری اس سے کبھی ذاتی ملاقات نہیں ہوئی ، ذاتی ملاقات تو دور کی بات ٹھرتی ہے میری تو اس سے کبھی میل کے زریعہ سے بھی ملاقات نہیں ہوئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو دل کو بھاتے ہیں تو بس عسکری ایسا ہی ایک انسان ہے ۔تھوڑا ضدی ہے مگر دل کا انتہائی نرم ۔۔۔ سوچتا خود ہی ہے اور اسی سوچ پر سب کو پرکھتا ہے ۔اپنی سوچ کے بارے میں کسی سے مشورہ لینے سے اسے جھجھک محسوس ہوتی ہے ۔۔
بہت سی چیزوں سے متنفر ہے ۔ خود کو تکلیف دینے میں شاید اسے مزا آتا ہے ۔۔ ویسے بھی اکیلا پن تکلیف دہ ہی ہوتا ہے
محبت کا بھوکا ہے ۔۔۔ میں نے کہا تھا جاؤ ماں کی دعائیں اور پیار لے لو ۔۔۔ مگر شاید اسے وقت ہی نہیں ملا ۔۔۔ اگر وہ ماں کو فون ہی کر لیتا تو شاید اسے سکون آجاتا۔
اب مجھ سے متنفر ہے ۔۔۔ ۔۔۔
سوچتا ہوں محفل کو چھوڑنے سے قبل مجھے اسے بتانا ضرور چاہئے تھا



اردو محفل میں عسکری کے ساتھ گزارے چند لمحات

عسکری ( عمران ) ایک محنتی ، خوبصورت اور باعمل انسان ۔۔ میری اس سے کبھی ذاتی ملاقات نہیں ہوئی ، ذاتی ملاقات تو دور کی بات ٹھرتی ہے میری تو اس سے کبھی میل کے زریعہ سے بھی ملاقات نہیں ہوئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو دل کو بھاتے ہیں تو بس عسکری ایسا ہی ایک انسان ہے ۔تھوڑا ضدی ہے مگر دل کا انتہائی نرم ۔۔۔ سوچتا خود ہی ہے اور اسی سوچ پر سب کو پرکھتا ہے ۔اپنی سوچ کے بارے میں کسی سے مشورہ لینے سے اسے جھجھک محسوس ہوتی ہے ۔۔
بہت سی چیزوں سے متنفر ہے ۔ خود کو تکلیف دینے میں شاید اسے مزا آتا ہے ۔۔ ویسے بھی اکیلا پن تکلیف دہ ہی ہوتا ہے
محبت کا بھوکا ہے ۔۔۔ میں نے کہا تھا جاؤ ماں کی دعائیں اور پیار لے لو ۔۔۔ مگر شاید اسے وقت ہی نہیں ملا ۔۔۔ اگر وہ ماں کو فون ہی کر لیتا تو شاید اسے سکون آجاتا۔
اب مجھ سے متنفر ہے ۔۔۔ ۔۔۔
سوچتا ہوں محفل کو چھوڑنے سے قبل مجھے اسے بتانا ضرور چاہئے تھا

جمعہ، 10 مئی، 2013

اس دفعہ حکومت مسلم لیگ نواز کی ہو گی ۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

پاکستان میں قومی الیکشن 2013 کی پولنگ شروع ہونے میں پانچ گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ایسے میں ہمارے موکلوں نے آخری پیشگوئی کر دی ہے ۔ موکلوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون 120 سے زائد سیٹیں لے کر ہمدردوں کے ساتھ حکومت بنائے گی ۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں ہمارے موکلوں کا کہنا تھا کہ اسے 20 سے 25 سیٹیں مل سکتی ہیں ۔۔۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں ہمارے موکلوں نے 40 سے 50 سیٹیوں کی پیشگوئی کی ہے

ہم نے موکلوں کے روحانی پیشوا بابے عیدو سے جب موکلوں کی اس پیشگوئی بارے رائے پوچھی تو وہ گم سم سے نظر آئے ۔ ان کا بس یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے رائے محفوظ رکھتے ہیں



اس دفعہ حکومت مسلم لیگ نواز کی ہو گی ۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

پاکستان میں قومی الیکشن 2013 کی پولنگ شروع ہونے میں پانچ گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ایسے میں ہمارے موکلوں نے آخری پیشگوئی کر دی ہے ۔ موکلوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون 120 سے زائد سیٹیں لے کر ہمدردوں کے ساتھ حکومت بنائے گی ۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں ہمارے موکلوں کا کہنا تھا کہ اسے 20 سے 25 سیٹیں مل سکتی ہیں ۔۔۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں ہمارے موکلوں نے 40 سے 50 سیٹیوں کی پیشگوئی کی ہے

ہم نے موکلوں کے روحانی پیشوا بابے عیدو سے جب موکلوں کی اس پیشگوئی بارے رائے پوچھی تو وہ گم سم سے نظر آئے ۔ ان کا بس یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے رائے محفوظ رکھتے ہیں

ہفتہ، 4 مئی، 2013

مزاح اور پھکڑ پن میں فرق

مزاح اور پھکڑ پن میں صرف ایک چھوٹی سی لکیر کا فرق ہے۔۔۔اور وہ ہے سمجھنے کی لکیر ۔۔۔ کچھ لوگ پھکڑ پن کو اصلی مزاح کا درجہ دیتے ہیں ۔۔ان کا کہنا یہ ہے کہ پھکڑپن ہو گا تو مزاح ہو گا۔۔اگر پھکڑ پن نہیں ہو گا تو وہ تحریر اپنا سنجیدہ مزاج لئے ہوئے ہوگی۔

اب یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ اصل میں پھکڑ پن کا مطلب کیا ہے ؟

کچھ پھکڑ پن کو بیوقوفانہ انداز ،زبان قرار دیتے ہیں ، کچھ چَول مارنا کہتے ہیں،کچھ بدتمیز اور کچھ بدتہذیب انداز بیاں بھی قرار دیتے ہیں۔۔ایسا بدتہذیبانہ انداز جس میں دوسرے کی عزم وتکریم کا خیال نہ رکھا گیا ہو
اب سوال یہ ہے کہ میرے نزدیک پھکڑ پن کیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ صرف ایک علاقائی لفظ ہے جو خود ساختہ بنایا ہوا ہے ۔۔۔مزاح اور پھکڑ پن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔مزاح ایک لطیف سا عنصر ہے جو دوسروں کو مسرت کے چند لمحات مہیا کرتا ہے۔اور مزاح کو کسی اور کے ساتھ تشبیح دی ہی نہیں جا سکتی



مزاح اور پھکڑ پن میں فرق

مزاح اور پھکڑ پن میں صرف ایک چھوٹی سی لکیر کا فرق ہے۔۔۔اور وہ ہے سمجھنے کی لکیر ۔۔۔ کچھ لوگ پھکڑ پن کو اصلی مزاح کا درجہ دیتے ہیں ۔۔ان کا کہنا یہ ہے کہ پھکڑپن ہو گا تو مزاح ہو گا۔۔اگر پھکڑ پن نہیں ہو گا تو وہ تحریر اپنا سنجیدہ مزاج لئے ہوئے ہوگی۔

اب یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ اصل میں پھکڑ پن کا مطلب کیا ہے ؟

کچھ پھکڑ پن کو بیوقوفانہ انداز ،زبان قرار دیتے ہیں ، کچھ چَول مارنا کہتے ہیں،کچھ بدتمیز اور کچھ بدتہذیب انداز بیاں بھی قرار دیتے ہیں۔۔ایسا بدتہذیبانہ انداز جس میں دوسرے کی عزم وتکریم کا خیال نہ رکھا گیا ہو
اب سوال یہ ہے کہ میرے نزدیک پھکڑ پن کیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ صرف ایک علاقائی لفظ ہے جو خود ساختہ بنایا ہوا ہے ۔۔۔مزاح اور پھکڑ پن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔مزاح ایک لطیف سا عنصر ہے جو دوسروں کو مسرت کے چند لمحات مہیا کرتا ہے۔اور مزاح کو کسی اور کے ساتھ تشبیح دی ہی نہیں جا سکتی

بدھ، 1 مئی، 2013

دن رہ گئے ہیں تھوڑے اب

دن رہ گئے ہیں تھوڑے اب
نواز نے کہا عمران نے تصدیق کی
بات مانو اپنے اپنے لیڈر کی
١١ مئی کو بھولنا نہیں
مہر شیر پر لگانی ہے
مہر شیر پر لگانی ہے

im-011



دن رہ گئے ہیں تھوڑے اب

دن رہ گئے ہیں تھوڑے اب
نواز نے کہا عمران نے تصدیق کی
بات مانو اپنے اپنے لیڈر کی
١١ مئی کو بھولنا نہیں
مہر شیر پر لگانی ہے
مہر شیر پر لگانی ہے

im-011

منگل، 30 اپریل، 2013

شیر عمران خان کے حواس پر چھا گیا

شیر عمران خان کے حواس پر چھا گیا
گیارہ مئی کو شیر پر مہر لگائیں
عمران خان کا قوم کے نام پیغام
اب سوچیں
حواس باختہ لیڈر پاکستان کا کیا حال کرے گا
اور پھر
بلے سے شیر کا شکار
کون نہ مر جائے اس سادگی پہ اے خدا
واہ عمران خان واہ

im-010


پیر، 29 اپریل، 2013

مشرف اور زرداری کے جانشین

مشرف اور زرداری کے جانشین
عمران بھی مشرف کی طرح مکہ دکھانے اور لہرانے پر آگئے
واہ عمران خان واہ
کیا یہی مکے اب یوتھ کے منہہ پہ مارو گے
خدارا رحم کرو پاکستان اور پاکستانیوں پر
بہت ظلم سہہ لئے ہم نے
اب ہم کسی نئے زرداری کے متحمل نہیں ہو سکتے


im-009



ہفتہ، 27 اپریل، 2013

اردو بلاگرز اور محفلین کا جوڑ

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں آج مورخہ 27 اپریل 2013 بروز ہفتہ اردو بلاگرز اور محفلین کی گیٹ ٹو گیدر میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جاپان سے آئے ہوئے پرانے اور منجھے ہوئے اردو بلاگر خاور کھوکھر نے کی ۔دیگر اردو بلاگرز اور محفلین میں سے زوہیر چوہان ، ساجد ، فراز ( باباجی ) ، عاطف بٹ ، نیر احمد اور پردیسی ( نجیب عالم ) شامل تھے ۔مہمانان ِ گرامی جو پاک ٹی ہاؤس سے شامل ہوئے ان میں ‘‘ دی ورلڈ یوتھ ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹر اور ان کے خوبصورت دوست و احباب اور سٹاف شامل تھا ۔

[gallery ids="923,924,925,926,927,928,929,930,931,932,933,934,935,936,937,938,939,940,941,942,943,944,945,946,947,948,949,950,951,952,953,954,955,956,957,958,959,960,961,962,963,964,965,966"]



زرداری ، قاف لیگ اور عمران خان کا خفیہ اتحاد منظر عام پر آ گیا

im-002
زرداری ، قاف لیگ اور عمران خان کا خفیہ اتحاد منظر عام پر آ گیا
جہاں ہمارے امیدوار نہ ہوں وہاں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا جائے
چھوٹے قافیے ( مونس الہی ) کا بیان
بچے کچھے پاکستان کو لوٹنے کی تیاریاں
واہ عمران خان واہ
واہ رے تیرا نیا پاکستان



آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا

im-004
آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا
آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے ملک کو پتھر کے دور میں پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا
آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے غریبوں سے اس کی دال روٹی بھی چھین لی
آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا
آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے دہشت گردی کو عام کیا
آصف زرداری کو سلام ۔۔۔ جس نے بی بی کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھا کر برباد کیا
اور اب
عمران خان کو سلام ۔۔۔ جو زرداری کے ساتھ مل کر نئے انداز سے عوام کو بیوقوف بنا کر رہے سہے ملک کا بیڑا غرق کرنے پر تلا بیٹھا ہے
زندہ باد عمران خان زندہ باد
عوام اب تھک چکے خدارا عوام کو اب نیلے پیلے باغ نہ دکھاؤ


نیا پاکستان بنائیں گے

im-001
نیا پاکستان بنائیں گے
اس پاکستان کا کیا ہوگا؟
کیا یہاں لوگ یونہی بھوکے مریں گے
کیا یہاں لوگ یونہی خود کشیاں کریں گے
کیا یہاں اندھیرے یونہی رہیں گے
واہ عمران خان صاحب واہ
نیا پاکستان بنانے چلیں ہیں
پہلے اس پاکستان کو تو سنوار لیں
ہمیں نعرے یا بڑکیں نہیں ۔۔۔ عمل چاہئے


میں لندن جاؤں گا ۔۔۔

im-003
میں لندن جاؤں گا ۔۔۔
الطاف حسین کی ایسی تیسی کردوں گا
اس کے بعد کیا ہوا ۔۔۔ مکمل خاموشی
کراچی کے حالات پر پچھلے تین سال سے مکمل خاموشی
واہ عمران خان واہ
آپ نے تو عوام سے سچ کا وعدہ کیا تھا
پھر یہ فراڈ کیوں
کیا پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا ایجینڈا ایک تو نہیں ؟



پانچ سال تک عوام مہنگائی ، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل جھیل کر چانگریں مارتے رہے

im-005
پانچ سال تک عوام مہنگائی ، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل جھیل کر چانگریں مارتے رہے
مگر عمران مسیحا بن کرعوام کے لئے باہر نہ نکلا
اب پی پی پی کے لٹیروں کے ساتھ مل کر عوام کو دھوکہ دینے چلا ہے
جیو عمران ۔۔۔ اگلے پانچ سال تک عوام کا بیڑا غرق کرنے کے لئے جیو
زرداری کی بی ٹیم زندہ باد



بدھ، 3 اپریل، 2013

بڑا بولتے تھے صحافی

ایک اٹھ کے کہتا تھا ۔۔۔ سیاستدان ڈاکو ہیں ۔۔۔ دوسرا اٹھ کے آواز لگاتا تھا ۔۔۔ سیاستدان لٹیرے ہیں ۔۔ تیسرے کی نشے سے آنکھ کھلتی تھی ۔۔ بولتا تھا ۔۔۔ چور ہیں ۔۔ کچھ تو یہاں تک کہتے تھے کہ چھیاسٹھ سالوں میں جہاں ڈکٹیٹروں نے پاکستان کو جی بھر کے لوٹا ہے وہاں سیاستدانوں نے اس کا ککھ نہیں رہنے دیا۔یعنی باقی بچا کھچا یہ ہڑپ کر گئے ہیں
میں بھی ان کے قبیلے کا ہوتے ہوئے مانتا ہوں کہ یہ سب صحیح کہتے ہیں ۔۔ اور دیکھا جائے تو حقیقت بھی یہی ہے
اب جبکہ زرداری نے امریکہ کی آشیرباد سے اپنے شطرنج کے مہرے سمیٹتے ہوئے ایک صحافی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوا دیا ہے اور دوسرے کو وفاقی وزیر کے طور پر لگا کر ایک تو ان کی ہمدردیاں سمیٹ لیں ہیں دوسرا گیند ان کے کورٹ میں پھینک کر ان کو کھلا چھوڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔
پنجاب کا وزیر اعلیٰ صحافی بن گیا ۔۔۔ یعنی سب اچھے کی آواز ہے ۔۔
وفاقی وزیر اطلاعات بھی صحافی بن گیا ۔۔۔ اب خبر تو کوئی بھی جھوٹی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔ یعنی سب اچھے کی آواز ہو گی
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معزز صحافی گیند سے کھیلتے ہیں یا گیند کو پھاڑتے ہیں



ہفتہ، 30 مارچ، 2013

پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں

شنید ہے کہ پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اچھی بات ہے زندگی میں کچھ شغل میلہ بھی تو ہونا چاہئے ۔اب یہ کیا کہ بم دھماکوں سے ہی ہم معصوم بچے اور بڑوں کو مرتا دیکھیں ۔اب دہشت گردی میں کچھ نیا پن بھی تو آنا چاہئے ۔۔ آٹھ دس بچوں کے گلے کٹیں ، کچھ عورتیں لہولہان ہوں اور مرد اپنے ٹوٹی ٹانگوں والے بچوں کو ہسپتال لئے لئے پھریں ۔
اب بہت ہوچکا ۔۔۔ میرا خیال ہے ارباب اختیار اور پاکستانی ٹی وی میڈیا کو ایسا سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہئے جو بسنت کو منانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔اگر کسی قاتل پتنگ کی ڈور سے کسی بچے کی گردن کٹ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔



منگل، 26 مارچ، 2013

امریکہ سے نفرت کس کے لئے ؟

میرے بہت سے رشتہ دار دوست احباب امریکہ اور دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں۔مگر امریکہ میں سب سے زیادہ ہیں ۔وہ پاکستانی ہیں ، وہاں رہتے ہیں، امریکہ کے قانون فالو کرتے ہیں ۔اپنے مذہب پر بھی عمل پیرا ہیں اور اس میں انہیں کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے ۔ ان کو پاکستان سے زیادہ اپنے اس رہنے والے ملک امریکہ سے ہمدردی ہے۔ان میں سے اب ان کی اولادیں جو وہاں پیدا ہوئی ہیں ان کا ملک امریکہ ہی ہے۔ان کے نزدیک پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ وہ ان کے آباؤاجداد کا ملک ہے۔

میری طرح اور بھی بہت سے پاکستانی ، خصوصاً پاکستانی سیاستدانوں ، بیوروکریٹ ، کاروباری حضرات اور دیگر بہت سے لوگوں کے عزیزو اقارب امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور بہت سے وہاں کے نیشنل بھی ہیں ۔ان سب کی ہمدردیاں بھی امریکہ کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ ان کا ملک ہے ۔

امریکہ پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے درجنوں منصوبوں میں مدد کرتا ہے اور کر رہا ہے ۔صحت اور تعلیم کے شعبے کے علاوہ دیگر بہت سے شعبوں میں بھی امداد کی مد میں امریکہ پاکستان کو کروڑوں ڈالر کی امداد دیتا ہے ۔خواتین اور بچوں کے فلاحی منصوبوں میں بھی امریکی امداد اور سپورٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔

امریکہ کی جانب سے اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی پاکستان کے رہنے والے عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں ۔اور یہ واقع میں بڑی حیرت کی بات ہے کہ امریکہ کی اتنی مہربانیوں کے باوجود بھی پاکستانی عوام امریکہ سے نفرت کرتی ہے ۔میری نظر میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدان ، مذہبی رہنما اور دیگر کچھ سرکردہ لوگ امریکہ سے مفادات حاصل کرنے کے باوجود بھی یہ نہیں چاہتے کہ عوام کی ہمدردیاں امریکہ کے حق میں ہوں ۔

اب یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ۔۔۔
پاکستان کی ہمدردی میں اتنا کچھ کرنے کے پیچھے امریکہ کے کیا مقاصد کارفرما ہیں ؟
یا کہ امریکہ اتنی ساری مہربانیوں کے عوض ہم ( پاکستانیوں ) سے بدلے میں کیا چاہتا ہے ؟

ان دو اہم سوالوں کا کوئی لمبا چوڑا جواب نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی ہیر پھیر والی بات ہے اور نہ ہی ان سوالوں کے جواب کو سمجھنے کے لئے سائنس دان یا حساب دان یا کہ کوئی بڑا پڑھا لکھا ہونے کی ضرورت ہے ۔دو اور دو چار کی طرح ان سوالوں کا صرف ایک آسان اور سادہ سا جواب ہے وہ یہ کہ ۔۔۔
امریکہ ہم سے صرف اور صرف یہ چاہتا ہے کہ ۔۔۔
۔۔ ‘‘ ہم اس کے قوانین پر عمل کریں ‘‘۔۔۔۔

اب میں کسی تہمید کے بغیر ہم سب کے ذہن میں آئے سوالات اور اس کا جواب نیچے لکھ دیتا ہوں تاکہ اور آسانی رہے ۔۔

سوال ۔۔۔
پاکستان کی ہمدردی میں اتنا کچھ کرنے کے پیچھے امریکہ کے کیا مقاصد کار فرما ہیں ؟
یا کہ امریکہ اتنی ساری مہربانیوں کے عوض ہم ( پاکستانیوں ) سے بدلے میں کیا چاہتا ہے ؟

جواب ۔۔۔
۔۔ ‘‘ ہم اس کے قوانین پر عمل کریں ‘‘۔۔۔۔

اب یہاں سوال ذہن میں ابھرتے ہیں ۔۔
١ ۔پاکستان میں تمام قوانین امریکہ کے لاگو کر دئے جائیں ۔۔۔ ۔( جو کہ درپردہ اہم فیصلوں پر لاگو ہیں ) ۔

یہاں ایک اور بڑی اہم بات ۔۔۔ وہ یہ کہ پاکستان میں وہ لوگ جو امریکہ کے قوانین پر عمل کر رہے ہیں وہ حکمرانی بھی کر رہے ہیں ، خوشحال بھی ہیں ، بھوکے بھی نہیں سوتے ۔
اور عوام جو ان کی منصوبہ بندی ، سازش اور حکمت عملی سے پھیلائی ہوئی نفرت زدہ سوچ کے تحت امریکہ سے نفرت کرتی چلی جارہی ہے ، وہ بھوکی بھی ہے ، بدحال بھی ہے




پیر، 25 مارچ، 2013

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں محفلین کے اعزاز میں ایک پرتکلف پارٹی کا اہتمام

مورخہ 24 مارچ 2013 بروز اتوار کو پاک ٹی ہاؤس لاہور میں اردو محفل کے آراکین کی جانب سے محفلین کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔جس میں محفلین میں سے عاطف بٹ ، بابا جی ، متلاشی ، عبدالرزاق ، محمد عمرفاروق ، نعیم قیصر، محمدکامران اختر اور پردیسی نے شرکت کی ۔
[gallery ids="761,762,763,764,765,766,767,768,769,770,771,772,773,774,775,776,777,778,779,780,781,782,783,784,785,786,787,788,789,790,791,792,793,794,795,796,797,798,799,800,801,802,803,804,805,806,807,808,809,810,811,812,813,814,815,816,817,818,819,820,821,822,823,824,825,826,827,828,829,830,831,832,833,834,835,836,837,838,839,840,841,842,843,844,845,846,847,848,849,850,851,852,853,854,855,856,857,858,859,860,861,862,863,864,865,866,867,868,869,870,871,872,873,874,875,876,877,878,879,880,881,882,883,884,885,886,887,888,889,890"]



اتوار، 17 مارچ، 2013

امریکہ زندہ باد

آج علی الصبح ہمارے موکلوں نے اطلاع دی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے وزیراعظم کے طور پر نامزد کئے گئے آراکین کے نام ڈھکوسلہ ہیں ۔ جلد ہی نیا پاکستانی وزیر اعظم مسند اقتدار پر بیٹھنے والا ہے ۔جس پر حکومت اور اپوزیشن دونوں متفق ہوں گے ۔اطلاعات کے مطابق اتنے اہم موقع پر مسلم لیگ نون کے صدر میاں نواز شریف علاج کے بہانے لندن میں مقیم ہیں ۔جہاں پاکستان کے مستقبل کی کھچڑی بس تیار ہونے کے قریب ہے ۔میرے موکلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے وزیراعظم کے نام پر مولانا فضل الرحمن اور دوسرے اہم رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جاچکا ہے ۔


اتوار، 24 فروری، 2013

لاہور بلاگروں کا بڑے پیزے کو ہڑپ کرنا

اتوار کا دن تھوڑا مصروف ہوتا ہے اور اوپر سے عبدالقدوس کی جانب سے لاہور کے بلاگروں کے اکٹھ کا سندیسہ بھی تھا۔جلدی جلدی بیوی کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اپنے کام نمٹا کر میں نے تقریباً سوا دو کے قریب زوہیر کو فون کیا کہ میں بس تین بجے تک پہنچ رہا ہوں ۔زوہیر کا کہنا تھا کہ ہم آپ کا انتظار کریں گے ۔
سوا تین کے بعد میں لاہور گلشن راوی کے بگ پیزا ہاؤس میں داخل ہوا تو سامنے ہنستے کھیلتے زوہیر صاحب ، سعد ملک صاحب ، ایم بلال صاحب ۔ عبدالقدوس صاحب اور ان کے ہنس مکھ بھائی بیٹھے ایک بڑے پیزے کو ہڑپ کرنے میں مصروف تھے ۔
میرے السلام علیکم یا اہل المجالس کہنے پر سب محترم دوستوں نے جواب دینے کے ساتھ ہی پیزے کی بھی پیشکش کر دی ۔سعد ملک نے اپنی جگہ پیش کرتے ہوئے پیزا ڈالنا شروع کر دیا ۔کھانے کے ساتھ ساتھ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ بہت سی باتیں ہوئی ۔باتوں باتوں میں ہی ہم لوگوں نے بٹ صاحب ( عبدالقدوس ) کی مہمان نوازی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو بڑے سائز کے پیزوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے سادی بوتلوں سے خوب انجوائے کیا۔
میں خصوصی طور پر ایم بلال کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ گجرات سے تشریف لائے اور ہمیں اپنی خوبصورت باتوں سے ہنسانے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں بھی اضافہ کرتے رہے ۔



[gallery ids="714,715,716,717,718,719,720,721,722,723,724,725,726,727,728,729,730,731,732,733,734,735,736,737,738,739,740,741,742,743,744,745,746,747,748"]

مکمل تصاویر یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں


ہفتہ، 16 فروری، 2013

توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے

روکو روکو روکو ذرا ۔۔۔۔گاڑی روکو ۔۔۔
کیوں کیا ہوا ۔۔ خیر تو ہے نا، کس لئے گاڑی روکوں
یار دیکھ نہیں رہے ۔۔ گاڑی کے آگے سے کالی بلی گذر گئی ہے
او شیخ صاحب کیسی باتیں کرتے ہو یار ۔۔۔ کالی بلی ہی ہے کوئی کالا کتا تو نہیں جو کاٹ کھائے گا ۔۔ میں تو ادھر سے ہی جاؤں گا ۔۔۔ اور میں ادھر سے ہی گیا ۔اور الحمدللہ مجھے کچھ نہیں ہوا ۔اور میرے ساتھ گاڑی میں جانے والے شیخ صاحب بھی آج تک زندہ ہیں
یہ واقعہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک میرے سامنے سے سینکڑوں کالی نیلی پیلی بلیاں گذر چکی ہیں ۔

آج دو ہزا تیرا کے ابتدائی ایام ہیں ۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے ۔لوگ آج بھی کالی بلی کے آگے سے گذرنے پر یا تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یا پھر سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔پرائز بانڈ کے نمبروں یا لاٹری کے ٹکٹوں کے لئے لوگ آج بھی ننگے بابوں کے سامنے عاجزی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ایسے ننگے بابے جو چرس کے نشے میں مدہوش خود سے بے خبر ہیں ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تاریخ کتنی ہے یا آج دن کون سا ہے ۔


بدھ، 13 فروری، 2013

میں سلام پیش کرتا ہوں امانت علی گوہر ، نبیل نقوی اور شارق مستقیم کو

میں سلام پیش کرتا ہوں امانت علی گوہر کو ۔۔ جس نے سب سے پہلا انپیج تو یونی کوڈ کنورٹر ( انپیج سے تحرہری اردو کو تبدیل کرنے کا آلہ ) ایجاد کیا ۔مجھے یاد ہے جب کمپیوٹر پر اردو لکھنا خواب تھا ۔۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ لوگوں کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انٹرنیٹ پر بھی کبھی اردو لکھی جاسکے گی ۔
امانت علی گوہر ایک ایسا انسان جس نے اردو کی بے لوث خدمت کی ۔۔ آج وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں کہیں گم ہے ۔
امانت علی گوہر ایک ایسا انسان جس نے کبھی اردودانوں پر اپنا احسان نہیں جتایا۔
امانت علی گوہر ہم آپ کے اردو پر کئے گئے احسان کو کبھی نہیں بھلا سکتے

میں سلام پیش کرتا ہوں نبیل نقوی کو ۔۔۔ جس نے اردو ایڈیٹر اور اردو ویب پیڈ تخلیق کر کے ویب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا
میں سلام پیش کرتا ہوں شارق مستقیم کو ۔۔۔۔ جس نے سب سے پہلے ونڈو ٩٨ اور ونڈو ایکس پی کے لئے اردو انسٹالر بنایا
میں سلام پیش کرتا ہوں شارق مستقیم کو ۔۔۔۔ جس نے امانت علی گوہر کے بعد سب سے بہترین انپیج ٹو یونیکوڈ کنورٹر بنایا
میں شاباش دیتا ہوں خود ( پردیسی ) کو بھی ۔۔۔ جس نے سب سے پہلے اردو ویب سائٹ کے سانچے تیار کئے ۔۔آج انٹر نیٹ پر اردو کی ہزاروں نہیں لاکھوں ویب سائٹ موجود ہیں
میں شاباش دیتا ہوں خود ( پردیسی ) کو ۔۔۔ جس نے سب سے پہلے ورڈ پریس کو اردو میں ڈھالا

میں سلام پیش کرتا ہوں ان سب کو جو آج بھی اردو کی ترویج کے لئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں



ہفتہ، 9 فروری، 2013

مذہبی اجتماعات گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئیں

miladکچھ خود ساختہ مولوی لوگ تنگ نظر ، اپنے تئیں شریعیت کے پکے ( ایسی شریعیت جس کو وہ اپنی مرضی اور مفاد کے لئے جیسے جی چاہے ڈھال لیں) ہٹ دھرم ، گھانٹ کے پورے ، پیسے کے پیر ، دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت کے مصداق ایسی شاندار مخلوق ہیں ، جن سے آپ ساری زندگی بھی بحث و مباحثہ کرتے رہیں ، نہیں جیت سکتے ، یعنی کہ ان کے دماغ میں اتنا بھوسہ بھرا ہوتا ہے کہ آپ اپنی بات ان کے دماغ میں ڈالنا تو دور کی بات پاس سے بھی نہیں گزار سکتے۔

یہ عین ممکن ہے کہ میری یہ سوچ غلط ہوں مگر لوگوں کے ساتھ ایسے مولویوں کا برتاؤ اس بات کا شاہد ہے کہ میری یہ سوچ غلط نہیں ہے ۔ہاں یہ میں مانتا ہوں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے مگر فی زمانہ آپ مشاہدہ اور کھوج لگا کر دیکھ لیں کہ زیادہ تر خود ساختہ مولوی اسی ترازو میں پورے اتریں گے جس کا میں نے ان کی ذات و صفات سمیت ذکر خیر کیا ہے ۔

علم صبر اور عاجزی سکھاتا ہے ، تفرقے بازی نہیں ۔ مسجد کے ممبر پر بیٹھ کر واعظ کی بجائے ہڑبونگ مچانا اور لوگوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کرکے اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔
کسی مخصوص جگہ کے علاوہ سرراہ گلیوں ، بازاروں میں میلاد ، مجلس یا کوئی محفل منعقد کر کے ایسا سیکورٹی رسک پیدا کرنا جس سے عام انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو ، کہاں کا اسلام اور کہاں کا انصاف ہے ۔اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی محبت و عقیدت ہے تو حکومت سے کہہ کر ایک جگہ مقرر کروا لیں اور اپنے مذہب کے مطابق جو جی چاہے رسومات ادا کریں ۔
کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟

میں یہ بات آج پھر کہوں گا کہ اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، عداوت ، شدت پسندی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئیں۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔



جمعرات، 7 فروری، 2013

اردو نیوز پر اردو بلاگرز کی تشہیر

آج سے ہم نے اردو نیوز پر اردو بلاگرز کے بلاگ سے ان کا تازہ مواد لے کر ان کی تشہیر کروانی شروع کر دی ہے ۔اردو بلاگرز کی یہ تشہیر بلا امتیاز اور بغیر کسی لالچ یا پیسوں کے کروائی جا رہی ہے ۔ اگر آپ میں سے کوئی محترم بلاگر اس سلسلہ میں کچھ اور مفید مشورہ دینا چاہے تو بلا جھجھک تبصرے کے خانے میں لکھ دے ۔ہم اس کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

جمعرات، 31 جنوری، 2013

کچھ تحریر بتاں چند حسینوں کے خطوط

میں اپنے تمام محترم دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ سرور کی تبدیلی کے دوران بلاگ کا کچھ مواد جن میں چند ایک تحریریں اور کچھ تحریروں کے تبصرے ضائع ہو گئے ہیں ۔جن کا مجھے ازحد افسوس ہے ۔
ویسے بڑے بوڑھوں نے جو بھی مثالیں بنائیں وہ ایویں ہی نہیں ہیں جیسے ایک یہ مثال جو ہم پر اس وقت صادق آ رہی ہے ۔۔۔ یعنی کہ ،
اناڑی کا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کا نقصان




اتوار، 27 جنوری، 2013

اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد اور اردو بلاگرز

پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد مورخہ 26-27 جنوری 2013ء کو ایوانِ صنعت و تجارت لاہور پاکستان میں کیا گیا

سب سے پہلے تو اتنی اچھی کانفرنس کے انعقاد پر میری طرف سے اور تمام اردو بلاگرز کیمونٹی کی طرف سے محسن عباس کو خراج تحسین اور بہت مبارکباد

اچھی مینجمنٹ کی بدولت اس کانفرنس کو سال کے شروع کی بہترین کانفرنس کہا جا سکتا ہے
ایسی کانفرنس جو نظم ظبط کا اعلی ترین نمونہ تھی جس میں تمام اردو بلاگرز کو عزت و احترام دیا گیا
اس کانفرنس میں ناشتے اور کھانے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا
لاہور شہر سے باہر والوں کی خصوصی نگہداشت اور ان کے آرام کا خیال رکھا گیا اور انہیں لاہور کے مقامات کی سیر بھی کروائی گئی

پچھلے چند سالوں میں اردو زبان نے انٹرنیٹ پر بہت تیزی سے ترقی کی ہے جس کا فائدہ جہاں اردو دانوں کو ہوا ہے وہاں بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی سنجیدگی سے اس طرف دھیان دینا شروع کر دیا ہے ۔کیونکہ جو بات کسی کو اس کی مادری زبان میں سمجھائی یا دماغ میں ڈالی جا سکتی ہے وہ دوسری زبان میں نہیں ۔سوچوں کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سوچوں کے انداز کو اپنا کر انہیں اپنا رنگ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔

میری نظر میں اس کانفرنس کے مقاصد یہ تھے

گزشتہ تین چار ماہ سے سوشل میڈیا والوں نے پاکستانی ٹی وی میڈیا کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ۔ان کا سد باب کرنا
تمام پاکستانی اردو بلاگرز کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا
ایسے بلاگرز کی نشان دہی اور جانکاری جو انتہا پسند خیالات کے مالک ہیں
اردو بلاگرز کی سالوں میں کی گئی محنت سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا
پروفیشنل صحافیوں کو بلاگنگ کی تربیت کے لئے اردو بلاگرز کی گئی کاوشوں سے استفادہ حاصل کروانا
خام مال کو اپنے لئے حاصل کرنا۔۔۔خام مال سے مراد ایسے اردو بلاگرز جن کے ذہن ابھی پختہ نہ ہوئے ہوں
خاص کر گاؤں ، دیہات یا کہ چھوٹے شہروں کے بلاگرز کو ترجیح دے کر ان کی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان سے کام لینا
مصر میں بلاگرز کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر اسی کے مطابق ان سے کام لینا ۔
اردو بلاگرز کو اپنے دئے گئے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا
بلتستان ، پختونخواہ سے بلاگرز تیار کرنا تاکہ وہ اپنی زبان میں اپنی قوم کی رہنمائی کر سکیں

[gallery ids="426,424,425,427,428,433,432,431,430,429,434,435,436,437,438,443,442,441,440,439,444,445,446,447,448,453,452,451,450,449,454,455,456,457,422,458,459,460,461,462,463,464,465,466,467,468,469,470,471,472,473,474,475,476"]



بدھ، 23 جنوری، 2013

چوری کا ثواب

استاد بلے کا بھی دماغ خراب ہو گیا ہے۔کتنی بار منع کیا ہے کہ استاد جی مذہب کے معاملات میں نہ بولا کرو ، نہ بولا کرو مگر استاد بلا ہے کہ مانتا ہی نہیں ۔میرا خیال ہے جب تک استاد بلے کو ہفتہ وار گالیاں نہ پڑیں اسکی طبعیت سیر ہی نہیں ہوتی ۔
بھلا کیا پڑی تھی بھرے چوک میں کہنے کہ کہ عید میلادالنبی پر چوری کی بتیوں سے چراغاں کیا جاتا ہے ۔بندہ پوچھے تو تو دو عیدوں کے علاوہ کسی اور عید کو مانتا ہی نہیں اور بھلا تجھے کیا پتہ ان کو کتنا پیار ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔۔۔۔۔۔ مگر اس کا کہنا ہے کہ میلاد ہو ، مجلس ہو ، میلاالنبی ہو سب چوری کی بجلی استمال کرتے ہیں ۔ان سب کا محاسبہ ہونا چاہئے اور ان سب سے پائی پائی وصول کرنی چاہئے۔
بہت بار سمجھایا ہے استاد بلے کو مگر وہ مانتا ہی نہیں ۔۔۔ کہتا ہے یہ سب ثواب کمانے کی بجائے گناہ کما رہے ہیں

جمعہ، 18 جنوری، 2013

بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟

اردو محفل پر ایک محترم ساتھی نے سوال کیا کہ ۔۔۔۔۔بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا یا جاننا پڑے گا کہ ادب کیا ہے ؟

بغیر کسی تہمید یا آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اپنی حدود میں قید خوبصورت الفاظوں سے سجی سنوری تحریر جس میں کوئی مقصد چھپا ہو کو ہم ادبی تحریر کہہ سکتے ہیں ۔
کچھ لوگ کسی اچھی تحریر کو بھی ادبی کہتے ہیں جو کہ پابند ہو اپنے اسلوب کی
ویسے شاعری بھی ادب کا ہی حصہ ہے
اب آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب کہ ،بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟
پہلے یہ دیکھا جائے بلاگ کہتے کس کو ہیں۔۔۔۔یعنی کہ ایک ایسی ڈائری جس میں آپ اپنی سوچ کو اتارتے ہیں، یعنی یوں جانئے کہ آپ کی وہ تمام یادیں جسے آپ تحریری طور پر محفوظ کر رہے ہیں۔
اب کچھ سوچیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ بالکل ذاتی ہیں اور کچھ سوچیں ایسی جسے آپ دوسروں کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں یا بانٹنا چاہتے ہیں۔
ایک ذاتی ڈائری میں تو آپ انہیں علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں۔۔۔یعنی کچھ لکھیں اور کچھ کسی خوف سے نہ لکھیں
مگر بلاگ ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔جو جی چاہے لکھیں۔۔بالکل آزادی سے اور بے فکری سے۔۔(یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسی اآزادی نہیں ہے) ۔
اب رہ گئی بات کہ یہ تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔ اس کا بالکل سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ کی تحریریں ادب کا اعلی اور بہترین نمونہ ہیں تو ایک بلاگر کی تحریریں بھی ادب کا اعلی ترین نمونہ ہیں اور ادب کا ہی حصہ ہیں
منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ نے وہ لکھا جو انہوں نے محسوس کیا
اور بلاگر بھی وہی لکھتا ہے جو وہ محسوس کرتا ہے