بدھ، 30 مارچ، 2016

درس نظامی میں گالیوں کا خفیہ مضمون

وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے لگتا یوں ہے جیسا کہ وقت کو پر لگ گئے ہوں ۔۔۔ پر بھی ایسے ویسے نہیں ۔۔۔ چمگادڑ کے ۔۔۔۔پچھلے دس سالوں سے ہم وقت کے بارے ہی گلہ کرتے چلے آئے ہیں ۔۔۔۔ مگر اب کہ کچھ ایسا ہے کہ ایک ہی وقت میں حادثات و واقعات کچھ اتنی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ محسوس یوں ہوتا ہے ۔۔۔۔ وقت بھی جیسے تھک گیا ہو ۔۔۔۔

ابھی دھماکہ ہوتا ہے ۔۔۔ درجنوں لاشیں گرتی ہیں ساتھ ہی کسی کو چُل اٹھتی ہے وہ اپنا نیا پنگا شروع کردیتا ہے ۔۔۔۔اس کی تازہ مثال حال ہی میں لاہور گلشن اقبال کے خوں ریز دھماکے اور مولویوں کے اضافہ شدہ مذہب ستائیسویں دن کو چالیسواں منا کر سامنے آئی ہے ۔۔۔۔ ویسے پہلے قل تیسرے دن ہوا کرتے تھے اب آج کل قل بھی دوسرے دن کر کے کھابے شابے کھا کر مردے کوثواب پہنچا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔ چاہے بیچارا مردہ ساری عمر لوگوں کو تکلیف دیتا رہا ہو، لوگوں کا مال ہڑپ کرتا رہا ہو ۔۔۔ اس کو ثواب ضرور پہنچایا جاتا ہے ۔یہ ثواب اصل میں اس کو نہیں اپنے پیٹ کو پہنچایا جاتا ہے ۔۔۔

ویسے ایک بات مجھے بڑا دکھ دے رہی ہے کہ میں نے مذہب کو زیادہ کیوں نہیں پڑھا ۔۔۔۔ اگر یہ بات مجھے پتہ ہوتی کہ درس نظامی میں ان محترم حضرات نے غلیظ گالیوں کا بھی ایک خفیہ مضمون رکھا ہوا ہے تو میں یہ تعلیم ضرور حاصل کرتا ۔۔۔۔ صحافت اور دوائیوں کی خجل خواری سے تو بہتر ہوتا کہ اس سے مجھے کسی مزار کا ٹھیکہ مل جاتا ۔۔۔۔ اگر اور زیادہ محنت کرتا تو میں بھی گالیوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن لے کر عالم ، مفتی یا شیخ بن سکتا تھا ۔ ۔۔۔۔ بحرحال اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے صحیح جگہ رکھا ۔

عالمات اور علماء کرام بننے کے لئے درس نظامی کا چھ سالہ کورس لڑکیوں کے لئے اور آٹھ سالہ لڑکوں کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اور اسی طرح مفتی بننے کے لئے یعنی فقہ و فتاوی کی ریسرچ کے لئے دوسالہ مزید کورس کروایا جاتا ہے ۔اس کے بعد وہ مفتی بن جاتا ہے ۔بعد آزاں شیخ الحدیث بننے کے لئے احادیث مبارکہ کی درس و تدریس اور حافظہ حدیث کا مسنتد علم ہونا ضروری ہے ۔۔۔ اور اسی طرح شیخ التفسیر کہلانے کے لئے قرآن کریم کی مختلف تفاسیر کی درس و تدریس کا مستند علم ہونا ضروری ہوتا ہے ۔

اور ان لوگوں میں اپنے تئیں عالم ، مفتی ، شیخ الحدیث اور شیخ القرآن بھی موجود تھے ۔۔۔۔ اب جہاں ایسے لوگ موجود ہوں وہاں گالی دینا تو درکنار اس کا تصور بھی محال ہوتا ہے۔۔۔۔۔اب کیا وجہ ہے کہ ایسا ہوا ۔۔۔۔۔ یا تو یہ لوگ عالم نہیں تھے یا عالم کے مرتبے کے لائق نہیں ۔۔۔۔۔۔

کمال کی تو بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے عالم ، مفتی ، شیوخ نے بھی آج تک عوام کو یہ ہوا نہیں لگنے دی کہ ان کے مذہب کے درس میں غلیظ گالیوں کا بھی ایک مضمون موجود ہے ۔۔۔۔۔اب جبکہ ہوا لگ چکی تو میں یہ سوچتا ہوں کہ کیوں نا میں بھی ایک گالیوں کا مقابلہ کروا ہی دوں جس میں ملک کے نامی گرامی عالم ، مفتی اور شیوخ حصہ لیں ۔۔۔۔۔ اوًل آنے والے معزز اصحاب کو میں گورنمنٹ اور ممتاز قادری کے گھر والوں سے منت ترلہ کرکے اس کے مزار کا ٹھیکہ تو لے ہی دوں گا۔

ہفتہ، 19 مارچ، 2016

حقوق نسواں بل پر میرا نقطہ نظر

بڑا شور و غوغا سنتے ہیں حقوق نسواں بل کا ۔۔۔۔جب سے پنجاب حکومت نے حقوق نسواں ایکٹ دوہزار سولہ کو پاس کیا ہے ۔۔۔ ہماری بہت سی این جی اوز میں خوشی کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے جیسے انہوں نے کوئی ملک فتح کر لیا ہو ۔۔۔۔۔۔ اچھا ہے ۔۔۔۔ اچھا ہے ۔۔۔۔ خوشی ہونی چاہئے۔۔۔ کمزور کو اس کا حق ملنا چاہئے ۔۔۔۔۔ مگر کمزور کو ۔۔۔۔۔۔ طاقتور کو نہیں ۔۔۔ کیونکہ طاقتور تو حق چھیننا جانتا ہے۔۔۔۔

جب سے یہ بل پاس ہوا ہے اور اس کے ثمرات کا تعلق ہے تو روزانہ کسی مرد کی تھانے میں ٹھکائی ہورہی ہے اور ساتھ ہی پرچہ درج کروانے والی عورت کو طلاق کا کاغز بھی تھمایا جا رہا ہے۔

اس اہم موضوع پر ہمارے محترم بلاگرز جن میں خواتین بھی شامل ہیں ۔۔۔ انہوں اس پر تفصیلا" اور کھل کر لکھا ہے۔۔۔۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے لکھاریوں ، اخبارات کے کالم نگاروں اور میڈیا کے دانش وروں نے کھل کر اپنے اپنے علم کے لحاظ سے روشنی ڈالی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے تقریبا" ہر مسلک کے علماء کرام نے اس بل پر اپنے اپنے تحفظ کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ کچھ مذہبی تنظیمیں اس بل کو لے کر احتجاج کی سیاست شروع کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ہو گا کیا ۔۔۔۔۔ یہ سب جانتے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے میں اس پر روشنی ڈالنا نہیں چاہتا۔

قران کریم میں عورت کے بارے میں واضح احکام تقریبا" 132 جگہ پر آئے ہیں جن میں عورت کی حرمت ، عفت ، حفاظت ، برابری ، شرم و حیا ، پردہ ، نکاح ، طلاق ، وصیت ، وراثت اور دیگر اہم امور پر شامل ہیں ۔

ان سب کا تفصیلا" ذکر کرنے سے بات بہت لمبی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔ میں صرف مختصرا" آس بل کی مناسبت سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

قران کریم میں اللہ سبہانہ و تعالی نے عورتوں کے بارے میں جو احکامات دئے ہیں یہ بل ان کے سامنے ایک بےکار کاغذ کے ٹکڑے کی مانند ہے ۔ قران کے احکامات کی روشنی میں اگر کوئی اعلی عقلمند ، دانش ور ، اسکالر ، عالم یا مفتی اس بے کار قانون کو اہمیت دیتا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔۔۔۔

اصل میں علماء سو ، درندہ صفت مولویوں نے عام مرد و زن کو قرآن کریم سے ایسا دور رکھا اور ڈرایا ہوا ہے ۔۔۔کہ جیسے اس کا سمجھنا ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔حالانکہ قرآن کریم ہر کسی سمجھنے میں آسان اور راہ ہدایت ہے ۔۔۔۔

جدید اسکالرز ، وومن این جی اوز سب سے زیادہ جو عورتوں کے حقوق کا واویلا کرتی ہیں اس میں سر فہرست عورتوں کی پروٹیکشن یعنی عورت سے برا سلوک ، معاشرے میں عورت کو ہراساں کیا جانا ، عورتوں سے مار پیٹ ، عورتوں کا مردوں کے ساتھ کام کرنا یا ان جیسا کام کرنا ، عورت کو برابری کے حقوق دینا ، اپنی مرضی سے زندگی گزارنا وغیرہ شامل ہیں۔۔۔اور بھی بہت سی چیزیں ہیں ۔

اللہ تعالی سوورہ نساء آیت نمبر چونتیس میں فرماتا ہے ۔۔۔

ترجمہ ۔۔۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ ،اور اپنے بستروں سے ان کو علیحدہ کردو اور ان کو مارو ۔۔۔۔۔

اب یہاں اللہ پاک نے نافرمان عورتوں کو سدھارنے کے لئےتین چیزیں بتائیں ہیں ۔۔۔ ایک ۔۔۔۔ پہلے ان کو سمجھاؤ ۔۔۔۔ دو ۔۔۔۔اگر وہ نہ سمجھیں تو ان سے عارضی طور پر علیحدہ سونا شروع کر دو یعنی ناراضگی کا اظہار کرو ۔۔۔۔۔۔ تین ۔۔۔۔ان کا مارو ۔۔۔۔۔

اچھا اب اس آیت میں اللہ پاک نے جو تیسری چیز بتائی ہے وہ ایک انتہائی حد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہاں مارنے کی تشریح کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ جو کہ سب اپنی اپنی مرضی سے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔زیادہ تر علما اس مار کو ہلکی سی مار کہتے ہیں جبکہ تشدد پسند لوگ اور مولوی اس کو ڈنڈے سوٹوں سے مارنا کہتے ہیں۔۔۔

یہاں میں مار کے سلسلے میں ایک حدیث کے مفہوم کے کچھ الفاظ بیان کرنا چاہوں گا۔۔۔۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے "" بلی "" کو بھی مارنے سے منع فرمایا ہے ۔۔۔۔ اگر جھڑکنا یا مارنا ہی مقصود ہو تو روئی کے گولے سے مارنے کا حکم دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سوچنے کی بات یہ ہےکہ ایک جانور کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے مارنے سے ناپسند فرمایا ہے تو کیا عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۔۔۔ قران پاک کی اس آیت کے آخری حکم سے مراد ہاتھ اٹھا کر مارنا ہرگز نہیں بلکہ تنبیہ کرنا مراد ہے جو جسم کے کسی حصے پر ہاتھ رکھ کر بھی کی جاسکتی ہے۔

سوچنے کی بات ہے آپ اس ایک مثال سے ہی جان سکتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کتنی عزت اور تعظیم دی گئی ہے ۔۔۔۔۔ جس کو غلط انداز میں پیش کر کے دین اسلام کو غلط رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔

میں اب آخر میں مختصرا" ان موضوعات کا حوالہ دینا چاہوں گا جن پر اللہ پاک نے قران پاک میں عورتوں کے لئے واضح احکامات بیان کئے ہیں ۔۔۔

نکاح ، طلاق ، رجعت یا تفریق ، ایلاء ، لعان ، یعنی عورتوں پر الزام لگانا ، ظہار ، رضاع ، معاشرت النساء اور معاشرت النساء بالاختصار ، پردہ ، وصیت ، میراث ، حدود ۔ حد زنا ، چال ، آواز ، زینت ، اور دیگر امور۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ سبہانہ و تعالی کے اتنے واضح اور جامع احکامات کے مقابلے میں یہ بے کار قانون عورتوں کا تحفظ کرے گا یا عورتوں میں بگاڑ کا سبب بنے گا

فیصلہ آپ پر ۔۔۔۔۔۔ قرآن پڑھئے ، سمجھئے اور عمل کیجئے۔۔۔۔۔۔۔دعاؤں میں یاد رکھئے گا

https://youtu.be/wVz2bCsFukY

[gallery ids="2130,2131,2132,2133,2134,2135,2136,2137,2138,2139,2140,2141,2142"]

منگل، 15 مارچ، 2016

چیچہ وطنی کی کھوتی

یہ غالبا" سن اکہتر کی بات ہے۔۔ میری عمر اس وقت دس یا گیارہ سال کی ہو گی ۔۔۔ ہمارے امی ابا ایک گاؤں چیچہ وطنی گاؤں کے ایک "" چک گیارہ ایل "" میں ایک بزرگ مولانا عبدالعزیز صاحب کے ہاں دعا کے لئے جایا کرتے تھے۔۔۔۔ ویسے تو ہم بزرگوں کی عزت و توقیر کے ساتھ ان کی تعظیم کے بھی قائل ہیں ۔۔۔ مگر خصوصی طور حاضری دینا اپنے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔ بحرحال وہ دور شاید جاہلانہ زیادہ تھا اس لئے ہمارا گھر بھی اس میں رنگا ہوا تھا۔۔۔۔۔ویسے اب بھی ہمارے خاندان میں تقریبا" ہر فرقے کے لوگ موجود ہیں ۔۔۔۔

چیچہ وطنی کے اسٹیشن پر اتریں تو وہاں سے تانگہ ملا کرتا تھا جو تقریبا کھیتوں کے درمیان کچی پگڈنڈیوں پر جسم کے انجر پنجر کو ہلاتا دو یا ڈھائی گھٹوں میں چک گیارہ ایل میں جا پہنچاتا تھا۔

شدید گرمی میں جب ہم مولانا عبداالعزیز صاحب کے گاؤں پہنچے تو ان کے مہمانوں کے کمرے میں لگے بڑے کپڑے سے بنے چھت سے بندھے رسی کی ڈور سے کھینچنے والے پنکھے نے وہ لطف دیا کہ بس مت پوچھئے۔۔۔وہ ٹھنڈی ہوا آج تک میں نے کسی اے سی والے کمرے میں بھی محسوس نہیں کی۔

شام ہوئی تو میں اٹھ کر باہر نکل آیا۔۔۔کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک گدھی ( کھوتی ) کھونٹے سے بندھی کھڑی تھی ۔۔۔۔جانے کیا خیال آیا کہ میں قریب جا کر گدھی ( کھوتی) کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر بیٹھا ۔۔۔۔ اُس نے جو دولتی ماری ۔۔۔ کم از کم دوقلابازیاں کھا کر گرا ہونگا ۔۔تھوڑی کا نچلا حصہ سارا پھٹ گیا ۔۔۔چانگریں مار مار رویا ۔۔۔ڈاکٹر وغیرہ کوئی نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ انہوں نے سپرٹ لیمپ سے روئی پر سپرٹ لگا کر پورے منہہ پر پٹی لپیٹ دی ۔۔۔ سپرٹ کی تکلیف سے ڈبل چانگریں ماریں ۔۔۔۔۔

آج سوچتا اور شکر کرتا ہوں کہ وہ کھوتی تھی۔۔۔۔۔۔کہیں اگر وہ کھوتا ہوتا تو جانے میرا کیا حشر کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔

چیچہ وطنی کی کھوتی کی دولتی کا نشان آج بھی میری تھوڑی پر موجود ہے جو اب میرے شناختی کارڈ پر شناختی علامت کے طور پر لکھا جاچکا ہے۔