ہفتہ، 25 اپریل، 2015

یاقوت ۔۔۔ ایک خوبصورت سرخ پتھر

فارسی میں یاقوت کہنے والے اس پتھر کو عربی میں ‘‘ لعل ‘‘ اردو میں ‘‘ لال ‘‘ ہندی میں ‘‘ مانک ‘‘ سنسکرت میں ‘‘ پرم راگ ‘‘ اور انگریزی میں روبی ruby کہا جاتا ہے ۔ اس پتھر کا شمار نورتن یا جواہر تسعہ ‘‘اول درجہ کے نو 9 جواہرات ‘‘ میں ہوتا ہے ۔ یہ خوبصورت پتھر چمک دمک ، اپنی رنگت ، خوش وضعی اور ندرت کے اعتبار سے سب جواہرات سے افضل شمار ہوتا ہے ۔یاقوت دیکھنے میں بھی بڑادلکش ،دلفریب جاذب نظر اور خوبصورت ہوتا ہے ۔ شعراء اپنے محبوب کے ہونٹوں کولعل سے تشبیہ دیتے ہیں اور والدین اپنی اولاد کو میرا لال یا لعل بھی اسی مناسبت سے کہتے ہیں ۔۔


نگینہ شناس یاقوت کی چار اقسام بتاتے ہیں
1 ۔ مشرقی یاقوت
2 ۔ سپا ئنل روبی
3 ۔ پیلیس روبی
4 ۔ روبی سیل ۔دوسری قسم یعنی سپا ئنل روبی کو پاکستان میں لعل رمانی کہتے ہیں

ruby-002 جوہری یاقوت کی مندرجہ ذیل اقسام بیان کرتے ہیں
1 ۔ چولادن ۔ بے حد گہرا سرخ
2 ۔ بنوسی۔ یعنی قدرے سیاہی مائل سرخ (یہ خراب قسم ہے ) ۔
3 ۔گلگوں ۔ زردی مائل سرخ
4 ۔ کھیرا ۔ جس کا رنگ کتھئی ہو
5 ۔ اطلسی :۔ گہرا سرخ مگر تربوزی رنگت کا یاقوت
6 ۔ تاجا دت :۔جس میں سوراخ ہو (یہ بھی ناقص قسم ہے )
7 ۔ مشرقی یاقوت یہ سرخ رنگ کا ہو تا ہے
8 ۔ مغربی یاقوت ارغوانی رنگ کا ہو تا ہے
9 ۔ پیلیس یاقوت نیلگوں آسمانی ہو تا ہے

اہل عرب یاقوت کا رنگ سرخ ، زرد ، کبود ، سبز اور سفید بیان کر تے ہیں اور پھر انکی مختلف قسمیں بیان کرتے ہیں ان سب میں رمانی یعنی انار کا رنگ عمدہ سمجھا جاتا ہے
1 ۔ سرخ ممیری ۔ بہت زیادہ سرخ
2 ۔ سرخ اودی ۔ گلابی
3 ۔ سرخ نارنجی ۔ یہ اپنی خود وضاحت کرتا ہے
4 ۔ سرخ لیموئی ۔ یعنی پختہ لیمو کارنگ

کبوررنگ کے اقسام مندرجہ ذیل ہیں
1 ۔ کبودی نیلگوں (آسمانی رنگ) ۔
2 ۔ کبودکوہلی (سرمہ رنگ) ۔
3 ۔ کبود لاجوردی (لاجوردی رنگ )۔
4 ۔ کبود پستائی (پستہ رنگ)۔


یاقوت کی کیمیائی ساخت ( صلابت ) ۔
نگینوں پر تحقیق کرنے والا مشہور سائنسدان ‘‘ کوبر ‘‘ کہتا ہے کہ یاقوت کے کیمیائی مرکبات میں مندرجہ ذیل عناصر شامل ہوتے ہیں جن کی کمی بیشی سے یاقوت کی رنگت پر اثر پڑتا ہے
1 ۔ ایلومینیا
2 ۔ کرومیم
3 ۔ سلیکا
4 ۔ آسائیڈآ ف آئرن
5 ۔ مینیگنز
6 ۔ کیلشیم

ruby-003یاقوت کی شناخت
ایک سفید کاغذ پر یاقوت رکھیں اور اسی کاغذ پر کبوتر کے خون کا تازہ قطرہ ڈال دیں اگر یاقوت اور کبوتر کے خون کا رنگ یکساں ہوتو یاقوت خالص اور عمدہ ہے اصلی یاقوت املی کے پانی سے صاف ہوجاتا ہے اورزیادہ سرخ شعاعیں دیتا ہے خراب پسینہ ، بدبواور دھواں اصلی یاقوت پر اثرانداز ہوتا ہے اصلی یاقوت صرف ہیرے ہی سے کٹ سکتا ہے اس کی جانچ ( پرکھ ) چیلسی کلر فلٹر سے بھی با آسانی ہو سکتی ہے فلٹر سے اگر اس کی شعاعیں پار ہو جائیں تو یہ نقلی ہے ورنہ اصلی ہے یہ فلٹر عینک سازوں کے پاس ہوتا ہے کہ روزانہ مسلسل لگایا جائے اور پھر فلالین کے کپڑے سے خوب صاف کر دیا جائے۔
یاقوت کا مزہ پھیکا ہوتا ہے اسکو رگڑنے سے برقی قوت پیدا ہوتی ہے اس کا مزاج سرد وخشک اور معتدل ہے

یاقوت کے عیوب
جب یہ معلوم ہو جائے کہ یاقوت اصلی اور خالص ہے تو پھر اس کے عیوب اورنقائص کو جانچتا اور پرکھنا چاہیےء کیونکہ نقائص اورشگاف اسے کم قیمت اور کمتر کر دیتے ہیں مبصرین اور ماہرین یاقوت میں مندرجہ ذیل عیوب شمار کرتے ہیں
1 ۔ ابر کی یاقوت :۔ جس کے اندر ابرک کے آثار ظاہر ہوں یہ یاقوت کا عیب شمار ہوتا ہے
2 ۔ بنوسی :۔ سیا ہی مائل سرخ رنگ والا یاقوت بھی معیوب سمجھا جاتا ہے
3 ۔ جوتلا :۔زردی مائل سر خ رنگت والا یاقوت بھی عیب دار شمار ہوتا ہے
4 ۔ چیرا:۔ ایسا یاقوت جس کے اندر شگاف ہوا سے چیرا کہتے ہیں اور عیب دار شمار ہوتا ہے
5 ۔ دودھیا:۔ سفید یا دودھیا رنگت کا یاقوت بھی عیب ادر شمار ہوتا ہے اور کم قیمت ہوتا ہے
6 ۔ ڈھایا ـ۔ یاقوت کا بے آب اور بے رونق اس کا بڑا عیب ہے اوراس کی قدروقیمت کو کم کرتا ہے
7 ۔ مارا :۔سیاہی مائل رنگت کا یاقوت بھی عیب دار شمار ہوتا ہے اور اس کی قدروقیمت کو کم کرتا ہے

خلقت وبناوٹ
اس پتھر کی سختی نو درجہ ہوتی ہے اس لیے صرف ہیرے سے کٹ سکتا ہے ایک قدیم نادر کتاب میں لکھا ہے کہ اس پتھر کی خلقت اور بناوٹ آب شیریں سے ہوتی ہے جو دو پتھروں کے درمیان و عر صہ دراز تک محبوس رہتا ہے پھر یہ پانی گاڑھا ہو کر صاف اور سنگین (سخت ) ہو جا تاہے اس لیے کہ زمین کے اندر پتھروں کی گرمی اور حدت اسکو پختہ کر کے سخت کردیتی ہے اس جواہر میں کیمیائی طور پر 98 فیصد ایل مونا ،ڈیڑھ سو فیصد چونا اور معمولی مقدار میں کرومیم شامل ہوتی ہے اس کومختلف رنگوں سے مختلف ناموں سے منسوب کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے اس میں کچھ نقطے معلوم ہوتے ہیں اور مختلف قسم کے عکس ہوتے ہیں۔

یاقوت کی کانیں
پہلے زمانہ میں یاقوت ہندوستان کے بعض ایسے مقامات سے دستیاب ہوئے جہاں کثرت سے چاول کی کاشت ہوتی تھی اس لیے کہ کھیتوں کے چوہے یاقوت کے سخت ٹکڑے اپنے بلوں سے باہر سطح زمین پر پھینک دیتے تھے برما میں اس کی کانیں بہت پرانی اور مشہور ہیں افغانستا ن کے صوبہ برخشاں میں بھی یاقوت کی کانیں بہت قدیم ہیں عمدہ قسم کا یاقوت سیام کے جنوبی مشرقی علاقہ میں بھی پایا جاتا ہے مدغا سگز ۔کیلی فورنیا۔سری لنکا (سیلون) اور جنوبی افریقہ میں کافی کانیں ہیں پاکستان اور آزاد کشمیر کی کانوں میں بھی یاقوت دستیاب ہے ۔

دنیا کے چند نادر اور مشہور تاریخی یاقوت
یوں تو افادیت کے لیے امراء ورؤساء کے علاوہ متوسط طبقہ بھی عام طریقے سے یاقوت کی انگوٹھیاں استعمال کرتا ہے لیکن عقیدتاًیاقوت کی انگوٹھی پہننے کا عام رواج خصوصیت سے شیعہ حضرات میں زیادہ ہے ویسے دنیا میں نایاب اور نادر تاریخی یاقوت مندر جہ ذیل ہیں

1 ۔ ایک نایاب یاقوت سن 1877؁ء میں زارروس کے تاج میں کبوتر کے انڈے کے برابر جڑاہوا تھا اس کا وزن تقریباً سو قیراط تھا
2 ۔ قدیم ایران کے ساسانی خاندان کے بادشاہ کے شطرنج کے مہرے یاقوت اور زمرد کے تھے
3 ۔ ایک اور نادرونایاب یاقوت مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس تھا جس کا وزن چودہ تولے تھا اس پر اورنگ زیب عالمگیراوراحمد شاہ ابدالی کے نام کندہ تھا
4 ۔ شہنشاہ ایران کے پاس ایک نادر یاقوت محفوط تھا جس کا وزن 72 بہتر قیراط تھا یہ نادر نایاب یاقوت چار ایرانی شہنشاہوں کے تاج کی زینت بنا رہا
5 ۔ تیموریہ یاقوت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک اعلی قسم کا نادر یاقوت تھا تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ کوہ نور ہیرے ،، کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا
6 ۔ شب افروز یاقوت نوشیراواں بادشاہ کے خزانے میں رہا اس کو کوکب کا لقب دیا گیا تھا یہ یاقوت شب کی تاریکی میں چراغ کی طرح روشن نظر آتا تھا اکثر کتب میں اسکو ‘‘گوہر شب چراغ ‘‘ بھی لکھا گیا ہے
7 ۔ سلطان ابراہیم کے پاس سرخ و نادر ونایاب یاقوت موجود تھے جو رات کے اندھیرے میں انگاروں کی طرح دہکتے محسوس ہوتے تھے
8 ۔ کراؤن آف اسٹیٹ جو ملکہ وکٹوریہ کے لیے تیار ہوا تھا اس کے جڑاؤ جواہرت میں ایک بہت بڑا یاقوت بھی لگا ہوا تھا یہ 1357؁ء میں شاہی خزانہ کو دے دیا گیا تھا یہ یاقوت بھی بہت مشہور تھا

منگل، 21 اپریل، 2015

مورٹین والو ! پاکستانیو کو بخش دو

mortein-oil-01بیوی کی خدمت کی خاطر کرشن نگر بازار جانا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا بازار ہی بند ہے ۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ بازار کے ایک ہردلعزیز حاجی انور خان کا تین سالہ بیٹا ارحم خان فوت ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بازار کی بہت سی دوکانیں سوگ میں بند ہیں ۔
میں بڑا حیران ہوا کہ آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ ایک بچے کی خاطر بازار کو بند کرنا پڑا ۔تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ بچے نے مورٹین آئل کی شیشی میں لگی سٹک کو چوس لیا تھا جس کی وجہ سے بچے کی طبعیت خراب ہو گئی ۔۔طبعیت خراب ہونے پر بچے کو میوہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا جہاں وہ بارہ گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

mortein-oil-03حیرت اور سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ مورٹین سے مچھر تو مرتا نہیں پھر یہ بندہ آخر کیسے مر گیا ۔ مورٹین کی پروڈکٹ کو اگر ہم دیکھیں تو اس کی جلیبی ( کوائل ) کو بند کمرے میں لگا کر سوئیں تو صبح آپ جاگتے نہیں ملیں گے ۔۔اسی طرح اگر آپ اس کا بغیر خوشبو کا سپرے لا کر کمروں میں چھڑکیں تو مچھر تو چھوڑو مکھیاں اور بھنبھنانا شروع کر دیتی ہیں ۔مورٹین آئل کی تو بات ہی نہ کریں اس کی تازہ مثال تو لوگوں نے ایک زندہ بچے کا اللہ کے ہاں پہنچنا دیکھ ہی لیا ہے۔

مورٹین والوں کو چاہئے کہ اپنی ہر پروڈکٹ پر نمایاں حروف میں ‘‘ خطرناک دوائی ‘‘ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ‘‘ آنکھوں اور منہہ کو بچا کر رکھیں ‘‘ جیسے الفاظ ضرور لکھیں ۔۔اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہئے کہ وہ پاکستانیو کی جاں بخشی کر کے جاپان میں اپنی پروڈکٹ متعارف کروائیں جہاں ہر دسویں بندے کو خودکشی کے لئے کسی اچھی دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔

اتوار، 19 اپریل، 2015

مگر ہمیں کیا ۔۔۔۔ ! ۔۔

ایک نظم کے جواب میں لکھی میری ایک نظم

مگر ہمیں کیا ۔۔۔۔ !

تم آڑھے ترچھے خیال سوچو
کہ بے ارادہ ۔۔۔۔۔ کتاب لکھو
کوئی ۔۔۔۔۔ شناسا غزل بھی کہہ دو
کہ اجنبی انتساب ۔۔۔۔۔ لکھو
گنوا دو اک عمر کے زمانے ۔۔۔۔ !
کہ ایک ۔۔۔۔۔ پل کا حساب لکھو
تمہاری طبیعت پہ منحصر ۔۔۔ ہے
تم جس طرح کا ۔۔۔ نصاب لکھو
یہ تمہارے اپنے مزاج ۔۔۔۔ پر ہے
عذاب سوچو ۔۔۔۔ثواب ۔۔۔ لکھو

طویل تر ہے ۔۔۔۔۔ سفر ہمیں کیا ؟
تم جی رہی ہو۔۔۔۔ مگر ہمیں کیا ؟

مگر ہمیں کیا ۔۔۔۔ کہ تم تو کب سے
اپنے ۔۔۔۔۔۔۔ ارادے گنوا چکی ہو
جلا کے سارے حروف ۔۔۔۔۔ اپنے
اپنی ..........دعائیں بجھا چکی ہو
تم رات اوڑھو۔۔۔۔۔ کہ صبح پہنو
تم اپنی رسمیں اٹھا ۔۔۔۔ چکی ہو
سنا ہے۔۔۔۔ سب کچھہ بھلا چکی ہو

تو اب اپنے دل پہ ۔۔۔۔ جبر کیسا ؟
یہ دل ۔۔۔۔ تو حد سے گزر چکا ہے
گزر چکا ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر ہمیں کیا ؟
خزاں کا۔۔۔۔۔ موسم گزر چکا ہے
ٹھہر ۔۔۔۔۔ چکا ہے مگر ہمیں کیا ؟

مگر ہمیں کیا .........کہ اس خزاں میں
تم جس طرح کے ۔۔۔ بھی خواب لکھو