پیر، 30 اکتوبر، 2017

گاڈ فادر

گاڈ فادر اٹلی کا باشندہ تھا۔ وہ دُنیا کا پہلا شخص تھا جس نے جرائم کو سائنسی بنیادیں فراہم کیں۔ وہ ریاست کے اندر ریاست اور انڈر ورلڈ جیسی معروفِ زمانہ اصطلاحوں کا بھی بانی تھا اس نے باقاعدہ ایسے ادارے قائم کیے جن میں مجرموں کو جرائم کی تربیت دی جاتی تھی دوسرے الفاظ میں جرائم کی دُنیا کی اکیڈیمیاں اور طالب علم اس نے ہی روشناس کروائے، اس نے مجرموں کا ایک بین الاقوامی نیٹ ورک بھی قائم کیا اس کے بارے میں مقولہ مشہور تھا کہ وہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے سے پہلے دُنیا کے ہر کونے میں موجود پایا جاتا ہے۔ اس نے اسلحہ، منشیات اور جعلی دستاویزات تیار کرنے کے لیے باقاعدہ لیبارٹریاں بنائیں اور ان لیبارٹریز کو جرائم کے نت نئے نئے طریقے ایجاد کرنے پر لگا دیا۔ اس سے قاتلانہ حملوں کے چار بین الاقوامی سکواڈ تشکیل دیئے ان سکواڈ میں ایسے سنگدل ، ظالم اور خوفناک لوگ بھرتی کیے جو لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اُن کے خون سے مُنہ اور ہاتھ دھوتے تھے ۔ چنانچہ دُنیا میں ایک ایسا وقت بھی آن پہنچا جب دُنیا کے تمام بڑے بڑے حکمران گاڈ فادر کے نام سے کانپ جاتے تھے ، اُن کی سانسیں رُک جاتی تھیں۔ گاڈ فادر ایک خوف ، ایک کالی آندھی، ایک دہشت کی علامت اور انسانی رگوں میں اُتر جانے والا ایک ڈر بن گیا۔ گاڈ فادر کی شروعات بڑی دلچسپ اور قابلِ غور تھیں وہ ایک چھوٹا سا مجرم تھا۔ لیکن قدرت نے اُسے قیادت کی بے مثال اور لاتعداد صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا وہ گروپ اور ریکٹ بنانے کا ماہر تھا وہ ویژنری اور جدت پسند انسان تھا ۔وہ ہمیشہ دو تین عشرے آگے کی بات سوچتا تھا اس نے 1934 میں ایک دلچسپ منصوبہ بنایا اس نے چند یونیورسٹی پروفیسرز اور ریٹائرڈ سیاستدانوں کی خدمات حاصل کیں۔ پروفیسروں نے اٹلی کی تمام یونیورسٹیوں کا دورہ کیا اور گاڈ فادر کو تمام ذہین اور باصلاحیت نوجوان طالب علموں کی فہرستیں بنا دیں اور بزرگ سیاستدانوں نے اسے ان تمام لوگوں کے نام اور ایڈریس فراہم کر دیئے جو مستقبل قریب میں بڑے سیاستدان ثابت ہو سکتے تھے۔ گاڈ فادر نے ان تمام طالب علموں کو وظائف دیئے ان کو برطانیہ اور امریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوائی اور اس کے بعد انہیں اٹلی کے بڑے بڑے سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بھرتی کروا دیا اس نے چھوٹے چھوٹے سیاستدانوں کی پشت پناہی کی اور اُنہیں سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کروا دیا اس نے قانون دان جمع کیے اور ان میں سے بے شمار وکیلوں کو جج بنوا دیا اس نے اپنے ریکٹ کے لوگوں کو سفیر، مشیر اور وزیر بنوایا اس نے اپنے لوگوں کو صنعت کار، تاجر اور بروکر بنوایا۔ اس نے اپنے تمام لوگوں کو بینکار اور ماہر معاشیات دان بنوایا اس نے اپنے بہت سے لوگوں کو قانون دان اور قلمکار بنوایا۔ یہ تمام لوگ ابتدا میں اٹلی اور بعد ازاں پورے یورپ میں پھیل گئے اور اُنہوں نے آگے چل کر بے شمار ملکوں کی معیشت اور سیاست اپنے ہاتھ میں کر لی جبکہ اس کے بیٹے گاڈ فادر دوم نے اپنے باپ کے سلسلے کو امریکہ، لاطینی امریکہ اور مغربی یورپ تک پھیلا دیا اور اس نے آدھی دُنیا کو اپنے دائرہ کار میں شامل کر لیا۔ ایک وقت ایسا تھا جب گاڈ فادر کے حکم سے پورے یورپ کے قوانین بدل جاتے تھے اور وہ شحص حقیقت میں پوری دُنیا کا بے تاج بادشاہ تھا اور دُنیا میں جس شخص نے گاڈ فادر کے خلاف رپٹ تک درج کرنی ہوتی تھی وہ اُس کا ہی ہرکارہ ہوتا تھا۔ جس نے رپٹ پر دستخط کرنے ہوتے۔ جس نے مہر ثبت کرنی ہوتی ، جس نے گرفتاری کا حکم دینا ہوتا، جس نے چھاپہ مارنا ہوتا ، جس نے عدالت میں پیش کرنا ہوتا ، جس وکیل نے اس پر چارج شیٹ لگانی ہوتی ، جس سیاستدان نے اس کے خلاف قانون بنانا ہوتا اور جس وزیر، مشیر یا وزیرِ اعظم نے اس کے خلاف پریس ، کانفرنس کرنا ہوتی تھی وہ سب کے سب اس گاڈ فادر کے پے رول پر ہوتے تھے۔اور ان میں سے ہر شخص اپنی صبح کا آغاز گاڈ فادر کے قدموں کو ہاتھ لگا کر کرتا تھا چنانچہ وہ دُنیا کے اقتدار اور اختیار کی رگوں میں اُتر گیا تھا اور وہ دُنیا کا حقیقی بادشاہ گردانا جاتا تھا۔ 1973 میں امریکہ نے گاڈ فادر کے اس سسٹم کو ’’اون‘‘ کر لیا اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کا حصّہ بنا لیا۔اور اب حقیقت میں وہ اس وقت پوری تیسری دُنیا کا گاڈ فادر حکمران ہے...!!

بدھ، 25 اکتوبر، 2017

گالیاں اور سکون

کبھی کبھی بہت ساری گالیاں نکالنے کو جی کرتا ہے ۔۔۔۔۔ پھر میں جی بھر کے اکیلے میں نکال دیتا ہوں ۔۔۔
فرسٹریشن دور ہو جاتی ہے اور دل کو سکون آجاتا ہے ۔۔۔
ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے زمانے کا بدلہ چکا دیا ہو ۔۔۔
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس سے گناہ ملتا ہے ۔۔۔۔ مگر میں اِس گناہ کو اُس گناہ سے کم خیال کرتا ہوں جو کسی کو نقصان پہنچا کر کیا جائے ۔۔۔۔

بلی انڈے بھی دے سکتی ہے

امام صاحب کا فرمانا تھا ۔۔۔۔ بلی انڈے بھی دے سکتی ہے ۔۔۔۔۔ جب اس بارے خلیفہ صاحب سے رائے مانگی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ امام صاحب نے درست فرمایا ہے ۔۔۔ بلی واقع میں ‘‘ انڈے ‘‘ دے سکتی ہے
امید واثق ہے آنے والی نسل کو تاریخ کے اوراق یہ ضرور بتائیں گے کہ دو ہزار سترہ صدی کی دوسری دہائی میں ‘‘ بلی انڈے دیا کرتی تھی ‘‘ ۔۔۔۔۔

شیخو کی دفن شدہ کتاب ‘‘ تاریک تاریخ کے روشن پہلو ‘‘ سے انتخاب

جنسی ہراسانی کیا ہے ؟

جنسی ہراسانی تب ہوتی ہے جب مرضی شامل نہ ہو۔ اس میں عورت کے کردار، پیشے کو زیر بحث لانا غیر متعلقہ ہے۔ جسم فروش عورت کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جاسکتا ہے اگر اس کی مرضی نہ ہو۔ بات کو اصل تناظر میں سمجھنا اہم ہے ۔۔۔۔۔۔ سائیں سید جعفر حسین شاہ

بیوی کی پیار کرنے کی مرضی نہ ہو یا اس کا دل نہ کرتا ہو ۔۔۔۔ تو اس سے زور زبردستی کرنا ، غصہ ہونا ، گالیاں نکالنا یا کہ اس کا غصہ بچوں پر نکالنا ۔۔۔۔ بھی درحقیقت عورت کو جنسی طور پر ہراساں کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔ شیخو بابا

خاوند کی گالیوں کے بارے میں فتوی

گالیاں نکالنے سے فرسٹریشن میں کمی آتی ہے اور سکون ملتا ہے ۔۔۔۔ پنجابی کی گالیاں قتل و غارت گری اور طلاق کی نوبت تک لیجا سکتی ہیں ۔۔۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ تہذیب سے اردو میں گالیاں نکال لی جائیں ۔۔۔ اگر پھر بھی خطرہ ہو تو اکیلے میں دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں ۔۔۔( فتاوی زن مرید ، باب 14 ، صفحہ 14 ۔۔)

بھٹو ایک مکار اور مداری سیاستدان

بھٹو ایک مکار اور مداری سیاستدان تھا
۔۔۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں اس کردار تھا
۔۔۔پاکستان کی ابھرتی معشیت کا بیڑا غرق اس نے کیا
۔۔۔پاکستان کے نیچے سے اوپر لیول تک سیکورٹی اداروں کو عوام کے ہاتھوں اس نے ذلیل کروایا
۔۔۔رینجرز کے مقابل اس نے اپنی ذاتی فورس ‘‘ ایف ایس ایف ‘‘ کے نام سے تشکیل دی جس نے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مخالفوں کا بے رحمانہ قتل کیا اور نو ستاروں کی تحریک کے دوران درجنوں بے گناہ لوگوں کو مروایا
۔۔۔گھر بیٹھے شریف لوگوں کو گمشدہ کرنا اس کے دور میں شروع ہوا ۔۔۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا آج تک پتہ نہ چل سکا۔۔۔ دہائی دیتے دیتے ان کی نسلیں بھی قبروں میں جا سوئیں
۔۔۔اس کے دور میں اسی کے چہیتے پنجاب کے گورنر غلام مصطفے کھر نے کالج میں پڑھنے والی شریف زادیوں کو راتوں میں ہوسٹل سے اغوا کر کے گورنر ہاؤس میں ان کے ساتھ زنا بالجبر کیا ۔۔۔ ان میں سے کچھ لڑکیوں نے خود کشی بھی کی
۔۔۔۔اس کے دور میں آٹا ، گھی ، چینی ، مٹی کا تیل اور دیگر اشیاء راشن ڈپوؤں پر راشن کارڈ پر ،لتی تھیں ۔۔ میرے سمیت پورا پاکستان کو ان کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی چیزیں لینے کے لئے گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا تھا
۔۔۔شملہ معاہدہ اور قوام محتدہ میں جان بوجھ کر کشمیر ریزولیشن کی کاپی پھاڑ نے کا ڈرامہ کر کے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کا جتنا ذمدار یہ بھٹو مداری تھا اور کوئی نہیں ہوگا۔
۔۔۔ابھی اس مداری کے پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کا اتنا مواد ہے کہ درجنوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔۔۔ اس لئے انہی پر گزارا کیجئے

شوربہ اور شورہ

تمام مصالحے اور سرخ مرچ کے بنے ہوئے زائقہ دار پانی کو شوربہ کہا جاتا ہے اور ہم لاہوری اسے آسانی کے لئے شورہ بھی کہتے ہیں۔۔شورے میں عموما اور خصوصا تمام قسم کے مصالحے ہوتے ہیں اس لئے پنجابی دانوں نے کنجری کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کو بھی مٹالا ۔۔شورے ۔۔ کے خطاب سے بھی نوازا ہوا ہے ۔۔۔۔
اب ہمارے لاہور میں شورہ اس کو کہا جاتا ہے جس میں مختلف گندے عادات و اطوار ، اخلاقی بدحالی ، منافقت کا بھرپور کوٹہ اور بظاہر شریفانہ مگر اندرون خانہ کنجرانہ پن شامل ہو

یہ خاموشی کہاں تک

لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز 37 برس پاک فوج کا حصہ رہے‘ یہ تین نسلوں سے فوجی ہیں‘ ان کے والد بھی فوج میں تھے‘ وہ بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے‘ جنرل شاہد عزیز نے 1971ءکی جنگ لڑی‘ یہ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے تھری سٹار جنرل تک پاک فوج کے پورے کمانڈ سسٹم کا حصہ رہے‘ یہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بھی رہے‘ چیف آف جنرل سٹاف بھی‘ لاہور کے کور کمانڈر بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کےلئے چیئرمین نیب بھی۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے رشتے دار بھی ہیں‘ پاک فوج میں اس وقت ان کی تیسری نسل خدمات سرانجام دے رہی ہے‘ ان کے صاحبزادے بھی پاک فوج میں ہیں‘

جنرل شاہد عزیز نے ریٹائرمنٹ کے بعد ”یہ خاموشی کہاں تک“ کے نام سے اپنی آٹو بائیو گرافی لکھی‘ میں نے گزشتہ ہفتے یہ کتاب ختم کی‘ جنرل شاہد عزیز کی یہ کتاب خاصی متنازعہ تھی‘ کتاب کی اشاعت کے بعد جنرل مشرف‘ ان کے ساتھیوں اور فوج کے چند حاضر سروس اور ریٹائر عہدیداروں نے جنرل شاہد عزیز کو آڑے ہاتوں بھی لیا‘ اس کتاب کو فوج کے خلاف سازش بھی قرار دیا اور جنرل شاہد عزیز کے کورٹ مارشل کا مطالبہ بھی کیا ‘ ان دنوں جنرل شاہد عزیز کے ایک انٹرویو نے بھی تہلکہ مچایا لیکن سچی بات ہے میں نے جب یہ کتاب پڑھی تو مجھے اس میں کوئی برائی‘ خرابی یا سازش نظر نہیں آئی‘ یہ ایک دھڑکتے دل اور قوم سے شرمندہ ایک ایسے جنرل کی آپ بیتی ہے جس نے مکمل جرات کے ساتھ اپنی‘ اپنے ادارے اور اپنے ساتھیوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کا اعتراف کیا‘ جنرل شاہد نے فوج‘ حکومت اور سیاستدانوں کی کشتیوں میں موجود ان تمام سوراخوں کی بھی کھل کر نشاندہی کی جن کو ہم کبھی صابن‘ کبھی گوند اور کبھی کاغذ لگا کر بند کرتے ہیں اور کبھی قالین‘ دری یا جائے نماز کے نیچے چھپا دیتے ہیں مگر انہیں مستقل بند نہیں کرتے‘ یہ کتاب منافقت پر مبنی نظام کا ایک مکمل تجزیہ بھی ہے اور ایک ایسے شخص کا اعتراف جرم بھی جو 39 برس تک اس نظام کا حصہ رہا‘ ہم جنرل شاہد عزیز کے خیالات اور انکشافات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہم انہیں یکسر مسترد نہیں کر سکتے کیونکہ جب دھواں اور آگ دونوں موجود ہوں تو پھر زیادہ سے زیادہ یہ بحث کی جا سکتی ہے‘ یہ آگ لگائی کس نے تھی یا اسے بجھانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے لیکن آگ اور دھوئیں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ حقیقت ہے سیاستدان ہوں‘ حکومت ہو یا پھر فوج ہو ملک کے تمام اداروں میں دھواں بھی ہے اور آگ بھی۔ میرا ذاتی خیال ہے فوج‘ حکومت اور سیاستدان اگر اس کتاب کو سسٹم کے بارے میں تحقیقاتی مکالمہ سمجھ لیں اور اسے پڑھ کر 68 سال سے جاری غلطیوں کی اصلاح کر لیں تو کم از کم ڈھلوان پر جاری سفر ضرور رک سکتا ہے‘ ہم مزید پھسلنے سے ضرور بچ سکتے ہیں۔

جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ءسے قبل میاں نواز شریف کی حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے‘ جنرل شاہد عزیز اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے‘ جنرل مشرف نے سری لنکا جانے سے قبل 10 کور کمانڈرز جنرل محمود‘ سی جی ایس جنرل عزیز خان اور ڈی جی ایم او یعنی انہیں یہ ذمہ داری سونپ دی تھی‘ ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق اور ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی بھی اس آپریشن کا حصہ تھے‘ جنرل مشرف کو اس معاملے میں کور کمانڈر پشاور جنرل سعید الظفر پر اعتماد نہیں تھا‘ میاں نواز شریف کو برطرف کرنے‘ پی ٹی وی اسلام آباد پر قبضے اور جنرل پرویز مشرف کو کراچی میں بحفاظت اتارنے کے پورے آپریشن کی نگرانی جنرل شاہد عزیز نے خود کی‘ جنرل شاہد عزیز نے اعتراف کیا‘ ہم اسے انقلاب سمجھ رہے تھے

لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ہم سب کا دل ٹوٹتا گیا یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب وہ فوجی وردی جو قوم کا پرائیڈ تھی وہ صرف دفتروں میں پہنی جانے لگی‘ افسر گھر سے سادہ کپڑوں میں نکلتے اور دفتر میں وردی پہن لیتے تھے‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ فوج چودھریوں کے خلاف تھی‘ یہ ان کا جنرل مشرف سے گٹھ جوڑ نہیں چاہتی تھی لیکن مشرف نے فوج کی بات نہیں مانی‘ جنرل مشرف نے 31 جنوری 2002ءکو کور کمانڈرز کی میٹنگ میں اعلان کیا‘ ہم پاکستان مسلم لیگ ق کی مدد کریں گے‘ پیپلز پارٹی کو توڑیں گے اور ن لیگ کو کمزور کریں گے‘ جنرل مشرف نے 2002ءکے الیکشنز میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کےلئے بہت کچھ کیا‘ ووٹرز تک کی عمر 21 سال سے 18 سال کر دی گئی‘ جنرل شاہد نے انکشاف کیا‘ جنرل مشرف سیاسی فیصلوں میں فوج کو اعتماد میں نہیں لیتے تھے‘ فوج میاں برادران کے جلاوطنی کے معاہدے تک سے واقف نہیں تھی‘ مجھے جب چیئرمین نیب بنایا گیا تو جنرل مشرف نے مجھے کہا‘ تم فیصل صالح حیات کے مقدموں کو نہ چھیڑنا‘ مجھے حکومت کی سیاسی مجبوریاں بتا کر دوسرے سیاستدانوں کی فائلیں کھولنے سے بھی روک دیا گیا‘ مجھے 2007ءمیں طارق عزیز نے بلا کر صدر مشرف کا حکم سنایا ” بے نظیر بھٹو کے تمام مقدمات بند کر دیئے جائیں“ میں نے تعاون نہ کیا تو چیئرمین کے اختیارات دو ڈپٹی چیئرمینوں میجر جنرل محمد صدیق اور حسن وسیم افضل میں بانٹ دیئے گئے‘ بے نظیر اور آصف علی زرداری کے مقدمات حسن وسیم افضل کے حوالے کر دیئے گئے‘ میں نے فیڈ بیک جاری رکھا تو حسن وسیم افضل کے دفتر کو لاہور شفٹ کر دیا گیا‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ میں نے کور کمانڈر لاہور کی حیثیت سے ڈی ایچ اے لاہور کے معاملات پر کمیشن بنایا‘ کمیشن کی رپورٹ صدر کو بھجوائی لیکن صدر نے اربوں روپے کی کرپشن دبا دی‘ میں چیئرمین نیب تھا تو میں نے پٹرول کی درآمد میں 81 ارب روپے کی کرپشن پکڑی لیکن وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف نے یہ معاملہ بھی دبا دیا‘ صدر اور وزیراعظم چینی مافیا کے خلاف بھی کارروائی نہیں کرنے دیتے تھے‘ میں نے جب اپنی کوششیں جاری رکھیں تو مجھے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا‘ چیف جسٹس کا ایشو بن چکا تھا‘ میں اس دوران حکومت کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ میں نے دو ماہ کی چھٹی لی اور چپ چاپ گھر بیٹھ گیا۔

جنرل شاہد عزیز کی پوری کتاب انکشافات کا خزانہ ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے کردار سے متعلق حصہ چشم کشا ہے‘ ہم اگر خطے میں امریکا کے ظالمانہ کردار کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ”یہ خاموشی کہاں تک“ کے وہ حصے ضرور پڑھنے چاہئیں‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ جنرل مشرف امریکا کے ساتھ معاملات کو انتہائی خفیہ رکھتے تھے‘ جنرل شاہد عزیز اس وقت چیف آف جنرل سٹاف تھے اور جنرل یوسف وائس چیف‘ یہ دونوں فوج کے مکمل کرتا دھرتا تھے لیکن یہ دونوں بھی زیادہ تر معاملات سے ناواقف ہوتے تھے‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد 2005ءمیں گوادر گئے تو انہیں وہاں معلوم ہوا‘ امریکا نے نومبر 2001ءمیں گوادر اور جیوانی میں اپنی نیوی بھی اتاری تھی‘ بھاری ہتھیار بھی اور جوان بھی۔ امریکی فوج بعد ازاں بلوچستان کے راستے افغانستان گئی‘ گوادر میں 2005ءمیں بھی امریکی مورچے موجود تھے۔ ”میں 2001ءمیں سی جی ایس تھا‘ مجھے اس کارروائی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا‘ میں نے جنرل یوسف سے رابطہ کر کے پوچھا‘ وہ بھی ناواقف تھے گویا یہ کارروائی فوج کے دونوں اعلیٰ ترین عہدے داروں سے خفیہ رکھی گئی تھی“ جنرل مشرف نے جیکب آباد‘ شمسی‘ ژوب اور دالبندین کے ہوائی اڈے بھی چپ چاپ امریکا کے حوالے کر دیئے اور ان معاملات میں بھی فوج سے غلط بیانی کی گئی‘ پاک فوج کے دستے جب سیکورٹی فراہم کرنے کےلئے ان ہوائی اڈوں پر گئے تو امریکی فوجیوں نے انہیں اندر داخل نہیں ہونے دیا‘ ان اڈوں پر امریکی سی آئی اے قابض ہو چکی تھی‘ جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ امریکی سازو سامان این ایل سی کے ٹرالرز کے ذریعے بھی افغانستان پہنچایا گیا‘ جنرل شاہد نے انکشاف کیا‘ امریکا نے ایک گہری سازش کے ذریعے پاک فوج اور مجاہدین کو آپس میں لڑایا‘ امریکی افغانستان کی جنگ کو پاکستان تک پھیلانا چاہتے تھے‘ امریکا نے پہلے افغانستان کے مختلف حصوں میں موجود طالبان کو پاکستانی سرحد کے قریب تورا بورا میں جمع کیا اور پھر بمباری شروع کر دی‘ یہ لوگ بھاگ کر پاکستان گئے‘ پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی اختلاف نہیں تھا‘ یہ لوگ جب پاکستان میں داخل ہوئے تو میں نے جنرل یوسف کے آفس میں سیٹ کام کے چیف جنرل ٹونی فرینکس سے پوچھا‘ آپ جب طالبان کو پاکستانی سرحد کے قریب اکٹھا کر رہے تھے تو آپ نے ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا‘ جنرل کا جواب تھا‘ یہ ہماری کوتاہی ہے لیکن یہ کوتاہی نہیں تھی‘ امریکا نے جان بوجھ کر اپنے دشمنوں کو پاکستان میں پھیلا دیا تا کہ پاکستان بھی مکمل طور پر افغان جنگ کا حصہ بن جائے‘ امریکا نے اس کے بعد ہم پر فاٹا میں فوج بھجوانے کےلئے دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا‘ ہمیں غیر ملکی مجاہدین کو گرفتار کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا‘ ہم نے کوہاٹ کی جیل خالی کی اور 80 عرب باشندوں کو وہاں بند کر دیا‘ کابل پر قبضے کے بعد امریکا نے بھارت کےلئے دروازے کھول دیئے‘ انڈیا نے وہاں ٹھکانے بنا لئے‘ امریکیوں نے 110 پاکستانی بھی بھارت کے حوالے کر دیئے‘ یہ لوگ انہیں انڈیا لے گئے اور اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں آئی‘ امریکا نے گیارہ سو پاکستانی ہمارے حوالے کئے اور ہم نے انہیں 232 غیر ملکی مجاہدین دیئے‘

جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا‘ 26 جنوری 2002ءکو پچاس جوانوں کی ایک پلٹن نے چار امریکیوں کے ساتھ قبائلی علاقے میں غیر ملکی مجاہدین کی تلاش میں ایک گھر کے دروازے پر دستک دی‘ گھر کا مالک باہر نکلا تو اسے بتایا گیا‘ تمہارے گھر کی تلاشی ہو گی‘ وہ گھر کی خواتین کو پردہ کرانے کےلئے اندر گیا لیکن واپس نہ آیا‘ جوان اندر داخل ہوئے تو گھر میں مجاہدین موجود تھے‘ مجاہدین نے فائرنگ شروع کر دی‘ کارروائی میں شامل ایک افسر نے اس آپریشن کی باقاعدہ فلم بنائی‘ رات دس بجے تک فائرنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ لوگ جوانوں کا گھیرا توڑ کر فرار ہو گئے‘ یہ فائرنگ پاکستان میں فوج اور مجاہدین کی پہلی لڑائی تھی‘ یہ لڑائی پھر اس کے بعد رکی نہیں‘ پاکستان اس کے بعد میدان جنگ بن گیا۔

مجھے جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں تھی‘ یہ امریکا اور جنرل پرویز مشرف کی جنگ تھی اور ایک طویل عمل کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا‘ یہ پرائی جنگ اب تک ہمارے 60 ہزار سویلین اور 7 ہزار جوانوں کو نگل چکی ہے‘ یہ جنگ روز کیپٹن اسفندر یار جیسے کسی نہ کسی افسر کا خون پیتی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک اس جنگ کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی‘ کسی نے کوئی مقالہ نہیں لکھا‘ کیوں؟ اتنی خاموشی کیوں ہے؟ یہ سناٹا کب تک چلے گا؟ یہ خاموشی کب تک‘ آخر کب تک۔!!

رنگ سوچ اور احساس

بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ رنگ بھی انسان کی سوچ اور اس کے احساس کی عکاسی کرتے ہیں ۔۔۔جیسے جیسے وقت ، حالات اور موقع کی مناسبت سے انسان کی سوچ اور احساسات تبدیل ہوتے ہیں وسے ویسے اس کو اسی سوچ اور احساسات کے مطابق رنگ بھی اچھے لگتے ہیں ۔
اصل میں حقیقت تو درآصل احساس کی ہے ۔۔۔۔ ضروری نہیں ایک اچھا اور سہانا موسم سب کے لئے اسی لمحے میں ایک جیسا تاثر چھوڑے ۔۔۔ اسی طرح رنگوں کا معاملہ جان لیجئے ۔۔۔۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ اور احساس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے ۔۔۔۔ اگر ہم اس سوچ اور تبدیلی کو دو کیٹیگری میں رکھیں ۔ یعنی مرد اور عورت کی کیٹیگری ۔۔۔۔۔ تو مرد کی نسبت عورت میں جلدی جلدی سوچ اور احساس کی تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے ۔۔۔

جاڑے کی چاندنی


جاڑے کی چاندنی ۔۔۔۔۔ انتہائی خطرناک ، بندے کو دیوانہ ( پاگل) بنا دیتی ہے
غریب کی جوانی ۔۔۔ کپڑوں میں ہو تو بدبودار ۔۔۔ بغیر کپڑوں کے انتہائی حسین ۔۔۔ بندے کو دیوانہ ( پاگل) کر سکتی ہے
عمران خان کی عقل ۔۔۔۔۔ دس منٹ اس کی تقریر سننے کے بعد بندہ پاگل ہو سکتا ہے
وقت کے بادشاہ سلامت میاں برادران کے وعدے سن کر ۔۔۔۔ کبھی بھی بندہ کپڑے پھاڑ کر ہذیان بک سکتا ہے