بدھ، 29 مارچ، 2006

محاورے

دنیا میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور ہر زبان میں بے شمار محاورے بھی ہیں۔اسی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سی زبانیں رائج ہیں اور ہمارے محاورے دنیا کی اور زبانوں سے زیادہ حقیقت کے قریب ہیں تر ہیں۔شاید اس لئے کہ ہمارے بڑے بوڑھے زیادہ تجربہ کار ہوں یا شائد ہم اہل زبان ہوتے ہوئے ان محاوروں کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ کہنے والا کہتا کچھ ہے اور سمجھنے والا جو جی چاہے سمجھے اور چاہے تو اپنی مرضی کا مفہوم بھی پہنا لے۔

ہمارے ہاں بولی جانے والی زبانوں میں اردو اور پنجابی کو جو فوقیت حاصل ہے وہ کسی اور زبان کو نہیں اور محاوروں کا جو استمال اردو اور پنجابی میں ہوا وہ سب سے زیادہ حقیقت کے قریب تر ہے۔پنجابی زبان کے زیادہ تر محاورے اردو سے بھی لئے گئے ہیں مگر پنجابی زبان کے کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جن کا تعلق خاص اسی زبان تک محدود ہے اور ایسے محاورے خصوصیت میں شمار ہوتے ہیں۔

پنجابی کا ایک محاورہ جو کہ خاصا مقبول ہے اور عمومی طور پر اس پر ہر جگہ عمل ہوتا ہے ،
“ کہنا دھی نوں ، سنانا نوں نوں
( بات کرنی بیٹی سے مگر طعنہ بہو کو)
اس محاورے کا زیادہ تر استمال اچھائی کے لئے ہی ہوتا ہے کیونکہ اس طریقہ کار میں لڑائی ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔اور کہنے والا اپنا مطلب دوسرے کی نسبت دے کر بیان کر دیتا ہے۔
پنجابی کا ایک اور محاورہ بھی بڑا اہم ہے جس کی مثال ہر وہ انسان دیتا نظر آتا ہے جس کو کسی کی تحقیر کرنی مقصود ہو۔اس محاورے کا جس قدر غلط استمال ناسمجھی کی بنا پر ہوتا ہے وہاں اس محاورے میں بہت سی ایسی باتیں بھی پنہاں ہیں جو بہت کم محاوروں میں پائی جاتی ہیں۔

“ جات دی کوڑ کرلی ، چھتیریاں نال جپھے “
( چھوٹی ذات ، غلیظ ذات کے لوگ اور بات کرتے ہیں یا خیالات ہیں اونچے لوگوں کے یا اونچی چیزوں کے )
“ کوڑ کرلی “ کو اردو میں چھپکلی کہا جاتا ہے جو غلیظ ترین سمجھی جاتی ہے۔

اماں پھاتاں کہتی ہے ، اس محاورے میں جتنی تحقیر انسانیت کی کی گئی ہے شائد ہی کسی اور محاورے میں کی گئی ہو۔

محاورے تو ہوتے ہی مثالیں دینے کے لئے ہیں مگر کچھ لوگ سیدھی باتیں بھی کرتے ہیں اور سیدھی باتیں زیادہ سچی ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔اور اگر یہ کڑوا گھونٹ گلے سے نیچے اتار لیا جائے تو کایا پلٹ جاتی ہے۔اور اگر یہ کڑوا گھونٹ منہہ میں ہی رکھ کر کہنے والے کے چہرے پر تھوک دیا جائے تو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی وہ تھوک خود کے چہرے پر بھی آسکتا ہے۔




اتوار، 26 مارچ، 2006

انارکلی

پاکستان کے شہر لاہور کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہےاور اس دل کے اندر بھی ایک دل موجود ہے جس کا نام انارکلی ہے۔تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے انارکلی بازار کی ایک الگ اہمیت ہے اور اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً چار سال پیشتر پرانی انارکلی کو نیا رنگ روپ پہنا کر “ فوڈ سٹریٹ “ کا نام دے دیا گیا۔شروع شروع میں تو یہاں گہما گہمی بہت کم دیکھنے میں آتی تھی مگر آجکل یہاں کی رونق دیکھنے قابل ہے۔
شام ہوتے ہی یہاں رنگوں کی محفل جمنے لگتی ہے اور جوں جوں رات گہری ہوتی ہے یہی رنگوں کی محفل اپنے عروج پر ہوتی ہے۔بالا خانے کی تمام خوبصورت تتلیاں سڑک کے دونوں اطراف بظاہر سیر کرنے میں مصروف اپنا اپنا شکار ڈھونڈنے کے لئے کھنکناتے قہقے لگاتی نظر آتی ہیں۔اور یہ کھنکناتے قہقے جب دور میزوں پر بیٹھے شرفاء کے کانوں میں گونجتے ہیں تو ان میں سے ہر کوئی اپنی انارکلی کو لے کر اپنی بھوک مٹانے کے لئے فوڈ سٹریٹ سے خوشی خوشی رخصت ہو جاتا ہے۔

ہفتہ، 25 مارچ، 2006

یاسر اور نوید زندہ باد

بلاگ اسپاٹ کی تمام سائٹ کھولنے کے لئے آپ سب دوست مسڑ یاسر اور نوید کی ویب سائٹ سے اپنی تمام بلاگ سپاٹ کی سائٹ اب بڑی آسانی سے کھول سکتے ہیں۔اس کے لئے آپ کو صرف
http://www.pkblogs.com/your blog name
لکھنا ہے۔
ہم سب بلاگر مسٹر یاسر اور مسٹر نوید کو اس عظیم کاوش پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔



http://www.pkblogs.com

جمعہ، 24 مارچ، 2006

ایک نئی دنیا ممکن ہے

ایک نئی دنیا ممکن ہے کے نعرے کے تحت کراچی میں جمہ کی رات سے ورلڈ سوشل فورم کا افتاح کیا گیا ہے۔توقع ہے کہ اس میں تقریباً دنیا کے اٹھاون کے قریب ممالک کے مِلے جُلے لوگ جہاں آپس میں مل بیٹھیں گے وہاں وہ “ پیس پیس “ کے نعرے بھی لگائیں گے۔اور گمان غالب ہے کہ ان “ پیس پیس “ کے نعروں کی آواز دنیا کے صدر بش اور ہمارے محترم جنرل مشرف صاحب تک ضرور پہنچے گی اور وہ ورلڈ سوشل فورم والوں کی خواہشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا پیسنے کا عمل اور تیز کردیں گے۔جس سے ایک نئی دنیا وجود میں آنے کی راہ ہموار ہو گی ۔

اتوار، 19 مارچ، 2006

پاکستان کی ترقی کا ایک جائزہ

































































































پاکستان کی ترقی
کا ایک جائزہ


سپر پٹرول
لیٹر


چھوٹا گوشت
کلو


دال چنا
کلو


گھی
کلو


چینی
کلو 


آٹا فی کلو

 
0.15 ps 1.25 Rs  0.25
ps
2.50 Rs 0.60 ps  0.20
ps
لیاقت
علی خان

1947-51

0.35
ps
1.75
Rs
 0.35
ps
 3.00
Rs
0.75
ps
0.25
ps
خواجہ
ناظم الدین

1951-53

2.75
Rs

12.00 Rs
1.50
Rs
5.00
Rs
1.75
Rs
0.50
ps
جنرل
محمد ایوب خان

1958-69

3.45
Rs

16.00 Rs
2.50
Rs
9.00
Rs
6.00
Rs
1.00
Rs

ذوالفقار علی بھٹو

1970-77

7.75
Rs

40.00 Rs
9.00
Rs

15.00 Rs
9.00
Rs
2.50
Rs
جنرل
ضیاء الحق

1977-88


12.00 Rs

50.00 Rs

10.00 Rs

20.00 Rs

10.00 Rs
3.25
Rs

بینظیر بھٹو

1988-90


14.00 Rs

80.00 Rs

18.00 Rs

32.00 Rs

13.00 Rs
4.25
Rs
محمد
نواز شریف

1990-93


18.55 Rs

110.00 Rs

18.00 Rs

48.00 Rs

21.00 Rs
6.60
Rs
 بینظیر
بھٹو

1993-96


18.55 Rs

110.00 Rs

18.00 Rs

50.00 Rs

22.00 Rs
7.50
Rs
محمد
نواز شریف

1997




١٩٩٧ میں جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا اس وقت کے ریٹ درج ذیل ہیں اس کے بعد پاکستان نے جو ترقی کی وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اور اگر آج کل دیکھا جائے تو آج کل کسی بھی چیز کا کوئی بھاؤ نہیں ہے۔آج ریٹ کچھ ہوتا ہے اور کل کچھ۔اب دیکھنا یہ ہے غریب اور کتنے دن جیتے ہیں۔

منگل، 14 مارچ، 2006

عجیب سے عجیب تر

صدر ایوب کا دور بھی عجیب تھا۔ چینی مہنگی ہو گئی لوگ سڑکوں پر آ کر ایوب کو گالیاں نکالنے لگے تو صدر ایوب چلا گیا۔

یحییٰ کا دور بھی عجیب تھا۔پاکستان کا ایک حصہ جدا ہو گیا اور خود یحییٰ شراب کے نشے میں دھت چین کی بانسری بجاتا رہا۔

بھٹو کا دور بھی عجیب تھا۔سب کو آزادی کا مطلب سمجھایا اور ہر شے پر حکومت کی اجارہ داری بھی قائم کی ، لوگوں کو لائینوں میں لگا کر آٹا چینی گھی خریدنے کا عادی بھی بنایا اور آخر کار آزادی کے نام پر پھانسی چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچا۔

ضیاء کا دور بھی عجیب تھا۔کلاشنکوف کلچر کوفروغ دیا ، ہیروین کو عام کر کے جدید جہاز متعارف کروائے۔فرقہ پرسستی اور قوم پرستی کی بنیاد رکھی، اسلام کے نام کو بیچ کر اپنے اقتدار کو طول دیا اور آخر کار جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کروا کر فیصل مسسجد کے اندر اپنا مزار بنوایا۔

بے نظیر کا دور بھی عجیب تھا۔اپنے باپ کے انتقام کی قسم کھانے والی، پاکستان کا سارا پیسہ کھا گئی ، بڑے بڑے محل بنائے ، پاکستان کے قانون کے ساتھ اپنے بچپن کے کھلونوں کی طرح کھیلی۔خود حاکم ہوتے ہوئے اپنے خاوند کو حاکم بنایا جس نے ہر چیز میں کمیشن کی بنیاد ڈالی اور خود مسٹر ٹین پرسنٹ کہلایا۔ اور آخر کار اپنے اسی خاوند کوجیل میں چھوڑ کر دور دیسوں میں جا بسی۔

نواز شریف کا دور بھی عجیب تھا۔بہت سے ڈکٹریٹروں کو مات دی ، عدلیہ کو ذلیل کیا ،جب جی چاہا بجٹ بنانے کی نئی روایت ڈالی۔بہت سے ایمانوں کو بیچا اور خریدا ، پولیس کو بے لگام کیا اور آخر کار ایک ڈکٹیٹر سے شہ مات کھا کر سعودیہ کی مقدس زمین پر جا بسیرا کیا۔

آج کا دور بھی عجیب تر ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔کسی چیز پر کوئی پابندی نہیں۔جس کے پاس مشرف کی لاٹھی ہے وہ جو جی چاہے کرے۔مولویوں کا گریبان پکڑے یا اسلام کو بیچے ، پولیس ہے تو وہ بے لگام ،جس کا جی چاہے گھر کھنگالے اور دہشت گردی میں اندر کرے ، کھانے پینے کی چیزوں کا کوئی پرسان حال نہیں ، آج بھاؤ کچھ ہے تو کل کچھ ، یوٹیلٹی بل جب جی چاہے بڑھا دیں۔جس کے گھر کھانے کو نہیں اسے پانی پینا بھی منع ہے۔
عدلیہ بیچاری معذور ہے ، وزیراعلیٰ حکم کرے تو پابندی لگے اور پھر حکم کرے تو پابندی ہٹے ، کوئی سیاستدان بولے تو اندر جو نہ بولے وہ بندر ، عجیب انصاف کا بول بالا ہے۔اور عجیب بے ایمانی ہے کہ بے ایمانی میں بھی ایمانداری نہیں۔بولیں تو اندر ، نہ بولیں تو قبر کے اندر
میراتھن ہو تو شہر سیل گر نام اسلام کا ہو تو سب فیل ، اور یہی سب مست ہاتھی کہاں سے آئے ،کوئی پتہ نہیں ؟ عوام کی تصویریں تھانوں میں لگی ہیں گھروں میں اب تک چھاپے ہیں ، لوگوں کے اپنے سیاپے ہیں۔اور آخر کا یہی سیاپے عجیب تر کو بھی اپنے منتقی انجام تک پہنچائیں گے۔




منگل، 7 مارچ، 2006

چند اشتہار اور آف دی ریکارڈ باتیں

لاہور کے دل انارکلی بازار میں بسنت کے لئے چھت موجود ہے۔
20x28
خوبصورت لوکیشن ۔آزادانہ ماحول ۔ علیحدہ سیڑھیاں
رابطہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------------
اندرون لوہاری گیٹ میں بسنت کے لئے بہترین اور کھلی چھت
بسنت کی رات اور پورے دن کے لئے رابطہ قائم کریں
لائیٹنگ کا مکمل انتظام
رابطہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------
بسنت کے لئے چھت موجود ہے
بھاٹی دروازہ کے اندر خوبصورت لوکیشن
کباب اور چانپیں بنانے کا مکمل سامان اور لائٹنگ کی اضافی سہولت موجود
رابطہ۔۔۔۔۔۔۔
----------------------------------------------
ہیلو۔۔۔
کیا حال ہیں جناب
کون صاحب بول رہے ہیں
وہ جی آپ کا اشتہار اخبار میں پڑھا تھا
اوہ اچھا،آپ کو بسنت کے لئے چھت چاہئے
جی جی ۔یہ انارکلی میں کس جگہ واقع ہے
درمیان میں ہے جی
اچھا ، تو کیا کرایہ ہو گا جی اس کا
کرایہ تو صرف تھوڑا ہی ہے صرف دس ہزار ، جگہ دیکھیں گے تو آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔
کرایہ تو بہت زیادہ ہے رات اور دن کا
اوہ جی ، یہ صرف دن کے لئے ہے رات کو تو ہماری چھت بک ہے
ہو۔۔اچھا ، اچھا یہ بتائیں جناب کسی قسم کی کوئی پابندی تو نہیں ہے
ہاہاہاہا۔۔ہا۔بھولے بادشاہو یہ صرف چھت کا کرایہ ہے۔
کیا مطلب؟
جناب اگر ماحول بھی آزادانہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے علیحدہ پیسے ہوں گے
اچھا ، مگر وہ کتنے
پندرہ ہزار اور ،وہ جی سب کو دینے پڑیں گے نا
اوہ یہ تو بہت زیادہ ہیں۔دس ہزار میں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے کیا؟
اوہ نہیں جی ، آپ کہیں اور دیکھ لیں ، سلاما لیکم
سنیں جناب
جناب پہلے آپ پتہ کر لیں شہر میں ، سلاما لیکم
---------------------------------------------------------
ہیلو۔۔ہیلو ، کیا حال ہیں جناب
ٹھیک ہوں ، کون ؟
وہ جی آپ کا لوہاری دروازہ کے اندر بسنت کے لئے چھت کا اشتہار پڑھا تھا
ہاں جی اپنی ہی چھت ہے
کیا کرایہ ہے جناب اس چھت کا
بیس ہزار روپے لائٹنگ کے ساتھ اور اگر آپ لائٹنگ کا اپنا انتظام کرنا چاہیں تو اٹھارہ ہزار
مگر جناب انارکلی میں تو ہمیں دس ہزار کی مل رہی ہے
تو وہاں سے لے لیں ۔میرے پاس دن اور رات کے لئے ہے اور اتنے کم ریٹ میں آپ کو کوئی نہیں دے گا
کچھ کم نہیں ہو سکتے جناب
نہیں جناب ، سال میں چھت کی ایک دن ہی تو کمائی کرتے ہیں نہیں تو کون پوچھتا ہے چھتوں کو
اچھا تو جناب یہ بتائیں کہ ماحول کیسا ہوگا،میرا مطلب کوئی پابندی وغیرہ تو نہیں ہے
کیا مطلب ؟ پابندی کیسی جناب
میرا مطلب ، پیاس شیاس تو بندے کو لگتی ہے کوئی پانی شانی کا انتظام
پانی بہت۔۔۔اوہ۔۔اچھا، بادشاہو ، سفارش ہے تو اپنے رسک پر کر لو اپنا کوئی ذمہ نہیں
اچھا جناب بتاتے ہیں پھر آپ کو
اچھا جی
خدا حافظ
-----------------------------------------------------------------
ہیلو ۔۔ہیلو جناب ، کیا حال ہیں
کون بول رہا ہے
وہ جناب آپ کی بھاٹی دروازہ والی چھت کے بارے میں پوچھنا تھا
جی جی پوچھیں
کیا کرایہ ہو گا چھت کا ،دن اور رات کے لئے چاہئے
نہیں جی دن کی تو بکنگ ہو چکی ہے صرف رات کے لئے فارغ ہے
اچھا تو رات کا ہی بتا دیں
سہولتوں کے ساتھ چاہئے یا صرف خالی چھت درکار ہے
دونوں طرح بتا دیں
خالی چھت کے دس ہزار اور اگر تمام سہولتیں لینی ہو تو پچاس ہزار
جناب۔۔۔جناب میں نے چھت کرایہ پر لینی ہے خریدنی نہیں
آپ کو کرایہ ہی بتا یا ہے
اچھا تو یہ تو بتائیں سہولتیں کیا کیا ہوں گی
ہر قسم کی ، مگر سامان آپ کا اپنا
ہر قسم سے آپ کی کیا مراد ہے جناب
مکمل آزادی ، آپکو کوئی پوچھے گا نہیں جو جی چاہے کریں ، فائرنگ اور آتشبازی کے علاوعہ
اور اگر سہولتیں کم لینا چاہیں یعنی صرف پانی شانی کا انتظام کریں
وہ آپ کی مرضی مگر پیسے اتنے ہی ہوں گے
اچھا جناب دیکھتے ہیں پھر
ہاں چل پھر لیں مگر ہاں کرنی ہو تو شام تک بتا دیں ،ورنہ پھر مشکل ہے
اچھا جناب
اچھا جی
------------------------------------------------




پیر، 6 مارچ، 2006

معصوم خون سے جشن

کل اتوار کو ہمارے ہاں لاہور میں بڑی دھوم دھام سے مِنی بسنت منائی گئی۔لوگوں نے شان کے ساتھ ایک اور معصوم بچے کی گردن کاٹ کر اسے آسمان کی وسعتوں میں بھیجا اور شام دیر تک اسی جشن میں پٹاخے بھی چلائے۔لوگ سارا دن اندحیرے میں بیٹھے انہیں پٹاخوں کی روشنی میں پاکستان کی روشن خیالی کے گیت گاتے رہے۔اور سوچتے رہے کہ آنے والے اتوار کو بڑی بسنت ہے تب تک کیوں نہ ہم چند اور خوبصورت سے بچوں کی گردنیں کاٹ کر اسے ہوا میں اُ ڑائیں ۔




اتوار، 5 مارچ، 2006

پاکستان ایک امن پسند ملک ہے

صدر بش کے پاکستان کے دورہ سے ایک بات بڑی واضع ہو گئی ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔یہاں آپ سکون سے کرکٹ کھیل اور سیکھ سکتے ہیں۔جو کہ شائد کسی اور ملک میں ممکن نہیں ہے۔اسی لئے اب پاکستان کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔چاہے ہندوستان ایٹمی ٹکنالوجی میں کتنا ہی آگے نکل جائے ، چاہے امریکہ بذات خود اسے اپنے جیسی ایک ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ تسلیم کرے۔
ہتھیاروں کی یا ایٹمی ٹیکنالوجی کی ضرورت ان ملکوں کو پڑتی ہے جن کی سرحدیں دشمنوں سے ملی ہوں یا پھر ان کو ہوتی ہے جن کو کسی دشمن کا خطرہ ہو۔چونکہ اب پاکستان کی نزدیکی سرحدوں میں دوستی کے گیت گائے جاتے ہیں اس لئے وہاں اب امن ہی امن ہے اسی لئے اب ہمیں کسی ایسی ٹکنالوجی کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ہمیں ضرورت ہے صرف کھیل کی اور اب تو ہم نے کھیل کے اسراو رموز بھی جناب صدر بش سے سیکھ لئے ہیں اس لئے اب ہمارے ملک میں چین ہی چین ہو گا۔





ہفتہ، 4 مارچ، 2006

بلاگ اسپاٹ سروس بحال کی جائے

پچھلے دنوں انٹر نیٹ کی سب سے بڑی بلاگر سروس بلاگ اسپاٹ کو پاکستان سے بلاک کر دیا گیا ہے اور ایشو یہ اُٹھایا گیا ہے کہ یہ سب توہین آمیز خاکوں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔جو کہ سراسر غلط ہے۔حالانکہ پاکستانی بلاگرز کے بلاگ پر جتنی مذمت توہین آمیز خاکوں کی گئی ہے شاید ہی کہیں اور کی گئی ہو۔
یہ ضرور ہے کہ ہم پاکستانی بلاگرز اپنے پاکستان اورغیر ملکی مسائل پر یہاں کھل کر گفتگو کرتے ہیں جو کہ شاید ہماری حکومت کو پسند نہیں ہے۔
اگر ہماری حکومت کو توہین آمیز خاکوں کا اتنا ہی خیال ہوتا تو وہ ڈنمارک کے سفارتخانے پر پابندی لگاتی یا کم از کم وہاں سے اپنا سفیر ہی واپس بلاتی۔ہماری حکومت تو احتجاج کرنے کی بھی اجازت دینے سے انکاری تھی وہ تو عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے بعد میں پر امن احتجاج کی اجازت دے دی گئی۔اور اس پر بھی میڈیا کے ذریعے روزانہ توڑ پھوڑ کی ویڈیو روزانہ دکھائی جاتیں ہیں ، جو توڑ پھوڑ پتہ نہیں کون سی عوام نے کی تھی اور نہ ان کو میڈیا پر پیش کیا گیا جنہوں نے توڑ پھوڑ کی۔
پاکستانی بلاگرز نے ان تمام ایشوز کو اپنے بلاگ پر بھی پیش کیا اور ان پر بحث و مباحثہ بھی ہوا۔پاکستانی بلاگرز کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہر مسائل پر اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں اور شاید یہی آزادانہ اظہار رائے ہماری حکومت کو ناگوار گذرا ہو۔
ہم حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ جن اخبارات و جرائد یا ویب سائٹ نے ایسی قبیح حرکت کی ہے صرف صرف ان سائٹ کے ایڈریس کو بلاک کیا جائے۔

جمعہ، 3 مارچ، 2006

سوئی گیس کے بل

پرسوں رات کلفی کھانے کے شوق میں ہم جب بابا جی کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں بابا جی ہر ایک کو یہ بڑی بڑی گالیوں سے نواز رہے تھے۔ہم بڑے حیران ہوئے کہ بابا جی کی عمر اب اللہ اللہ کرنے کی ہے مگر بابا جی ہیں کہ ایسی ایسی گالیاں نکال رہے تھے کہ شائد ہماری پاکستانی پولیس کے علاوعہ کسی اور کو ایسی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
بابا جی جب سانس لینے کے لئے رکے تو ہم نے پوچھا ، بابا جی ایسی کیا آفت آ گئی جو آج آپ کے منہہ سے پولیس کے پھول جھڑ رہے ہیں۔کہنے لگے ، کیا بتائیں صاحب جی اس بگٹی کو تو مار دینا چاہئیے ، اسی کی وجہ سے ساری آفت آئی ہے ۔ہم بڑے حیران ہوئے اور پوچھا کیوں کیا ،کیا بگٹی نے آپ کے ساتھ۔ ارے اس کیا کرنا ہے ہمارا ، اسی کی وجہ سے تو ساری آفت آ رہی ہے ۔اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ صرف ایک چولہہ جلتا ہے ہمارے گھر کا اور بل تو دیکھو ذرا کیا آیا ہے ، ساڑھے نو سو روپے۔یہ تو ظلم ہے نا صاحب جی ، سراسر ناانصافی ہے غریبوں کے ساتھ ۔
مگر بابا جی اس دفعہ تو سب کا بل بہت زیادہ آیا ہے اور میرے خیال میں یہ بگٹی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ جو توڑ پھوڑ عوام نے احتجاج کے طور پر کی تھی یہ سب اسی کا ہرجانہ ہے۔اور یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ عوام کو اور پیس کر رکھو ، ابھی یہ اٹھنے کے قابل ہیں۔

جمعرات، 2 مارچ، 2006

کتے

آج کل ہمارے ہاں پاکستان میں امریکہ کے صدر بش جو ساری دنیا کے صدر بھی ہیں کا بڑا چرچا ہے۔ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر انکل بش انکل بش کا ورد ہے۔کوئی تو اسے کوستا نظر آتا ہے اور کوئی اتنے پیار سے نام لیتا ہے کہ شائد ہی اپنے کسی پیارے کا لیتا ہو۔
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ ساری دنیا کے صدر کے ساتھ سترہ عدد امریکی کتے بھی آئے ہیں۔جن پر صدر بش انسانوں سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔جرمن شیپرڈ اور لیبارڈور نسلوں کے یہ امریکی کتے بھارت کے شیراٹن ہوٹل اور لا میریڈین میں ٹھرے ہوئے ہیں جہاں عام آدمی پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
دکھائی کچھ یوں دیتا ہے کہ دنیا کے صدر کو بھارتی کتوں پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں ہے۔اب جب کہ ہمارے پاکستان کا دورہ شروع ہونے کو ہے تو ہمارے گلی کوچوں میں بھی یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کیا دنیا کے صدر اپنی میزبانی کے ساتھ ساتھ اپنے امریکی کتوں کی میزبانی کے شرف سے نوازتے ہیں یا نہیں۔