جمعہ، 14 اپریل، 2006

موبائیل فون سے بچیں

آج صبح کےاخبار میں ایک خبر پڑھ کر ایسے لگا کہ جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو۔خبر کے متن کے مطابق ایک پرتگالی باشندے کا موبائل فون دھماکے سے پھٹ گیااور اس کی ٹانگوں پر شدید زخم آئے۔اب یہ نہیں پتہ چلا کہ اس کی ٹانگوں میں سے کیا کیا چیزیں زخمی ہوئی ہیں۔
وہ تو شکر ہے کہ میں اپنا موبائیل فون اپنی پینٹ کی جیب میں نہیں رکھتا ۔اپنی عادت کے مطابق میں اسے اپنی قمیض کے اوپری حصہ کی بائیں جیب میں ٹھونسے رکھتا ہوں۔اب سوچتا ہوں وقت کا کیا پتہ ،ویسے بھی پاکستان میں دھماکوں کا عام رواج ہے اور اگر میرے موبائیل فون نے بھی دھماکہ کر دیا تو میرا دل تو گیا نا۔

منگل، 4 اپریل، 2006

صفِ نازک اور ڈکیتی

آج راہ چلتے ہوئے میری ملاقات اسلم خان سے ہوئی جو شالامار باغ کے ساتھ والی آبادی محمود بوٹی میں بند کے قریب رہتا ہے۔بڑا اداس تھا، اُداسی کی وجہ پوچھنے پر کہنے لگا کہ کل میں اپنے رکشہ
LOT - 7446
کو لئے رات نو بجے کے قریب سواری کے انتظار میں ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ ایک خوبصورت عورت اور مرد میرے پاس آئے اور کہنے لگے شاہدرہ ، امامیہ کالونی جانا ہے ۔جب میں انہیں ان کی منزل مقصود کے پاس لے آیا تو پوچھا کہ کس جگہ اترنا ہے تو انہوں نے ایک اندھیری گلی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بس وہاں اتار دو۔جونہی میں اس گلی میں پہنچا تو عورت نے فوراً ہی میری کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور کہا کہ جو کچھ ہے نکال دو ،اس کے ساتھ والے مرد نے بھی ایک چھری میری گردن پر رکھ دی اور کہنے لگا کہ اگر آواز نکالی تو ہم کسی اور کو تو کچھ نہیں کہیں گے مگر تمہیں ضرور جان سے مار دیں گے۔میں نے تھوڑی سی ہمت باندھی اور عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ بی بی ، میں غریب آدمی ہوں مجھے معاف کردو ، اتنا سنتے ہی اس عورت نے اتنی تیزی سے پستول کے چیمبر کو کھینچ کر آگے پیچھے کیا کہ اس وقت ایسے لگا کہ جیسے میری جان نکل گئی ہو ، کہنے لگی بکواس نہ کر اؤے پٹھان ، تیرا میں بھیجہ کھول دوں گی مگر فوراً ہی اس کے ساتھ والا آدمی کہنے لگا گولی نہ چلانا ، گولی نہ چلانا۔کہنے لگا اؤے خان جلدی تلاشی دو اور جو کچھ ہے باہر نکالو۔میں نے جلدی جلدی اپنا موبائل اور اس دن کی ساری کمائی جو تین سو روپے کے قریب تھی ان کے ہاتھ میں تھما دی۔وہ عورت اور مرد فوراً ہی گلی کے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
اس کے بعد میں کچھ دیر تو اپنے حواس میں ہی نہیں رہا جب ذرا تھوڑی میری طبعیت سنبھلی تو میرے سے رکشہ سٹارٹ نہیں ہو رہا تھا۔آخر اللہ کا نام لے کر میں نے رکشہ سٹارت کیا اور مین روڈ پر چلا آیا۔باہر مین روڈ پر پولیس کا دونوں طرف ناکہ لگا ہوا تھا انہوں نے مجھے فوراً روک لیا اور کہنے لگے کہاں سے آرہے ہو۔میں نے انہیں اپنی پوری رواداد سنائی ، وہ سن کر کہنے لگے ، کون ہے ، کدھر ہے ، ابھی چلو ہمارے ساتھ۔میں نے کہا نہیں صاحب رہنے دو اب میں نے کہیں نہیں جانا، بس صرف مجھے اتنا بتا دیں کہ جب میں ادھر سے گذرا تھا تو تب بھی آپ لوگوں کا ناکہ لگا ہوا تھا مگر آپ نے مجھے نہیں روکا تھا۔ان میں سے ایک کہنے لگا ، چل اؤے خان ،جا اپنا کام کر۔

پیر، 3 اپریل، 2006

زندہ دلی

لاہور کے شہری بھی کیا زندہ دل واقع ہوئے ہیں۔ہر اتوار کو صبح ہوتے ہی یہ تیز دھار ننگی تلواریں لئے اپنی چھتوں پر چڑھ کر جب تک دو تین معصوم بچوں کی گردنیں کاٹ نہ ڈالیں انہیں سکون نہیں ملتا۔
اس دفعہ لاہوریوں نے تین بڑے انسانوں کی گردنیں کاٹنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس میں میاں بیوی اور ایک دوسرا موٹر سائکل سوار شامل تھا۔زندہ دلانِ لاہور کے نزدیک ان گردن کٹوانے والوں کا قصور یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے ہی کیوں نکلے۔