بدھ، 31 دسمبر، 2014

۔۔۔ 2014 صرف ایک نظر میں

fb-0066کہتے ہیں جاتے جاتے دو ہزار چودہ یعنی اس سال بارے بھی کچھ لکھیں ۔۔۔ کیا لکھیں ؟ ۔۔
جھوٹ ، غیبت ، چغلیاں ، دھوکے ، فریب ، فراڈ ، ڈاکے ، قتل یا کہ پھر بم دھماکے لکھوں ۔۔۔
یہ لکھوں کہ کتنے لوگوں نے خودکشیاں کیں ۔۔۔ یہ لکھوں کہ اس سال کتنی عزتیں پامال ہوئیں ۔۔۔ یا کہ یہ لکھوں اس سال کتنے بھوکے بھوک سے مر گئے
کچھ نہیں لکھتا ۔۔۔۔ لکھنے کو رہ ہی کیا گیا ہے ۔۔۔ بس یہی کہنا چاہوں گا کہ ،

کھلی اآنکھوں سے دیکھا ہے گزرتے سالوں کو
بند آنکھوں سے میں سالِ نو میں جانا چاہوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 23 دسمبر، 2014

ماں پلوانوں کی بدمعاشیاں

haal-road-02شدید سردی کی آمد کے ساتھ ہی لاہور کے بہت سے علاقوں میں سوئی گیس کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔پچھلے آٹھ دن سے ہمارے گھر میں بھی گیس ناپید ہے ۔ روٹی اور سالن بازار سے منگوا کر کھایا جارہا ہے ۔آس پڑوس سے پتہ کرنے پر سب ہی نے سوئی گیس والوں کو کوسنے دئیے ۔

جیدے چڑی مار سے بات ہوئی تو کہنے لگا۔۔اوئے باؤ ۔۔تیرے گھار گیس نہی ہیگی ( تمہارے گھر گیس نہیں ہے ) ۔میں نے کہا جیدے پہلوان گیس تو یار جب سے سردی آئی ہے غائب ہے ۔۔۔کہنے لگا ۔۔ چلو تم میرے ساتھ ۔۔ابھی تمہارے گھر میں گیس آتی ہے ۔

جیدا چڑی مار ہمیں لے کر ہال روڑ جا پہنچا ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ گندے نالے کے پیچھے داتا مارکیٹ اور اس سے ملحقہ تمام گلیوں میں لوگ لائینیں لگا کر کھڑے ہیں ۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہاں سوئی گیس کا ایک ایسا جدید آلہ فروخت ہورہا ہے جس سے گھر میں دھڑا دھڑ گیس کا اخراج شروع ہوجاتا ہے ۔چاہے پھر آپ اس گیس سے روٹیاں پکائیں یا پھر ننگا نہائیں ۔ہمیں بڑی حیرت ہوئی اور ہم نے جیدے چڑی مار سے کہا کہ یار جیدے کیا یہ واقع میں حقیقت ہے یا فراڈ ہو رہا ہے ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھر میں پیچھے سے گیس نہ آرہی ہو اور اس آلے سے گیس آنا شروع ہو جائے ۔۔۔اس میں کیا گیدڑ سنگھی ہے ۔جیدا چڑی مار کہنے لگا اوئے باؤ یہ واقع گیدڑ سنگھی ہی ہے چلو آؤ میں تمہیں اس کی زیارت کرواؤں ۔

haal-road-01
ہم نے بھی سوچا کہ واقع میں ایسی چیز کی زیارت کرنا تو بنتا ہی ہے جو جادوئی اثر رکھتی ہو ۔دھکم پیل سے بچتے بچاتے کہنیاں کھاتے اور لوگوں کا حق مارتے جب ہم لائن توڑ کر اس مبارک ہستی کی دکان پر پہنچے جو یہ گیدڑ سنگھی فروخت کر رہا تھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ دوکاندار 3000 روپے میں بجلی سے چلنے والا ایک ڈبہ سافروخت کر رہا تھا اور اس کا دعوٰی تھا کہ اس سے آپ کے گھر میں گیس آ جائے گی ۔ہم نے جیدے چڑی مار کے علاوہ وہاں کھڑے لوگوں سے اس کی تصدیق کی تو پتا چلا کہ دوکاندار سچ کہہ رہا ہے ۔

haal-road-03
آس پاس اور ٹیکنیکل لوگوں سے اس گیدڑ سنگھی کی تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ فنکاروں نے ڈبے کے اندر کمپریسر لگایا ہوا ہے جو ہوا کے پریشر سے پائپوں سے گیس کو کھینچ کھانچ کر آپ تک پہنچاتا ہے ۔ جبکہ اس کے چلانے سے آپ کے آگے والے گھروں کی گیس ناپید ہوجاتی ہے ۔دوکانداروں سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ایسا آلہ لگانا ممنوع اور جرم نہیں ہے کیا ؟ اور کیا آپ لوگوں نے اس کے فروخت کی سوئی ناردن گیس والوں سے اجازت لی ہوئی ہے تو ایک حاجی صاحب شیطانی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگے۔۔۔او باؤ جی کیہڑیاں گلاں کردے او ۔۔سارے نال ہی ہوندے نے ( باؤ جی کونسی باتیں کرتے ہو ۔۔سارے ساتھ ہی ہوتے ہیں ) ۔
haal-road-04
آجکل لاہور کے بہت سے علاقوں کے زیادہ تر گھروں میں یہ کمپریسر نما آلہ لگا ہوا ہے جس سے باقی کے اسی فیصد گھروں میں گیس ناپید ہے ۔اگر سوئی ناردن گیس والوں نے فوری طور پر اس غیر قانونی آلے کے خلاف ایکشن نہ لیا تو کہیں یہ نہ ہو کہ محلوں میں آپس میں لڑائی مار کٹائی کے علاوہ سوئی گیس کے محکمے کے خلاف شدید احتجاج شروع ہوجائے۔

نوٹ ۔۔
ماں پلوان اور پین پلوان لاہوری زبان کے مخصوص پنجابی الفاظ ہیں جو کسی کی تذلیل کرنے کے لئے استمال کئے جاتے ہیں ۔ماں پلوان کے الفاظ ( ماں پہلوان ، ماں کی کمائی کھانے والے بدمعاش کے لئے استمال کئے جاتے ہیں ۔اسی طرح پین پلوان کے الفاظ ( بہن پہلوان ، بہن کی کمائی کھانے والے بدمعاش ) کے لئے استمال کئے جاتے ہیں ۔
اس تحریر کو ‘‘ ماں پلوانوں کی بدمعاشیاں ‘‘ کا عنوان اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ پاک سر زمین ہماری ماں ہے ۔۔۔۔ جس کو ہم بیچ رہے ہیں ۔۔۔ جس کی ہم ناجائز کمائی کھا رہے ہیں ۔۔ہر گندہ بندہ اور ہر محکمہ اس ماں کو بیچنے کے در پر ہے۔۔۔ کوئی اکیلا اور کوئی ملی بھگت سے ۔۔۔۔۔

اتوار، 21 دسمبر، 2014

سیکولرزم ( روشن خیالی ) اور لبرلزم کیا ہے؟ ۔

saecularis (Custom)سیکولرزم ( روشن خیالی ) ۔
سیکولرزم قدیم لاطینی لفظ ’سیکولارس‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ‘‘وقت کے اندر محدود‘‘ لیا جاتا ہے ۔سیکولرزم لفظ کو باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں 1846ء میں متعارف کروانے والا پہلا شخص برطانوی مصنّف جارج جیکب ہولیوک تھا۔ اس شخص نے ایک بار ایک لیکچر کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے عیسائی مذہب اور اس سے متعلق تعلیمات کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑایا جس کی پاداش میں اسے چھے ماہ کی سزا بھگتنا پڑی ۔جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے مذہب سے متعلق اظہارِ خیال کے لیے اپنا انداز تبدیل کر لیا اور جارحانہ انداز کے بجاے نسبتاً نرم لفظ ‘‘سیکولرزم ‘‘ کا پرچار شروع کر دیا ۔

سیکولرزم کو اگر عام معانی میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے ‘‘ انسانی زندگی میں دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں ہوتا ‘‘ اور سیکولرزم میں حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔

سیکولرزم میں انسانی اور حکومتی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یوں جانا جائے کہ دُنیاوی اُمور سے مذہب اور مذہبی تصوّرات کا اخراج ۔۔۔
آکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق اگر دیکھا جائے تو سیکولرزم سے مُراد ایسا عقیدہ ہے جس میں مذہب اور مذہبی خیالات و تصوّرات کو ارادتاً دُنیاوی اُمور سے حذف کر دیا جائے۔

سیکولرزم انفرادی طور پر بھی یہ آزادی مہیا کرتا ہے کہ آپ جو جی چاہے مذہب اختیار کریں ۔اور اگر آپ کسی بھی مذہب پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتے تو اس کی بھی آپ کو آزادی اور حقوق مہیا کئے جائیں گے ۔پاکستانی معاشرے میں سیکولرزم کو روشن خیالی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔

لبرلزم

لبرلزم لفظ ’لبرل‘ قدیم روم کی لاطینی زبان کے لفظ ’لائیبر‘ اور پھر ’لائبرالس‘ سے ماخوذ ہے ۔ جس کا مطلب ’’ آزاد ‘‘ لیا جاتا ہے ۔ یعنی ہر قسم کی فکری و ذہنی غلامی سے آزاد
آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد ، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک ہو۔

اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی۔ یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو۔ اور لبرلزم سے مُراد اسی آزاد روش پر مبنی وہ فلسفہ اور نظامِ اخلاق و سیاست ہوا جس پر کوئی گروہ یا معاشرہ عمل کرے۔

ہفتہ، 13 دسمبر، 2014

چوبرجی ائیرپورٹ سے براہ راست

pia-chauburji-01
اگر آپ لاہور کچہری سے تقریباً ایک کلومیٹر دور چوبرجی چوک سے تھوڑا پیچھے یونیورسٹی گراؤنڈ سے متصل ‘‘ چوبرجی ائیرپورٹ ‘‘ پر جائیں تو وہاں آپ کو آجکل رنگا رنگ میلہ دیکھنے کوملے گا ۔۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت بچوں کے ساتھ حسین چہرے آسمان کی وسعتوں میں ستاروں کی کھوج لگانے آئے ہوئے نزدیک کھڑے اس پی آئی اے کے جہاز کو گھور رہے ہوتے ہیں جس کے نیچے گندہ پانی کھڑا پی آئی اے انتظامیہ کا منہہ چڑا رہا ہوتا ہے ۔

pia-chauburji-02
پی آئی اے نے لاہور چوبرجی چوک میں یہ پلانٹ ائیریم 1987 میں بنایا تھا جس کو پی آئی اے میوزم اور سیارگاہ کا بھی نام دیا گیا ۔اور اس کو تعلیمی اور علمی مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ۔اس پلانٹ ائیریم کے اگر آپ مین گیٹ سے داخل ہو کر دائیں ہاتھ دیکھیں تو ایک جہاز چپ چاپ کھڑا پی آئی اے کی بے حسی پر آنسو بہارہا ہوگا۔اور اگر آپ کی نگاہ بائیں ہاتھ جاتی ہے تو ایک بڑا سا سرخ رنگ کا گنبد نما ہال آپ کو نظر آئے گا جس پر سالوں سے رنگ نہیں کیا گیا۔اس کے نزدیک جانے پر اندر داخلہ کے لئے آپ سے فی بندہ و بچہ سو روپیہ سکہ رائج الوقت کا تقاضا کیا جائے گا۔

pia-chauburji-03
اگر آپ ان مراحل سے گزر کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اندر داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ دوسری دنیا میں تشریف لے جارہے ہیں ۔۔۔آسمان کی وسعتوں کی سیر کرنے کے لئے جونہی بتی گل کی جاتی ہے ، لگتا یوں ہے جیسے آپ کی بتی بھی گل ۔۔۔ انتہائی گھٹن کا ماحول ۔۔۔ گھپ اندھیرا ۔۔۔۔ آب و ہوا کی صحیح نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے بندہ دم گھٹنے کی کفیت محسوس کرتا ہے ۔اگر آپ چاہیں کہ آپ وہاں سے نکل جائیں تو آپ کو نکلنے نہیں دیا جائے گا ۔پھر ہو گا یہ کہ اگر آپ زندہ رہے تو آپ تب تک اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں گے جب تک پی آئی اے کا یہ سیارگاہ کے شو کا اختتام نہیں ہوجاتا۔
کسی مزار کے گنبد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگر آپ اس کے نیچے بنی قبر کا تصور کرنا چاہیں تو یہ اس سیارگاہ کی صحیح تصویر کشی ہوگی

pia-chauburji-04
شنید ہے (جس کی میں نے بذات خود تصدیق نہیں کی) کہ پی آئی اے پلانٹ ائیریم ( چوبرجی ائیرپورٹ ) پر کھڑا یہ وہ جہاز ہے جس کو الذوالفقار تنظیم نے اغوا کیا تھا ۔الذوالفقار نامی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس کا سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا اور بے نظیر بھٹو کا بھائی مرتضی بھٹو تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت عظمی سے برطرف کرکے جب جیل میں ڈالا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں بیٹے مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے والد کی رہائی کیلئے بین الاقوامی طور پر مہم چلائی اور کئی ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی بے گناہی کا یقین دلایا اور انہیں رہا کروانے کی بھرپور کوششیں کیں ۔جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہورہی تو انہوں نے افغانسان میں روسی نواز کمیونسٹ حکومت کی مدد سے الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کی بنیاد ڈالی ۔ جس نے ضیاءالحق کے دور حکومت میں حکومت مخالف کارروائیاں بھی کیں تاہم دونوں بھائیوں کی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور ان کے والد کو 1979 میں پھانسی کی سزا دے دی گئی ۔

pia-chauburji-05
۔1981ء میں پی آئی اے کے جہاز کو اغواء کر لیا گیا اور اس کے اغوا میں اسی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کاہاتھ تھا۔ جہاز کے اغواء کے دوران ہائی جیکرز نے پاک فوج کے آفیسر لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی مار کر جہاز سے باہر پھینک دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو نے ماری تھی ۔ہائی جیکرز نے اپنے مطالبات میں پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جو اس وقت پورا کرلیا گیا - اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کا نام مختلف کارروائیوں میں لیا جاتا رہا ۔بعدزاں پل چرخی جیل میں سلام اللہ ٹیپو کو بھی ثبوت مٹانے کی خاطر مرتضی بھٹو کے حکم پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے اپنے ہی دور حکومت میں اس کے بھائی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے بانی و سربراہ مرتضی بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔جس کا ثبوت آج بھی پولیس کی فائیلوں میں گم ہے ۔

نوٹ ۔۔ پی آئی اے پلانٹ ائیریم چو برجی کو ‘‘ چوبرجی ائیرپورٹ ‘‘ کا نام ازراہ مذاق دیا گیا ہے ۔دو تین دفعہ نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ کا ذکر ہے کہ جب یہ پی آئی اے کا پلانٹ ائیریم نیا نیا بنا اور اس پر جہاز لا کر کھڑا کیا گیا تو فنکار لوگوں نے دبئی جانے کے خواہشمند کئی حضرات سے پیسے لے انہیں یہاں چھوڑ دیا تھا ۔۔۔
یہ کہانی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔ کیونکہ یار زندہ صحبت باقی

میں اس تحریر میں تصحیح کروانے پر محترم ریاض شاہد کا بے حد مشکور ہوں

بدھ، 10 دسمبر، 2014

انقلاب پسند ۔۔۔۔ سعادت حسن منٹو

mantoمیری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہوئے اور ایک ہی ساتھ ایف اے کے امتحان میں شامل ہو کر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔اس سال میں تو پاس ہو گیا مگر سلیم سوئے قسمت سے پھر فیل ہو گیا۔
سلیم کی دوبارہ نا کامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔۔۔۔۔۔یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟
جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اسکی تمام تر وجہ وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اسکے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے۔
دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام الجھنوں سے آزاد تھا جس نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں مقید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح ہر کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہردلعزیز تھا مگر یکایک اسکے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔۔۔۔۔۔اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔
وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہوئے؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اسکے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے ناآشنا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ "عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ہاں، ہاں، کیا جی چاہتا ہے" میں نے اسکی طرف تمام توجہ مبذول کر کے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے دلی مدعا کو خود نہ پہچانتے ہوئے الفاظ میں ظاہر نہیں کر سکتا۔
وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کر کے دوسرے ذہن پر منتقل کر سکتا ہے وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہوئی چیر کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ گلے سے نیچے اترتی جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔یہ ایک ذہنی عذاب ہے جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آ سکتی۔
سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے اور ہوتا بھی کیونکر جب اسکے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے۔۔۔۔۔غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آ کر ان خیالات کو جو اسکے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے، سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی تکلیف دہ لمحات میں اس نے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ہے۔ "عباس، یہ خاکی کشتی کسی روز تند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تھا۔
سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردۂ ظہور پر نمودار ہو گا۔۔۔۔۔اسکی نگاہیں ایک عرصے سے دھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں جو اسکی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا، مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔
میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر مجھے اسکی منقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے جبکہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر دیا گیا تھا۔
میں ایک عرصے سے سلیم کو منقلب ہوتے دیکھ رہا تھا اسکی عادات دن بدن بدل رہی تھیں۔۔۔۔۔کل کا کھلنڈرا لڑکا، میرا ہم جماعت ایک مفکر میں تبدیل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تبدیلی میرے لئے سخت باعثِ حیرت تھی۔
کچھ عرصے سے سلیم کی طبعیت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا سوچ رہا ہوتا، یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصہ پھیرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔
سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفوں کی بھاری بھر کم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اسکی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں شطرنج، تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا، کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔۔۔۔۔اسکے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔
جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا جنہیں اس نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھا تھا۔
سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں، میں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اسکے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی بہت خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثے کا واقع ہوا تھا، اس پر اس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکل بیس سال کی ہو گی مگر اسکی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے۔۔۔۔۔جو اسکی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں جنہوں نے سلیم کو قبل از وقت معمر بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔یہ کیا کم تعجب کی بات ہے کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔
سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اسکے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گزروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے اور امراء کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ممکن ہے یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں مگر میں تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے بلکہ وہ لوگ جنہوں نے اسے امنِ عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخوں کے پنجرے میں قید کر دیا ہے کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں۔
اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے تو کیا انکا فرض نہیں ہے کہ وہ اسکے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟
اگر وہ راہ گزاروں کے ساتھ فلسفۂ حیات پر تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا ہے تو کیا اسکے معنی یہ لئے جائینگے کہ اسکا وجود مجلسی دائرہ کے لیے نقصان دہ ہے؟ کیا زندگی کے حقیقی معانی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟
اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپتا ہے تو کیا یہ عمل ان افراد کو انکے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟
سما ہرگز پاگل نہیں ہے مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اسکے افکار نے اسے بیخود ضرور بنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے مگر دے نہیں سکتا۔ ایک کم سن بچے کی طرح وہ تتلا تتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔
وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا تھا مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں کہ وہ دیوانہ ہے ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اسکے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔
شروع شروع میں جب میں نے اسکے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی، دراصل میں نے اس وقت خیال کیا کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزوں خیال کیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلم ہوئی۔
اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنہیں میں نے اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور انکی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشاق نہ تھا اس لئے مجھے سلیم کا یہ انتخاب بہت پسند آیا چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چن رکھی تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں، اس تخت کے کیا معانی؟
سلیم،جیسا کہ اسکی عادت تھی، مسکرایا اور کہنے لگا۔ "کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اکتا گئی ہے، اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔"
بات معقول تھی، میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیئے کے غائب پایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی اور مجھے شبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہو گیا ہے۔
سلیم سخت گرم مزاج واقع ہوا ہے۔ اسکے علاوہ اسکے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑچڑا بنا رکھا ہے۔ اس لئے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا جو اسکے دماغی توازن کو درہم برہم کر دیں یا جس سے وہ خواہ مخواہ کھج جائے۔
فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انقلاب، تخت کی آمد اور پھر اسکا غائب ہو جانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں نے ان امور کی وجہ دریافت کرتا مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا اور اسکے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا اس لیے میں خاموش رہا۔
ٹھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہو گیا۔۔۔۔اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے تو ہفتے کے بعد وہاں سے اٹھا دیا گیا ہے۔ اسکے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی، رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگھیٹی پر رکھی ہوئی تصاویر کے زاویے بدلے جا رہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رخ تبدیل کئے گئے ہیں، گویا کمرے کی ہر شے سے ایک قسم کی قواعد کرائی جاتی تھی۔
ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔ "سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں، آخر بتاؤ تو سہی یہ تمھارا کوئی نیا فلسفہ ہے؟"
"تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں۔" سلیم نے جواب دیا۔
یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کر رہا ہے مگر یہ جواب دیتے وقت اسکا چہرہ اس امر کا شاہد تھا کہ وہ سنجیدہ ہے اور میرے سوال کا جواب وہ انہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا، چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ "مذاق کر رہے ہو یار؟"
"تمھاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند۔" یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔
مجھے یاد ہے کہ اسکے بعد اس نے ایسی گفتگو شروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہارِ خیالات کرنے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چھپا لیا کرتا ہے۔
ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہوا ہے۔ اسکے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ الٹنے کے درپے ہے یا دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بمب پھینک کر دہشت پھیلانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیاء کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کسی حد تک غلط ہو، مگر میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسکی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے، جسکے آثار اسکے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔
بادی النظر میں کمرے کی اشیاء کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا نیم دیوانگی کے مر ادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی جس سے وہ خود ناآشنا تھا۔۔۔۔۔۔اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں، سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کر دیا۔ اور اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر از خود رفتہ ہو گیا، اور پاگل خانے کی چار دیواری میں قید کر دیا گیا۔
پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ میں اس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکانداروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اسے سے فوراً مل کر اسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کر دوں۔ اسکے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ خبط الحواس ہی نہ ہو گیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا، اس لیے میں نے ہوٹل ہی میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔
کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اسطرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ "شاید میں سلیم نہیں ہوں۔"
آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہو گئیں۔ "شاید میں سلیم نہیں ہوں۔"۔۔۔۔۔۔گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اسکا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔
میں نے ضبط سے کام لیا، اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"سلیم میں نے سنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کر دی ہیں، جانتے بھی ہو، اب تمھیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔"
"پاگل، شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔۔۔ہاں عباس، میں پاگل ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔خرد باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔معلوم ہے کیوں؟"
یہاں تک کہہ کر وہ میری طرف سر تا پا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔
"اس لئے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دکھلا دکھلا کر یہ پوچھتا ہوں کہ اس بڑھتی ہوئی غربت کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے، اس لئے وہ مجھے پاگل تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منور بنایا جا سکتا ہے۔"
"وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہونِ منت ہے۔ وہ جن کا فردوس غرباء کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، وہ جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں، یتیموں کی عریانی، لا وارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہَیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردۂ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔۔۔۔وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنت کے دروازے ہر شخص کے لیے وا ہونگے۔"
"میں پوچھتا ہوں کہ اگر میں آرام میں ہوں تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟۔۔۔۔۔۔کیا یہی انسانیت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں، اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہوں، اور میرے مزدورں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ انکے بچے مٹی کے ایک کھلونے کے لیے ترستے ہیں۔۔۔۔۔پھر لطف یہ ہے کہ میں مہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے اور وہ لوگ جن کا پسینہ میرے لئے گوہر تیار کرتا ہے، مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود ان سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے ناآشنا ہیں؟"
"میں ان دونوں کو انکے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، مگر کسطرح کروں؟۔۔۔۔۔۔یہ مجھے معلوم نہیں۔"
سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر دیا۔
"میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجھے ایک وکیل سمجھو، بغیر کسی امید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے، جو بالکل گم ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں۔۔۔۔۔انسانیت ایک منہ ہے اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔۔۔۔۔میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لئے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے، میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں، یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں۔ ذہنی اذیت کے دھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں کہ دوسرے اذہان پر منتقل کر سکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں، خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔"
"جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں:۔
"مرمریں محلات کے مکینو، تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو، مگر یقین جانو اسکے سائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ آ کر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب کانپیں۔"
"تم ہنستے ہو، مگر تمھیں مجھے ضرور سننا ہو گا، میں ایک غوطہ خور ہوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں ڈبو دیا کہ میں کچھ ڈھونڈ کر لاؤں۔۔۔۔۔۔میں ایک بے بہا موتی لایا ہوں، وہ سچائی ہے، اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہوا ہوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے۔ اس لیے کہ وہ مجبور تھیں۔۔۔۔۔اب میں یہی کچھ تمھارے منہ پر قے کر دینا چاہتا ہوں کہ تمھیں تصویرِ زندگی کا تاریک پہلو نظر آ جائے۔"
"انسانیت ایک دل ہے، ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمھارے بوٹ غریب مزدوروں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں، اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو، اگر تمھاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارۂ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں، اگر تمھارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے، تو یہ تمھارا قصور نہیں۔ ایوانِ معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے کہ اسکی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دبائے ہوئے ہے، ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔"
"جانتے ہو موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ لوگوں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے، انسانی تعزز کی کشتی ہوا و ہوس کی موجوں میں بہا دے۔ جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوانِ تجارت میں کھلے بندوں حسن فروشی پر مجبور کر دے۔ غریبوں کا خون چوس چوس کر انہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کر دے۔۔۔۔۔۔کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو۔۔۔۔۔۔۔بھیانک قصابی، تاریک شیطتے۔"
"آہ، اگر تم صرف وہ دیکھ سکو جسکا میں نے مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمھاری نظروں کے سامنے ایسے افراد موجود ہیں جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔مگر تم۔۔۔۔۔۔۔ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے بلکہ الٹا غریبوں سے چھین کر امراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو، مزدور سے لیکر کاہل کے حوالے کر دیتے ہو۔ گوڈری پہنے انسان کا لباس اتار کر حریر پوش کے سپرد کر دیتے ہو۔"
"تم غرباء کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمھیں یہ معلوم نہیں کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر و مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔"
یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہو گیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔
تقریر کے دوران میں سحرزدہ آدمی کی طرح چپ چاپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے، بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا، اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے، اسکے خیالات کس قدر حق پر مبنی ہیں اور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں اسکی تقریر کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ پھر بولا۔
"خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں، عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالتِ نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔۔۔کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جا رہی ہے۔ ہمارے کانوں سے پگھلا ہوا سیسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں، کہ ہم نہ دیکھ سکیں، نہ سن سکیں اور نہ محسوس کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان جنہیں بلندیوں پر پرواز کرنا تھا کیا اسکے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا؟۔۔۔۔۔۔کیا امراء کی نظر فریب عمارتیں مزدوروں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔۔۔۔۔۔کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے؟ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، ان تھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟ بتاؤ، بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟"
"درست ہے۔" میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔
"تو پھر اسکا علاج کرنا تمھارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔مگر آہ، تمھیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں۔"
ٹھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر راز دارانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔ "عباس، عوام سخت تکلیف برداشت کر رہے ہیں، بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے۔۔۔۔۔۔۔اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جا رہے ہو؟"
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔
"ٹھہرو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں، کہاں جاؤ گے اب؟" اسے یک لخت کہیں جانے کے لیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔
"مگر میں اکیلا ہی جانا چاہتا ہوں، کسی باغ میں جاؤں گا۔"
میں خاموش ہو گیا اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہو گیا۔ اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے اسے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا ہے۔

خونی تھوک ۔۔۔۔ سعادت حسن منٹو

mantoگاڑی آنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔
مسافروں کے گروہ کے گروہ پلیٹ فارم کے سنگین سینے کو روندتے ہوئے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ پھل بیچنے والی گاڑیاں ربڑ ٹائر پہیوں پر خاموشی سے تَیر رہی تھیں۔ بجلی کے سینکڑوں قمقمے اپنی نہ جھپکنے والی آنکھوں سے ایک دوسرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ برقی پنکھے سرد آہوں کی صورت میں اپنی ہوا پلیٹ فارم کی گدلی فضا میں بکھیر رہے تھے۔ دور ریل کی پٹری کے پہلو میں ایک لیمپ اپنی سرخ نگاہوں سے مسافروں کی آمد و رفت کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔پلیٹ فارم کی فضا سگریٹ کے تند دھوئیں اور مسافروں کے شور میں لپٹی ہوئی تھی۔
پلیٹ فارم پر ہر ایک شخص اپنی اپنی دھن میں مست تھا۔ تین چار بنچ پر بیٹھے اپنی ہونے والی سیر کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک گھڑی کے نیچے خدا معلوم کن خیالات میں غرق زیرِ لب گنگنا رہا تھا۔ دور کونے میں نیا بیاہا ہوا جوڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ خاوند اپنی بیوی کو کچھ کھانے کے لیے کہہ رہا تھا۔ وہ شرما کر مسکرا دیتی تھی، پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر ایک نوجوان قلیوں کے ساتھ لڑکھڑا کر چل رہا تھا، جو اسکی بہن کا تابوت اٹھائے ہوئے تھے۔ پانچ چھ فوجی گورے ہاتھ میں چھڑیاں لئے اور سیٹی بجاتے ہوئے ریفرشمنٹ روم سے شراب پی کر نکل رہے تھے۔ بک سٹال پر چند مسافر اپنا وقت ٹالنے کی خاطر یونہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے میں مشغول تھے۔ بہت سے قلی سرخ وردیاں پہنے گاڑی کی روشنی کا امید بھری نگاہوں سے انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ریفرشمنٹ روم کے اندر ایک صاحب انگریزی لباس زیب تن کئے سگار کا دھواں اڑا کر وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"قلیوں کی زندگی گدھوں سے بھی بدتر ہے۔"
"مگر میاں کیا کریں آخر پیٹ کہاں سے پالیں؟"
"ایک قلی دن بھر میں کتنا کما لیتا ہو گا؟"
"یہی آٹھ دس آنے۔۔۔۔۔۔۔۔"
"یعنی صرف جینے کا سہارا۔۔۔۔۔۔اور اگر بال بچے ہوں تو اپنا پیٹ کاٹ کر ان کا منہ بھریں۔ جب ان لوگوں کی تاریک زندگی کا خیال ایک دفعہ بھی میرے دماغ میں آ جائے تو پہروں سوچتا رہتا ہوں کہ آیا ان کی مصیبت ہماری نام نہاد تہذیب پر بدنما داغ نہیں ہے؟"
دو دوست پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
خالد اپنے دوست کی گفتگو سن کر قدرے متعجب ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا۔ "کیوں میاں یہ لینن کب سے بنے تم؟۔۔۔۔۔۔تہذیب کس بلا کا نام ہے۔۔۔۔۔۔انسانیت کے سرد لوہے پر جما ہؤا زنگ۔۔۔۔۔۔جانے دو ایسی باتوں کو، جانتے ہو میں پہلے ہی سے اپنے حواس کھوئے بیٹھا ہوں۔"
"خالد، سچ کہہ رہے ہو۔ یہ باتیں واقعی دماغ کو درہم برہم کر دیتی ہیں۔ دو روز ہوئے اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ پندرہ مزدور کارخانے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے جلے ہوئے کاغذ کے مانند راکھ ہو گئے۔ کارخانہ بیمہ شدہ تھا، مالک کو روپیہ مل گیا۔ مگر پندرہ عورتیں بیوہ بن گئیں اور خدا معلوم کتنے بچے یتیم ہو گئے۔ کل تین نمبر پلیٹ فارم پر ایک خاکروب کام کرتے کرتے گاڑی تلے آ کر مرگیا۔ کسی نے آنسو تک نہ بہایا۔۔۔۔۔۔جب سے یہ واقع دیکھا ہے، طبیعت سخت مغموم ہے۔ یقین جانو، حلق سے روٹی کا لقمہ نیچے نہیں اترتا، جب دیکھو اس خاکروب کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش آنکھیں باہر نکالے میری طرف گھور رہی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے اس کے گھر ضرور جانا چاہئے، شاید میں اس کے بچوں کی کچھ مدد کر سکوں۔"
خالد مسکرایا اور اپنے دوست کا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔ "جاؤ۔۔۔۔۔۔پندرہ مزدوروں کی بیکس بیویوں کی بھی مدد کرو، یہ ایک نیک اور مبارک جذبہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی شہر سے کچھ فاصلے پر چند ایسے لوگ بھی آباد ہیں، جنھیں ایک وقت کے لیے سوکھی روٹی کا نصف ٹکڑا بھی میسر نہیں۔ گلیوں میں ایسے بچے بھی ہیں جن کے سروں پر کوئی پیار دینے والا نہیں، ایسی سینکڑوں عورتیں موجود ہیں جن کا حسن غربت کے کیچڑ میں گل سڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بتاؤ تم کس کس کی مدد کرو گے؟ ان پھیلے ہوئے ہاتھوں میں سے کس کس کی مٹھی بھرو گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں ننگے جسموں میں سے کتنوں کی ستر پوشی کرو گے؟"
"آہ، درست کہتے ہو خالد۔۔۔۔درست کہتے ہو، مگر بتاؤ اس تاریک آندھی کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ اپنے ہم جنس افراد کو ذلت کی زندگی بسر کرتے دیکھنا، ننگے سینوں پر چمکتے ہوئے بوٹوں کی ٹھوکریں کھاتے دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔سخت بھیانک خواب ہے۔"
"واقعات کی رفتار کا نتیجہ دیکھنے کا انتظار کرو، یہ لوگ اپنی طاقت کے باوجود اس طوفان کو نہیں روکتے۔ خود اعتمادی نے انہیں برداشت کرنا سکھا دیا ہے۔۔۔۔۔چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرنا آسان ہے مگر چنگاری کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔بہرحال تمھیں امید رکھنی چاہئے شاید تمھاری زندگی میں ہی مصائب کے یہ بادل دور ہو جائیں۔"
"میں یہ سہانا وقت دیکھنے کے لیے اپنی زندگی کے بقایا سال نذر کرنے کو تیار ہوں۔"
"کاش یہی خیال باقی لوگوں کے دلوں میں بھی موجود ہوتا۔۔۔۔۔مگر یار گاڑی آج کچھ دیر سے آتی معلوم ہوتی ہے۔ دیکھو نا پٹڑی پر روشنی کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔"
خالد کا ساتھی کسی گہری فکر میں غوطہ زن تھا۔ اس لیے اس نے اپنے دوست کے آخری الفاظ بالکل نہ سنے۔ اور اگر سنے تو کچھ اور خیال کر کے کہنے لگا۔ "واقعی یہ خیال پیدا کرنا چائیے اور اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"چھوڑو میاں اب اس فلسفے کو۔۔۔۔۔کچھ پتا بھی ہے، گاڑی کب آنے والی ہے؟" خالد نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔
"گاڑی۔۔۔۔۔۔" اور پھر سامنے والی گھڑی کی طرف نگاہ اٹھا کر بولا۔ "نو بج کر پچیس منٹ، بس دس منٹ تک آ جائے گی۔۔۔۔۔یعنی دس منٹ کے بعد ہمارا دوست ہمارے پاس ہو گا۔۔۔۔۔۔ذرا خیال تو کرو، میں وحید کی آمد کو اس دردناک گفتگو کی وجہ سے بالکل بھول چکا تھا۔"
یہ کہتے ہوئے خالد کے دوست نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانا شروع کیا۔
پلیٹ فارم پر لوگوں کا ہجوم تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ مسافر بڑی سرعت سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ قلی اسباب کے ڈھیروں کے پاس خاموش کھڑے گاڑی کے منتظر تھے کہ جلد اپنے کام سے فارغ ہو کر ایک آنہ حاصل کر سکیں۔ خوانچہ والے دوسرے پلیٹ فارموں سے جمع ہو کر اپنی اپنی اپنی مخصوص صدا بلند کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا، گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ، مختلف انجنوں کی پھپ پھپ، خوانچہ والوں کی صداؤں، مسافروں کی باہم گفتگو کے شور اور قلیوں کی بھدی آوازوں سے معمور تھی۔۔۔۔۔۔برقی پنکھے بدستور سرد آہیں بھر رہے تھے۔
ریفرشمنٹ روم کے اندر بیٹھے ہوئے مسافر نے جو ابھی تک سگار کو دانتوں میں دبائے کش کھینچ رہا تھا، اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف بڑی بے پروائی کے انداز میں دیکھا، اور بازو کو جھٹکا دے کر مرمریں میز پر سہارا دیتے ہوئے بلند آواز میں بولا۔
"بوائے۔"
ٹھوڑی دیر خادم کا انتظار کرنے کے بعد وہ پھر چیخا۔
"بوائے۔۔۔۔۔۔بوائے۔" اور پھر آہستہ بڑبڑاتے ہوئے۔ "نمک حرام"
"جی آیا حضور۔" دوسرے کمرے میں سے کسی کی آواز آئی، اور ساتھ ہی سپید لباس پہنے ہوئے ایک خادم بھاگ کر اس مسافر کے قریب مودب کھڑا ہو گیا۔
"حضور۔"
"ہم نے تمھیں دو دفعہ آواز دی۔ سوئے رہتے ہو تم لوگ شاید۔"
"حضور میں نے سنا نہیں، ورنہ کیا مجال ہے کہ غلام حاضر نہ ہوتا۔"
غلام کا لفظ سن کر مسافر کا غصہ فرو ہو گیا۔
"دیکھو درجہ اول کے مسافروں سے یہ بے رخی اچھی نہیں، ہم تمھارے بڑے صاحب کے بھی کان کھینچ سکتا ہے، سمجھے؟"
"جی ہاں۔"
"ایجنٹ کے، وہ ہمارا دوست ہے۔۔۔۔۔۔خیر، دیکھو تم ویٹنگ روم میں جاؤ اور ہمارے قلی سے کہو کہ وہ صاحب کا تمام اسباب پلیٹ فارم پر لے جائے۔ گاڑی آنے میں صرف پانچ منٹ باقی ہیں۔"
"بہت اچھا حضور۔"
"اور ہاں، ہمارا بل دوسرے آدمی کے ہاتھ بھجوا دو۔"
"بہت اچھا صاحب"
"دیکھو، بل میں پانچسو پچپن نمبر سگریٹ کے ایک ڈبے کے دام بھی شامل کر لینا۔۔۔۔۔۔پانچسو پچپن نمبر کا ڈبہ خیال رہے۔"
"بل اور ڈبہ گاڑی میں لے کر حاضر ہو جاؤں گا، وقت تھوڑا ہے۔"
"جو مرضی میں آئے کرنا، مگر اب تم جاؤ اور جلدی ہمارے قلی کو اسباب نکالنے کے لیے کہہ دو۔"
مسافر نے یہ کہہ کر ایک انگڑائی لی اور میز پر پڑے ہوئے شراب کے گلاس میں سے آخری گھونٹ ایک ہی جرعے میں ختم کر دیئے۔ گیلے ہونٹ ایک بے داغ ریشمی رومال سے صاف کرنے کے بعد وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا۔
صاحب کو دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ کر ایک خادم نے جلدی سے دروازہ کھول دیا، مسافر بڑی رعونت سے ٹہلتا ٹہلتا پلیٹ فارم کی بھیڑ میں گم ہو گیا۔
دور ریل کی آہنی پٹڑیوں کے درمیان خیرہ کن روشنی کا ایک دھبہ نظر آ رہا تھا جو آہستہ آہستہ آس پاس کی تاریکی کو چیرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔
ٹھوڑی دیر کے بعد یہ دھبہ روشنی کی ایک لانبی دھار میں تبدیل ہو گیا اور دفعتاً انجن کی چوندھیا دینے والی روشنی ایک لمحے کے لیے پلیٹ فارم کے قمقموں کو اندھا بناتے ہوئے گل ہو گئی۔ ساتھ ہی کچھ عرصہ کے لیے انجن کے آہنی پہیوں کی بھاری گڑگڑاہٹ تلے پلیٹ فارم کا شور دب کر رہ گیا۔۔۔ایک چیخ کے ساتھ گاڑی سٹیشن کے سنگین چبوترے کے پہلو میں کھڑی ہو گئی۔
پلیٹ فارم کا دبا ہوا شور انجن کی گڑگڑاہٹ سے آزاد ہو کر ایک نئی تازگی سے بلند ہوا۔ مسافروں کی دوڑ دھوپ، بچوں کے رونے کی آواز، قلیوں کی بھاگ دوڑ، اسباب نکالنے کا شور، ٹھیلوں کی کھڑکھڑاہٹ، خوانچہ والوں کی بلند صدائیں، شنٹ کرتے ہوئے انجن کی دلخراش چیخیں اور بھاپ نکلنے کی شاں شاں، پلیٹ فارم کی آہنی چھت تلے فضا میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے تیر رہی تھیں۔
"خالد۔۔۔۔۔۔وحید کو تم نے دیکھا کسی ڈبے میں۔"
"نہیں تو"
"خدا جانے اس گاڑی سے آیا بھی ہے یا نہیں۔"
"تار میں تو اسی گاڑی کا ذکر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ارے، وہ ڈبے میں کون ہے۔۔۔۔وحید۔"
"ہاں، ہاں، وحید۔"
دونوں دوست بھاگتے ہوئے اس ڈبے کی طرف بڑھے جس میں سے وحید اپنا اسباب اتروا رہا تھا۔
ریفرشمنٹ روم والا مسافر تیزی سے فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ کی طرف بڑھا۔ باہر دروازے کے ساتھ لگے ہوئے کاغذ کو ایک نظر دیکھنے کے بعد دروازہ کھول کر ڈبے کے اندر داخل ہو گیا اور پیتل کی سلاخ تھام کر قلی اور اپنے اسباب کا انتظار کرنے لگا۔
قلی اسباب سے لدا ہوا گاڑی کے ڈبوں کی طرف دیکھ دیکھ کر دوڑا چلا آ رہا تھا۔ مسافر نے اسے جھلا کر بلند آواز میں پکارا۔
"ابے اندھے، ادھر آ"
قلی نے مسافر کی آواز پہچان کر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر بھیڑ میں خود مسافر کو نہ دیکھ سکا، وہ ابھی اسی پریشانی کی حالت میں ہی تھا کہ ایک اور آواز آئی۔
"کیوں۔ نظر نہیں آ رہا کیا؟ ادھر، ادھر۔۔۔۔۔ناک کی سیدھ۔"
قلی نے مسافر کو دیکھ لیا اور اسباب لیکر اسکے ڈبے کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔
"صاحب، ایک طرف ہٹ جائیے میں اسباب اندر رکھ دوں"
"ہاں رکھو" دروازے کے ساتھ ایک گدے دار نشست پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ "مگر اتنا عرصہ سوئے رہے تھے کیا؟ خانسامے نے تمھیں یہ نہیں کہا تھا کہ صاحب کا سامان اٹھا کر گاڑی آتے ہی فوراً ڈبے میں رکھ دینا؟"
"مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کس ڈبے میں سوار ہونگے" قلی نے ایک بھاری ٹرنک اٹھا کر بالائی نشست پر رکھتے ہوئے کہا۔
"یہ ڈبہ ہمارا ریزرو کرایا ہوا ہے، باہر چٹ پر نام بھی لکھا ہوا ہے۔"
"آپ نے پہلے یہ کہا ہوتا تو ہرگز یہ دیر نہ ہوتی"۔۔۔۔۔ایک، دو، تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آٹھ۔۔۔اور دس، قلی نے اسباب کی مختلف اشیا گننا شروع کر دیں۔
سامان قرینے سے رکھنے کے بعد قلی نے اپنے اطمینان کے لیے ایک بار رکھی ہوئی چیزوں پر نگاہ ڈالی اور ڈبے سے نیچے پلیٹ فارم پر اتر گیا۔
"صاحب، اپنا سامان پورا کر لیجئے"
مسافر نے بڑی بے پروائی سے اپنی جیب سے ایک نفیس بٹوہ نکالا اور ابھی کھول کر مزدوری ادا کرنے والا ہی تھا کہ اسے کچھ یاد آیا۔
"ہماری چھڑی کہاں ہے؟"
"چھڑی؟۔۔۔۔۔۔۔ چھڑی تو آپ کے پاس ہی تھی۔"
"میرے پاس، بکتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہیں چھوڑ آیا ہو گا تو"
"چھڑی آپ کے پاس تھی۔۔۔۔۔مگر صاحب اس سخت کلامی سے پیش آنا درست نہیں، جب میں نے کوئی خطا ہی نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
قلی کی زبان سے اس قسم کے الفاظ سن کر مسافر آگ بھبھوکا ہو گیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کے پاس کھڑا ہو کر چلانے لگا۔
"سخت کلامی سے پیش آنا درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔کسی نواب کا صاحبزادہ ہے۔۔۔۔۔جتنے کی چھڑی ہے اتنی تو تیری قیمت بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔چھڑی لیکر آتا ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔چور کہیں کا۔"
چور کے لفظ نے قلی کے دل میں ایک طوفان برپا کر دیا، اسکے جی میں آئی کہ اس مسافر کو ٹانگ سے پکڑ کر نیچے کھینچ لے اور اسے اس اکڑ فوں کا مزا چکھا دے۔ مگر طبیعت پر قابو پا کر خاموش ہو گیا اور نرمی سے کہنے لگا۔
"آپ کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے، چھڑی آپ نے کہیں رکھ دی ہو گی، مجھے بتائیے میں وہاں سے پتا لے آؤں۔"
"گویا میں بیوقوف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہہ رہا ہوں، چھڑی لیکر آؤ ورنہ ساری شیخی کرکری کر دوں گا۔"
قلی ابھی کچھ جواب دینے ہی لگا تھا کہ اسے چند قدم کے فاصلے پر خانساماں نظر آیا جو ہاتھ میں سگریٹ کا ڈبہ اور چھڑی پکڑے چلا آ رہا تھا۔
"چھڑی خانساماں لیکر آ رہا ہے اور آپ خواہ مخواہ مجھ پر برس رہے ہیں۔"
"بکو نہیں اب۔۔۔۔۔۔۔کتے کی طرح چلائے جا رہا ہے۔"
یہ سن کر قلی غصے سے بھرا ہوا مسافر کی طرف بڑھا۔ مسافر نے پورے زور سے اسکے بڑھے ہوئے سینے میں نوکیلے بوٹ سے ٹھوکر لگائی۔ ٹھوکر کھاتے ہی قلی چکراتا ہوا سنگین فرش پر گر کر بیہوش ہو گیا۔
قلی کو گرتے دیکھ کر بہت سے لوگ اسکے اردگرد جمع ہو گئیے۔
"بیچارے کو بہت سخت چوٹ آئی ہے۔"
"یہ لوگ بہانہ بھی کیا کرتے ہیں۔"
"منہ سے شاید خون بھی نکل رہا ہے۔"
"معاملہ کیا ہے؟"
"اس آدمی نے اسے بوٹ سے ٹھوکر لگائی ہے۔"
"کہیں مر نہ جائے بیچارہ۔"
"کوئی دوڑ کر پانی کا ایک گلاس تو لائے۔"
"بھئی ایک طرف ہٹ کر کھڑے رہو، ہوا تو آنے دو۔"
قلی کے گرد جمع ہوتے ہوئے لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد خالد اور اسکا دوست بھیڑ چیر کر گرے ہوئے مزدور کے قریب پہنچے۔ خالد نے اسکے سر کو اپنے گھٹنوں پر اٹھا لیا اور اخبار سے ہوا دینا شروع کر دی۔ پھر اپنے دوست سے مخاطب ہو کر بولا۔
"مسعود، وحید سے کہہ دو کہ ہم اب اسے گھر پر ہی مل سکیں گے۔۔۔۔اور ہاں ذرا اس ظالم کو تو دیکھنا، کہاں ہے۔۔۔۔گاڑی چلنے والی ہے، کہیں وہ چلا نہ جائے۔"
یہ سنتے ہی لوگ اس مسافر کے ڈبے کے پاس جمع ہو گئے جو کھڑکی کے پاس بیٹھا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اخبار پڑھنے کی بے سود کوشش کر رہا تھا۔
مسعود اپنے دوست وحید سے رخصت لیکر اس مسافر کی طرف بڑھا اور کھڑکی کے قریب جا کر نہایت شائستگی سے کہا۔
"آپ یہاں اخبار بینی میں مصروف ہیں اور وہ بیچارہ بیہوش پڑا ہے۔"
"پھر میں کیا کروں؟"
"چلئے اور کم از کم اسکی حالت کو ملاحظہ تو کیجیئے۔"
"کمبخت نے میرے سفر کا تمام لطف غارت کر دیا ہے۔" اور پھر دروازے سے باہر نکلتے ہوئے۔ "چلئے صاحب۔۔۔۔۔۔یہ مصیبت بھی دیکھنا تھی۔"
خالد بیہوش قلی کا سر تھامے اسے پانی پلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لوگ جھکے ہوئے خالد اور قلی کے چہروں کی طرف بغور دیکھ رہے تھے۔
"خالد، آپ تشریف لے آئے ہیں۔" مسعود نے مسافر کو آگے بڑھنے کو کہا۔
"ہاں، جناب۔۔۔۔۔یہ ہے آپ کے ظلم کا شکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی ڈاکٹر کو ہی بلوا لیا ہوتا آپ نے؟" مسعود نے مسافر سے کہا۔
مسافر، قلی کے زرد چہرہ اور لوگوں کا گروہ دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا اور گھبراتے ہوئے جیب سے اپنا بٹوہ نکالا۔
مسافر ابھی بٹوہ نکال رہا تھا کہ قلی کا جسم متحرک ہوا اور اس نے اپنی آنکھیں کھول کر ہجوم کی طرف پریشان نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا۔
"یہ نوٹ آپ اسے میری طرف سے دے دیجیئے گا۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں گاڑی کا وقت ہو گیا ہے۔" مسافر نے مسعود کے ہاتھ میں دس روپے کا ایک نوٹ پکڑاتے ہوئے انگریزی میں کہا، اور پھر قلی کو ہوش میں آتے دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا۔ "ہم نے اس غلطی کی قیمت ادا کر دی ہے۔"
قلی یہ سن کر تڑپا، منہ سے خون کی ایک دھار بہہ نکلی، بڑی کوشش سے اس نے یہ چند الفاظ اپنی زخمی چھاتی پر زور دے کر نکالے۔
"میں بھی انگریزی زبان جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس روپے۔۔۔۔۔۔۔ایک انسان کی جان کی قیمت۔۔۔۔۔۔میرے پاس بھی کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔"
باقی الفاظ اسکے خون بھرے منہ میں بلبلے بن کر رہ گئے، مسافر قلی کی یہ حالت دیکھ کر اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔
"میں زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔"
قلی نے بڑی تکلیف سے مسافر کی طرف رخ پھیرا اور منہ سے خون کے بلبلے نکالتے ہوئے کہا۔
"میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے مسافر کے منہ پر تھوک دیا، تڑپا اور پلیٹ فارم کی آہنی چھت کی طرف مظلوم نگاہوں سے دیکھتا ہوا خالد کی گود میں سرد ہو گیا۔۔۔۔۔۔مسافر کا منہ خونی تھوک سے رنگا ہوا تھا۔
خالد اور مسعود نے لاش دوسرے آدمیوں کے حوالہ کر کے مسافر کو پکڑ کر پولیس کے سپرد کر دیا۔
مسافر کا مقدمہ دو مہینے تک متواتر عدالت میں چلتا رہا۔
آخر فیصلہ سنا دیا گیا، فاضل جج نے ملزم کو معمولی جرمانہ کرنے کے بعد بری کر دیا۔ فیصلے میں یہ لکھا تھا کہ قلی کی موت اچانک تلی پھٹ جانے سے واقع ہوئی ہے۔
فیصلہ سناتے وقت خالد اور مسعود بھی موجود تھے۔ ملزم انکی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
"قانون کا قفل صرف طلائی چابی سے کھل سکتا ہے۔"
"مگر ایسی چابی ٹوٹ بھی جایا کرتی ہے۔"
خالد اور اسکا دوست باہر برآمدے میں باہم گفتگو کر رہے تھے۔