جمعہ، 30 مئی، 2014

سعادت حسن منٹو ۔۔۔ اردو ادب کی تاریخ کا ایک بڑا نام ۔۔۔ ڈاؤنلوڈ کیجئے

سعادت حسن منٹو کو اردو ادب میں ایک عظیم افسانہ نگار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر میں اسے عظیم افسانہ نگار سے زیادہ عظیم حقیقت نگار خیال کرتا ہوں ۔ کیونکہ منٹو نے افسانے نہیں لکھے بلکہ اس نے معاشرے کی تلخ اور کڑوی حقیقت کو اپنے الفاظ میں ڈھالا تھا ۔ ایسے عام الفاظ جن میں بے ساختگی اور سچائی کی خوشبو تھی ۔ کچھ لوگ منٹو کو ننگا اور گندا افسانہ نگار بھی جانتے ہیں ۔اس میں کتنی حقیقت ہے یہ فیصلہ آپ منٹو کے افسانے پڑھ کر کیجئے

سعادت حسن منٹو کے افسانے اور اس سے متعلق کتابیں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

میں سعادت حسن منٹو کے ان قیمتی نسخوں کے لئے اردو محفل خصوصاً اعجاز عبید صاحب ، جویریہ مسعود صاحبہ ، منصور قیصرانی صاحب ، فرخ منظور صاحب سیدہ شگفتہ صاحبہ ، نبیل نقوی صاحب ، شعیب افتخار (فریب) صاحب، محب علوی صاحب، رضوان صاحب ، شمشاد صاحب سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ اردو محفل لائبریری کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے انٹرنیٹ کی دنیا میں یونی کوڈ کتابوں کے حصول کو آسان اور مفت بنا دیا

جمعرات، 29 مئی، 2014

مرزا اسد اللہ خان غالب کے دیوان غالب ڈاؤنلوڈ کریں

مرزا اسد اللہ خان غالب کے دیوان اور ان سے متعلق کتابیں ڈاؤنلوڈ کریں

تمام کتابیں ورڈ فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

آپ ان کتابوں کو اپنے موبائل میں بھی پڑھ سکتے ہیں
موبائل پر پڑھنے کے لئے آسان طریقہ استمال کریں ۔۔ یعنی جو میل ایڈریس آپ اپنے موبائل پر استمال کرتے ہیں وہاں یہ فائل بھیج کر اپنے موبائل میں ڈاؤنلوڈ کر لیں

میں غالب کے ان قیمتی نسخوں کے لئے اردو محفل خصوصاً اعجاز عبید صاحب ، جویریہ مسعود صاحبہ ، منصور قیصرانی صاحب ، فرخ منظور صاحب سیدہ شگفتہ صاحبہ ، نبیل نقوی صاحب ، شعیب افتخار (فریب) صاحب، محب علوی صاحب، رضوان صاحب ، شمشاد صاحب سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ اردو محفل لائبریری کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے انٹرنیٹ کی دنیا میں یونی کوڈ کتابوں کے حصول کو آسان اور مفت بنا دیا

بدھ، 28 مئی، 2014

علامہ محمد اقبال کے دیوان ڈاؤنلوڈ کریں

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے دیوان اور ان سے متعلق کتابیں ڈاؤنلوڈ کریں

میں ان کتابوں کے لئے اردو محفل خصوصاً اعجاز عبید صاحب ، منصور قیصرانی صاحب ، فرخ منظور صاحب اور اردو محفل لائبریری کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی محنت سے انٹرنیٹ کی دنیا میں یونی کوڈ کتابوں کے حصول کو آسان اور مفت بنا دیا

بال جبر یل

بانگ درا

ارمغان حجاز

ضرب کلیم

حیات اقبال

مطالعۂ اقبال کے سو سال

فکرِ اقبال کی تفہیم اور مغالطے:چند معروضات

تمام کتابیں ورڈ فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

آپ ان کتابوں کو اپنے موبائل میں بھی پڑھ سکتے ہیں
موبائل پر پڑھنے کے لئے آسان طریقہ استمال کریں ۔۔ یعنی جو میل ایڈریس آپ اپنے موبائل پر استمال کرتے ہیں وہاں یہ فائل بھیج کر اپنے موبائل میں ڈاؤنلوڈ کر لیں


علامہ محمد اقبال نو نومبر اٹھا رہ سو ستتر کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ علامہ محمد اقبال نے مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے پاس کیا۔انیس سو پانچ میں علامہ محمد اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی بعد آزاں وہ جرمنی چلے گئے جہاں علامہ محمد اقبال نے میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وکالت کے ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال شعروشاعری بھی کرتے رہے ۔ انیس سو بائیس میں حکومت کی طرف سے انہیں سر کا خطاب ملا۔ انیس سو چھبیس میں آپ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبر چنے گئے۔علامہ محمد اقبال مسلم لیگ میں شامل ہوکر آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔علامہ محمد اقبال کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے، جس میں علامہ محمد اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کی مشترکہ کاوشوں سے پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی اکیس اپریل انیس سو اڑتیس میں علامہ محمد اقبال انتقال کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

منگل، 27 مئی، 2014

چوبرجی ۔۔۔ مغل شہنشاہ کا ایک حسین شاہکار

لاہور شہر میں واقع چوبرجی مغل شہنشاہ کا بنایا ایک حسین شاہکار ہے ۔سڑک کے بیچوں بیچ چار برجوں پر کھڑی اس خوبصورت عمارت کے بالکل سامنے میانی صاحب قبرستان ہے جبکہ اس کے پیچھے شام نگر کا گنجان علاقہ نظر آتا ہے ۔۔۔ اس کے دائیں ایم اے او کالج والی روڈ ہے جبکہ اس کے بائیں ملتان روڑ ہے۔

چوبرجی کو چوبرجی اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اس عمارت کے چار ستون ہیں جن کو برج کا نام دیا گیا اور اسی وجہ سے ہی شاید یہ چوبرجی کے نام سے مشہور ہوئی ۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس عمارت کو مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنی بیٹی زیب النساء کے لئے تعمیر کروایا تھا۔اس تاریخی بلڈنگ کو ١٦٤٦ سولہ سو چھیالیس میں تعمیر کیا گیا۔مغل فن تعمیر کا شاہکار ہوتے ہوئے اس بلڈنگ کو بھی حسین نقش و نگار سے سجایا گیا تھا جس میں نیلا رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔

تاریخ کے بعض اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ چوبرجی کے پیچھے جس جگہ آج کل شام نگر کا علاقہ ہے وہاں دریائے راوی بہتا تھا اور شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء اس خوبصورت بلڈنگ سے اس کا نظارہ کیا کرتی تھی ۔

اٹھارہ سو ترتالیس ١٨٤٣ میں زلزلہ آنے کی وجہ سے اس بلڈنگ کا ایک برج زمین بوس ہو گیا جس کی دوبارہ تعمیر کردی گئی تھی ۔مگر زمانے کے ظلم و ستم نے اس عمارت کو بھی صرف نشانی تک ہی رہنے دیا تھا۔

آج سے لگ بھگ تیس سال پہلے چوبرجی صرف میناروں تک ہی چوبرجی نظر آتی تھی ۔ اس کا رنگ روپ اڑ چکا تھا ۔ نقش و نگار مٹ چکے تھے ۔لگ بھگ پندرہ سال پہلے اس کو دوبارہ صحیح کیا گیا اس کے میناروں کی مرمت کر کے اس پر نیا رنگ و روغن کیا گیا۔اس سے ملحقہ باغ کو رنگا رنگ پھولوں سے سجایا گیا۔جہاں آج کل غریب مزدور اپنی راتیں گذارتے ہیں۔

[gallery ids="1345,1346,1347,1348,1349,1350,1351,1352,1353,1354,1355,1356,1357,1358,1359,1360,1361,1362"]

پیر، 26 مئی، 2014

میری فوٹو گرافی ‘‘ مینار پاکستان کی چند تصاویر

مینار پاکستان کو یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔یہ مینار مغلیہ اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک شاندار شاہکار ہے۔ مینار پاکستان ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کی قرارداد کے نتیجے میں وجود میں آیا جبکہ اس کی تعمیر ١٩٦٠ میں شروع ہوئی اور اسے اکتوبر ١٩٦٨ میں مکمل کر لیا گیا ۔اس کا ڈیزائین نصیر الدین خان نے بنایا جبکہ اس کی تعمیر سول انجینیر عبدالرحمن خان نیازی کی نگرانی میں کی گئی ۔اقبال پارک کے ساتھ یہ خوبصورت مینار اپنی مثال آپ ہے ،اگر آپ اس کے سامنے کے رخ پر کھڑے ہوں آپ کے دائیں ہاتھ راوی روڈ جبکہ بائیں ہاتھ بادامی باغ اورسامنے کے رخ پر بادشاہی مسجد ، شاہی قلعہ نظر آتے ہیں ۔
یہ تصاویر کینن ڈی ٦٠٠ ڈی کے کیمرہ سے کھنچی گئی ہیں جس میں اٹھارہ ضرب پچپن کا لینز استمال کیا گیا ہے

[gallery ids="1328,1329,1330,1331,1332,1333,1334,1335"]

اتوار، 25 مئی، 2014

میری فوٹو گرافی ‘‘ کچھ پودوں کی تصویریں

آج سے میں اپنی فوٹوگرافی کے سلسلہ میں کچھ تصاویر روزانہ کی بنیاد پر پوسٹ کیا کروں گا ۔ آج کی تصاویر لاہور گلشن راوی میں ایک پودوں کی نرسری سے لی گئیں ہیں

[gallery ids="1307,1308,1309,1310,1311,1312,1313,1318,1317,1316,1315,1314"]

تھر کے لنگر خانے

ملک صاحب کیسا رہا پھر ہمارا سندھ فیسٹیول
سر جی جواب نہیں تہاڈا ۔۔ سندھ دیاں شاناں آپ کے ہی دم سے ہیں اور پھر بچوں نے تو کمال ہی کر دیا ۔۔ چھوٹی بی بی نے تو سندھ فیسٹیول کے ہر رنگ میں شامل ہو کر اسے چار چاند ہی لگا دئے تھے۔اور تو اور سر جی اختتامی تقریر میں تو اپنے چھوٹے سردار نے طالبان کو ایسا لتاڑا کہ مزا آگیا ۔۔

سر جی یہ جو آپ کے پیچھے دائیں ہاتھ اتنا بڑا صحرا ہے ۔۔۔۔

کونسا ملک صاحب ۔۔۔ کہیں تم تھر کے علاقے کی بات تو نہیں کر رہے

جی سر جی یہی تھر کا صحرا
سر جی ۔۔۔ مم ۔۔ میرا مطلب ہے ہم اسے آباد کر دیتے ہیں ۔۔۔۔دیکھیں نہ سر جی کتنی غربت ہے ۔۔۔ نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی پینے کو ۔۔۔۔

ہممم ۔۔۔۔ ملک صاحب پہلے لوگوں کا دھیان ادھر ڈلواؤ ۔۔۔لوگوں کو بتاؤ کہ تھر میں کتنی غربت ہے ۔۔۔ وہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں
میڈیا کو استمال کرو ۔۔۔ سوشل میڈیا پر کانٹے ڈالو ۔۔۔۔۔۔ باقی بھیڑ چال ہے ملک صاحب بھیڑ چال ۔۔۔ سب ادھر چڑھ دوڑیں گے ۔۔۔۔ جب چڑھ دوڑین تو امداد کا اعلان کر دینا ۔۔۔ وہاں لنگر خانے کھلوا دو ۔۔۔ باقی ہماری طرف سے جو ہوا کریں گے ۔

واہ سر جی واہ ۔۔۔ فکر ہی نہ کریں سر جی ۔۔۔ لنگر خانے کھول دیتے ہیں وہاں ۔۔۔
سر جی وہاں آپ کی شکار گاہ کے لئے میں نے دس مربوں کا علیحدہ نقشہ بنوا لیا ہے ۔۔۔ یہ اضافی ہوگا سر جی

ملک صاحب باتیں چھوڑو ۔۔۔ بس کام شروع کرو

شورہ ۔۔۔۔ شوربہ نہیں بن سکتا




شورہ پنجابی زبان کا لفظ ہے ۔آپ اس لفظ کو پنجابی کی گالی بھی کہہ سکتے ہیں۔ہمارے لاہوریوں میں یہ گالی کثرت سے نکالی جاتی ہے ۔یعنی اگر کوئی شخص گندہ ، غلیظ ہو یا کہ اس کی عادتیں غلیظ ہوں اس کو عموماً ‘‘ شورہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔کچھ لوگ لڑکیوں کے دلال جسے عرف عام میں پنجابی زبان میں ‘‘ دلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔۔ کو بھی شورہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
ضروری نہیں کہ دلال کو ہی شورہ کہا جاتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو بغل میں چھری منہہ میں رام رام کی مالا جپتے نظر آتے ہیں ۔۔یعنی منافق کو۔۔۔ کو بھی لاہوری ‘‘ شورہ ‘‘ کے لقب سے پکارتے ہیں ۔
ایک آدمی میں بہت سی بری عادتیں جمع ہوں اور اس کی حرکتیں بھی گندی ہوں جو کہ اس کے قول فعل سے ظاہر بھی ہوتی ہوں تو اسے بھی ‘‘ شورہ ‘‘ کہتے ہیں ۔


کچھ ایسے لوگوں کو بھی ‘‘ شورہ ‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے جن کو عزت راس نہ آئے ۔۔ یعنی کہ ان کی عزت کی جائے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہیں ۔ ۔۔ اس لئے انہیں شورہ کا لقب دیا جاتا ہے اور انہیں جتایا جاتا ہے کہ تم شورے ہی رہو گے شوربے نہیں بن سکتے ۔


اب ‘‘ شورے ‘‘ اور ‘‘ شوربے ‘‘ میں کیا فرق ہے ۔کسی بھی سالن میں پانی میں مرچ مصالحے ڈال شوربہ تیار کیا جاسکتا ہے ۔پتلے اور زیادہ شوربے کے لئے زیادہ پانی اور گاڑھے شوربے کے لئے مصالحہ جات کے ساتھ کم پانی استمال کر کے شوربہ بنایا جاتا ہے۔


اسی طرح ‘‘ شورہ ‘‘ معاشرے کے مصالحہ جات سے پک کر تیار ہوتا ہے ۔اس کی ابیاری اس کے گھر سے ہوتی ہے ۔بعد ازاں اس میں تمام بری عادتیں ڈال کر اس کو پکایا جاتا ہے تب جاکر اسے اس عظیم نام ‘‘ شورہ ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔


اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی اپنی بولی اور مزاج کے حساب سے مختلف الفاظ رائج ہیں ۔ جو کہ اپنے آپ میں معنی خیز ہوتے ہوئے ایک پوری تاریخ رکھتے ہیں ۔اسی طرح لفظ ‘‘ شورے ‘‘ کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد تقریباً ١٩٥٠ میں پہلی دفعہ یہ لفظ ‘‘ شاہی محلے ‘‘ میں ‘‘ استاد فیقے ‘‘ نے بولا تھا۔کنجروں کے مستند زرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ استاد فیقے کی معشوقہ ایک دن کوٹھے پر ڈانس کے لئے نہیں آئی تو اس کے دلال کو استاد فیقے نے ‘‘ شورے ‘‘ کے الفاظ سے پکارا تھا ۔۔۔ صحیح الفاظ کے بارے میں کوئی سند تو نہیں مل سکی البتہ تاریخ ( بڑے بوڑھوں کی زبانی تاریخ ) میں جو الفاظ ملتے ہیں وہ کچھ یوں تھے‘‘‘‘‘ اوئے شورے اج ننھی مجرے تے نہی آئی ‘‘‘‘

اردو بلاگرز اور میڈیائی مفتے



الیکشن سے چند مہینے پہلے سے لے کر آج سے چند ہفتوں پہلے تک سوشل میڈیا پر جہاں گندے سیاستدانوں کی مٹی پلید کی گئی وہاں ٹی وی میڈیا کے غلط اقدامات پر اسے بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا ۔اب لگام تو ڈالنی ہی تھی نا ان لوگوں کو ۔۔۔ سو مفت کا دانہ ڈال کر ابتدا کر دی گئی ۔
یہ بھی یاد رہے کہ میڈیائی مفتوں نے دھڑلے سے اردو بلاگروں کی تحریریں چوری کر کے اپنے اخباروں میں بغیر ویب سائٹ کا لنک دئے چھاپی ہیں ۔ پتہ چلنے پر بغیر کوئی معذرت کئے بلاگروں کو مفتے کا لولی پاپ دے کر خوش کیا جارہا ہے ۔اور اردو بلاگرز بھی ایسے بھولے بادشاہ اور جذباتی ہیں کہ بس نہ پوچھیں ۔۔۔۔  اگر اپنے یہ محترم بلاگرز میڈیا خصوصاً ٹی وی اور اخبارات کے حالات و واقعات سے آگاہ ہوتے تو یوں تالیاں نہ پیٹ رہے ہوتے ۔

اردو بلاگرز کا مشہور ہونا اچھی بات ہے ۔ان کو پیسے ملنا اور بھی اچھی بلکہ خوشی کی بات ہے ۔۔۔۔ کروڑوں روپے روزانہ کمانے والے میڈیائی مفتے اگر بلاگروں کو ان کی تحریروں کا مناسب معاوضہ دیتے ہیں تو ان کے لئے لکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔

اب یہاں ایک بات جو انتہائی اہم ہے کہ بلاگ ایک سوچ کا نام ہے اور سوچوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے ۔
اب ایک بلاگر کے کسی بھی روزنامے پر لکھنے سے کیا ہوگا ۔۔۔۔بس یہی ہوگا کہ ان کی تحریریں ایک خاص انداز اور نظم و ضبط کے اندر چھپنے کی وجہ سے یہ بلاگر کی پہچان کھو بیٹھیں گی ۔کیونہ یہ تجارتی بنیادوں پر لکھیں گے اور تجارتی بنیادوں پر لکھنے والا اپنے آقا کے بنائے ہوئے قوانین کا پابند ہوتا ہے ۔۔۔ سو اسے پابندی تو کرنی پڑے گی ۔
بلاگر وہی رہے گا اور کہلائے گا جس کی تحریر میں اس کی سوچ اور آزادی کا پر تو ہوگا

علم والوں اور بے علموں کو ایک جیسا ہی دیکھا گیا ہے



کبھی کبھی تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ آپ ترقی کے اس دور جدید کے ہوتے ہوئے بھی پتھر ہی کے دور میں رہ رہے ہیں ۔انسان اتنا پڑھنے ، سمجھنے اور تجربات حاصل کرنے کے باوجود بھی جانور سے بدتر ہی ہے ۔میں نے تو علم والوں اور بے علموں کو بھی ایک جیسا ہی دیکھا اور پرکھا ہے ۔بلکہ کبھی کبھار تو ‘‘ بے علم ‘‘ علم والوں سے کئی درجے بہتر دکھائی دیتے ہیں۔

بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ ‘‘ زن ، زر اور زمین ‘‘ انسان کو گمراہ کر دیتے ہیں ۔بڑے بوڑھے صحیح کہتے ہیں مجھے ان کی باتوں کو ترازو کے پلڑے میں تولنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ میں تو یہ  کہنا چاہوں گا کہ ‘‘ جاہ ‘ یعنی حکمرانی ، طاقت ، اکڑ اور غرور بھی انسان کو تباہی کے دہانے میں لے جا پھینکتے ہیں ۔

انسان مرد اور عورت میں سے کسی بھی روپ میں ہو ۔۔۔ اس کو سمجھنے کا دعوٰی کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ انسان اپنی ‘‘ خو ‘‘ میں رہتے ہوئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ جس میں اچھائی اور برائی کے دونوں پہلو شامل ہیں ۔
آج میں کیا کہنا چاہتا ہوں یہ میں خود بھی جان نہیں پا رہا ۔۔۔ جبکہ سوچ اور قلم بھی ساتھ دے رہے ہیں ۔۔۔ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جو میں کہنا چاہتا ہوں اسے میں دوسروں کے ساتھ بانٹنا نہیں چاہتا۔

نئے اردو بلاگر ٹمپلیٹ ( سانچے ) ڈانلوڈ کریں

کافی عرصہ سے بہت سے دوست شکوہ کر رہے تھے کہ بلاگسپاٹ کے ٹملیٹ ( سانچے ) پرانے ہو گئے ہیں۔اردو کے نئے اور جدید سانچے ہونے چاہیں۔آج کام کم ہونے کی وجہ سے ہم نے سات عدد بلاگسپاٹ سانچوں کو آپ کے لئے اردو میں ڈھال دیا ہے۔

یہ سانچے بظاہر سادے مگر انتہائی جازب نظر ہیں ۔ان میں سے کچھ سانچے تین کالمی ہیں باقی دوکالمی سانچوں کی چوڑائی کو بڑا رکھا گیا ہے۔فونٹ سائز کو مناسب رکھا گیا ہے۔پھر بھی اگر کسی صاحب کو فونٹ سائز یا کلر سکیم اچھی نہ لگے تو تبصرے میں شکوہ شکایت کر سکتا ہے۔

سانچہ اپنے بلاگ میں ڈالنے سے پہلے یا بعد میں اپنے بلاگ کی زبان اردو میں ضرور کیجئے گا۔یہ بہت اہم ہے ۔بلاگ کی زبان اردو میں کرنے کے لئے نیچے تصاویر دی جارہی ہیں جن سے آپ اپنے بلاگ کی زبان آسانی سے اردو میں کر سکتے ہیں

اردو بلاگسپاٹ ٹمپلیٹ ( سانچے) یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں

ٹمپلیٹ ( سانچوں ) کو اپ ڈیٹ کر کے ان کی تعداد ٢٠ بیس کر دی گئی ہے ۔۔۔ انشااللہ جلد ہی اور جدید ٹملیٹ مہیا کر دئے جائیں گے

بلاگ کی زبان اردو میں کرنے کے لئے نیچے دی گئی تصاویر کو کلک کر بڑا کر کے دیکھیں