پیر، 7 دسمبر، 2015

خفیہ گروپ سے سیکسی گروپ کا سفر

دو دن پیشتر ایک ہمارے مہربان اور نیک نام فیس بکی دوست نے اپنے خفیہ سیکسی گروپ میں ہمیں داخلہ دے دیا۔۔۔ کیا دیکھتے ہیں کہ تقریبا ڈھائی ہزار کے اس سیکسی گروپ میں بڑے بڑے جیّد عالم فاضل ، ڈاکٹر ، حکیم ، ہومیو پیتھک کے ماہر میرے جیسے اناڑی لوگوں کو سیکس کی تعلیم و تربیت دینے کے لئے ہمہ وقت موجود ہیں ۔ لڑکیاں بالیاں بھی کھلم کھلا اپنے اپنے گھمگیر مسائل لئے لائن میں لگی نظر آرہی تھیں جس سے وہاں کے ماحول کی رنگینی میں عجیب سی عاشقانہ اور جنسیانہ خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔

ہم نے سوچا اب آ ہی گئے ہیں تو ایک آدھ مسلہ ہم بھی پوچھ لیں تاکہ زندگی اور آسان ہوجائے۔۔۔ ہم نے جو مسلہ پوچھا وہ ہمارے نیک نام فیسبکی دوست کو غالبا پسند نہیں آیا اور اسی وجہ سے شاید انہوں نے اپنے خفیہ گروپ سے ہمیں باہر دھکیلنے میں ہی عافیت جانی ۔

فیسبکی سیکسی گروپ سے تو ہم باہر ہوگئے مگر وہ جو آدھ سے پون گھنٹہ ہم نے سیکسی گروپ میں گزارا اس کو فیس بک کے عالموں نے ہمارا ٹھرک پن اور عادت جان لیا۔اب اس دن سے ہماری وال پر ننگی تصویروں والی پروفائل ، پیج اور گروپس کو ایڈ کرنے کی تجویز اور تحریک دی جارہی ہے ۔ کسی لڑکی کا نام جانو گشتی ہے تو کسی کا گشتی رنڈی ۔۔۔کسی پیج کا نام آؤ مزے لوٹیں ہے تو کسی گروپ کا نام کنواری لڑکیاں۔۔۔۔۔۔۔
سوچ رہا ہوں چلو میں تو گناہگار ہوگیا ،۔۔۔ اب جس شریف النفس دوست نے مجھے اپنے سیکسی گروپ میں ایڈ کیا تھا اس کا کیا بنے گا۔۔۔۔۔

یاد رہے کہ سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر ایسے سینکڑوں خفیہ گروپ موجود ہیں جن تک کسی کی رسائی ممکن نہیں اور یہ گروپ زیادہ تر سیکس اور دوسری غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے استمال کئے جارہے ہیں ۔۔۔دیکھا یہ بھی گیا ہے بہت سے کرمنل لوگ فیس بک پر اپنی سادہ سی پروفائل بنا کر پیغام رسانی کے لئے عام گروپس یا خفیہ گروپس کے استمال کو ترجحیح دیتے ہیں

پیر، 23 نومبر، 2015

جدید کوک شاستر

محترم ساجد شیخ صاحب کی تازہ تصنیف "" جدید کوک شاستر "" ایوارڈ یافتہ قرار دے دی گئی ..
اگلی حکومت میں اسکول لیول پر لازمی سلیبس کے طور پر پڑھانے کا امکان

ساجد شیخ کی تازہ تصنیف ‘‘جدید کوک شاستر ‘‘ ایک بہترین کتاب اور تجربات کا بہترین نچوڑ ہے..بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جدید کوک شاستر آجکل کی جدید نسل کے لئے ایک ایسی رہنما تصنیف ثابت ہو گی جس سے وہ اپنی شادی شدہ زندگی کو سہل طریقے سے گزارنے کے فن میں طاق ہو جائیں گے. اس مستند مجموعے کو پرانے بابوں نے بھی ایوارڈ یافتہ کتاب قرار دے دیا ہے. زرائع کے مطابق پاکستانی گورنمنٹ نے اسے سکول کا سلیبس بنانے میں ابھی کوئی خاص پیشرفت نہیں کی ہے امید ہے اگلی حکومت اسکول لیول پر اس کو لازمی قرار دے سکتی ہے

ہفتہ، 14 نومبر، 2015

پیرس دہشت گردی اور براؤن ، پیلا ، نیلا بوتھا

میں پیرس دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہوں ۔۔ انسانی خون کسی بھی رنگ ، نسل یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ مقدم ہے ۔۔۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں پر ایسی دہشت گردی کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔۔

سوشل میڈیا پر ہمارے بہت سے معزز ، عزت ماآب محترم دوستوں ، ساتھیوں نے اس غم میں اپنے چہرے کا رنگ ‘‘ براؤن ، پیلا اور نیلا ‘‘ کر لیا ہے ۔۔۔ میں ان کے اس غم میں بھی شریک ہوں اور بوتھے کو اس طرح رنگنے کی حمایت بھی کرتا ہوں ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ میں سوچ رہا ہوں کیا مسلمان انسان نہیں ہیں اور اگر انسان نہیں ہیں تو کون سے جانور کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں

چلیں کشمیر کو چھوڑیں ۔۔۔ فلسطین کو چھوڑیں ۔۔۔۔ عراق کو بھی چھوڑیں اور افغانستان کی تو بات ہی نہ کریں ۔۔۔ پاکستان میں کونسے جانور بستے ہیں اور وہ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اگر جانور ہیں تو کیا ان کے خون کا رنگ لال نہیں ۔۔۔۔۔

امریکہ کی شروع کی گئی دہشت گردی کی اس جنگ ( جو ہماری اپنی بھی نہیں ) میں ہمارے پاکستان میں کتنے بم دھماکے ہوئے ۔۔۔۔ کتنی معصوم جانوں کے بموں سے چیتھڑے اُڑائے گئے ۔۔۔۔ کتنے معصوم بچوں کے لاشے اُٹھائے گئے ۔۔۔۔ کتنی بے گناہ عورتیں خون میں نہلائی گئیں ۔۔۔کتنے فوجی جوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔۔۔۔۔۔ لاہور سانحہ ، پنڈی سانحہ ، کراچی سانحہ ۔۔۔ غرض کس کس شہر کا ذکر کروں ۔۔۔ پشاور میں اسکول کے معصوم بچوں کا قتل عام کیا انسان کے بچوں کا قتل عام نہیں تھا ۔۔۔۔۔
اس پر تو کسی پاکستانی نے غم میں اپنا بوتھا لال نیلا پیلا نہیں کیا ۔۔۔۔ چلیں غم کو تھوڑا کم کر کے بوتھے کو ‘‘ سبز ‘‘ ہی کر لیا جاتا ۔۔۔۔ تو ہم جانتے کہ ان کی نظر میں مسلمان کا خون بھی ارزاں نہیں ہے ۔۔

بات بوتھے کو رنگنے کی نہیں ہے ۔۔۔ بات دو رخی رویے کی ہے ۔۔۔ آپ مسلمان ہیں ۔۔۔ باہر رہتے ہیں ۔۔۔ باہر والوں کو باور کروائیں کہ آپ کی شروع کی گئی دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستانی لڑ رہے ہیں اور ہم بھی انسان ہیں ، ہماری بھی جان آپ کی طرح قیمتی ہے۔۔۔ ہمارے بچے اور عورتیں بھی ہمیں پیاری ہیں ۔۔۔ ہم بھی آپ جیسا خون رکھتے ہیں ۔۔۔۔اگر ہم آپ کے غم میں بوتھا رنگتے ہیں تو آپ کو بھی اپنا بوتھا رنگنا چاہئے۔

منگل، 27 اکتوبر، 2015

ہندو انتہا پسند اور جامعہ بنوریہ کے مفتی

جامعہ بنوریہ کراچی کے محترم عزت مآب مفتی نعیم صاحب نے زلزلہ آنے سے ایک دن پہلے سوشل میڈیا ( فیس بک ) پر ایک تحریری اور صوتی ( ویڈیو ) کی صورت میں بیان ( فتوٰی ) جاری کیا ہے کہ ‘‘ میں مفتی نعیم صدر جامعہ بنوریہ یونیورسٹی ایک پاکستانی ہوں اور میں انڈیا سے نفرت نہیں کرتا۔۔۔اس محبت میں میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ اور بہت سارے عالم حضرات بھی میرے ہمنوا ہیں ‘‘ ۔۔۔۔
محترم عزت مآب مفتی نعیم صاحب نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں گزشتہ ستر سال سے ایسی فضا پیدا کر دی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں عناد ہے بغض ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں چند انتہا پسند لوگ ہیں جنہوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے پورے ملک کی کفیت میں یئہ دیکھا جارہا ہے کہ ہندوستان کی عوام چاہتی ہے کہ پاکستان میں آئے اور ان کے عزیزواقارب اور رشتہ دار ہیں ۔۔۔۔ اسطرح پاکستان کی عوام چاہتی ہے کہ وہ وہاں جائے وہاں ان کے عزیزو اقارب ہیں،ان کے رشتہ دار موجود ہیں ۔۔ان کے خاندانوں کی قبریں ان کی زمینیں ہیں وہاں پر ۔۔۔۔ وہ ان کے ہاں نہیں جاسکتے اس کی وجہ چند انتہا پسندوں کی دشمنی کی وجہ سے ۔۔۔۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ چند ہندوستان کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر یہ بات کہی اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ میں پاکستان سے نفرت نہیں کرتا باوجود اس کے کہ میں ہندوستان کا ہوں ۔۔۔۔ اسی طر ح پاکستان کے نوجوانوں نے بھی ان کو پیغام دیا کہ ہم ہندوستان سے محبت کرتے ہیں وہ اس لئے کہ ہمارے اباؤاجداد یہاں پیدا ہوئے ۔۔پہلے ہمارے اباؤاجداد وہیں کے رہنے والے تھے ۔۔۔۔ تو صرف بات یہ ہے کہ چند انتہا پسندوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔۔۔ دونوں نوجوانوں نے یہ تحریک سوشل میڈیا پر چلائی ہے ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں اس کو خوب چلائیں ۔۔۔ ہندوستان کے نوجوان بھی پاکستان کے نوجوان بھی ۔۔۔ تاکہ یہ انتہا پسندوں کا چہرہ سامنے آئے اور ملک کے اندت ایک ایسی فضا قائم ہو کہ دونوں ملک آپس میں پڑوسی ہیں ایک دوسرے کے آ جا سکیں ، ایک دوسرے سے دوستی رکھ سکیں ۔۔ اگر یہ ہوا تو میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ فائدہ ہو گا ۔۔۔ تجارت کے اعتبار سے بھی اور دوسرے اعتبار سے بھی ۔۔۔۔۔ یورپ میں دیکھئے کہ ان تمام ملکوں نے آپس میں اتحاد کر کے بنا لیا ہے ۔۔۔ خلیجی ممالک ایک بن چکے ہیں لیکن پاکستان اور ہندوستان کو ایک ایسی فضا بنانی چاہئے کہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور یہ بنانے والے صرف چند انتہا پسند ہیں ۔۔۔ لہذا ان انتہا پسندوں کو ختم کرنے کے لئے نوجوانوں نے جو ترتیب اختیار کی ہے وہ قابل تحسین ہے اور اس کو زیادہ سے زیادہ چلایا جائے تاکہ یہ اتحادو اتفاق کی بنیاد بن سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت اعلیٰ جناب محترم عزت مآب مفتی نعیم صاحب ۔۔۔ آپ عالم اور مفتی انسان ہیں اور آپ نے یہ بیان یا ( فتوٰٰی، میں اسے فتوٰی ہی کہوں گا) جامعہ بنوریہ یعنی اہل دیوبند کی کی نمائندگی کرتے ہوئے جاری کیا ہے ۔۔۔ ساتھ ہی آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ‘‘ اس محبت میں میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ اور بہت سارے عالم حضرات بھی میرے ہمنوا ہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔ بہت اعلیٰ جناب محترم عزت مآب مفتی نعیم صاحب ذرا ان کے نام بھی بتائیے کہ اور کون کون ہندوستان سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے خواہاں ہیں ۔۔۔تاکہ دنیا کو بھی آپ علماء کرام کی ہندوستان سے محبتوں کا اندازہ ہوسکے ۔۔۔۔۔

جناب محترم عزت مآب مفتی نعیم صاحب مجھے نہیں پتہ آپ کے آباؤاجداد کا مگر ہمارے آباؤ اجداد نے ہجرت کی ۔۔۔اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اپنی ماں ، بہنوں ، بیویوں ، بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کرواتے ہوئے اس دھرتی پاکستان پر قدم رکھا ۔۔۔۔۔ کس لئے مفتی صاحب ۔۔۔۔ اس لئے کہ یہ ہمارا اپنا ملک ہے ، یہ مسلمانوں کا ایک اسلامی ملک ہے ۔۔۔۔ اگر ہندو کے ساتھ ہی رہنا تھا تو ہمیں اپنی عزتیں گنوانے کی کیا ضرورت تھی ، پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔ ہندو بنئے کی دھوتی میں سر گھسائے وہیں بیٹھے رہتے ۔۔۔۔مفتی صاحب آپ باتیں کرتے ہیں وہاں کے اپنے رشتہ داروں کی ، وہاں دفن ہوئے اپنے مردوں کی ۔۔۔۔۔ جائیے پوچھئے ان رشتہ داروں سے کہ کیسے رہ رہے ہیں وہاں ۔۔۔ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔۔۔۔۔
اور آپ کہتے ہیں سب کچھ بھول کر ان سے دوستی کر لیں

مفتی صاحب یاد کیجئے ہندوستان کا یہ وزیراعظم دہشت گرد انتہا پسند ہندو مودی جب سن 2002 میں چیف منسٹر تھا ۔ایودھیا سے زائرین کی ایک ٹرین آرہی تھی انہی انتہا پسند ہندؤں نے جان بوجھ کر اس ٹرین میں آگ لگا کر پچاس سے زائد مسافروں کو زندہ جلا دیا گیا تھا ۔۔۔ اسی حادثے کو بنیاد بنا کر گجرات میں یہی ہندو شدت پسند جن سے آپ پیار کی پینگیں بڑھانا چاہتے ہیں مسلمانوں سے نفرت کی آگ میں پاگل کتے بن گئے تھے ۔۔۔انہیں شدت پسند ہندؤں نے گجرات کی سٹرکوں پر مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا گھروں سے مسلمان عورتوں کو نکال کر سرعام ان کی عزتیں لوٹی گئی تھیں۔۔۔ ان کے پستان تک کاٹ دئے گئے تھے۔۔ دوہزار کے قریب مسلمان مردو و عورتوں کو گجرات کی سڑکوں پر سرعام قتل کر دیا گیا تھا ۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی ۔لگ بھگ ایک لاکھ سے زائد مسلمان اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے تھے ۔
اور آپ کہتے ہیں سب کچھ بھول کر ان سے دوستی کر لیں

مفتی صاحب یاد کیجئے سمجھوتہ ایکسپریس والا واقعہ جو اسی دہشت گرد مودی نے انہیں دہشت گرد اور شرپسند ہندؤں نے پوری ٹرین کو آگ لگا کر تمام مسلمانوں کو کوئلہ بنا دیا تھا ۔۔۔۔یہ سب کیسے بھولوں جناب محترم عزت مآب مفتی نعیم صاحب
اور آپ کہتے ہیں سب کچھ بھول کر ان سے دوستی کر لیں

تھوڑے دن پہلے ہی انتہا پسند ہندؤں نے گاؤ ماتا کے چکر میں دو مسلمانوں کو مار ڈالا تھا
اور آپ کہتے ہیں سب کچھ بھول کر ان سے دوستی کر لیں

دہشت گرد ہندوستان آجکل بھی شکر گڑھ کے سکوال ،جگوال ،بھوپال پور ، بیکا چک اور دیگر علاقوں میں بمباری کر کے معصوم شہریوں کو شہید کر رہا ہے ۔۔۔
اور آپ کہتے ہیں سب کچھ بھول کر ان سے دوستی کر لیں

مفتی صاحب بابری مسجد کو شہید کرنے والوں سے کیسے دوستی کا ہاتھ بڑھائیں
کشمیر میں اپنی ماؤں بہنوں کی عزتیں پامال کرنے والوں سے کیسے دوستی کرلیں
مفتی صاحب آپ کو کیا پتہ کہ عزت کیا ہوتی ہے ۔۔۔ اگر پتہ ہوتا تو آج ہندوستان کے ساتھ دوستی کی باتیں نہ کرتے
مفتی صاحب پاکستان میں بم دھماکوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟ انہیں دہشت گرد ہندؤں گا
مفتی صاحب بلوچستان میں شرپسندوں کی مدد کون کر رہا ہے ؟ یہ دہشت گرد ہندو
افغانستان سے پاکستان کے مولویوں کو خرید کر دہشت گردی کے نیٹ ورک کون سپورٹ کر رہا ہے ؟ یہی دہشت گرد ملک ہندوستان
اور آپ کہتے ہیں سب کچھ بھول کر ان سے دوستی کر لیں

چلیں آئیں مفتی نعیم صاحب ۔۔۔۔۔ چھوڑیں اسلام اسلام کھیلنا
چلیں آئیں ہندو کے گھر کا کھاتے ہیں
چلیں آئیں ہندو کی لڑکی سے شادی کرتے ہیں ۔۔۔ جائز ہونے کا فتوٰی آپ دے دینا
چلیں آئیں ان کے استھان پر گاؤماتا کو ذبح کرکے اس کے تکے بھون کر کھاتے ہیں
چلیں آئیں ان کے شمشان گھاٹ پر فاتحہ خوانی کرنے جاتے ہیں
ہمت ہے یہ سب کرنے کی مفتی صاحب ؟
چھوڑیں چلیں آئیں مفتی نعیم صاحب جامعہ بنوریہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم کی بجائے انڈیا کی فلمیں لگاتے ہیں ۔۔۔۔ آمدن بھی زیادہ ہوگی اور مریدین کی تعداد میں اضافہ بھی ممکن ہے ۔۔۔ ویسے بھی ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں پاکستانی تاجروں کے کروڑوں ڈوب رہے ہیں ۔۔۔۔ وہ ہی بچ جائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 26 اکتوبر، 2015

عجیب شخص ہے کہ مانتا ہی نہیں

بہت بار سمجھایا ۔۔۔۔ نہیں مانتا۔۔۔ نہیں مانتا ۔۔۔ میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ امدادیں آنا شروع ہوگئی ہیں ۔۔۔ باہر سے آنے والی بھاری امداد بھی متوقع ہے ۔نئے کمبل ، کپڑے ، خیمے اور دیگر ضروریات زندگی کا سامان خریدنے کے لئے صبر کر لو ۔۔۔ بس تھوڑے دن کی ہی تو بات ہے پھر یہ سارا سامان بازار سے تمہیں سستے داموں مل جائے گا۔۔ ۔۔۔۔ مگر عجیب شخص ہے کہ مانتا ہی نہیں ۔۔۔۔۔

بدھ، 7 اکتوبر، 2015

سپریم کورٹ ، سود اور زنا

انصاف ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے اور انصاف سے ہی قوموں کو عروج و زوال حاصل ہوتا ہے ۔ جن قوموں سے انصاف ختم ہوجائے تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔آپ اپنے ملک پاکستان کو ہی دیکھ لیں ۔۔۔ انصاف نام کی چیز کہیں بھی نظر نہیں آتی ۔۔۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول یہاں ہر جگہ کارگر اور لاگو ہے ۔ جن کے پاس پیسہ یا حکومتی طاقت ہے وہ وقت کا بادشاہ ہے ۔جو جی چاہے کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔۔ یعنی بقول محترم عزت مآب جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب کی مثال کے طور پر کہ جو ظلم ڈھا رہے ہیں وہ نہ ڈھائیں ۔۔۔ اگر وہ ظلم ڈھائیں گے تو ان سے اللہ پوچھے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سودی نظام کے خاتمے کیلئے دائر درخواست خارج کردی تھی ۔محترم عزت مآب جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ سود بالکل حرام ہے لیکن چونکہ یہ مقدمہ شرعی عدالت میں پہلے سے زیر سماعت ہے، جس کا فیصلہ ہونے تک سپریم کورٹ سماعت نہیں کرسکتی ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر اور قابل غور ہے کہ بہت سے ایسے کیسیز کی مثالیں موجود ہیں جو نچلی عدالتوں میں زیرسماعت ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں بھی آئے ۔۔۔ بلکہ کئی کیس تو ایسے بھی ریکارڈ پر ہیں جو دوسری عدالتوں میں زیرسماعت ہو سکنے کے باوجود ان پر سوموٹو ایکشن لے کر ان کے فیصلے سنائے گئے ۔

چلیں ہم یہاں ساری چیزوں کو چھوڑ کر محترم عزت مآب جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب کی بات کی طرف آتے ہیں انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ ‘‘ سود حرام ہے ‘‘ تو فیصلہ دیں کہ یہ حرام ہے اس کا متبادل بندوبست کیا جائے اور غیر سودی نظام کی جانب رجوع کیا جائے ۔ شرعی عدالت کا مقدمہ چلنے دیں ۔۔۔ وہ خود تو انصاف کریں جس کا اختیار انہیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔۔۔۔۔۔

اللہ کے دئے ہوئے اپنے اختیار کا فائدہ اٹھا کر بجائے مثبت فیصلہ دینے کے محترم عزت مآب جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب نے اللہ پر ہی سب کچھ پھینک دیا ۔۔۔۔ اپنے ریمارکس میں فرماتے ہیں ۔۔۔۔ ‘‘ جو ربا ( سود ) نہیں لینا چاہتے وہ نہ لیں جو لے رہے ہیں ان سے اللہ پوچھے گا۔ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے باہر مدرسہ کھول کر لوگوں کو سود کے خاتمے کا سبق نہیں پڑھا سکتے۔

محترم عزت مآب جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب ہم آپ کو سیلوٹ کرتے ہیں اور آپ کے اس اہم فیصلے کو ڈبل سیلوٹ کرتے ہیں کہ آپ کے اس فیصلے نے کم از کم ہمیں مادر پدر آزاد تو کیا ۔ملک میں انارکی پھیلنے سے کیا ہوگا پہلے ہی ہمارا پاکستان کون سا امن کا گہوارہ ہے ۔۔۔۔۔
اب کم از کم ہم سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ بھئی آپ سود کیوں کھا رہے ہو ، آپ زنا کیوں کر رہے ہو ، آپ ڈاکے کیوں ڈال رہے ہو ، آپ قتل کیوں کر رہے ہو ، آپ بازاروں میں ننگے کیوں گھوم رہے ہوں ۔۔۔۔۔ کیونکہ
جو ربا ( سود ) نہیں لینا چاہتے وہ نہ لیں جو لے رہے ہیں ان سے اللہ پوچھے گا
جو زنا کر رہے ہیں وہ نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر کرہے ہیں تو ان سے اللہ پوچھے گا
جو ڈاکے ڈال رہے ہیں وہ نہ ڈالیں۔۔۔۔اگر ڈالیں گے تو ان سے اللہ پوچھے گا
جو قتل کر رہے ہیں وہ نہ کریں ۔۔۔۔۔اگر کریں گے تو ان سے اللہ پوچھے گا

آخر میں یاد دہانی کے طور پر میں یہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سود اور انصاف بارے واضح احکامات کے حوالہ جات صرف سورہ نمبر اور آیات نمبر کے ساتھ پیش کر رہا ہوں
سود کے احکام ۔۔۔۔۔ سورہ 2 آیات 275 , سورہ 2 آیات 276 ، سورہ 2 آیات 278 ، سورہ 2 آیات 279 ، سورہ 2 آیات 281 ، سورہ 3 آیات 130 ، سورہ 30 آیات 39
انصاف کے احکامات ۔۔۔۔ سورہ 4 آیات 127 ، سورہ 4 آیات 135 ، سورہ 5 آیات 8 ، سورہ 6 آیات 152 ، سورہ 7 آیات 29 ، سورہ 11 آیات 85 ، سورہ 16 آیات 90 ، سورہ 42 آیات 15 ، سورہ 49 آیات 9 ، سورہ 55 آیات 8 ، سورہ 57 آیات 25 ، سورہ 4 آیات 58 ، سورہ 4 آیات 105 ، سورہ 5 آیات 42 ، سورہ 38 آیات 26 ، سورہ 5 آیات 48 ، سورہ 5 آیات49 ، سورہ 5 آیات 50 ، سورہ 5 آیات 44 ،سورہ 5 آیات 45 ، سورہ 5 آیات 47
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 1 اکتوبر، 2015

بس دو چار سال کی بات ہے

کیا کرتے ہو ؟
بس دو چار سال کی بات ہے
دو چار سال میں کیا ہوجائے گا ؟
انشااللہ امید ہے مجھے ولائت مل جائے گی
ولائت مل گئی تو کیا کرو گے ؟
لوگوں کی خدمت کروں گا
پہلے اپنی حالت تو بدل لو
ساتھ اپنی حالت بھی بدل جائے گی
نماز پڑھتے ہو ؟
چوبیس گھنٹے نماز ہی میں ہوتا ہوں

جمعہ، 4 ستمبر، 2015

اسلام نافذ کر دیا گیا ہے

آج ایک بحث کے دوران بات قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنے کی بات چل نکلی ۔سن سینتالیس سے لے کر آج تک حکمرانوں کو بے نقط سنائی گئی اور مولویوں کا تو مت پوچھیں کیا کیا حال کیاگیا ۔۔۔بہت عرصہ سے میں مذہب پر گفتگو نہیں کرتا شاید اس لئے کہ میرے موقف کو کوئی نہیں مانتا اور منفی بحث کو میں اپنے لئے زہر قاتل جانتا ہوں اس لئے اس سے کوسوں دور بھی ہوں ۔۔ آج چونکہ بحث تازہ تھی سوچا کیوں نہ سب کو ایک بار پھر اپنی سوچ سے آگاہ کیا جائے ۔

میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے ۔اور نہ ہی یہ کسی مفتی ، کسی عالم ،کسی مولوی ، کسی مسلک یا فرقے کی تحریک کی وجہ سے آئے گا کیونکہ دین اسلام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نافذ کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول کر بھی بتا دیا۔بس اب اس پر عمل درآمد کرنا ہے ۔کیونکہ کوئی بھی حکومت یا کوئی بھی فرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہیں ہے یا قرآن کا کوئی ایسا حکم یا قانون نہیں ہے جو کہ نیا آئے گا۔اس لئے جو چیز ( دین اسلام ) جب نافذ ہو چکی اور اس میں ردوبدل بھی ممکن نہیں تو اس کو دوبارہ سے نافذ کرنے کی باتیں میری سمجھ سے بالاتر اور میرے نزدیک فساد کی جڑ کے ساتھ ساتھ روٹی روزی کمانے کا دھندہ بھی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے زمانے ، ملکی حالات اور معاشرے کو مدنظر رکھتے ہوئے دین اسلام کے قوانین پر عمل کیا جائے گا ۔۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ دین اسلام اب بھی نافذ ہے تو اس کو لاگو کرنے کے لئے ہمیں انفرادی سے لے کر اجتماعی طور پر اپنی ذہنی گندگی صاف کرنی پڑے گی ۔ تب تک یہ ممکن نہیں ۔۔۔چونکہ میری نظر میں اسلام اب بھی نافذ ہے ۔۔۔ بس عملدرآمد کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ عمل درآمد کیسے ہو گا۔۔۔انفرادی طور پر ۔۔۔۔ یعنی جب ہم میں سے ہر فرد اللہ کے احکامات ماننے اور اس پر عمل کرنے والا بن جائے ۔۔۔۔۔۔ جب یہ احکامات ماننے اور عملی اقدامات کرنے کا عمل انفرادی طور سب میں آگیا تو جان لیجئے گا کہ اجتماعی طور پر اس گھر ، محلے ، گاؤں ، شہر اور ملک میں اسلام نافذ ہوگیا ۔۔

اب دوسری اہم بات کہ کونسا اسلام نافذ ہوگا ۔۔۔ کس فرقے کا ہوگا یا کس مسلک سےگا ۔۔۔۔ یہاں ہمیں یہ بات جاننی چاہئے کہ اسلام ایک ہی ہے جس کا نام ‘‘دین اسلام ‘‘ہے جسے قرآن کے زریعہ سے نافذ کیا گیا اور جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کھول کر بتایا اور سمجھایا ۔
اگر ہم فرقے اور مسلک کی بات کریں تو چلیں انفرادی طور پر اسی کو اپنے اندر نافذ کر لیں کیونکہ کوئی بھی مسلک کوئی بھی فرقہ جو کہ ‘‘ دین اسلام کے ساتھ منسلک ہے ‘‘ ۔ جھوٹ ، بے ایمانی ، بے انصافی ، بے راہ روی اور قتل و غارت گری کا درس نہیں دیتا ۔دین اسلام امن اور انصاف کا مذہب ہے اور امن اسی صورت میں ممکن ہے جب انصاف ہوگا اور انصاف صرف دین اسلام کے آنے سے ہی ممکن ہے ۔

یاد رکھئے آگے جاکر حساب کتاب ہم نے اپنا یعنی انفرادی دینا ہے اجتماعی نہیں ۔۔۔۔۔ اور نہ ہی ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ کے ملک میں اسلام نافذ تھا یا کسی مسلک یا فرقے کے چاہنے والوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ جن کے پیچھے تم تھے انہوں نے اسلام نافذ نہیں کروایا اس لئے تم بخش دئے گئے ہو ۔

اسلام نافذ کر دیا گیا ہے ۔۔۔ ۔ بس عمل کرو ۔۔۔۔ جب عمل کرو گے تو یہی دین اسلام تمہارے اندر نافذ ہوجائے گا پھر تمیں اپنے رب کے علاوہ کسی کی خوشنودی کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اور نہ ہی کسی کا ڈر ہوگا اور نہ ہی خوف ۔۔۔۔۔

اس موضوع پر مزید تفصیل پڑھنے کے لئے محترم افتخار اجمل بھوپال کی تحریر اسلام اور ہم پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

ہفتہ، 22 اگست، 2015

لاہور کی ہیرا منڈی میں چند لمحات

بڑے دنوں سے سوچ رہا تھا کہ رنگ محل جانا ہے اور فلاں فلاں چیز خریدنی ہے ۔آج اتفاق سے میرے پاس دوپہر میں دو تین گھنٹے فارغ تھے ، سوچا چونکہ کل اتوار ہے آج ہی رنگ محل والے کام نبٹا دیتا ہوں ۔۔
رنگ محل سے خرایداری کرنے کے بعد ایویں ہی دل میں خیال آیا کہ ساتھ ہی ہیرا منڈی ہے کیوں نہ آج پرانی یادیں تازہ کی جائیں۔۔ارداہ بنایا پہلے ‘‘ پھجے ، فجے ‘‘ کے پائے کھاؤں گا بعد آزاں ‘‘ آس ‘‘ کا ایک عدد پان کھا کر دل پشوری کروں گا۔۔

پھجے کے پائے تیار نہ ہونے کی صورت میں ، میں بُجھے دل کے ساتھ ‘‘ آس ‘‘ پان والے کی جانب پیدل ہی چل پڑا ۔۔ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے آواز آئی باؤ جی ذرا گل تے سننا( باؤ جی ذرا بات تو سنیں ) میں ایک دم چونک پڑا کیونکہ مجھے آواز جانی پہچانی سی لگی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ‘‘ ماجھا دَ لاً ‘‘ ( دلال ) جھکی ہوئی کمر کے ساتھ سڑک کنارے چارپائی پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا ۔۔ اوئے ماجھیا تینوں کی ہویا ( ارے ماجھے آپ کو کیا ہوا ) ۔۔۔۔ کہنے لگا باؤ جی تسی وی تے چٹے کر لے جے ( آپ کے بھی تو بال سفید ہو گئے ہیں ) ۔۔۔۔

ماجھے سناؤ اور کیا ہو رہا ہے آج کل ، میں نے پوچھا ۔۔۔ کہنے لگا باؤ جی بس ہونا کیا ہے سب کچھ آپ کے سامنے ہی ہے سب برباد ہوا پڑا ہے ، روٹی پانی بڑی مشکل سے چل رہا ہے۔رات مجرے میں بھی کم ظرف لوگ آتے ہیں ۔۔ویسے بھی باؤ جی وہ بہاریں کہاں ۔۔۔ میں نے ماجھے سے پوچھا کہ بازار میں اتنی خاموشی کیوں ہے ۔ نہ کسی دوکان پر گانوں کی آواز نہ کوئی ہلا گلا اور نہ ہی کوئی گالی گلوچ ۔۔۔ کدھر چلے گئے یہاں کہ سارے دَلًے ( دلال ) اور بدمعاش ۔۔۔۔

کہنے لگا ۔۔۔ باؤ جی جانا کہاں ہے بائیاں سب شرفا کے محلوں میں چلی گئیں ، کچھ دلے ( دلال) سیاستدانوں کے ساتھ ان کے بندہ خاص بن گئے اور جو بدمعاش تھے وہ اب بائیوں کے ساتھ رہ کر شرفاء کہلاتے ہیں ۔۔چھڈو باؤ جی آپ سناؤ کیا ہو رہا ہے آج کل ۔۔۔۔ فیس بک پر تو بڑی شریفوں والی تصویر لگا رکھی ہے ۔۔۔۔۔۔

تمہیں کیسے پتا ہے ماجھے ۔۔۔ میں حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔ سب پتا ہے باؤ جی ۔۔۔ مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت سے نام نہاد شرفاء بڑی گندی اور غلیظ گالیاں نکالتے ہیں ۔۔۔۔۔ چھوڑو ماجھے یہ تو چلتا رہتا ہے اب کسی کی زبان کو کوئی روک تو نہیں سکتا۔۔۔۔

باؤ جی یہ جو گندی اور غلیظ گالیاں اور حرکتیں کرنے والے ہیں نا ۔۔ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور انہی کنجریوں کے نطفے ہیں جو شرفاء کے محلوں میں جا کر بس گئی ہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں یار ماجھے ایسا نہیں ہے اور ایسا نہیں کہتے ۔۔۔ بری بات ہے۔۔اچھا چلو چھوڑو پھر بات ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ‘‘ آس ‘‘ پان والے طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔۔۔پیچھے سے ماجھے دَلًے کی آواز پھر مجھے آئی باؤ جی مان لو یہ حقیقت ہے ‘‘ یہ انہی کنجریوں کے نطفے ہیں جو شرفاء کے محلوں میں جا کر بس گئی ہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔

شام ہو چلی ہے مگر اب بھی ماجھے دَلًے کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ‘‘ یہ انہی کنجریوں کے نطفے ہیں جو شرفاء کے محلوں میں جا کر بس گئی ہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 20 اگست، 2015

دنیا والو , ایک کمزور عورت کو جینے دو

image

باجی ایان علی غلطی سے ایک بڑے مگر مچھ کی کیرئر بن کے تین ماہ جیل میں رہی.ایک مجبور و مظلوم عورت کو روزانہ میڈیا پر ذہنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا......مگر باجی ایان کچھ نہ بولی..

اور اب جبکہ وہ رہا ہوکر فلاحی کاموں میں حصہ لے کر خود پر لگائے دھبے کو دھونا چاہتی ہے تو عوام کو بھی اس کا ساتھ دینا چاہئے.

ابھی گزشتہ روز ہی مولانا طارق جمیل کی تقلید کرتے ہوئے جامعہ کراچی جو کہ جماعت اسلامی کا گڑھ ہے نے باجی ایان کو اپنے ہاں تبلیغ کے لئے مدعو کیا.باجی ایان نے وہاں سے باقاعدہ ایوارڈ بھی وصول کیا اور وہاں موجود طلباء و طالبات کو بھاشن بھی دیا.بھاشن کے بعد وہاں کی نقاب پوش طالبات نے اپنے نقاب اتار کر باجی ایان کے ساتھ بڑے ذوق و شوق سے سیلفیوں کا سیشن مکمل کیا.

ظلم کی بات دیکھئے کہ کسی کم ظرف نے باجی ایان کے بھاشن کی فوٹو اور وہ خوبصورت سیلفیاں میڈیا کو پہنچا دیں جن کی خوب تشہیر کر کے باجی ایان کو بدنام کرنے کی کوششیں جاری و ساری ہیں.
سوشل میڈیا پر باجی ایان سے زیادہ جامعہ کراچی کے پرنسپل سمیت سب استادوں کو کے بارے میں خوب لے دے جاری ہے.کچھ لوگ انہیں بھڑووں سے تشبیح دے رہے ہیں اور کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اب جامعہ کے باہر ہیرا منڈی کا بورڈ بھی چسپاں کر دینا چاہئے.

اگر ہم ٹھنڈے دل سے سوچیں اور دوسری باجی کنجرہوں سے باجی ایان کا موازنہ کریں تو باجی ایان کے کریکٹر پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا..

کیا کسی نے باجی ایان کو سٹیج پر فحش ڈانس یا ننگا ڈانس کرتے دیکھا ہے؟
کیا کسی نے باجی ایان کی کسی نے کوئی فحش ویڈیو دیکھی ہے؟
کیا کسی نے باجی ایان کو فلموں میں سرعام بوس وکنار کرتے دیکھا ہے؟
کیا کسی نے باجی ایان کی دوسری باجی کنجریوں کی طرح کوئی غیر اخلاقی حرکت دیکھی ہے؟

صرف باجی ایان کے تین قصور ہیں.....
وہ ایک خوبصورت عورت ہے
منی لارڈنگ کے کیس میں ملوث ہوئی
ماڈلنگ کرتی ہے

دنیا والو , ایک کمزور عورت کو جینے دو
کسی پر ثبوت دیکھے بغیر الزام نہ لگاؤ کل کلاں کو آپ نے بھی جواب دینا ہے

منگل، 30 جون، 2015

روزہ خور کا پہلا روزہ

ماضی کے جھروکوں میں جانے کے لئے بس آنکھیں بند کرنے کی دیر ہوتی ہے تو آپ نے جہاں جانا ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔صفدر گھمن صاحب نے ماضی کے جھروکوں سے اپنے پہلے روزے کا احوال لکھ کر ساتھ ہی دوسروں کو بھی تحریک دے دی ۔ کوثر بہن اور نعیم خاں نے بھی اپنی اپنی خوبصورت یادوں سے روداد پیش کی ۔اب جانے نعیم خاں صاحب کو ہمارے روزہ خور کے بارے میں کس نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں بھی کہہ ڈالا ۔۔۔۔۔ شاید انہیں طاہر القادری کی طرح عالم رویا میں کسی نے بتایا ہوگا ۔۔۔۔

میں جب اپنے ماضی میں جھانکتا ہوں تو مجھے ایک ایک لمحے کی بات یاد آتی ہے ۔ میں پانچویں کلاس میں تھا جب میں نے پہلا روزہ رکھا ۔سخت گرمیوں کے دن تھے ۔ہر دس منٹ بعد میں پانی کی ٹونٹیوں پر جا کر کبھی سر میں پانی ڈالتا تھا اور کبھی منہہ میں پانی لے کر کلیاں کرتا جاتا تھا۔افطار تک وقت کیسے گزرا ۔۔۔ بس مت پوچھئے ۔۔۔۔ بس اس ایک روزے کے بعد مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بہت عرصہ تک روزہ نہیں رکھا۔

1986 کو میری شادی ہوئی تب تک اور شادی کے بعد بھی میں نے کسی رمضان میں پندرہ یا سولہ روزوں سے زیادہ کبھی نہیں رکھے وہ بھی صرف ایک یا دو دفعہ ۔۔۔ ورنہ کبھی کسی رمضان میں دو رکھ لئے کسی میں تین ۔۔۔البتہ میں سحری بڑے اہتمام سے کرتا تھا یعنی پراٹھے وغیرہ کھا کر صبح پھر ناشتہ پھڑکا دینا۔۔۔جہاں تک نماز کی بات ہے تو جمعہ ضرور پڑھتا تھا مگر وہ بھی باقاعدہ نہیں ۔

1992 میری زندگی کا ایسا سال ہے جس میں اللہ کی رحمت سے میں بالکل تبدیل ہوگیا ۔۔۔ اسی سال میں نے الحمدللہ حج کی سعادت حاصل کی اور بعد ازاں آج تک الحمدللہ کبھی روزہ اور نماز نہیں چھوڑی ۔۔۔
میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دیتا ہے کہ میں روزہ رکھوں اور نماز پڑھوں ۔۔۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ معاف کردے اور مجھے بخش دے ۔ اور میں جب تک زندہ رہوں مجھے صحت و تندرستی کے ساتھ توفیق دے کہ میں اس کی عبادت کرتا رہوں ۔آمین

پیر، 15 جون، 2015

پاک ٹی ہاؤس اور ہیر رانجھا

اس تحریر کو آپ آڈیو میں بھی سن سکتے ہیں

[audio mp3="http://snaji.com/wp-content/uploads/2015/06/pak-tea-house-lhr.mp3"][/audio]

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے جو کہ نیلا گنبد کے قریب اور انار کلی بازار کے باہری حصے کی جانب واقع ہے ۔پاک ٹی ہاؤس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے ، دائیں جانب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ہے اور بائیں جانب اے جی آفس کی جانب جانے والی سڑک نظر آتی ہے اور اگر ہم پیچے کی جانب دیکھیں تو وائی ایم سی کی پرانی بلڈنگ ہمیں کھڑی نطر آئے گی ۔

کہا یہ جاتا ہے کہ 1940 میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا تھا۔۔۔ تقریباً چار سال اس چائے خانے کو چلانے کے باوجود بھی بوٹا سنگھ کی اس چائے خانے سے آمدن نہ ہونے کے برابر تھی جس سے بوٹا سنگھ کا دل اس چائے خانے سے اچاٹ ہو گیا اور وہ اس کو بیچنے کے بارے میں سوچنے لگا ۔اس زمانے میں بوٹا سنگھ کے چائے خانے میں دو سکھ بھائی جو گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبا ر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے، اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کو بیچ دیا ۔


لاھور کے مشہور چائے خانوں میں سب سے مشہور چائے خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوں، نقاد کا مستقل گڑھ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کیا کرتی تھیں۔


اس زمانے میں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سوائے چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا اگر شکوہ کرتے تھے تو محبوب کی بے وفائی کا۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنی شاعری میں ۔۔۔



سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے

ساحر لدھیانوی بھارت جا چکے تھے اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام کما رہے تھے۔۔ اس وقت کے شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں

پاک ٹی ہاؤس کئ نشیب و فراز سے گزرا اور کئ مرتبہ بند ہو کر خبروں کا موضوع بنتا رہا
عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڈ گئ اور اھل قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا

دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ "میرا ٹی ہاؤس میں گزارہ نہیں ہوتا میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں" ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجائے ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جائے کیونکہ اس چائے خانے میں کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک ادبی محفلیں جماتے رھے
ادیبوں اور شاعروں نے اس چائے خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے لیکن 6 سال کے بعد مئ 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا


میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ 2012 کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے ۔

آجکل پاک ٹی ہاؤس میں ادبا اور شعرا تو خال خال ہی نظر آتے ہیں البتہ دوپہر گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک لیلی مجنوں ، شیریں فرہاد ، سسی پنوں اور ہیر رانجھا اپنی اپنی سرگوشیوں میں مشغول رہتے ہیں ۔

https://soundcloud.com/urduhome/pak-tea-house

.....................

اتوار، 14 جون، 2015

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے

وہی خدا ہے ۔۔۔۔ مظفر وارثی کی خوبصورت آواز میں سنئے

[audio mp3="http://snaji.com/wp-content/uploads/2015/06/wohi-kjuda-hai.mp3"][/audio]

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آ رہا ہے
وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق، وہی ہے مغرب
سفر کريں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دِکھا رہا ہے
وہی خدا ہے
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں
وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے
وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے سماں پہ بھی
وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہ لاشعور میں جگمگا رہا ہے
وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا
وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پے پہرے بٹھا رہا ہے
وہی خدا ہے
کسی کو تاج وقار بخشے،کسی کو ذلتِ کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پے مہر قدرت لگا رہا ہے
وہی خدا ہے
سفید اسکا، سیاہ اسکا، نفس نفس ہے گواہ اسکا
جو شعلہ جاں جلا رہا ہے، بجھا رہا ہے
وہی خدا ہے


https://soundcloud.com/urduhome/wohi-kjuda-hai

...................

ہفتہ، 13 جون، 2015

پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو

[audio mp3="http://snaji.com/wp-content/uploads/2015/06/pak-watan.mp3"][/audio]


یہ آڈیو پیغام ہمارے فیس بک کی انتہائی محترم ہستی جناب خالد نعیم الدین کی جانب سے ہے جو میرے اور آپ سب پاکستانیوں کے لئے ہے ۔اس پیغام کے کچھ درمیانی حصے کو میں نے تحریر میں لکھ دیا ہے ۔۔۔ مگر جو لطف اور جوش و ولولہ اس پیغام کو سننے میں ہے وہ تحریر میں ہر گز نہیں ۔

اسی خاک وطن سے اس جہاں میں راج ہے اپنا
اسی دھرتی کے صدقے میں یہ تخت و تاج ہے اپنا
اسی کو زندگی سمجھو اسی پر زندگی وارو
پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو

بقاء کی جو ضمانت ہے ہمارے حوصلوں تک ہے
ہمارے گھر کی مظبوطی ہمارے پربتوں تک ہے
ہماری شان آزادی ہماری سرحدوں تک ہے
غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں اس پار شہزادو
پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو


اگر یہ آڈیو ساؤنڈ کلاؤڈ پر بھی سن دسکتے ہیں ۔۔۔ ساؤنڈ کلاؤڈ پر سننے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں

https://soundcloud.com/urduhome/pak-watan

...............

منگل، 9 جون، 2015

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں قیصرانی بھائی کے ساتھ ایک تعزیتی نشست

زندگی میں انسان کو بہت سے لوگ ملتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے غرض اور بے لوث ہوتے ہیں ۔ منصور محمد المعروف قیصرانی بھائی بھی انہیں میں سے ایک شخصیت ہیں ۔قیصرانی بھائی سے میری شناسائی تب سے ہے جب اردو محفل نئی نئی وجود میں آئی تھی ۔ زیادہ یاد اللہ ان سے تقریباً چار سال پہلے ہوئی ۔انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کی ترویج میں قیصرانی بھائی کا نام بھی صف اول کے مجاہدوں میں شمار ہوتا ہے اور اردو بلاگنگ کی تاریخ میں قیصرانی بھائی کا نام شروع کے چند بلاگرز میں آتا ہے۔

پچھلے دنوں قیصرانی بھائی کی والدہ ماجدہ کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا تھا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔ اپنی والدہ کی وفات کی وجہ سے وہ پاکستان تشریف لائے ۔ میں ، ساجد بھائی اور عاطف بٹ بھائی تعزیت کرنے کے لئے ان کے گھر گئے ۔بعد ازاں گزشتہ روز پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جہاں فاتحہ خوانی کی گئی اور دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ والدہ محترمہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔

پاک ٹی ہاؤس لاہور کی اس تعزیتی نشست میں قیصرانی بھائی کے ساتھ ساجد شیخ ، عاطف بٹ ، محمد شاکر عزیز ، بابا جی ، حسیب نذیرگل اور خاکسار نجیب عالم نے شرکت کی ۔

تمام تصاویر آپ گوگل میں میری پروفائل سے بھی ڈانلوڈ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

[gallery link="file" ids="2034,2033,2032,2031,2030,2025,2026,2027,2028,2029,2024,2020,2021,2022,2023,2010,2011,2012,2013,2014,2009,2008,2007,2006,2005,2001,2003,2004,2015,2016,2017,2018,2019"]

اتوار، 7 جون، 2015

ایویں مفت کا تعصب

ذہن بڑی کپّتی اور متعصبانہ قسم کی شے ہے .....
نہ کسی سے جائیداد بانٹنی ہے , نہ کسی سے کچھ لینا دینا .....
ایویں مفت کا تعصب ۔۔۔۔

بندہ پوچھے بھئی ۔۔۔.کاہے کا غرور , کاہے کی اکڑ
زرا سوئی تو چبھو کے دیکھ خود کے جسم میں ۔۔۔۔۔

یہی کپّتا ذہن داد و تحسین کا بھی متمنی ہے....یہ جانتے ہوئے بھی کہ داد و تحسین کے ڈونگرے اُٹھانے والے لوگ کیا ہوئے ۔۔۔۔۔

اور یہی کپّتا ذہن جاہ و جلال کی بھی خواہش رکھتا ہے ۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جاہ و جلال والے بِنا کسی لاؤ لشکر کے کسی خستہ حال مقبرے میں اکیلے پڑے اپنے حساب کتاب کے منتظر ہیں ۔۔۔۔

سوچتا ہوں پھر تعصب , اکڑ , غرور کاہے کا ہے ۔۔۔۔
کیا کچھ ! بس میں ہے میرے ؟
اگر نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔
ایویں مفت کا تعصب

منگل، 2 جون، 2015

بلاگر بنیں مراثی نہ بنیں

پچھلے چند سالوں سے خبر گرم ہے کہ بلاگروں کی تحریریں فیس بکیے اور میڈیا والے دھڑلے سے چوری کرتے ہیں اور چوری بھی ایسے کرتے ہیں جیسے یہ اُن کی اپنی ذاتی جاگیر ہو۔
بابے عیدو سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے جو جواب دیا وہ میں یہاں حرف بہ حرف نقل کئے دیتا ہوں ۔۔۔۔ بابے عیدو کی تحقیق کے مطابق اصل میں جس بلاگرز کی تحریریں چوری ہوتی وہ بلاگ کی عین روح کے مطابق نہیں ہوتی ۔۔بابے عیدو کا کہنا یہ ہے کہ وہ تحریریں تہذیب کے دامن میں لپٹے ہوئے ایک مضمون یا کالم کی صورت ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی میڈیا والے کے مزاج اور اور ان کے اخبار کی پالیسی کے عین مطابق ہیں ۔اس لئے وہ ظالم لوگ ان تحریروں کو لے اُڑتے ہیں اور کسی بھی نسوانی نام سے ان کو اپنے اخبار کی زینت بنا کر بلاگر کی پیٹھ پر ٹھبہ لگانے میں دیر نہیں لگاتے ۔

اصل میں بلاگنگ ایک سوچ کا نام ہے اور سوچ جب بنا کپڑوں کے الفاظ میں ڈھلتی ہے تو سب کو ننگا کردیتی ہے اب اس ننگے پن کو ایک اچھے بلاگر نے اپنے اپنے انداز سے کپڑے پہنانے ہوتے ہیں ۔کوئی کم کپڑے پہناتا ہے تو کوئی زیادہ ۔اب اس ننگی سوچ کو کبھی بھی کوئی میڈیا والا چرا نہیں سکتا ۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایک بلاگر کی سوچ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے اور اس آواز کو جب وہ تحریر کے زریعہ سے لوگوں تک پہنچاتا ہے تو وہ اثر بھی رکھتی ہے ۔۔۔ میرے خیال میں ایک اچھے بلاگر کا تحریر کے قواعد و ضوابط یا تحریر کی حدود و قیود سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے ۔وہ اسی سوچ کو لکھے جو اس کے ذہن میں ہے اور جس کے متعلق وہ آگاہی دینا چاہتا ہے ۔

یاد رہے کہ بلاگرز پوری دنیا میں اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتے ہیں اور اسی لحاظ سے اردو بلاگرز کا بھی اپنا ایک قبیلہ ہے اور اس کی بھی دنیا میں اپنی ایک پہچان ہے ایک نام ہے ۔۔حال ہی میں دیکھا گیا ہے اردو بلاگرز میں بہت سے نئے لوگوں نے قدم رکھا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کچھ لوگ تحریر تو اچھی خاصی لکھ رہے ہیں مگر اپنی پہچان چھپا رہے ہیں ۔
بلاگر ایک آزاد منش اور ایک آزاد خیال انسان ہوتا ہے جسے اپنی پہچان چھپانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ اگر آپ نے بلاگنگ کرنی ہے تو کھل کر کریں اور پہچان کے ساتھ کریں ۔یاد رکھئے چور بن کے سچی بات کا ڈھنڈورا کبھی نہیں پیٹا جا سکتا ۔

ایک بلاگر کو مراثی کی طرح کبھی بھی شاباشی کی چاہ نہیں ہونی چاہئے ، جو شاباشی کے لئے لکھتے ہیں وہ بلاگر نہیں مراثی ہیں اس لئے اگر آپ بلاگر ہیں تو اپنی سوچ کو تہذیب کی تحریر کے کپڑے ضرور پہنائیے ۔۔۔ اگر آپ اپنی ‘‘ میں ‘‘ کے لئے یا خود کو نمایاں کرنے کے لئے لکھنا چاہتے ہیں تو پھر میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ بلاگر نہیں مراثی بنئے کیونکہ مراثیوں کی آجکل میڈیا میں ویسے ہی بڑی مانگ ہے ۔۔۔

بدھ، 13 مئی، 2015

بھونڈوں اور بھونڈی سے بچیں

بھونڈ ایک ایسا اُڑنے والا کیڑا ہے جو اگر انسان کے اند اپنا ڈنگ گھسیڑ دے تو انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں ۔کچھ لوگ اسے بھِڑ اور ڈیمو کے نام سے بھی پکارتے ہیں ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اسے اپنی زبان کے حساب سے اور بہت سے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے ۔

ویسے تو بھونڈ بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں مگر تین قسم کے بھونڈ زیادہ مشہور ہیں ۔ پیلا ۔۔۔ براؤن اور پیلا ( دو رنگا ) ۔۔۔۔ تیسرا کالے رنگ کا
کالے رنگ کا بھونڈ دیکھنے میں جتنا خطرناک ہوتا ہے اتنا اس کا ڈنگ خطرناک نہیں ہوتا جبکہ پیلے اور براؤن پیلے رنگ کے بھونڈوں کے ڈنگ زیادہ خطرناکی لئے ہوتے ہیں ۔بڑے بوڑھے اور سیانے برؤن اور پیلے یعنی دورنگی بھونڈ کا ڈنگ زیادہ خطرناک بتاتے ہیں ۔

shehad-ki-makhiشہد کی مکھی کا ڈنگ بھی انتہائی خطرناک ہوتا ہے کچھ لوگ اسے بھونڈی بھی کہتے ہیں ۔کچھ سیانے بھونڈ اور شہد کی مکھی کے ڈنگ میں شہد کی مکھی کو زیادہ خطرناک بھی بتاتے ہیں ۔

بھونڈ کو پنجابی میں پونڈ بھی کہا جاتا ہے ۔پنجاب میں لڑکیوں کے آس پاس مسلسل چکر لگانے والے لڑکے کو بھی پونڈ ( بھونڈ ) کے نام سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ایسا کرنے کو پونڈی کرنا بھی کہتے ہیں ۔ یہ پونڈ ( بھونڈ ) اسکول اور کالجوں کے باہر بکثرت پائے جاتے ہیں ۔اسی پونڈ کو تہذیب یافتہ انداز اور شاعروں کی زبان میں بھنورا بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ پونڈی میں تہذیب کہاں ؟

کہا جاتا ہے کہ بھونڈ یا شہد کی مکھی جب ڈنگ مارتی ہے تو جہاں ڈنگ مارا جاتا ہے وہاں شدید قسم کی درد کی لہریں چلنا شروع ہوجاتی ہیں جو انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں بھونڈ یا شہد کی مکھی کے ڈنگ مارتے ہی کئی لوگوں کو تو چیخیں ( چانگریں ) مارتے بھی دیکھا گیا ہے ۔
آج کل چونکہ بھونڈوں کا سیزن شروع ہو چکا ہے ۔ پھلوں کی ریڑھیوں کے آس پاس درجنوں بھونڈ آپ کو بھنبھناتے نظر آئیں گے ان میں سے کچھ شرارتی بھونڈ لوگوں کی شلوار قمیض کے اندر بھی گھس جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ بیچارے شلوار قمیض اتار کر ننگے چانگریں مار کر بھاگتے نظر آتے ہیں ۔

اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو گھبرائیے گا نہیں ۔۔۔۔
جب بھی آپ یا کسی کو بھونڈ ، شہد کی مکھی کاٹے یعنی ڈنگ مارے تو فوری طور پر پٹرول لے کر اُس ڈنگ والے حصے یعنی متاثرہ جگہ پر اچھی طرح مل لیں ۔۔۔ چند ہی لمحوں بعد ڈنگ کا اثر زائل اور درد ختم ہوجائے گا ۔
راہ چلتے ہوئے عموماً پٹرول پاس نہیں ہوتا ایسی صورت میں کسی موٹر سائکل والے کوروک کر اس سے تھوڑا پٹرول لے کر فوری طور پر متاثرہ جگہ پر اچھی طرح مل لیں ۔یاد رہے کہ یہ ہمارا آزمایا ہوا نسخہ ہے اور اسے ہم نے سوفیصد کار آمد پایا ہے ۔ہم نے اس نسخے کو بچھو اور سانپ کے کاٹے کے علاوہ تمام چھوٹے موٹے کیڑوں کے کاٹنے پر استمال کیا ہے اور اسے سو فیصد کارآمد پایا ہے ۔

پیر، 4 مئی، 2015

ڈینگی سرکار اور اس کے مریدوں سے بچاؤ کا ٹوٹکہ

انڈین فلموں کے معروف اداکار نانا پاٹیکر کا ایک مشہور ڈائلاگ تھا کہ ‘‘ سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے ‘‘ اس وقت تو شاید لوگوں کو اس فقرے کی سمجھ نہ آئی ہو مگر جب سے ہمارے ملک میں ڈینگی مچھر نے دھاوا بولا ہے ۔۔ بہت سوں کو اس کی سمجھ آ گئی ہے اور بہت سے تو مچھر کا نام سن کے خوف سے تھر تھر کانپنے بھی لگ جاتے ہیں ۔

لوگوں کی تو بات دور کی ٹھرتی ہے ہم بذات خود مچھر سے بڑا ڈرتے ہیں ۔ یہ ڈر ہمیں اس وقت سے پیدا ہوا جب ڈینگی سرکار نے لاہور میں پہلی دفعہ دھاوا بول کے ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ادھ موا کر دیا تھا۔تب سے اب تک ہم ایک ‘‘ عام مچھر ‘‘ ( ڈینگی سرکار کا مرید ) کو بھی جہاں دیکھ لیں ہمیں اس پر ڈینگی کا ہی گمان ہوتا ہے اور ہماری پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ سب کام چھوڑ کے پہلے اس کو پھڑکا دیں ۔۔۔ کیونکہ اگر ہم نے اس کو نہیں پھڑکایا تو یہ ہمیں پھڑکانے میں دیر بالکل نہیں لگائے گا ۔

دوسرے بہت سے سیانوں کی طرح ہم نے بھی مچھروں کو بھگانے کے لئے بہت سے ٹوٹکے آزمائے ہیں مگر سب بیکار ۔ ہزاروں روپے مچھر مار سپرے ، کوائل ، آئل ، کریم اور دیگر چیزوں پر ضائع کرنے کے باوجود شام پڑتے ہی یہ ‘‘ ڈھیٹ مچھر ‘‘ ہمارے کانوں میں کسی گندے اور غلیظ سیاستدان کی طرح بھوں بھوں کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

lemon-02چند دن پہلے ہماری بچی نے کہیں سے پڑھا ہوا ہمیں ایک ٹوٹکہ بتایا جو کہ ‘‘ ایک عدد لیموں اور چند لونگ ‘‘ پر مشتمل تھا ۔پہلے تو ہم نے سوچا کہ یہ بھی بس ایویں ہی ہوگا ۔ ہم نے اتنی بڑی بڑی کیمپنیوں کے مہنگے مہنگے سپرے تک استمال کر لئے اس سے کچھ نہیں بنا تو بھلا اس سے کیا ہوگا ۔ پھر سوچا کہ چلو اس میں کونسا زیادہ خرچہ آتا ہے ، آزما لیتے ہیں ۔۔ سو لیموں والے ٹوٹکے کو آزمایا گیا اور شدید حیرت ہوئی کہ پوری رات میں ایک بھی مچھر کمرے میں نظر نہیں آیا۔

ایک عدد تازہ لیموں لیجئے اور اسے درمیان میں سے کاٹ کر دو ٹکڑے کر لیں ۔۔۔ کسی بھی ایک ٹکڑے پر چار یا پانچ لونگ لگا کر کمرے میں رکھ دیں ۔۔۔۔۔پُرسکون نیند سونے پر ہمیں دعائیں دیں کیونکہ اب آپ کے کمرے میں ڈینگی اور اس کے مریدین ( عام مچھر ) کا داخلہ ممنوع ہوچکا ہے ۔

ہفتہ، 25 اپریل، 2015

یاقوت ۔۔۔ ایک خوبصورت سرخ پتھر

فارسی میں یاقوت کہنے والے اس پتھر کو عربی میں ‘‘ لعل ‘‘ اردو میں ‘‘ لال ‘‘ ہندی میں ‘‘ مانک ‘‘ سنسکرت میں ‘‘ پرم راگ ‘‘ اور انگریزی میں روبی ruby کہا جاتا ہے ۔ اس پتھر کا شمار نورتن یا جواہر تسعہ ‘‘اول درجہ کے نو 9 جواہرات ‘‘ میں ہوتا ہے ۔ یہ خوبصورت پتھر چمک دمک ، اپنی رنگت ، خوش وضعی اور ندرت کے اعتبار سے سب جواہرات سے افضل شمار ہوتا ہے ۔یاقوت دیکھنے میں بھی بڑادلکش ،دلفریب جاذب نظر اور خوبصورت ہوتا ہے ۔ شعراء اپنے محبوب کے ہونٹوں کولعل سے تشبیہ دیتے ہیں اور والدین اپنی اولاد کو میرا لال یا لعل بھی اسی مناسبت سے کہتے ہیں ۔۔


نگینہ شناس یاقوت کی چار اقسام بتاتے ہیں
1 ۔ مشرقی یاقوت
2 ۔ سپا ئنل روبی
3 ۔ پیلیس روبی
4 ۔ روبی سیل ۔دوسری قسم یعنی سپا ئنل روبی کو پاکستان میں لعل رمانی کہتے ہیں

ruby-002 جوہری یاقوت کی مندرجہ ذیل اقسام بیان کرتے ہیں
1 ۔ چولادن ۔ بے حد گہرا سرخ
2 ۔ بنوسی۔ یعنی قدرے سیاہی مائل سرخ (یہ خراب قسم ہے ) ۔
3 ۔گلگوں ۔ زردی مائل سرخ
4 ۔ کھیرا ۔ جس کا رنگ کتھئی ہو
5 ۔ اطلسی :۔ گہرا سرخ مگر تربوزی رنگت کا یاقوت
6 ۔ تاجا دت :۔جس میں سوراخ ہو (یہ بھی ناقص قسم ہے )
7 ۔ مشرقی یاقوت یہ سرخ رنگ کا ہو تا ہے
8 ۔ مغربی یاقوت ارغوانی رنگ کا ہو تا ہے
9 ۔ پیلیس یاقوت نیلگوں آسمانی ہو تا ہے

اہل عرب یاقوت کا رنگ سرخ ، زرد ، کبود ، سبز اور سفید بیان کر تے ہیں اور پھر انکی مختلف قسمیں بیان کرتے ہیں ان سب میں رمانی یعنی انار کا رنگ عمدہ سمجھا جاتا ہے
1 ۔ سرخ ممیری ۔ بہت زیادہ سرخ
2 ۔ سرخ اودی ۔ گلابی
3 ۔ سرخ نارنجی ۔ یہ اپنی خود وضاحت کرتا ہے
4 ۔ سرخ لیموئی ۔ یعنی پختہ لیمو کارنگ

کبوررنگ کے اقسام مندرجہ ذیل ہیں
1 ۔ کبودی نیلگوں (آسمانی رنگ) ۔
2 ۔ کبودکوہلی (سرمہ رنگ) ۔
3 ۔ کبود لاجوردی (لاجوردی رنگ )۔
4 ۔ کبود پستائی (پستہ رنگ)۔


یاقوت کی کیمیائی ساخت ( صلابت ) ۔
نگینوں پر تحقیق کرنے والا مشہور سائنسدان ‘‘ کوبر ‘‘ کہتا ہے کہ یاقوت کے کیمیائی مرکبات میں مندرجہ ذیل عناصر شامل ہوتے ہیں جن کی کمی بیشی سے یاقوت کی رنگت پر اثر پڑتا ہے
1 ۔ ایلومینیا
2 ۔ کرومیم
3 ۔ سلیکا
4 ۔ آسائیڈآ ف آئرن
5 ۔ مینیگنز
6 ۔ کیلشیم

ruby-003یاقوت کی شناخت
ایک سفید کاغذ پر یاقوت رکھیں اور اسی کاغذ پر کبوتر کے خون کا تازہ قطرہ ڈال دیں اگر یاقوت اور کبوتر کے خون کا رنگ یکساں ہوتو یاقوت خالص اور عمدہ ہے اصلی یاقوت املی کے پانی سے صاف ہوجاتا ہے اورزیادہ سرخ شعاعیں دیتا ہے خراب پسینہ ، بدبواور دھواں اصلی یاقوت پر اثرانداز ہوتا ہے اصلی یاقوت صرف ہیرے ہی سے کٹ سکتا ہے اس کی جانچ ( پرکھ ) چیلسی کلر فلٹر سے بھی با آسانی ہو سکتی ہے فلٹر سے اگر اس کی شعاعیں پار ہو جائیں تو یہ نقلی ہے ورنہ اصلی ہے یہ فلٹر عینک سازوں کے پاس ہوتا ہے کہ روزانہ مسلسل لگایا جائے اور پھر فلالین کے کپڑے سے خوب صاف کر دیا جائے۔
یاقوت کا مزہ پھیکا ہوتا ہے اسکو رگڑنے سے برقی قوت پیدا ہوتی ہے اس کا مزاج سرد وخشک اور معتدل ہے

یاقوت کے عیوب
جب یہ معلوم ہو جائے کہ یاقوت اصلی اور خالص ہے تو پھر اس کے عیوب اورنقائص کو جانچتا اور پرکھنا چاہیےء کیونکہ نقائص اورشگاف اسے کم قیمت اور کمتر کر دیتے ہیں مبصرین اور ماہرین یاقوت میں مندرجہ ذیل عیوب شمار کرتے ہیں
1 ۔ ابر کی یاقوت :۔ جس کے اندر ابرک کے آثار ظاہر ہوں یہ یاقوت کا عیب شمار ہوتا ہے
2 ۔ بنوسی :۔ سیا ہی مائل سرخ رنگ والا یاقوت بھی معیوب سمجھا جاتا ہے
3 ۔ جوتلا :۔زردی مائل سر خ رنگت والا یاقوت بھی عیب دار شمار ہوتا ہے
4 ۔ چیرا:۔ ایسا یاقوت جس کے اندر شگاف ہوا سے چیرا کہتے ہیں اور عیب دار شمار ہوتا ہے
5 ۔ دودھیا:۔ سفید یا دودھیا رنگت کا یاقوت بھی عیب ادر شمار ہوتا ہے اور کم قیمت ہوتا ہے
6 ۔ ڈھایا ـ۔ یاقوت کا بے آب اور بے رونق اس کا بڑا عیب ہے اوراس کی قدروقیمت کو کم کرتا ہے
7 ۔ مارا :۔سیاہی مائل رنگت کا یاقوت بھی عیب دار شمار ہوتا ہے اور اس کی قدروقیمت کو کم کرتا ہے

خلقت وبناوٹ
اس پتھر کی سختی نو درجہ ہوتی ہے اس لیے صرف ہیرے سے کٹ سکتا ہے ایک قدیم نادر کتاب میں لکھا ہے کہ اس پتھر کی خلقت اور بناوٹ آب شیریں سے ہوتی ہے جو دو پتھروں کے درمیان و عر صہ دراز تک محبوس رہتا ہے پھر یہ پانی گاڑھا ہو کر صاف اور سنگین (سخت ) ہو جا تاہے اس لیے کہ زمین کے اندر پتھروں کی گرمی اور حدت اسکو پختہ کر کے سخت کردیتی ہے اس جواہر میں کیمیائی طور پر 98 فیصد ایل مونا ،ڈیڑھ سو فیصد چونا اور معمولی مقدار میں کرومیم شامل ہوتی ہے اس کومختلف رنگوں سے مختلف ناموں سے منسوب کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے اس میں کچھ نقطے معلوم ہوتے ہیں اور مختلف قسم کے عکس ہوتے ہیں۔

یاقوت کی کانیں
پہلے زمانہ میں یاقوت ہندوستان کے بعض ایسے مقامات سے دستیاب ہوئے جہاں کثرت سے چاول کی کاشت ہوتی تھی اس لیے کہ کھیتوں کے چوہے یاقوت کے سخت ٹکڑے اپنے بلوں سے باہر سطح زمین پر پھینک دیتے تھے برما میں اس کی کانیں بہت پرانی اور مشہور ہیں افغانستا ن کے صوبہ برخشاں میں بھی یاقوت کی کانیں بہت قدیم ہیں عمدہ قسم کا یاقوت سیام کے جنوبی مشرقی علاقہ میں بھی پایا جاتا ہے مدغا سگز ۔کیلی فورنیا۔سری لنکا (سیلون) اور جنوبی افریقہ میں کافی کانیں ہیں پاکستان اور آزاد کشمیر کی کانوں میں بھی یاقوت دستیاب ہے ۔

دنیا کے چند نادر اور مشہور تاریخی یاقوت
یوں تو افادیت کے لیے امراء ورؤساء کے علاوہ متوسط طبقہ بھی عام طریقے سے یاقوت کی انگوٹھیاں استعمال کرتا ہے لیکن عقیدتاًیاقوت کی انگوٹھی پہننے کا عام رواج خصوصیت سے شیعہ حضرات میں زیادہ ہے ویسے دنیا میں نایاب اور نادر تاریخی یاقوت مندر جہ ذیل ہیں

1 ۔ ایک نایاب یاقوت سن 1877؁ء میں زارروس کے تاج میں کبوتر کے انڈے کے برابر جڑاہوا تھا اس کا وزن تقریباً سو قیراط تھا
2 ۔ قدیم ایران کے ساسانی خاندان کے بادشاہ کے شطرنج کے مہرے یاقوت اور زمرد کے تھے
3 ۔ ایک اور نادرونایاب یاقوت مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس تھا جس کا وزن چودہ تولے تھا اس پر اورنگ زیب عالمگیراوراحمد شاہ ابدالی کے نام کندہ تھا
4 ۔ شہنشاہ ایران کے پاس ایک نادر یاقوت محفوط تھا جس کا وزن 72 بہتر قیراط تھا یہ نادر نایاب یاقوت چار ایرانی شہنشاہوں کے تاج کی زینت بنا رہا
5 ۔ تیموریہ یاقوت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک اعلی قسم کا نادر یاقوت تھا تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ کوہ نور ہیرے ،، کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا
6 ۔ شب افروز یاقوت نوشیراواں بادشاہ کے خزانے میں رہا اس کو کوکب کا لقب دیا گیا تھا یہ یاقوت شب کی تاریکی میں چراغ کی طرح روشن نظر آتا تھا اکثر کتب میں اسکو ‘‘گوہر شب چراغ ‘‘ بھی لکھا گیا ہے
7 ۔ سلطان ابراہیم کے پاس سرخ و نادر ونایاب یاقوت موجود تھے جو رات کے اندھیرے میں انگاروں کی طرح دہکتے محسوس ہوتے تھے
8 ۔ کراؤن آف اسٹیٹ جو ملکہ وکٹوریہ کے لیے تیار ہوا تھا اس کے جڑاؤ جواہرت میں ایک بہت بڑا یاقوت بھی لگا ہوا تھا یہ 1357؁ء میں شاہی خزانہ کو دے دیا گیا تھا یہ یاقوت بھی بہت مشہور تھا

منگل، 21 اپریل، 2015

مورٹین والو ! پاکستانیو کو بخش دو

mortein-oil-01بیوی کی خدمت کی خاطر کرشن نگر بازار جانا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا بازار ہی بند ہے ۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ بازار کے ایک ہردلعزیز حاجی انور خان کا تین سالہ بیٹا ارحم خان فوت ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بازار کی بہت سی دوکانیں سوگ میں بند ہیں ۔
میں بڑا حیران ہوا کہ آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ ایک بچے کی خاطر بازار کو بند کرنا پڑا ۔تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ بچے نے مورٹین آئل کی شیشی میں لگی سٹک کو چوس لیا تھا جس کی وجہ سے بچے کی طبعیت خراب ہو گئی ۔۔طبعیت خراب ہونے پر بچے کو میوہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا جہاں وہ بارہ گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

mortein-oil-03حیرت اور سوچنے کا مقام تو یہ ہے کہ مورٹین سے مچھر تو مرتا نہیں پھر یہ بندہ آخر کیسے مر گیا ۔ مورٹین کی پروڈکٹ کو اگر ہم دیکھیں تو اس کی جلیبی ( کوائل ) کو بند کمرے میں لگا کر سوئیں تو صبح آپ جاگتے نہیں ملیں گے ۔۔اسی طرح اگر آپ اس کا بغیر خوشبو کا سپرے لا کر کمروں میں چھڑکیں تو مچھر تو چھوڑو مکھیاں اور بھنبھنانا شروع کر دیتی ہیں ۔مورٹین آئل کی تو بات ہی نہ کریں اس کی تازہ مثال تو لوگوں نے ایک زندہ بچے کا اللہ کے ہاں پہنچنا دیکھ ہی لیا ہے۔

مورٹین والوں کو چاہئے کہ اپنی ہر پروڈکٹ پر نمایاں حروف میں ‘‘ خطرناک دوائی ‘‘ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ‘‘ آنکھوں اور منہہ کو بچا کر رکھیں ‘‘ جیسے الفاظ ضرور لکھیں ۔۔اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہئے کہ وہ پاکستانیو کی جاں بخشی کر کے جاپان میں اپنی پروڈکٹ متعارف کروائیں جہاں ہر دسویں بندے کو خودکشی کے لئے کسی اچھی دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔

اتوار، 19 اپریل، 2015

مگر ہمیں کیا ۔۔۔۔ ! ۔۔

ایک نظم کے جواب میں لکھی میری ایک نظم

مگر ہمیں کیا ۔۔۔۔ !

تم آڑھے ترچھے خیال سوچو
کہ بے ارادہ ۔۔۔۔۔ کتاب لکھو
کوئی ۔۔۔۔۔ شناسا غزل بھی کہہ دو
کہ اجنبی انتساب ۔۔۔۔۔ لکھو
گنوا دو اک عمر کے زمانے ۔۔۔۔ !
کہ ایک ۔۔۔۔۔ پل کا حساب لکھو
تمہاری طبیعت پہ منحصر ۔۔۔ ہے
تم جس طرح کا ۔۔۔ نصاب لکھو
یہ تمہارے اپنے مزاج ۔۔۔۔ پر ہے
عذاب سوچو ۔۔۔۔ثواب ۔۔۔ لکھو

طویل تر ہے ۔۔۔۔۔ سفر ہمیں کیا ؟
تم جی رہی ہو۔۔۔۔ مگر ہمیں کیا ؟

مگر ہمیں کیا ۔۔۔۔ کہ تم تو کب سے
اپنے ۔۔۔۔۔۔۔ ارادے گنوا چکی ہو
جلا کے سارے حروف ۔۔۔۔۔ اپنے
اپنی ..........دعائیں بجھا چکی ہو
تم رات اوڑھو۔۔۔۔۔ کہ صبح پہنو
تم اپنی رسمیں اٹھا ۔۔۔۔ چکی ہو
سنا ہے۔۔۔۔ سب کچھہ بھلا چکی ہو

تو اب اپنے دل پہ ۔۔۔۔ جبر کیسا ؟
یہ دل ۔۔۔۔ تو حد سے گزر چکا ہے
گزر چکا ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر ہمیں کیا ؟
خزاں کا۔۔۔۔۔ موسم گزر چکا ہے
ٹھہر ۔۔۔۔۔ چکا ہے مگر ہمیں کیا ؟

مگر ہمیں کیا .........کہ اس خزاں میں
تم جس طرح کے ۔۔۔ بھی خواب لکھو

ہفتہ، 28 مارچ، 2015

یمن کے حوثی دہشت گرد کون ہیں ؟

کہا یہ جارہا ہے کہ یمن کے حوثی قبائل چونکہ اہل تشیع مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یمن کی جنگ شعیوں کے خلاف ہورہی ہے۔اس بات میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے ۔اطلاعات کے مطابق یمن کے حوثی دہشت گرد قبائل میں شعیہ بڑی تعداد میں موجود ضرور ہیں مگر ان حوثی قبائل میں سنی دہشت گردوں اور سیکولر دہشت گردوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے یمن کی معصوم عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔

یمن کی آبادی 25 ملین کے قریب ہے اور اس میں حوثی قبائل کی تعداد تقریباً 30 سے 35 فیصد کے لگ بھگ ہے جن میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگجوؤں کی تعداد نوے ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے ۔

اگر ہم مسلم دنیا کا سروے کریں تو شیعہ آبادی کل مسلم آبادی کا 10 سے 12 فیصد کے قریب ہے ۔ایران شیعوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ عراق وہ دوسرا ملک ہے جہاں شیعوں کی تعداد اس وقت سب سے زيادہ ہے ۔جبکہ ایرانی محقق ولی نصر شعیوں کی تعداد کے بارے میں پاکستان کو دوسرا بڑا ملک قرار دیتا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

پاکستان کی آبادی اس وقت تقریباً 19 کروڑ سے زائد ہے جس میں 8 سے 10 فیصد شعیہ ہیں جبکہ 3 سے 5 فیصد کی آبادی اقلیت پر مشتمل ہے جن میں عیسائی، ہندو ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہيں ۔ ایران، عراق ، آذر بائیجان اور بحرین میں اہل تشیع اکثریت میں موجود ہیں جبکہ لبنان، ہندوستان، یمن ، کویت ، عرب امارات ،ترکی اور بعض دیگر ممالک میں یہ ایک بڑی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔

جمعرات، 26 مارچ، 2015

سعودیہ کی جنگ ہماری اپنی جنگ ہے

سعودیہ کی یمن میں دہشت گرد حوثی قبائل کے خلاف جنگی کاروائی کا آغاز ہوتے ہی پاکستان نے بھی اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھرپور طریقے سے سعودی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔پاکستان کے اس اعلان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔سعودیہ ہمارا برادر ملک ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے ۔پاکستانی حکومت اور اس کی عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دے ۔

بعض لوگ دہشت گرد حوثی قبائل کا شعیہ مذہب ہونے کی وجہ سے اسے شعیہ سنی کی جنگ کہہ کر فرقہ واریت کی ہوا پھیلانا چاہ رہے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو یہ جنگ اہل تشیع کی خلاف نہیں ہے بلکہ یہ جنگ باغی دہشت گردوں کے خلاف ہے اور دہشت گردی کا کوئی مذہب یا ملک نہیں ہوتا۔یہ دہشت گرد یمن پر قبضہ کرکے ایک تو سعودیہ کی تیل کی رسد توڑنا چاہتے ہیں تاکہ سعودیہ کو معاشی طور پر تباہ کیا جاسکے دوسرا یمن میں قبضے کے بعد سعودیہ میں اپنے مطلب کی حکمرانی چاہتے ہیں ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ جنگ سعودی عرب میں خانہ جنگی کو ہوا دینے ، اس کے وسائل پر قبضہ اور مسلمانوں کے قبلے پر قبضے کی جنگ ہے۔۔۔کچھ بیرونی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے اکھٹی ہو بیٹھی ہیں جو مسلمانوں کے خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی متمنی ہیں ۔اس لئے اس دہشت گردی کو روکنا سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے دوست ملکوں کا بھی فرض ہے ۔پاکستان نے ایسے مشکل وقت میں سعودی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر کے بلاشبہ دانش مندی اور مسلمان دوستی کا ثبوت دیا ہے ۔

یاد رہے کہ امریکہ نے پچھلے دس سالوں کے دوران دہشت گرد حوثی قبائل کا سر کچلنے کے لئے یمن حکومت کی بھرپور مدد کی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی خصوصی افواج خفیہ طور پر یمن کی فوج کو دارالحکومت صنعا میں تربیت فراہم کرتی رہی ہیں جبکہ امریکہ نے دہشت گرد حوثی قبائل پر متعدد ڈرون حملے بھی کیے تھے ۔

ادھر اگر ہم ملک یمن پر ایک نظر ڈالیں تو یمن ایک قدیم تہذیب کا امین ملک ہے اور مشرق وسطی میں یمن عربوں کی اصل سر زمین ہے ۔یمن کا محل وقوع انتہائی اہم ہے ۔اس کے دارالحکومت کا نام صنعاء ہے ۔اس کی آبادی تقریباً 20 ملین کے قریب ہے ۔ یہ ملک خلیج فارس پر خام تیل کی سپلائی کے راستے پر واقع ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے، اور مغرب میں بحیرہ احمر ہے۔ ۔قدیم دور سے یمن مصالحوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔یمن کے دائیں جانب باب المندب ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو افریقہ سے جدا کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 25,000 سے زائد بحری جہاز بحرِ ہند اور بحیرہ احمر سے گزرتے ہیں۔

جمعرات، 19 مارچ، 2015

ہم کب سدھریں گے ؟

ہیلو ۔۔۔ہیلو۔۔۔ ملک صاحب
جی جی بول رہا ہوں ۔۔ حکم کریں
ملک صاحب بیسن کے دس توڑے چاہیئں ۔۔۔ کیا بھاؤ ہے ؟ ( توڑہ بوری سے چھوٹا ہوتا ہے جس میں وزن تقریباً پچاس کلو کے قریب ہوتا ہے) ۔۔
ستائیس سو 2700 روپے کا مل جائے گا
نہ ملک صاحب نہ ۔۔۔بائیس سو کا لگاؤ اور دس توڑے بھیج دو
نہیں جناب ممکن نہیں ہے ۔۔اتنے کا نہیں ہوسکتا
ملک صاحب جانے دیں ہم آپ کے پرانے گاہک ہیں
نہیں جناب اتنے کا نہیں ہوسکتا ۔۔ دال چنا آج کل مہنگی ہوگئی ہے اور ہم نے اس میں کون سے زیادہ کمانے ہیں۔۔زیادہ سے زیادہ دوسو روپے توڑے کے کمالیں گے۔۔جس میں سارے خرچے ڈال کر آپ کی دکان تک مال بھی پہنچانا ہے۔
چھوڑیں ملک صاحب آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔ تھوڑی سی مکئی مکس کردو نا اور 2200 میں دس توڑے بھیج دیں
نہیں بھئی میں ایسا کام نہیں کرتا ۔۔۔ ویسے اگر مکئی بھی مکس کروں تو تب بھی اتنے کا نہیں ہوسکتا
تو ملک صاحب تھوڑی گندم بھی ڈال دیں ۔۔۔ بس اب کچھ نہ بولیں ۔۔۔ جلدی سے دس توڑے بھجوا دیں ۔۔۔ دوکان پر بالکل بھی بیسن نہیں ہے ۔
او جناب کیا کرتے ہو ۔۔۔ گندم ملے بیسن سے جو کڑھی بنائے گا لئی کی طرح کی بنے گی ۔۔۔ اس سے آپ کی دوکانداری خراب ہوگی
ملک صاحب کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ آپ بس جلدی سے دس توڑے بنا کر بھیجیں
اچھا ۔۔۔ مگر مکس کر کے بھی اتنے کا نہیں ہوگا 2300 روپے لگا دوں گا۔۔۔اگر منظور ہو تو بتا دیں
ٹھیک ہے ملک صاحب بھیج دیں مگ یہ مال مجھے آج شام تک مل جانا چاہئے
اچھا ٹھیک ہے میں بھیجتا ہوں ۔۔۔ خدا حافظ

یہ گفتگو کچھ دن پیشتر کی ہے جب میں ایک چھوٹے سے کاروباری ڈاکو کی فیکٹری میں بیٹھا ہوا تھا۔کاروباری ڈاکو سے اپنی پرانی یاد اللہ ہے ( حالانکہ وہ مسلمان نہیں ہے ) جب یہ فون آیا تو اس نے جان بوجھ کر مجھے سنانے کے لئے اپنے فون کے سپیکر کو آن کر دیا تھا۔۔۔۔ شاید وہ مجھے جتانا چاہتا تھا کہ دیکھ لو مسلمانوں کا حال ۔۔۔

جمعہ، 27 فروری، 2015

افواہ شنیداً ۔۔۔۔ درد شدیداً

افواہ شدید ہے کہ حکومتِ پاکستان نے یوٹیوب پر سے پابندی اٹھا دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت آج بھی کن ٹٹوں اور اس کے ظالم حواریوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے اور ہمارے موکلوں کے مطابق حکومت پاکستان نے لاہور سمیت کسی بھی شہر میں یو ٹیوب ابھی تک نہیں کھولی ۔۔۔۔ البتہ اینڈرائیڈ موبائل پر یوٹیوب ایپ میں گوگل کی دی گئی اپنی پراکسی کی وجہ سے آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔

اگر آپ انٹرنیٹ کے زریعہ سے یو ٹیوب تک رسائی چاہتے ہیں تو آپ گوگل والوں کا گوگل کروم براؤزر ڈاؤنلوڈ کیجئے ۔۔۔ براؤزر کو کھولئے اور اسی براؤزر میں نیچے دئے گئے لنک سے ‘‘ زین میٹ ‘‘ ZenMate نامی یہ ایکسٹینشن انسٹال کر لیجئے۔

یہاں کلک کر کے زین میٹ نامی ایکسٹینشن انسٹال کر لیں

اصولاً تو یو ٹیوب کو بند ہی نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس جس روابط ( لنکس ) پر اسلام مخالف مواد موجود تھا اس کو بلاک کر دیا جاتا۔تاکہ عام عوام اور خاص کر تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم اس سے استفادہ حاصل کرتے رہتے ۔

اصل میں کچھ نام نہاد کن ٹٹے اور اس کے ظالم چیلے جو کہ راتوں کو ننگے مجرے دیکھتے ہیں اور دن کو حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فلک شگاف نعرے لگاتے سڑکوں پر عوامی املاک کا تیاپانچہ کرتے نظر آتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کو اپنے گھر کی جاگیر سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ان کی ان سے زیادہ مسلمان اس روئے زمین پر اور کوئی نہیں ہے۔

ان کن ٹٹوں کی حب رسولیت پتہ نہیں کہاں جاتی ہے جب یہ لوگ خود قران و حدیث لکھی ہوئی اخبار میں جوتے ، روٹی لپیٹ کر لاتے ہیں اور بعد آزاں اسی قرآن و حدیث لکھی ہوئی اخبار کو کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں ۔۔۔اس وقت شاید نہ ہی ان سے توہین قرآن ہوتی ہے اور نہ ہی توہین رسالت ۔۔۔۔ تب شاید ان کی آنکھیں اور کان بند ہوتے ہیں ۔

ان کن ٹٹوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے پاکستان میں پوسٹروں ، بینروں اور اخباروں میں قران و حدیث لکھنے پر پابندی عائد کروائیں تاکہ وہ قیامت والے دن توہین قرآن و توہین رسالت سے بچ سکیں ۔

پیر، 23 فروری، 2015

رانا بھگوان داس اور جنت

پاکستان کے سابق چیف جسٹس رانابھگوان داس جو کہ ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آج انتقال کر گئے ہیں ۔رانا بھگوان داس نے 1965ء میں بار میں شمولیت اختیار کی اور 1967 میں عدلیہ کا حصہ بنے ۔انہوں نے کئی سال سیشن جج کے طور پر بھی اپنے فرائض انجام دئے۔1994میں سندھ ہائیکورٹ کے جج بنے اور سن 2000 میں سپریم کورٹ کے جج تعینات کر دئے گئے ۔9 مارچ 2007 ءکو جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے بعد جسٹس رانا بھگوان داس کو پرویز مشرف نے قائم مقام چیف جسٹس تعینات کر دیا ۔رانا بھگوان داس نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار بھی کیا تھا جس کی پاداش میں انہیں دیگر ججز کی طرح گھر میں نظر بند کردیاگیا تھا۔رانا بھگوان داس انتہائی اچھی شہرت کے حامل ہوتے اپنے کیرئیر کے دوران ہمیشہ غیر متنازع رہے۔ان کی نیک نامی کی وجہ سےگزشتہ برس حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنرکےعہدے کےلیےان کےنام پراتفاق کرلیاتھا لیکن رانا بھگوان داس نے عہدہ سنبھالنےسےمعذرت کرلی تھی ۔

رانا بھگوان داس ایک ہندو ہونے کے باوجود اپنی نیک نامی ، ایمانداری اور اچھی شہرت کی وجہ سے ہمیشہ غیر متنازعہ رہے ۔رانا بھگوان داس ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کی ایک نعت جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ صلعم کے حضور نذرانہ عقیدت کے طور پر لکھی تھی اور وہ خاصی مشہور بھی ہوئی تھی ۔

جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی​
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی​
خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انسان​
یہ سب کچھ ہے تری ستودہ خصالی ​
تو فیاضِ عالم ہے دانائے اعظم​
مبارک ترے در کا ہر اِک سوالی​
نگاہِ کرم ہو نواسوں کا صدقہ​
ترے در پہ آیا ہوں بن کے سوالی ​
میں جلوے کا طالب ہوں ، اے جان عالم!​
دکھادے ،دکھادے وہ شانِ جمالی ​
ترے آستانہ پہ میں جان دوں گا ​
نہ جاؤں ، نہ جاؤں ، نہ جاؤں گا خالی ​
تجھے واسطہ حضرتِ فاطمہ کا​
میری لاج رکھ لے دو عالم کے والی ​
نہ مایوس ہونا ہے یہ کہتا ہے بھگوان ​
کہ جودِ محمد ہے سب سے نرالی ​

بے شمار ایسے ہندو ہیں جن کے نعتیہ کلام موجود ہیں چند ایک کے تو نعتیہ دیوان بھی شائع ہو چکے ہیں جن میں ایک چودھری دلو رام کوثری کا دیوان حلقہ مشائخ بک ڈپو دہلی نے شائع کیا تھا۔

رانا بھگوان داس چونکہ ایک ہندو تھے اس لئے وہ جنت میں ہرگز نہیں جائیں گے ۔ان کی اچھی خدمات اور نیک نامیوں کا صلہ انہیں ان کی زندگی میں ہی مل گیا ہوگا۔

بدھ، 11 فروری، 2015

کیا آپ مسلمان ہیں ؟

اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ کے پاس اینڈرائڈ فون بھی ہے تو پھر salatuk ( صلاتک ) نامی یہ نماز ٹائم والی ایپ آپ کے لئے انتہائی قیمتی اور بہترین ثابت ہوسکتی ہے ۔اس میں آپ کی سہولت کی تمام چیزیں موجود ہیں ۔اس کی ایک بڑی خوبی نماز کے وقت کے ساتھ ساتھ آپ کے علاقے میں نزدیک ترین مساجد کا بتانا ہے جس کا نتیجہ سو فیصد درست ہے ۔دوسری بڑی خوبی اس میں کسی بھی اشتہار کا نہ ہونا ہے ۔ اور سب سے بڑی خوبی کہ اس کے تمام فیچر مکمل اور بالکل مفت ہیں ۔

اس ایپ کو انسٹال کرنے کے لئے اپنے اینڈرائڈ یا آئی فون سے گوگل پلے سٹور یا ایپل سٹور میں جائیں ۔۔۔ سرچ میں salatuk لکھیں ۔صلاتک کا آئی کون آنے پر اس پر کلک کریں ۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



صلاتک پر انسٹال کا نشان آنے پر اسے کلک کر کے اپنے فون میں انسٹال کر لیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




انسٹال ہونے پر اسے یہاں سے ہی اوپن یعنی کھول لیں یا جہاں آپ کے فون میں صلاتک کا آئی کون آیا ہے اس کو کلک کر کے کھول لیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




زبان کا انتخاب کی اگر کھڑکی کھلے تو اپنی مرضی کی زبان منتخب کر لیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



اس کے بعد آپ کے سامنے نماز کے وقت کی مکمل تفصیلات کا صفحہ آجائے گا۔۔۔آپ فی الحال تھوڑی دیر کسی چیز کو نہ چھیڑیں ۔۔۔کچھ ہی لمحے بعد یہ خود بخود آپ کے ملک اور شہر کو منتخب کر لے گا۔۔۔منتخب ہوتے ہی آپ کے شہر کے حساب سے یہ آپ کے نماز کے اوقات دکھانا شروع کر دے گا۔۔۔
اگر تو آپ ان چیزوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تو پھر آپ کو کچھ اور نہیں کرنا۔۔۔ یہ نماز کے وقت پر آپ کو آذان کے زریعہ سے مطلع کر دے گا۔۔۔۔۔۔اگر آپ اس کو اپنی مرضی سے ترتیب دینا چاہتے ہیں تو پھر آپ اوپر ١ نمبر پر سیٹنگ کو کلک کریں ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




اب آپ کے پاس اس کی مکمل سینٹنگ کا صفحہ آ گیا ہوگا جو کہ کچھ ایسے ہوگا ۔اس کی آپ ایک ایک کر کے اپنی مرضی کی سیٹنگ ترتیب دے سکتے ہیں۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



نمبر ایک کو کلک کنے سے آپ اپنی مرضی کی زبان کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



نمبر دو کو کلک کرنے سے آپ نماز کے اوقات اور ہجری کیلینڈر کو اپنی مرضی سے ترتیب دے سکتے ہیں ۔۔۔ اگر آپ کو اس کے بارے میں مکمل معلومات ہوں تو اسے چھیڑیے ورنہ ان سب سیٹنگ کو ایسے ہی رہنے دیں ۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



نمبر تین پر آپ الرٹ اور دوسری سیٹنگ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



نمبر چار پر آپ اگر سفر میں رہتے ہیں تو اس لحاظ سے اپنے نماز کے اوقات اور مساجد کی لوکیشن کو ترتیب دے سکتے ہیں ۔۔۔یہ اس کا بڑے اہم اور کام کا فیچر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



نمبر پانچ پر آپ اپنی اس نماز کے اوقات والی ایپ کو سوشل میڈیا فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ اٹیچ کر کے وہاں آٹو پوسٹ کر سکتے ہیں۔۔۔ یعنی ہر نماز کے وقت کے آتے ہی وہ نماز کا وقت آپ کے شہر کے حساب سے آپ کی وال پر بھی شئیر ہوجائے گا۔۔۔۔اگر آپ نشان زد پیغام کو اپنی مرضی سے لکھنا چاہیں تو وہ بھی ترتیب دے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



نمبر چھ پر گوگل کیلینڈر کا فیچر ہے یہ بھی خوب ہے اس میں آپ یہ تمام نماز کے وقت جتنے دن کے آپ چاہیں ایکسپورٹ کر سکتے ہیں ۔۔۔ اس کا فائد یہ ہوگا کہ جونہی نماز کا وقت ہوگا یہ آپ کی میل اور آپ کے موبائل پر گوگل بھی ساتھ ہی پیغام بھجوائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



ہم ایک دفعہ پھر نماز کے وقت والے مین صفحے پر آتے ہیں اگر آپ نیچے دیکھیں تو پہلے نمبر پر نماز کا مکل صفحہ ہے۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



دوسرے نمبر پر کلک کریں گے تو آپ کے ایک میل کے دائرے کے اندر تمام مساجد آجائیں گی جو آپ کے علاقے میں ہوں گی ۔۔۔ آپ ایسی تمام مساجد دس کی تعداد میں دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



تیسرے نمبر پر کلک کرنے سے آپ کسی بھی نماز میں آذان کی آواز کو اپنی سہولت کی خاطر کھول یا بند کر سکتے ہیں یعنی آپ چاہتے ہیں کہ نماز کا وقت ہونے پر آذان کی آواز نہ آئے صرف میسیج آئے تو آپ اسے آف کر سکتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



چوتھے نمبر پر قبلہ کی سمت ہے۔۔۔یعنی آپ کسی ایسی جگہ ہیں جہاں آپ کو قبلہ کے رخ کا نہیں پتہ تو اسے کھولئے اور قبلہ کی سمت معلوم کر کے نماز پڑھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



دعاؤں میں یاد رکھئے گا

اتوار، 8 فروری، 2015

ایکسپو سنٹر لاہور کے کتب میلے میں ایک شام

ہمارے آنے پر مزے سے چائے کی چسکیاں لیتا وہ نوجوان لڑکا ایسے گھبرا کے اٹھا جیسے ہم نے اسے کوئی چوری کرتے پکڑ لیا ہو ۔میں نے اسے سختی سے سامنے بیٹھے رہنے کا کہا اور پوچھا کہ کیوں اُٹھ کر جانے لگے تھے ۔۔ کیا غریب آدمی ہو اس لئے ؟
کہنے لگا۔۔جی ہاں ۔۔۔۔ میں نے پھر اسے کہا کہ بس تم بیٹھے رہو اور سکون سے چائے پیئو ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں تشکر کی وجہ سے آنے والی نمی کو میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔میں نے جلدی سے اس کی ایک تصویر بنا لی ۔میری نظر میں یہ تصویر ایکسپو سنٹر لاہور میں کتابوں کے میلے کی قیمتی ترین تصویر ہے ۔

سردیوں میں صرف ایک بنیان اور قمیض پہنے وہ لڑکا ایک نہایت غریب ، محنتی شریف اور ایماندار گھرانے کا ایک فرد دکھائی دے رہا تھا جو کتابوں کے اس میلے میں شاید اپنی منزل کا تعین کرنے آیا ہوگا۔اس کا سلیقہ اس کے چائے پینے اور اس کے سامنے پڑے ٹی بیگ کو لکڑی کے چمچ سے لپیٹنے سے ظاہر ہورہا تھا ۔ چائے پینے کے بعد پھر اس نے جس طرح اپنے خالی چائے کے کاغذی کپ کے ساتھ اپنے سامنے میز پر پڑے لکڑی کے چمچ میں لپٹے ٹی بیگ کو اٹھا کر سامنے ڈسٹ بن میں پھینکا، اس سے اس کا سلیقہ مند اور تہذیب یافتہ ہونا ظاہر ہو رہا تھا ۔
اسے دیکھ کر مجھے لکھی پڑھی کتابوں کا کہا لکھا سب ایویں ہی لگ رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا تہذیب کتابوں کے علم کی محتاج ہے ؟

لاہور ایکسپو سنٹر جوہر ٹاؤن میں کتابوں کے میلے کا آج چوتھا دن تھا۔اتفاق کی بات یہ تھی کہ ہمارے ایک محترم اردو بلاگر ساجد بھائی نے فیس بک کے مشترکہ دوست اقبال مغل صاحب ، عاطف بٹ بھائی اور دیگر دوستوں کی دعوت کا پروگرام ترتیب دیا ہوا تھا۔جبکہ دوستوں کو دوپہر ایک بجے اکھٹے ہونے کی جگہ کا تعین ساجد بھائی نے نئی اور پرانی انارکلی کے درمیان حافظ جوس کارنر جسے عرف عام میں ‘‘ بھونڈی والا چوک ‘‘ بھی کہا جاتا ہے پر کیا تھا۔

ایک بجنے سے چند منٹ پہلے میں ‘‘ بھونڈی والا چوک ‘‘ پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ساجد بھائی اور اقبال مغل بھائی سر جوڑے آپس میں رازو نیاز میں مصروف تھے ۔سلام دعا کے بعد میں نے عاطف بٹ صاحب کا پوچھا تو ساجد بھائی کا کہنا تھا کہ انہیں شادی کے سلسلہ میں جانا پڑ گیا ہے اس لئے ان کا آنا نہیں ہو گا۔۔۔ تھوڑی دیر ہم نے ادھر بیٹھ کر باتیں کی اور پھر اس ڈر کی وجہ سے وہاں سے اٹھ گئے کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا ۔۔۔۔۔۔۔ ویسے یہ علیحدہ بات ہے کہ سب کو پتہ ہے کہ ‘‘ اسی ایڈے چنگے وی نہی ‘‘ ہم اتنے اچھے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

پرانی انارکلی کے بہترین ہوٹل یاسر بروسٹ میں ساجد بھائی نے ہماری تواضع مٹن کڑاہی سے کی ۔اس کے بعد طے یہ پایا کہ ایکسپو سنٹر میں کتابوں کے میلے میں جایا جائے اور وہاں سے ادبی کتابوں سمیت علم کے خزانے خریدے جائیں اور ہم بھی لوگوں کو پڑھے لکھے اور ادب و آداب والے نظر آئیں تاکہ ہم سے کسی کی بے ادبی نہ ہو ۔

جب ہم کتابوں کے اس میلے میں پہنچے تو واقع میں وہاں ایک خوبصورت میلہ سجا تھا۔رنگ برنگے آنچل چاروں طرف لہرا رہے تھے ، زیادہ تر سٹالز میں لڑکیاں براجمان تھیں ۔ہم تینوں اس میلے میں ایسے پھرنے لگے جیسے انسانوں کے جنگل میں عرصہ دراز سے بندھے ہوئے بکروں کی رسی کو کھولا گیا ہو ۔

ہم نے کتابوں کے اس میلے میں بہت سی ادبی اور علمی کتابوں کو کھنگالا ، کبھی اس سٹال کی طرف جا اور کبھی اس طرف ۔۔۔ لوگوں کو بھی دیکھا ۔۔۔ لوگ کتابوں کوکم اور آس پاس کو زیادہ دیکھ رہے تھے ۔غرض ایکسپو سنٹر کے دونوں ہال ہم نے کھنگال مارے ۔۔۔۔کتابیں تو بہت سی تھیں ۔۔۔۔ مگر ہمیں نہ علم ملا نہ ادب ۔۔۔۔۔

مکمل تصاویر دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

[gallery link="file" ids="1844,1845,1846,1847,1848,1849,1850,1851,1852,1853,1854,1855,1856,1857,1858,1859,1860,1861,1862,1863,1864,1865,1866,1867,1868,1869,1870,1871,1872,1873,1874,1875,1876,1877,1878,1879,1880,1881,1882"]

جمعہ، 6 فروری، 2015

لائن میں لگنے سے پہلے لائن پر آجائیں

اینڈرائیڈ فون یا ٹیب میں ویسے تو بہت سے اہم اور کمال کے ایپ ہیں مگر کچھ ایپ ایسے ہیں جو مفت ہوتے ہوئے اپنی افادیت میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ان میں ایک ایپ لائن میسینجر کا بھی ہے ۔۔۔ کہنے کو تو لائن مسینجر ہے مگر ہم اسے چھوٹا فیس بک کہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔اس میسینجر میں تحریری پیغام رسانی کے علاوہ صوتی پیغام رسانی یعنی آڈیو پیغام ، ویڈیو پیغام ، تصاویر وغیرہ کے فیچر بہت اچھے ہیں ۔اس کا پوری دنیا میں مفت کال کرنے کا فیچر تو بے حد کمال کا ہے کیونکہ اس کی آواز ایک تو کٹتی نہیں ہے دوسرا آپ اس سے اپنے پیاروں سے گھنٹوں بات کر سکتے ہیں ۔۔۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام سہولیات بالکل مفت ہیں ۔

آپ اس سے ایک انسان سے علیحدہ چیٹ کے علاوہ گروپ چیٹ کے علیحدہ علیحدہ گروپ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔۔۔ یعنی یہ لائن مسینجر اسکول کالجز اور کاروباری حضرات کے لئے بھی بے حد مفید ہے۔

اس میں فیس بک کی طرح آپ اپنی وال پر کوئی بھی تحریر ، فوٹو ، آڈیو ، ویڈیو شئیر کر سکتے ہیں جو کہ آپ کے ایڈ کئے گئے تمام دوستوں کو جائے گی اور اگر آپ کوئی چیز مخصوص دوستوں کو بھیجنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے ۔

آجکل لائن میسنجر پر تمام اہم لوگوں نے اپنے اکاؤنٹ بنانے شروع کر دئے ہیں ۔۔۔ جیسا کہ پاکستان کا آفیشل اکاؤنٹ لائن پر موجود ہے ایسے ہی تمام مشہور اداروں کے علاوہ مشہور شخصیات نے بھی لائن پر ڈیرہ جمانا شروع کر دیا ہے ۔۔

نیچے لائن میسنجر کے بارے میں آپ کی سہولت کے لئے تصویری معلومات پیش کی جارہی ہیں جس سے آپ کو اسے سمجھنے اور استمال کرنے میں مزید آسانی ہو گی ۔


گوگل پلے سٹور میں جائیں اور اگر آپ کے پاس آئی فون ہے تو ایپل سٹور میں جائیں وہاں بھی لائن میسنجر کی مفت سہولت موجود ہے وہاں سے لائن میسینجر انسٹال کرلیں۔۔انسٹال ہونے کے بعد اسے اوپن کریں۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




نیو یوزر پر کلک کریں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



یہاں سے اپنے ملک کا نام تلاش کر کے کلک کرکے اس پر کلک کر دیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



ملک کے نام پر کلک کرنے سے پہلے خانے پر آپ کے ملک کا نام آ جائے گا ۔۔۔ دوسرے خانے میں اپنا موبائل فون نمبر لکھ کر نیکسٹ کر دیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



یہاں ان کے قواعد و ظوابط لکھے ہوئے ہیں جسے آپ تسلم کر کے آگے جائیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



یہاں وہ آپ کے موبائل نمبر کی تصدیق کے لئے آپ کے موبائل پر میسیج بھیجیں گے جس میں وہ کوڈ لکھا ہوگا جو آپ نے آگے درج کرنا ہے ۔۔۔۔اول تو وہ کوڈ خود ہی درج ہو جاتا ہے اگر بالفرض نہ ہو تو آپ اسے خود لکھ دیں ۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




یہاں آپ اپنی سہولت کی خاطر ان کو نشان لگائیں یا نہ لگائیں ۔اس کے بعد اسے اوکے کر دیں ۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



یہاں آپ نے اپنا نام اور ای میل رجسٹرڈ کروانا ہے ۔اگر کسی کا ای میل ایڈریس نہیں بنا ہوا تو وہ اسے بعد میں بھی رجسٹرڈ کروا سکتا ہے۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




رجسٹرڈ ہونے کے بعد آپ کو لائن کی جانب سے تصدیق کے لئے ایک ای میل بھیجی جائے گی جس میں ایک کوڈ نمبر بھیجا جائے گا جو آپ نے یہاں درج کرنا ہے ۔اس کے بعد آپ رجسٹرڈ کے بٹن پر کلک کر کے اوکے کر دیں۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں






آپ کے موبائل فون پر لائن میسینجر کا ایک آئی کون بن گیا ہوگا ۔۔ اس کو کلک کریں ۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



لائن مسینجر آپ کے سامنے کھل جائے گا ۔۔۔۔ میرے یہاں سارے ایڈ ہیں آپ کا شروع میں خالی ہوگا ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



اوپر دائیں ہاتھ ‘‘ مور ‘‘ کے نشان پر آپ جب کلک کریں گے تو یہاں سے آپ اپنے دوستوں کو ایڈ کر سکتے ہیں ۔۔۔ اپنی پروفائل ترتیب دے سکتے ہیں ۔۔ آفیشل اکانٹ والوں کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں ایڈ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



اپنے دوست و احباب سے انفرادی طور پر آپ ٹیکسٹ میسیج کے علاوہ ، تصاویر ، آڈیو میسیج ، ویڈیو میسیج ، مفت کال کے بھی فوائد حاصل کر سکتے ہیں ۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں





میوزک چینل ہوں یا کہ نیوز چینل آپ یہاں ان کی ویڈیو وغیرہ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔گھبرائیے گا نہیں یہ پاکستان کا ہی اے آر وائی میوزک چینل ہے بس یہ ہے کہ پاکستان نے اب ترقی کر لی ہے۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




یہ آپ کا ایسا انفرادی وال ہو گا یعنی ٹائم لائیں ہو گی جہاں آپ جو بھی شئیر کریں گے وہ سب دوستوں کو جائے گا جو آپ کی لسٹ میں ہوں گے ۔۔دایہں ہاتھ کونے میں اوپر تیر کے نشان والی جگہ پر آپ کلک کر کے اپنی وال پر پیغام لکھ سکتے ہیں۔ نیچے تصویر دیکھیں




یہاں چیٹ پر کلک کر کے آپ انفرادی طور پر اپنے ایڈ کئے ہوئے تمام لوگوں یا آفیشل اکاؤنٹ والوں میں سے کسی کو بھی کلک کر کے اس سے چیٹ کر کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں



اوپر جہاں چوکور ڈاٹس پر تیر کا نشان ہے وہاں کلک کر کے آپ اپنا گروپ تشکیل دے سکتے ہیں ۔۔۔۔ نیچے تصویر دیکھیں




خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں