اتوار، 27 مئی، 2018

کون ہے اصلی ڈکیٹ


ایک بنک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا۔۔۔

"کوئی بھی ہلے مت۔چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں۔۔رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔۔۔"
سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔۔۔کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا
اسے کہتے ہیں مائند چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے والا تصور)۔۔۔
ایک خاتون کچھ واہیات انداز میں زمین پر لیٹی ہوئی تھی۔۔ایک ڈاکو اس سے بولا
"تمیز سے لیٹو یہاں ڈکیتی ہو رہی ہے ، ریپ نہیں ہو رہا۔۔۔"

اسے کہتے ہیں "فوکس " بس وہی کام کریں جس کے لیے آپ کو ٹرینڈ کیا گیا ہے۔۔
ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو نوجوان ڈکیت( جو کہ ایم بی اے پاس تھا )نے بوڑھے ڈکیٹ ( جو کہ صرف پرائمری پا س تھا )سے کہا "چلو رقم گنتے ہیں۔۔
"تم تو پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے۔۔رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔۔"
اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔۔
جب ڈاکو بنک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔۔
سپروائز نے جواب دیا "رک جائیں سر ! پہلے بنک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکووں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔۔" اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا۔۔۔مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کر لینا۔۔

منیجر ہنس کر بولا۔۔"ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔۔" اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا۔۔۔ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بنک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔۔۔ڈاکووں نے بار بار رقم گنی لیکن پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔۔۔بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا
"ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے اور بنک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔۔اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔۔ ہم کو چور نہیں پڑھا لکھا ہونا چاہیے تھا۔۔"
اسے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے۔۔
بنک منیجر خوش تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اسے جو نقصان ہو رہا تھا وہ اب ان پیسوں سے پورا ہو گا۔۔اسے کہتے ہیں موقع پرستی۔۔
آخر میں بس ایک سوال۔۔

ایک پرانا لطیفہ

وڈا پاگل

تحریر ۔۔۔ وڈا پاگل
لاہور میں پاگلوں کے دو بڑے ڈاکٹر میرے دوست تھے‘ میں جب بھی فارغ ہوتا تھا میں ان کے پاس چلا جاتا تھا اور وہ بڑے بڑے شاندار پاگلوں کے ساتھ میری ملاقات کرواتے تھے‘ ڈاکٹر رشید چوہدری ایلیٹ فیملیز اور پڑھے لکھے پاگلوں کے ڈاکٹر تھے‘ ان کے پاس آکسفورڈ‘ کیمبرج اور ہارورڈ یونیورسٹی کے کوالیفائیڈ پاگل آتے تھے۔
میں ایک دن ان کے دفتر گیا تو وہاں ایک نہایت پڑھا لکھا اور رئیس پاگل بیٹھا تھا‘ پاگل نے قیمتی اطالوی سوٹ پہن رکھا تھا‘مہنگی خوشبو لگا رکھی تھی اور انگلیوں میں کیوبا کا سگاردبا رکھا تھا‘ کمرے سے سگار کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی اور پڑھا لکھا پاگل نہایت انہماک کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو پنجابی‘ اردو اور انگریزی تین زبانوں میں گالیاں دے رہا تھا ‘ ڈاکٹر صاحب بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ گالیاں سن رہے تھے‘ جب پاگل تھک گیا تو ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا اور عملہ پاگل کو کرسی سمیت اٹھا کر لے گیا۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’سر آپ کو گالیاں سن کر غصہ کیوں نہیں آ رہا تھا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’کیونکہ میں جانتا ہوں یہ پاگل ہے اور اگر آپ کو پاگلوں کی بات پر غصہ آ جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے آپ ان سے بڑے پاگل ہیں‘‘ میں نے اس دن یہ بات پلے باندھ لی‘ ہم اگر نارمل ہیں تو پھر ہمیں پاگلوں کی باتوں پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں پاگلوں کی گالیاں بھی اطمینان سے سن لینی چاہئیں چنانچہ میں جب بھی کسی مشکل صورت حال کا شکار ہوتا ہوں‘ مجھے جب کوئی پاگل ٹکر جاتا ہے تو مجھے ڈاکٹر رشید چوہدری یاد آ جاتے ہیں‘ میں پاگل سے معافی مانگتا ہوں‘ اپنا جرم‘ گناہ اور غلطی تسلیم کرتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں‘ میں پاگل کے ساتھ ڈائیلاگ یا آرگومنٹ کی غلطی نہیں کرتا‘ میں جس دن یہ غلطی کر بیٹھوں میں اس دن نیند کی گولی کے بغیر سو نہیں پاتا‘ دوسرے ڈاکٹرصاحب غریب پاگلوں کے معالج تھے۔
وہ لاہور کے سرکاری پاگل خانے میں کام کرتے تھے‘ میں ہفتے میں دو دن گپ شپ کے لیے ان کے پاس چلا جاتا تھا‘ ان کے پاس بڑے بڑے معرکۃ الآراء پاگل ہوتے تھے‘ مثلاً مجھے ایک دن وہاں ایک ایسا پاگل ملا جس کا خیال تھا وہ (نعوذ باللہ) خدا ہے اور اس نے قیامت لانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ وہ اس وقت تک بات نہیں کرتا تھا جب تک مخاطب اسے ’’باری تعالیٰ‘‘ نہیں کہتا تھا‘ میں نے ایک دن اس سے قیامت لانے کی وجہ پوچھ لی‘ اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور چلا کر بولا ’’وہ دنیا جس میں آلو چار روپے کلو ہو جائیں کیا اسے تباہ نہیں ہو جانا چاہیے‘‘ میں نے فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ خوش ہو گیا اور بولا ’’مجھے دس برسوں میں صرف تم ایک عقل مند آدمی ملے ہو ورنہ اس ملک میں ہر شخص پاگل‘ ہر شخص نالائق ہے‘‘ اس کا فرمان تھا ’’تم مجھے ملتے رہا کرو‘ میں تمہیں بہت جلد اپنا ڈپٹی لگا دوں گا‘‘ میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کر لیا لیکن اس کا کہنا تھا ’’میں جب بھی آؤں میں اس کے لیے کے ٹو فلٹر کی دو ڈبیاں لے کر آؤں‘‘ میں نے یہ وعدہ بھی کر لیا اور میں اس وقت تک اسے سگریٹ فراہم کرتا رہا جب تک آلو سستے نہیں ہوئے اور اس نے قیامت برپا کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لے لیا‘ مجھے اس پاگل خانے میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق دونوں سے ملاقات کا شرف بھی نصیب ہوا۔
یہ دونوں ایک ہی بیرک میں رہتے تھے‘ ایک ہی ٹرے میں کھانا کھاتے تھے اور ایک دوسرے کو پھانسی لگانے کا اعلان کرتے تھے‘ بھٹو چلا کر کہتا تھا‘ ضیاء دیکھ لینا میں تمہاری مونچھوں کے ساتھ اپنے بوٹ لٹکاؤں گا اور جنرل ضیاء قہقہہ لگا کر جواب دیتا تھا ’’بھٹو صاحب!میں نے اپنی مونچھیں ہی چھوٹی کرا لی ہیں‘ آپ بوٹ کیسے لٹکاؤ گے‘‘ اور بھٹو چیخ چیخ کر کہتا تھا ’’اوئے بزدل‘ اوئے ڈرپوک اگر مرد کے بچے ہو تو اپنی مونچھیں بڑی کر کے دکھاؤ‘‘ اور پھر اس کے بعد وہاں ایک عجیب منظر ہوتا تھا۔
بھٹو اپنے کارکنوں کو للکار کر کہتا تھا آگے بڑھو اور اس غاصب کی وردی پھاڑ دو اور جنرل ضیاء عزیز ہم وطنو سے مخاطب ہو جاتا تھا‘ وہ اپنے رفقاء کار کو قوم کی رہنمائی کا حکم بھی صادر کرنے لگتا تھا‘ میری وہاں بنی اسرائیل کے ایک ایسے ’’عالم‘‘ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی جو حضرت موسیٰ ؑکے ساتھ مصر سے فلسطین ’’تشریف‘‘ لایا تھا‘ وہ بحر احمر کی تقسیم کا آنکھوں دیکھا واقعہ بھی بیان کرتا تھا اور یہ بھی کہتا تھا میں خود حضرت موسیٰ ؑکو کوہ طور تک چھوڑ کر آتا تھا۔
وہ دعویٰ کرتا تھا تابوت سکینہ اس کے پاس تھا لیکن پھر لاہور کے چند بدبخت کشمیریوں نے تابوت چوری کر لیا‘ وہ کہتا تھا آپ میرے ساتھ شاہ عالمی چلو‘ میں تمہیں بتاتا ہوں ان لوگوں نے تابوت سکینہ کہاں چھپا رکھا ہے‘ وہ یہ ساری کہانی بڑے یقین اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتا تھا‘ وہ اس دوران ہیبرو زبان کے بے شمار فقرے بھی بولتا تھا‘ہمیں بعض اوقات اس کی باتوں پر یقین آنے لگتا تھا‘ بس وہ ایک چیز سے پکڑا جاتا تھا‘ وہ ہمیشہ کہتا تھا‘ میں حضرت موسیٰ ؑ کو (نعوذ باللہ) سائیکل پر بٹھا کر کوہ طور پہنچاتا تھا۔
اگر اس دوران بدقسمتی سے کسی کے منہ سے یہ نکل جاتا ’’جناب سائیکل تو اس وقت تھی ہی نہیں‘‘ اور بس اس کے بعد ہو‘ ہو‘ ہو‘ وہ سائیکل کی ایسی زبردست تاریخ بیان کرتا تھا کہ اللہ دے اور بندہ لے‘ اس کا دعویٰ تھا سائیکل ایجاد نہیں ہوئی تھی‘ یہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی تھی‘ وہ سائیکل کے نزول کا ایسا روح پرور واقعہ بیان کرتا تھا کہ توبہ توبہ۔ میری وہاں بے شمار شاندار علماء کرام سے ملاقات بھی ہوئی‘ میں وہاں امام غزالی سے بھی ملا‘ میری وہاں ابن رشد سے بھی ملاقات ہوئی اور بو علی سینا تو وہاں وافر تعداد میں موجود تھے۔
میں وہاں ایک ایسے حاذق طبیب سے بھی ملا جس کا دعویٰ تھا وہ چیونٹیوں کے ذریعے گردے کی پتھری نکال سکتا ہے‘ میں نے پوچھا ’’کیسے‘‘ وہ بولا ’’گردے کی پتھری میٹھی ہوتی ہے‘ آپ مریض کو آدھی چھٹانک زندہ چیونٹیاں کھلا دیں‘ یہ چیونٹیاں گردے میں پہنچ کر پتھری توڑ دیں گی‘‘ اس کا دعویٰ تھا یہ علاج کیونکہ مفت ہے چنانچہ یہودی فارما سوٹیکل کمپنیوں نے حکومت کے ساتھ مل کر اسے پاگل خانے میں بند کرا دیا ہے۔
یہ جس دن باہر آ گیا یہ پوری میڈیکل سائنس بدل کر رکھ دے گا‘ مجھے وہاں بے شمار سیاستدان بھی ملے‘ وہ سب قوم کی نبض کو بھی سمجھتے تھے اور ان کے پاس ہر ملکی مسئلے کا حل بھی تھا‘ مثلاً ایک ’’لیڈر‘‘ کا دعویٰ تھا وہ ایک مہینے میں بے روزگاری کا مسئلہ جڑ سے ختم کر دے گا‘ میں نے پوچھا ’’کیسے‘‘ وہ بولا ’’حکومت اٹھارہ سال سے اوپر ملک کی ساری آبادی بھرتی کر لے‘ بے روزگاری ختم ہو جائے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن تنخواہوں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے‘‘ اس نے اس کا ایک ایسا شاندار حل بتایا کہ میں فرش پر لیٹ گیا‘ اس کا کہنا تھا‘ آپ سعودی عرب کو اپنے گلیشیئر بیچ دیں‘ سعودی عرب ٹھنڈا ہو جائے گا‘ عمرے کا سیزن بڑا ہو جائے گا۔
آپ ان سے عمرے کی رائلٹی لیں اور لوگوں کو تنخواہیں دیتے رہیں‘ وہاں موجود ایک سائنس دان کے پاس لوڈ شیڈنگ کا حل بھی موجود تھا‘ اس کا کہنا تھا حکومت دس کروڑ چھوٹی چھوٹی ٹربائنیں بنائے‘ ان کے آگے آوارہ کتے جوت دے‘ یہ کتے روزانہ دس کروڑ یونٹ بجلی پیدا کر دیں گے یوں بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ میں نے پوچھا ’’لیکن جناب کتوں کے لیے خوراک کہاں سے آئے گی‘‘ مسکرا کر بولا ’’جو کتا بجلی پیدا کرنے کے عمل کے دوران مر جائے وہ کاٹ کر دوسرے کتوں کو کھلا دیا جائے‘‘۔
میں دو سال لاہور کے ان دونوں پاگل خانوں میں جاتا رہا‘ وہ میری زندگی کے دلچسپ ترین سال تھے کیونکہ میں نے ان دو سالوں میں سیکھا‘ دنیا کے ہر پاگل میں چھ خوبیاں ہوتی ہیں‘ پاگل بے تحاشہ بولتا ہے‘ یہ بولے گا اور پھر بولتا چلا جائے گا‘ یہ کبھی آپ کی باری نہیں آنے دے گا‘ دو‘ یہ غیر فطری حد تک سنجیدہ ہو گا‘ آپ کبھی کسی پاگل کو ہنستا ہوا نہیں دیکھیں گے‘ وہ قہقہہ بھی لگائے گا تو آپ کو اس کی آنکھوں میں سنجیدگی نظر آئے گی‘ تین‘ دنیا کے 90 فیصد پاگلوں کے پاس بے تحاشہ مذہبی اور روحانی معلومات ہوتی ہیں‘ یہ آپ کو اپنی معلومات سے حیران کر دیں گے‘ چار‘ آپ جتنے بڑے پاگل ہوتے ہیں۔
آپ کے لہجے میں اتنا ہی زیادہ یقین ہوتا ہے‘ آپ کسی پاگل سے مل لیں آپ کو اس کا یقین حیران کر دے گا‘ وہ قسم کھا جائے گا سورج مغرب سے نکلتا ہے اور یہودیوں نے دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے مغرب کا نام مشرق رکھ دیا تھا‘ پانچ‘ دنیا کا ہر پاگل دن میں خواب دیکھتا ہے اور یہ اس خواب کو حقیقت سمجھتا رہتا ہے اور چھ‘ دنیا کا ہر پاگل بحث کا استاد ہوتا ہے‘ آپ اسے بحث میں نہیں ہرا سکتے لہٰذا آپ کے پاس اس کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
آپ کو اگر میری آبزرویشن پر یقین نہ آئے تو آپ کسی پاگل خانے کو وزٹ کر لیں‘ آپ میری’’پاگل شناسی‘‘ کے قائل ہو جائیں گے اور اگر آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو پاگل خانے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ یہ پورا ملک پاگل خانہ بن چکا ہے‘آپ کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک کروڑوں عالم‘ سائنس دان‘ سیاستدان‘ دانشور‘ طبیب اور پیر مل جائیں گے‘ آپ کو ان سب میں یہ چھ کی چھ خوبیاں بھی مل جائیں گی.-

ہفتہ، 26 مئی، 2018

جیالے کا قومہ اور قائد کی تبدیلی

ایک جیالہ کومے میں چلا گیا ۔ کئی  سال بعد اسے ہوش آیااور سیدھے اپنے پیپلز پارٹی  کے محبوب لیڈر کے پیچھے پیچھے   جلسے میں چلا گیا ۔ پارٹی میں سٹیج سیکریٹری نے وکٹ سمجھ کر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ڈائس پر بلا لیا سب سے پہلے اس نے جئے بھٹو کا نعرہ لگایااور کہنے لگا ۔
بھائیو اتنا عرصہ کومے میں رہا اور جب ہوش آیا تو پہلا خیال آیا کہ شاید میری پارٹی ختم ہو چکی ہو گی ۔ لیکن آج یہاں دیکھ کر دلی اطمینان ہواپارٹی کو کچھ نہیں ہوا اور سارے لیڈر بھی زندہ ہیں ہمارے محترم لیڈر شاہ محمود قریشی بھی تشریف فرما ہیں ۔ فردوس عاشق اعوان بھی راجہ ریاض بھی اور بابر اعوان بھی فواد چوہدری کو تو دیکھ کر دل بلیوں  اچھل رہا ہے  جیسے بلی کا ان کو دیکھ کر اچھلتا ہے۔ اور کشمیر سے ہمارے ہر دل عزیز جیالے بیرسٹر سلطان بھی تشریف فرما ہیں نذر گوندل صاحب بھی بیٹھے ہیں۔ بس بھائیو  دو باتیں دل میں چبھ سی رہی ہیں ایک جھنڈے سے کالا رنگ کدھر غائب ہو گیا ہے اور دوسرا ہمارے قائد زرداری صاحب کہیں نظر نہیں آ رہے میرے منہ میں خاک کہیں وہ ۔۔۔ جیے بھٹو ۔۔
اسٹیج سکریٹری نے اسے گھسیٹ کر پیچھے کیا اور کہا او احمق تیری پارٹی نے قائد بدل لیا ہےاب سب کےسب لوٹے ہو کر باجماعت عمران کے قافلہ میں حق اور سچ کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اور یہ پیپلز پارٹی کا نہیں تحریک انصاف کا جلسہ ہے ۔۔
جیالہ یہ سن کر دوبارہ کومے میں چلا گیا ۔۔
ماخوز