ہفتہ، 28 مارچ، 2015

یمن کے حوثی دہشت گرد کون ہیں ؟

کہا یہ جارہا ہے کہ یمن کے حوثی قبائل چونکہ اہل تشیع مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے یمن کی جنگ شعیوں کے خلاف ہورہی ہے۔اس بات میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے ۔اطلاعات کے مطابق یمن کے حوثی دہشت گرد قبائل میں شعیہ بڑی تعداد میں موجود ضرور ہیں مگر ان حوثی قبائل میں سنی دہشت گردوں اور سیکولر دہشت گردوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے یمن کی معصوم عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔

یمن کی آبادی 25 ملین کے قریب ہے اور اس میں حوثی قبائل کی تعداد تقریباً 30 سے 35 فیصد کے لگ بھگ ہے جن میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگجوؤں کی تعداد نوے ہزار سے زائد بتائی جارہی ہے ۔

اگر ہم مسلم دنیا کا سروے کریں تو شیعہ آبادی کل مسلم آبادی کا 10 سے 12 فیصد کے قریب ہے ۔ایران شیعوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ عراق وہ دوسرا ملک ہے جہاں شیعوں کی تعداد اس وقت سب سے زيادہ ہے ۔جبکہ ایرانی محقق ولی نصر شعیوں کی تعداد کے بارے میں پاکستان کو دوسرا بڑا ملک قرار دیتا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

پاکستان کی آبادی اس وقت تقریباً 19 کروڑ سے زائد ہے جس میں 8 سے 10 فیصد شعیہ ہیں جبکہ 3 سے 5 فیصد کی آبادی اقلیت پر مشتمل ہے جن میں عیسائی، ہندو ، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہيں ۔ ایران، عراق ، آذر بائیجان اور بحرین میں اہل تشیع اکثریت میں موجود ہیں جبکہ لبنان، ہندوستان، یمن ، کویت ، عرب امارات ،ترکی اور بعض دیگر ممالک میں یہ ایک بڑی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔

جمعرات، 26 مارچ، 2015

سعودیہ کی جنگ ہماری اپنی جنگ ہے

سعودیہ کی یمن میں دہشت گرد حوثی قبائل کے خلاف جنگی کاروائی کا آغاز ہوتے ہی پاکستان نے بھی اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھرپور طریقے سے سعودی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔پاکستان کے اس اعلان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔سعودیہ ہمارا برادر ملک ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے ۔پاکستانی حکومت اور اس کی عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دے ۔

بعض لوگ دہشت گرد حوثی قبائل کا شعیہ مذہب ہونے کی وجہ سے اسے شعیہ سنی کی جنگ کہہ کر فرقہ واریت کی ہوا پھیلانا چاہ رہے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو یہ جنگ اہل تشیع کی خلاف نہیں ہے بلکہ یہ جنگ باغی دہشت گردوں کے خلاف ہے اور دہشت گردی کا کوئی مذہب یا ملک نہیں ہوتا۔یہ دہشت گرد یمن پر قبضہ کرکے ایک تو سعودیہ کی تیل کی رسد توڑنا چاہتے ہیں تاکہ سعودیہ کو معاشی طور پر تباہ کیا جاسکے دوسرا یمن میں قبضے کے بعد سعودیہ میں اپنے مطلب کی حکمرانی چاہتے ہیں ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ جنگ سعودی عرب میں خانہ جنگی کو ہوا دینے ، اس کے وسائل پر قبضہ اور مسلمانوں کے قبلے پر قبضے کی جنگ ہے۔۔۔کچھ بیرونی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے اکھٹی ہو بیٹھی ہیں جو مسلمانوں کے خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی متمنی ہیں ۔اس لئے اس دہشت گردی کو روکنا سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ اس کے دوست ملکوں کا بھی فرض ہے ۔پاکستان نے ایسے مشکل وقت میں سعودی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر کے بلاشبہ دانش مندی اور مسلمان دوستی کا ثبوت دیا ہے ۔

یاد رہے کہ امریکہ نے پچھلے دس سالوں کے دوران دہشت گرد حوثی قبائل کا سر کچلنے کے لئے یمن حکومت کی بھرپور مدد کی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی خصوصی افواج خفیہ طور پر یمن کی فوج کو دارالحکومت صنعا میں تربیت فراہم کرتی رہی ہیں جبکہ امریکہ نے دہشت گرد حوثی قبائل پر متعدد ڈرون حملے بھی کیے تھے ۔

ادھر اگر ہم ملک یمن پر ایک نظر ڈالیں تو یمن ایک قدیم تہذیب کا امین ملک ہے اور مشرق وسطی میں یمن عربوں کی اصل سر زمین ہے ۔یمن کا محل وقوع انتہائی اہم ہے ۔اس کے دارالحکومت کا نام صنعاء ہے ۔اس کی آبادی تقریباً 20 ملین کے قریب ہے ۔ یہ ملک خلیج فارس پر خام تیل کی سپلائی کے راستے پر واقع ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب ہے، اور مغرب میں بحیرہ احمر ہے۔ ۔قدیم دور سے یمن مصالحوں کی تجارت کے لیے مشہور تھا۔یمن کے دائیں جانب باب المندب ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو افریقہ سے جدا کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 25,000 سے زائد بحری جہاز بحرِ ہند اور بحیرہ احمر سے گزرتے ہیں۔

جمعرات، 19 مارچ، 2015

ہم کب سدھریں گے ؟

ہیلو ۔۔۔ہیلو۔۔۔ ملک صاحب
جی جی بول رہا ہوں ۔۔ حکم کریں
ملک صاحب بیسن کے دس توڑے چاہیئں ۔۔۔ کیا بھاؤ ہے ؟ ( توڑہ بوری سے چھوٹا ہوتا ہے جس میں وزن تقریباً پچاس کلو کے قریب ہوتا ہے) ۔۔
ستائیس سو 2700 روپے کا مل جائے گا
نہ ملک صاحب نہ ۔۔۔بائیس سو کا لگاؤ اور دس توڑے بھیج دو
نہیں جناب ممکن نہیں ہے ۔۔اتنے کا نہیں ہوسکتا
ملک صاحب جانے دیں ہم آپ کے پرانے گاہک ہیں
نہیں جناب اتنے کا نہیں ہوسکتا ۔۔ دال چنا آج کل مہنگی ہوگئی ہے اور ہم نے اس میں کون سے زیادہ کمانے ہیں۔۔زیادہ سے زیادہ دوسو روپے توڑے کے کمالیں گے۔۔جس میں سارے خرچے ڈال کر آپ کی دکان تک مال بھی پہنچانا ہے۔
چھوڑیں ملک صاحب آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔ تھوڑی سی مکئی مکس کردو نا اور 2200 میں دس توڑے بھیج دیں
نہیں بھئی میں ایسا کام نہیں کرتا ۔۔۔ ویسے اگر مکئی بھی مکس کروں تو تب بھی اتنے کا نہیں ہوسکتا
تو ملک صاحب تھوڑی گندم بھی ڈال دیں ۔۔۔ بس اب کچھ نہ بولیں ۔۔۔ جلدی سے دس توڑے بھجوا دیں ۔۔۔ دوکان پر بالکل بھی بیسن نہیں ہے ۔
او جناب کیا کرتے ہو ۔۔۔ گندم ملے بیسن سے جو کڑھی بنائے گا لئی کی طرح کی بنے گی ۔۔۔ اس سے آپ کی دوکانداری خراب ہوگی
ملک صاحب کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ آپ بس جلدی سے دس توڑے بنا کر بھیجیں
اچھا ۔۔۔ مگر مکس کر کے بھی اتنے کا نہیں ہوگا 2300 روپے لگا دوں گا۔۔۔اگر منظور ہو تو بتا دیں
ٹھیک ہے ملک صاحب بھیج دیں مگ یہ مال مجھے آج شام تک مل جانا چاہئے
اچھا ٹھیک ہے میں بھیجتا ہوں ۔۔۔ خدا حافظ

یہ گفتگو کچھ دن پیشتر کی ہے جب میں ایک چھوٹے سے کاروباری ڈاکو کی فیکٹری میں بیٹھا ہوا تھا۔کاروباری ڈاکو سے اپنی پرانی یاد اللہ ہے ( حالانکہ وہ مسلمان نہیں ہے ) جب یہ فون آیا تو اس نے جان بوجھ کر مجھے سنانے کے لئے اپنے فون کے سپیکر کو آن کر دیا تھا۔۔۔۔ شاید وہ مجھے جتانا چاہتا تھا کہ دیکھ لو مسلمانوں کا حال ۔۔۔