جمعہ، 22 ستمبر، 2006

پوپ کا بیان اور مشرف کو دھمکی

دنیا میں جب بھی کہیں اسلام کے خلاف بات ہوتی ہے تو پاکستان ہی ایک ایسا واحد ملک ہے جس میں اس پر ردِعمل کی توقع فوراً کی جاسکتی ہے چاہے وہ ردِ عمل حقیقی ہو یادکھاوے کا ،
اگر تو ردِ عمل حقیقی ہو تو پھر یہ لہر دور تک جاتی ہے اور اس میں بہت کچھ بہہ بھی جاتا ہے اور اگر یہ ردِعمل دکھاوے کا ہو تو کچھ لے دے کر معاملہ نبٹ جاتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ کی طرف سے ایک بیان دیا گیا جس میں جہاد کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں بھی گستاخانہ الفاظ ادا کئے گئے ، جس پر پوری اسلامی دنیا میں اس کی مذمت کی گئی اور ساتھ ساتھ مظاہروں کا سلسلہ بھی زوروشور سے شروع ہوگیا۔
پوپ سے اپنا بیان واپس لینے کو کہا گیا، مظاہروں کی شدت دیکھتے ہوئے پوپ نے پینترا بدلا اور اپنے بیان پر معافی مانگی۔پاکستان میں مذہبی تنظیموں نے اس معافی کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ پوپ کو اپنا بیان واپس لینا چاہئے۔
اب جبکہ پاکستان میں آہستہ آہستہ ان مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا تو ہمارے صدر محترم نے امریکہ سے ایک تازہ بیان داغ دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اس کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو کھنڈر بنا دیا جائے گا ۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی خلافِ بعید بات بھی نہ تھی ، بالکل امریکہ دھمکی دے سکتا تھا۔مگر بابے شیدے کو ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ گڑے مردے اُٹھانے کا یہ کون سا وقت تھا۔
بابا عیدو کچھ اور ہی کہتا ہے ، کہتا ہے کہ ، یہ سب پاکستانی مذہبی جماعتوں کو پوپ کے بیان سے باہر نکالنے کی ایک چال ہے تاکہ ان کا دھیان کسی اور طرف لگا دیا جائے۔بابا عیدو یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھنا اب سارے مذہبی لیڈر پوپ کو بھول کر صدر مشرف کی طرف لٹھ لے کر دوڑ پڑیں گے اور کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے گی ، جب تک کہ کوئی اور شوشہ نہیں چھوڑ دیا جاتا۔

جمعہ، 15 ستمبر، 2006

پاگل کتا

ابھی کچھ عر صہ پیشتر ہی کتوں کی انجمن نے اپنے ہر دلعزیز سردار کے مرنے کے بعد پاگل کتے کو اپنا سردار نامزد کیا ۔یاد رہے کہ آج تک کتوں میں جتنے بھی سردار گذرے ہیں وہ کتوں کی انجمن کے علاوہ انسانوں کی انجمن میں بھی یکساں مقبول رہے تھے۔مگر پاگل کتے کے آنے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ۔اب کتوں نے بھی انسانوں پر سرعام بھونکنا شروع کر دیا ہے۔پاگل کتے نے ان کو ان کی اوقات بتا دی ہے اور کہا ہے کہ کتوں اور انسانوں کا کوئی میل نہیں ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ بچپن سے ہی پاگل کتے کو انسانوں سے چڑ تھی اس لئے سرداری کی پگڑی پہناتے ہوئے بھی کئی نامور کتوں سے اسکے سردار بننے کی شدید مخالفت کی تھی۔مگر پاگل کتے کا اثر رسوخ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ایک نہ سنی گئی۔
اب جبکہ پاگل کتے کی سرداری کا دور ہے اس لئے میرا انسانوں کو یہی مشورہ ہے کہ کتوں سے بچ کر رہیں یہ نہ ہو کہ انہیں پیٹ میں چودہ ٹیکے لگوانا پڑجائیں۔
ویسے بھی استاد شیدا کہتا تھا کہ کتا گلی کا ہو یا محل کا گر کاٹ جائے تو ٹیکے لگوانا ہی پڑتے ہیں ۔

جمعرات، 7 ستمبر، 2006

باندر کِلا

دنیا میں بہت سے کھیل ایسے ہیں جو زمانہِ قدیم سے چلے آرہے ہیں ۔ ان میں کچھ کھیل ایسے بھی ہیں جو صرف علاقائی سطح پر کھیلے جاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ان قدیم کھیلوں میں ہمیں صرف چند کھیل ہی ایسے ملیں گے جن کی اپنی اصل ابھی تک باقی ہے کیونکہ باقی کھیلوں کو چاہے وہ علاقائی ہوں یا بین الاقوامی جدیدیت کے آ جانے کی وجہ سے لوگ بھلا چکے ہیں۔
علاقائی کھیلوں میں یوں تو بہت سے کھیل ایسے تھے جو اپنی مثال آپ تھے اور اُن کھیلوں میں سے ایک کھیل بَاندر کِلا بھی تھا۔ باندر کِلا پنجابی زبان کا لفظ ہے ،اردو میں ہم اس کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ “ بندر کھونٹا“ اردو میں “ باندر “ کو بندر اور “ کلا “ کو کھونٹا کہا جاتا ہے۔کھونٹا یا کِلا وہ ہوتا ہے جس کا ایک حصہ پتلا ہوتا ہے اور یہ لکڑی کا ہوتا ہے ہے اور اسے زمیں میں گاڑ کر اُس سے کوئی چیز مثلاً گائے ، بھینس وغیرہ یعنی جانور باندھ دئے جاتے ہیں۔
اس کھیل میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ بہت سے لڑکے آپس میں جمع ہو کر آپس میں قرعہ نکالتے ہیں پھر جس لڑکے کا نام نکل آتا ہے اس کے ہاتھ میں رسی باندھ کر اسے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور باقی سارے لڑکے اپنی اپنی جوتیاں اتار کر اس کھونٹے کے پاس رکھ دیتے ہیں۔اب اس باندر ( بندر ) یعنی لڑکے نے چاروں طرف گھوم کر کسی لڑکے کو جوتیاں نہیں اُٹھانے دینی اور سب لڑکوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح ایک ایک کر کے یا پاؤں مار کر جوتیوں کو کھونٹے سے دور کر کے اُٹھا لی جائیں۔
اگر تو وہ باندر ( بندر ) یعنی لڑکا کسی لڑکے کو پکڑ لیتا ہے تو باندر بننے کی باری اس کی آ جاتی اور اگر لڑکے ساری جوتیاں اُٹھا لیتے ہیں تو پھر اُن جوتیوں سے باندر کی وہ درگت بنے گی کہ خدا کی پناہ۔
جو سیانا ( عقل مند ) باندر ہوتا ہے وہ تو باندر بنتے ہی اپنے ہاتھ کی رسی کو کھول کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے اور ایسا موقع آتے ہی کہ جب اُس کی درگت بنے کِلے ( کھونٹے ) سے ایسا بھاگتا ہے کہ ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔
مگر بابا عیدو اپنی ہی ہانکتا ہے ، بات کوئی بھی ہو وہ مثال دینے سے باز نہیں رہتا، کہتا ہے ،
“ بندر کے ہاتھ میں اگر ماچس آ جائے تو وہ جنگل کو ہی آگ لگائے گا“
ویسے سوچا جائے تو بابا عیدو بھی ٹھیک ہی کہتا ہے ، ماچس تو باندر کے ہاتھ میں ہی ہے۔