اتوار، 22 جولائی، 2018

الیکشن 2018 سوشل میڈیا اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر


آج سے تین دن پیشتر مجھے فرخ منظور نے پاکستان کی ایک معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی جانب سے آیا ہوا ایک دعوت نامہ پہنچایا کہ اتوار صبح گیارہ بجے سے ایک بجے تک ‘‘ برگد ‘‘ کی جانب سے پاکستان الیکشن 2018 کے سلسلہ میں سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام پر ایک مکالمہ ہو رہا ہے جس میں بلاگرز نے بھی شرکت کرنی ہے ۔

موضوع چونکہ دلچسپ تھا اس لئے سوچا شرکت لازمی کرنا چاہئے ۔۔۔ وقت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے صرف لاہور کے مرد و زن اور ایک خواجہ سرا بلاگر کو بھی اپنی طرف سے اس مکالمے میں شرکت کی درخواست کر دی ۔۔۔مگر خواتین اور خواجہ سرا بلاگر نے مصروفیت زیادہ ہونے کی وجہ سے مکالمے میں شرکت پر معذرت کر لی ۔۔۔ جس کا مجھے افسوس ہوا۔

وقت مقررہ پر جب ہم معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کے آفس پہنچے تو انہوں نے بڑی عزت سے ہمیں خوش آمدید کہا ۔۔۔ آپس میں تعارف کروانے کے بعد ہمیں الیکشن 2018 کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر مختلف لوگوں اور تنظیمیوں کی جانب سے جو نفرت انگیز مواد شائع کیا جارہا تھا اس کے سروے سے آگاہ کیا گیا اور اس پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔


معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فیس بک کے ماہانہ صارفین کی تعداد ‘‘ تین کروڑ ‘‘ کے لگ بھگ ہے جبکہ دوسری جانب اس کے مقابلے میں ٹیویٹر کے ماہانہ صارفین صرف 35 لاکھ ہیں ۔۔مگر پھر بھی فیس بک کی نسبت ٹویٹر پر نفرت انگیز مواد اور اس پر اظہار رائے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے ۔۔الیکشن 2018 اور سوشل میڈیا صارفین کے حوالے سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ کے لئے تیس ہزار صارفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تین ماہ ( اپریل 2018 تا جولائی 2018 تک ڈیٹقا اکھٹا کیا گیا ۔

یہ تحقیقایک پراجیکٹ ‘‘ پر امن الیکشن اور نوجوانوں کا کردار ‘‘ کا حصہ تھی جس میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی کل دس یونیورسٹیز کے 200 طلباء و طالبات نے براہ راست دو دن کے مشاورتی اجلاسوں میں حصہ لیا اور تربیت حاصل کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں پر امن الیکشن اور نوجوانوں کے کردار کے حوالہ سے 100 کے قریب مختلف پراجیکٹس کئے ۔

اس رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا نفرت نانگیز مواد کی اشاعت میں کس طرح مددگار ثابت ہو رہا ہے۔اور سیاسی تشہیر میں اس قابل نفرت مواد کو سیاسی رہنما اور اس کے حامی کس طرح استمال کر رہے ہیں ۔


تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی کی تحریری مواد کے ساتھ ساتھ تصاویر ، آڈیو اور ویڈیوز کا استمال نفرت انگیز مواد پھیلانے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔اپریل سے جولائی تک کی سیاسی تشہیر میں سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد کا استمال کیا گیا جس میں نفرت انگیز مواد کی تائید ، تشہیر اور اس پر مباحث شامل تھے ۔اس رپورٹ سے یہ بھی بات سامنے آئی کہ نفرت انگیز مواد میں اعتراضات ،الزامات اور شخصی تشخص کو نشانہ بنانے کا استمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔۔مزید مذہبی عدم برداشت اور صنفی اعتبار سے مخالفین کو تضحیک اور قابل نفرت انداز میں پیش کرنا بھی ایک مقبول طرز عمل ہے ۔۔اس حوالے سے ٹویٹر پر ایسے ہیش ٹیگ کا استمال جا بجا دیکھا گیا جو براہ راست نفرت انگیز بیانئے پر مشتمل تھے ۔سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر براہ راست گالم گلوچ ،عقیدے ، برادری ، پیشہ اور صنفی اعتبار سے نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ زیادہ نمایاں طور پر سامنے آیا ۔۔


اس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بات سامنے آئی کہ الیکشن کے دنوں میں انفرادی اور ایک گروہ کی صورت میں نفرت انگیز مواد کی تخلیق و تشہیر کو باقاعدہ ایک منظم طریقے سے بھی کیا جارہا ہے اور ایسے کئی صارفین اور پیج متحرک ہیں جو نفرت انگیز مواد کی تشہیر باقاعدہ کرتے ہیں ۔۔


معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی اس حالیہ رپورٹ کی رو سے ہمیں ضرورت ہے کہ نفرت انگیز مواد کے حوالے سے قابل عمل قانون سازی کی جائے اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں جانکاری بڑھانے کے لئے نصاب میں ایسے اسباق شامل کئے جائیں جو کہ قابل نفرت رویے اور ان کے اظہار کو روکنے میں مدد دے سکیں ۔

منگل، 17 جولائی، 2018

تجربات سے سیکھنا اور "کمینگی" ۔۔۔۔ یاسر جاپانی



آ ئیے آپ کو "تجربات" کا سفر پڑھائیں :D

یکسانیت کے شکار ہوں یا تکرار مسلسل لگے تو مرغِ بسمل کی طرح بانگنا منع نہیں ہے :D

مسلمانوں کی "معصومیت" صدیوں سے "مشہور ومعروف" ہے اور "یہود ونصاری" کی عیارانہ و مکارانہ "سازشیں" بھی صدیوں سے مشہور و معروف ہیں۔۔

اسپین میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوئیں مسلمان کو سپین سے مار نکال دیا گیا۔

اٹلی کے "سسلی" اور سابقہ "صقیلیہ" میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔

اور مسلمان "سسلی" میں اپنی عظیم والشان نشانیاں ہی چھوڑ گئے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ "پناہ گزین" مسلمان اب بھی اسپین اور اٹلی میں ہی اپنی جان ومال و عزت مسلم ممالک کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔

ھندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی ۔

مسلمانوں کی "سلطنت" ختم ہونے کے قریب ہی تھی کہ

"احمد شاہ ابدالی" نے "مرہٹوں" کو ایسی شکست فاش دی کہ "مرہٹے" ہمیشہ ہمیشہ کیلئے "پانی پت " میں نیست و نابود ہوگئے۔

پھر "برطانوی گوروں " نے "سازش کرکے "مسلمانوں" کی حکومت کا خاتمہ کیا اور "جھوٹا" بیان دے دیا کہ

ہم نے تو انڈیا کا "اقتدار" مسلمانوں سے نہیں "مرہٹوں" سے چھینا ہے۔

"مغل شہنشاہیت" ایک "نشانی" کے طور پر وجود ضرور رکھتی تھی۔

زیادہ تر "مولوی" اور "شاعر" اس شہنشاہت کے "ٖخطبے و قصیدے" پڑھتے رہتے تھے۔

اور ہندوں سکھوں اور مسلمانوں کے راجاؤں ،نوابوں اور نکے نکے بادشاہوں کی اپنی اپن ریاستیں تھیں۔

جو کہ ایک دوسرے سے ہمیشہ "خطرے" میں ہی رہتی تھیں۔جیسے ہی "بیرونی" طاقت کو دیکھا سب ایک دوسرے کے خوف سے اس "بیرونی" طاقت کے ہاتھ پاؤں مضبوط کرنا شروع ہوگئے تھے اور ہوجاتے تھے۔

"خلافت عثمانیہ" کی بحالی تحریک "ہندوستان " میں زور وشور سے جاری تھی۔۔۔

"عرب" ترکوں سے "آزادی" کی جنگ لڑ رہے تھے۔یہودی اسرائیل کے قیام کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔

تھوڑا ماضی میں جائیں تو "برصغیر" کا یہی حال تھا۔ہر "بیرونی طاقت" سے مل کر ایک دوسرے کی "بینڈ " ہی بجائی جاتی تھی۔

اللہ انگریز کی عمردراز کرے اور برطانیہ کو تاقیامت قائم رکھے۔ کہ وکٹوریائی ہندوستان کے تمام راجے مہاراجے نواب وغیرہ کے خاندان اب بھی اپنے لئے "لندن" کو ہی زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

اور اپنی "بادشاہت" کے مزے لینے کیلئے سال میں چند بار انڈیا پاکستان بھی آجاتے ہیں۔

ہم نے اپنے تجربے سے یہی سیکھا ہے کہ " ہندوستانی ، پاکستانی ، افغانستانی" مسلمان نے ہر حال میں ایک دوسرے کے "خلاف" سازش کرنی ہوتی ہے۔

چاھے اس کا ایک ٹکے کا فائدہ بھی نہ ہو۔

فیس بک کی وجہ سے جاپان میں بھی "پاکستانی و جاپانی " ہمارے "انجانے" جاننے والے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جس کا ہمیں کافی عرصے بعد "علم" ہوا۔

وہ بھی اس طرح کہ فیس بک نے پرانی آئی ڈی بلاک کردی تو

"تھرتھلی" مچ گئی۔۔۔

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا ۔۔۔۔روزانہ کوئی نا کوئی کسی ناکسی طریقے سے "کھوج " لگا رہاہے۔!!

بس کچھ ایسی ہی حالت تھی۔

ابے ۔۔اگر پڑھتے دیکھتے تھے تو "لائیک " ہی کر دیا کرتے؟

یا کم ازکم "اچھا یا برا" کمنٹ ہی کردیا کرتے تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوا۔ آپ کو ہمارا "لکھا" سمجھ آیا ہے کہ نہیں؟ یا کم ازکم "مہذب" انداز میں آپ اپنی "رائے" کا اظہار ہی کردیتے؟

تاکہ ہم ہی آپ سے کچھ سیکھ سکتے۔

غیر ضروری "سازشی" ذہنیت کا آخری تازہ تازہ انتہائی "بے فضول تجربہ " ہمارے ساتھ تین چار ماہ پہلے واقعہ ہوا تھا کہ

ایک جاننے والے جو کہ کافی " کمپلیکیٹڈ پرسنالٹی" ہیں۔ کبھی کبھی ملاقات کرنے آجاتے تھے۔ تو ہم بھی "مروت"میں صاف انکار نہیں کرتے تھے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بھی اچھی بات نہیں ہے۔

ایک بارریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ بل ادائیگی کے وقت "میں دوں گا ، میں دوں گا" کا ڈرامہ چلا اور آخر کار "ہیرو" کا سین مجھے مل گیا۔

جب میں بل ادا کر رہا تھا۔ تو سامنے "کھڑکی کے شیشے" پر نظر پڑی رات کا وقت تھا۔ دیکھا ایک "ارب پتی " بزنس مین کرسی پہ بیٹھے بیٹھے ہی خوشی میں دیوانگی سے ہاتھ اٹھائے ناچ رہے ہیں۔

ارے۔۔پین دی سری ۔انہیں کیا ہوا؟!!

حیرت سے گردن موڑ کردیکھا تو

بالکل سنجیدہ چہرے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔!!!

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا؟!!

ظاہر ہے ہم نے اپنی " سادگی" کے باوجود دنیا دیکھی ہے۔بندے کے "اندر کا چینل" میرے خیال میں ، میں بہت اچھی طرح "پڑھ " لیتا ہوں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ عموماً "نظر انداز" کر دیتا ہوں۔ جس سے مجھے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اچھے برے لوگوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

بحرحال ۔۔۔

کہنے کا مقصد یہ ہے۔

کم ازکم پاکستانی "عیاری و مکاری و چالاکی" موقعہ پرستی، مفاد پرستی ، خود غرضی اور خاص کر ضروری و غیر ضروری سازشیں کرنے میں "اپنی مثال" آپ ہیں۔

مجھے ان "ارب پتی" صاحب کی حرکت کا "مقصد" بالکل سمجھ نہیں آیا تھا اور نا ہی آیا ہے۔

شاید ان کی " خوشی " کی وجہ

1ٓ- ہم لوگوں نے جو مشترکہ کھانا پینا کیا تھا اس کا خرچہ میری جیب سے کروانا انہیں میرا نقصان لگا تھا اور انہیں میرے نقصان کی "خوشی" ہوئی تھی۔

حالانکہ ان سے میری نا ہی دوستی ہے اور نا ہی کوئی کاروباری تعلق!۔

بس ایک "مشترکہ " دوست یا جاننے والے صاحب کی وجہ سے دسترخوان کااشتراک ہوگیا تھا۔

2- ان صاحب کے دل میں میرے لئے کسی "وجہ" سے شدید کا قسم کا "بغض و عناد یا حسد" جڑ پکڑے بیٹھی تھی۔

اور ان کے خیال میں "بل" کی ادائیگی کرنے سے میرا "نقصان" ہوا ہے ۔ اور میرے جیسے غریب مسکین بندے کیلئے یہ بہت بڑا" جانی نقصان" ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہوئی تھی؟

3- یا صرف صدیوں کی اپنے آپ کو "مسلمان" کہنے والی "ذہنیت" کی "گندگی" تھی ۔

جو کہ وجہ بلاوجہ ایک دوسرے کے خلاف موقعہ پاتے ہی متحرک ہو جاتی ہے۔ اور "تعلق واسطے رشتے" کی کوئی بھی کم سے کم شکل ہونے کی صورت میں "تکلیف" پہونچانے کی "کمینگی" اچھل کر باہر آگئی تھی؟۔

*

ہماری یہ "کمینگی" اس وقت "پائے تسکین" پہونچتی ہے۔ جب تک ہم "دوسرے" کا جانی مالی نقصان نہ کردیں۔

یہ "کمینگی" ہمیں سماجی ، معاشرتی معاملات میں "اکثر" دکھائی دیتی ہے اور ہم بہت اچھی طرح اس "کمینگی" سے واقف ہیں۔

ملکی قومی اور سیاسی سطح پر آجکل ہمیں "باپ بیٹی " کا جیل جانا ایک عجیب سی "کمینی قسم " کی "تسکین" دے رہا ہے ۔

سابقہ بیوی ریحام خان کی "کتاب" کے بارویں باب کے بعد جو "رنگین" قسم کی "تذلیل" پڑھنے کو ملتی ہے اس کا اپنا ہی مزا ہے۔

اور عمران خان کا "پٹواریوں" اور لہوریوں کا "کھوتا" کہنے کے انداز نے جو لطف دیا اس "کمینگی" کو لہوریوں کی کھوتا خوری سے جوڑ کر جو مزا آیا اس کے کیا کہنے۔

اور ڈی چوک میں کٹی پتنگ کی طرح جھوم جھوم کر ناچ گانا کرنے والے پرویز خٹک کا "ناچ گانا" کرنے والوں کے گھر کو جھنڈے والا"طوائف" کا گھر کہنے سے "دل ہی دل" میں جو "کمینی سی خوشی" ہوئی اس کا تو جواب ہی نہیں۔ :D

مندرجہ بالا تمام "کمینگیوں" پر غور کیجئے۔!!

ان کے فوائد بھی اور نقصانات بھی "ہم سب" کے "مشترکہ" ہیں۔

جب ہم "خاک" ہو جائیں گئے۔

تو "یاد " کرنے والے "اچھے یا برے" الفاظ میں ہمیں ضرور یاد کریں گے۔

لیکن کیا ہے کہ

ہم نہ ہوں گے۔ اور دنیا چند دنوں کی ہی ہے۔

ہم صدیوں سے "جاری " کمینگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔۔

جو کہ

"بارودی جیکٹ" پہن کر پھٹے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ :D

خلافت راشدہ جیسی "بابرکت و مقدس" ریاست تاقیامت قائم نہ رہ سکی تو ہماری تمہاری "ڈیڑھ اینٹ " کی "عبادت گاہ" کس کھیت کی مولی ہے۔

بحرحال "خدا" واقعی ہمیں "تجربات" سے "سیکھنے" کا موقعہ دیتا ہے۔

اور ہمارے اندر کی "کمینگی" ہمیں "سیکھنے " نہیں دیتی۔

اتوار، 8 جولائی، 2018

شہزاد سلیم وفات تو پاگئے مگر۔۔۔۔۔۔۔تحمینہ رانا

شہزاد سلیم وفات تو پاگئے مگر۔۔۔۔۔۔۔
جیسی کرنی ۔۔۔ویسی بھرنی 🤔🙄😢
اللہ ظالم کی رسی دراز کرکے جب سمیٹتا ہے تو بڑے بڑے پھنے خان۔۔۔ بھیگی بلی بن جایا کرتے ہیں
یہ ایم کیو ایم کلر اسکواڈ کا سربراہ سلیم شہزاد ہے۔ اس کے اشاروں اور ذو معنی باتو ں کو قتل کا آرڈر ٹصور کیا جاتا تھا۔ جب یہ کہتا تھا کہ فلاں شخص کی آنکھیں خوبصورت ہیں تو ایم کیو کے قآتل اسکواڈ کے لوگ اس شخص کو قتل کر کے اس کی آنکھیں پلیٹ میں رکھ کر سلیم  شہزاد  کو پیش کرتے تھے۔ جب یہ کہتا تھا کہ فلاں شخص بہت اچھی باتیں کرتا ہے تو اس کی زبان اسے پیش کی جاتی تھی۔ جب یہ کہتا تھا کہ انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا فلاں کھلاڑی کل سنچری بنائے گا تو کراجی میں دوسرے دن سو سے زیادہ قتل ہوتے تھے۔ اس کا کلر اسکواڈ پر اتنا کنٹرول تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگ بشمول قاتل اعظم الطاف حسین اس سے خوفزدہ رہتا تھا۔ خلائی مخلوق کے لوگ بھی یہ جاننے کی کوشش میں لگے رہتے تھے کہ آج اس نے کس سے کیا بات کی اور اس بات کا مطلب کیا ہے۔ تاریخ نے ہماری نسلوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وقت سلیم شہزاد سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ہے۔ شاید ہماری نسلیں سلیم شہزاد کے ظلم کے خوف سے اس حقیقت کو تسلیم نہ کر سکیں لیکن تاریخ کی یہ حقیقت کئی بار بے شمار نسلیں تسلیم کر  چکی ہیں کہ وقت سلیم شہزاد سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ہے۔

کافر کافر کردی نی میں آپے کافر ہوئی

منگل، 3 جولائی، 2018

کراچی کے عوام انسان ہیں یا بے زبان جانور


تمام حکمرانوں نے پاکستان بننے سے آج تک عوام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا سو کیا ۔۔۔۔ مگر کراچی کے ساتھ جو ظلم و بربریت کی گئی ۔۔۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔۔۔۔

پاکستان بننے سے آج تک وہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں
ڈاکو زنی عام ہے
قتل و غارت گری عام ہے
چوری چکاری اور راہزنی کی روزانہ ہزاروں وارداتیں ہوتی ہیں
بھتہ خوری وصول کرنے میں تمام سیاسی جماعتوں کے غنڈے دھڑلے سے پیسے وصول رہے ہیں
کراچی والو ۔۔۔۔ اب تو ہوش کے ناخن لو ۔۔۔۔۔۔۔ اور
بتا دو ان سب حکمرانوں کو تم بھی انسان ہو

پیر، 2 جولائی، 2018

‘‘ تصوف‘‘ کا ایک فرقہ ، فرقہ سہیلیہ کا تعارف اور اس کے کمالات ۔۔۔یاسر جاپانی


‘‘ تصوف‘‘ کا ایک فرقہ ، فرقہ سہیلیہ ہے

اس کے پیشوا کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک بار اپنے مرید کو حکم دیا کہ
دن رات یاللہ یااللہ یاللہ کا ورد ہی کرتے رہا کرو۔
مرید دن رات ہر وقت یہی کرتا رہا تو ایک وقت آیا کہ سوتا تھا تو "خواب" میں بھی یہی ورد کرتا رہتا تھا۔
ایک دن مرید اپنے گھر میں "اکیلا" تھا۔ کہ
گھر کی وزنی لکڑی گری اور مرید کا سر پھٹ گیا۔
مرید کیا دیکھتا ہے۔ کہ
اس کا بہتا خون بھی "یاللہ یااللہ یااللہ" لکھتا جا رہا ہے۔
یہ فرقہ سہیلیہ کے مرشد کے مرید کی کرامت "کشف المحجوب" میں رقم ہے۔
""مرشد" کی "پہونچ" کہاں تک ہوگی ؟
میرے خیال میں یہ سوچنا بھی "گستاخی" ہے۔
کیونکہ مذکورہ بالا "کرامت" میں اللہ کا ذکر آگیا ہے۔
تو اس کے بعد کسی "ایمان" والے "مسلمان" کا اس واقعہ پر شک کرنا "گناہ" ہی سمجھا جائے گا۔
اس لئے ہم گستاخی سے بچتے ہوئے مزید "کشف المحجوب" میں رقم "بزرگان دین" کی "خوابوں" اور "کرامتوں" کے تذکرات سے اجتناب کرتے ہیں۔
اگر آپ "شوق" رکھتے ہیں۔ تو خود مطالعہ کرلیں۔
باقی اللہ جسے "ھدایت نصیب کرتا ہے" اس کیلئے "دنیا و آخرت " کے "رول اینڈ لاء" آسان آسان الفاظ میں بتا چکا ہے۔ فاتحہ پڑھنے تک پہونچنے والا جب سیدھے رستے والے "نیوی گیشن " کیلئے "اپلیکیشن" ڈالتا ہے ۔
تو سورہ بقرہ کی پہلی آیت ہی میں کہاگیا ہے کہ "ھدایت یافتہ " کیلئے یہ "روڈ میپ" ہے۔اسے فالو کری جاؤ تے بیڑے پار ہو جائیں گئے۔
موجودہ دور کے "قطب" مولانا علامہ ڈاکٹر پروفیسر شیخ الاسلام جناب اعلی حضرت عزت مآب طاہر القادری برکاتہم کی بہت ساری کرامتوں کی ابتداء ان کی "وڈیو" ثبوت کے ساتھ موجود ہے۔ کہ
انہیں ایک "خواب " دکھائی دیا۔ اور پھر "خواب ہی خواب" میں "پی آئی اے" کے ٹکٹ کے علاوہ رہائیشی اور کھانے پینے کا خرچہ بھی ان کے ذمے ڈال دیا گیا۔
حضرت طاہرالقادری رحمۃ اللہ علیہ کی یہی کرامت بہت مشہور ہے کہ
وہ کبھی بھی صبح ناشتہ کرکے سکول نہیں گئے۔
اور ناہی کبھی "پک اینڈ ڈراپ" والے انکل انہیں سکول مدرسے لانے لیجانے کیلئے "ہائیر " کئے گئے۔
"حضرت طاہر القادری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ان کے "والدین " اور "محلے" والے بھی شہادتیں دیتے ہیں۔ کہ
حضرت کی تعلیم و تربیت کا بندوبست اللہ تبارک تعالی نے خصوصی طور پر فرمایا تھا۔
وہ "بزرگان دین اور تمام مشائخ" سے "عالمِ بالا ، عالمِ ارواح ، عالمِ برزخ" میں تعلیم حاصل کرتے رہتے تھے۔
اور "دستار بندی" بھی ان کی "عالمِ برزخ" میں ہوئی ہے۔
کسی قسم کا شک یا سوال کرنا "گستاخی" سمجھا جائے گا "عاموں" کی ذہنیت پست ہوتی ہے۔
اللہ کے "مقرب" اور "پہونچے" ہوئے بندوں کی باتیں انہیں سمجھ نہیں آتیں۔
حضرت مولانا مرشد پاک خادم حسین رضوی برکاتہم والتبرکاتہم کی کئی "کرامتیں ہم ان کی زبان سے سن چکے ہیں ۔
جن کی وڈیو ز بھی "شوشل میڈیا" پر بکثرت پائی جاتی ہیں۔اور الحمد اللہ حضرت مرشد پاک "حیات" ہیں ۔
ان گنت "کرامتوں" کے ظہور کا مزید "ممکنہ" خدشہ موجود ہے۔
ہوسکتا ہے کہ 25 جولائی کے بعد قوم ان کا خطاب قومی اسمبلی سے ڈائریکٹ سنے۔
لیکن مرشد پاک کی دو کرامتیں آپ کو بتاتے چلیں ۔
کہ ایک شہید ممتاز قادری سے ایمبولینس میں "خلوت " ملتے ہی "گفت و شنید" اور "پُلس" آلوں کا واپس آتے ہی قادری شہید رحمۃ اللہ کا دوبارہ چادر اوڑھ کر سو جانا۔
اور جب ڈاکٹروں نے مرشد پاک کے گردے فیل ہونے کا کہہ کرجواب دے دیا تو مرشد پاک نے 'انگل" گردوں پر رکھی ۔
اور انہیں حکم دیا کہ "ٹھیک ٹھیک کام کرو اوئے"
بس اس دن کے بعد گردوں نے پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے کام کرنا شروع کردیا۔
اور "سٹیج " کے نیچے بیٹھے "مریداں" پر بارانِ رحمت برسنا شروع ہو گئی۔
ایک "مولوی" صاحب کو "خواب" آیا کہ جو "مرشد پاک " کے ساتھ ہے وہ "کُل" کے ساتھ ہے۔
یہ خواب مولوی صاحب نے "قسمیں" اٹھا کر مجمعے کو بتایا تو فضا نعرہِ تکبیرکی گونج سے "لرز" اٹھی۔
اب "ثانیِ حضرت رابعہ بصری" کی "کرامتوں" کا بھی ذکرکردیتے ہیں۔ حضرت بشری بی بی رحمت اللہ علیہ اپنے وقت کی "حسین ترین" خاتون ہوتی تھیں۔
پھران کی آزمائیش اسطرح شروع ہوئی کہ
ایک مشہور زمانہ "راشی " اعلی افسر سے ان کی شادی ہوگئی۔ اللہ تبارک تعالی نے انہیں استقامت عطا فرمائی ۔
نیک اور صالح اولاد سے نوازا۔
حضرت بشری بی بی برکاتہم کی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور پہلی "کرامت" کا ظہور ان کے "شوہر مجازی" کو خدا نے "عاجزی و انکساری " سے ایسا نوازا کہ "پاکپتن شریف کے "در " پر "حاضری کیلئے جاتے ہوئے ۔
ہر دو قدم پر دومیل کی مسافت سے "سجدہِ تعظیمی " کرتے ہوئے حاضری دیتے ہیں۔۔
حضرت بشری بی بی برکاتہم کو پھر "خواب" آیا۔
اور "گفت و شنید" کے بعد "رضائے الہی" سے "شوہر" سے "خلع" حاصل کی اور "مریدِ خاص" سے بعد از عدت "نکاح" فرما لیا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ "مرید خاص" کی ھئیت ہی بدل گئی ۔ عاجزی انکساری کا یہ عالم تھا کہ مرید خاص جو کہ ممکنہ "حکمران وقت" تھا۔
اور "شہنشاہیت " کی ہما کو "مرید" خاص کے سر پر بٹھانے کی "کرامت" بھی حضرت مرشدہ بشری بی بی کی ہے۔ مزید یہ کرامت ہے۔کہ ننگے پاؤں عاجزی و انکساری میں گلی گلی اور در در "ماتھا" ٹیک رہا تھا۔
تصور کیجئے۔۔۔
آج سے چند صدیوں بعد "ہمارا" لکھا یا کسی "پہونچے" ہوئے بزرگ کا مذکورہ بالا"بزرگ" مقدس ہستیوں کا لکھے تذکرے کی طرح کسی کتاب میں ہوگا تو کیا ہوگا؟
لوگ "عقیدت" سے ہی "علم ِتصوف" کی "کرامات" پہ "سبحان اللہ ہی کہہ رہے ہوں گئے۔
مرشد حضرت پاک طاہر القادری کا
وقتِ کے "فرعونوں" کے سامنے اور غریب و مظلوم عوام کی "حاجت روائی ، مشکل کشائی" کیلئے ڈٹ جانے والے "غوث ،قطب ، ابدال" کے طور پر "تذکرہ" شریف ہو سکتا ہے۔
اسی طرح سلسلہ پین دی سری کے مرشد پاک کا "تذکرہ شریف "دلووں اور کنجروں" سے معرکے اور "کرامتوں " کا ہو سکتا ہے۔
"سلسلہ رن مریداں" کی حضرت مرشدہ بشری بی بی کا تذکرہ شریف بھی " شوہروں" کو نتھ پانے اور "وزارت عظمی " سے آگے "تخت شہنشاہیت" پر بٹھانے کا مقدس طریقے سے ہو سکتا ہے۔
جس طرح "قرآن و حدیث " کو "کشف المحجوب" میں "کرامتوں " اور بزرگوں کے "تذکرے " کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
اس طرح سے ہوبہو "نقل" کرنے کی صورت میں کون "انکار" کرنے کی گستاخی کر پائے گا؟
"شریعت اور طریقت" کو لازم و ملزوم کر دینے سے "آسان آسان آیات" میں بیان کر دیا گیا "دین" ایک عام مسلمان کیلئے "جان جوکھوں" اور دردر کی "چوکٹھوں " پر سجود کرنے کا مشکل دین بنے گا کہ نہہں؟
"بل بتوڑی" اور "زکوٹاجن" کا روحانی قصہ تو تاقیامت امر ہو جائے گا۔۔

اتوار، 1 جولائی، 2018

وڈے سائیں کا بھٹو اب بھی زندہ ہے




میں پیپلز پارٹی قائدین کی فراست کا انتہائی معترف ہوں

جب ایشوز، شک و شبہات اورالزام تراشیوں کے جکھڑ چل رہے ہوں تو بہت اعتدال اور صبر سے کام لیتے ہیں، بالکل ہی کوئی ہلکی حرکت نہیں کرتے، کوئی اوچھا بیان نہیں دیتے ۔

وقت کے ساتھ جب دھول بیٹھتی ہے تو پھر ایفی ڈرین کیس بھی دب جاتا ہے، حج سکینڈل بھی خاموش ہوجاتا ہے، ایان بھی باہر چلی جاتی ہے، اینٹ سے اینٹ بجا دینا بھی بھول جاتا ہے، نیب اور نیب کی بھی ماں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

یہ اپنے وفاداروں کو، اگر وہ زبان بند رکھنے کی شرط پر پورا اتر جائیں تو؛ معاملہ چار سو ارب کا ہو یا اسی ارب کا، بندہ جیل میں ہو یا پاتال میں، ناصرف باعزت باہر نکال کرتے ہیں بلکہ انہیں معاشرے کا باعزت فرد ثابت کرنے کیلئے سونے کے تاج پہناتے ہیں۔

ہاں کچھ ہولے اور کم ظرف ساتھی بھی تو صفوں میں آ جاتے ہیں تو ایسے میں بلوچ شلوچ جیسے دوست کس کام کیلئے ہوتےہیں۔ حادثے تو حادثے ہی ہوتے ہیں پوچھتے تھوڑا ہی ہیں کہ آپ خالد شہنشاہ ہیں یا مرتضی بھٹو_

آج کے ہنگامے میں کتنے بڑبولے ہونگے؟ دس، بیس، پچاس؟ تھنک ٹینکس ان کی خاموشی کیلئے کیا تجویز کرتے ہیں، حصول اقتدار کے سامنے نہ تو مہنگا ہے اور نہ ہی ناممکن۔

لیاری کل بھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا اور کل بھی گڑھ ہی رہے گا۔ ناراض جیالوں کو ٹھنڈا کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ وڈے سائیں کو خود جانا پڑ جائےگا۔

اور وڈے سائیں کے جلوس کے ساتھ اگر کسی نے ایسی ویسی حرکت کرنے کا سوچا بھی تو ۔۔۔۔۔۔

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ۔۔۔وڈے سائیں کا بھٹو زندہ ہے