منگل، 30 جون، 2015

روزہ خور کا پہلا روزہ

ماضی کے جھروکوں میں جانے کے لئے بس آنکھیں بند کرنے کی دیر ہوتی ہے تو آپ نے جہاں جانا ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں ۔صفدر گھمن صاحب نے ماضی کے جھروکوں سے اپنے پہلے روزے کا احوال لکھ کر ساتھ ہی دوسروں کو بھی تحریک دے دی ۔ کوثر بہن اور نعیم خاں نے بھی اپنی اپنی خوبصورت یادوں سے روداد پیش کی ۔اب جانے نعیم خاں صاحب کو ہمارے روزہ خور کے بارے میں کس نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں بھی کہہ ڈالا ۔۔۔۔۔ شاید انہیں طاہر القادری کی طرح عالم رویا میں کسی نے بتایا ہوگا ۔۔۔۔

میں جب اپنے ماضی میں جھانکتا ہوں تو مجھے ایک ایک لمحے کی بات یاد آتی ہے ۔ میں پانچویں کلاس میں تھا جب میں نے پہلا روزہ رکھا ۔سخت گرمیوں کے دن تھے ۔ہر دس منٹ بعد میں پانی کی ٹونٹیوں پر جا کر کبھی سر میں پانی ڈالتا تھا اور کبھی منہہ میں پانی لے کر کلیاں کرتا جاتا تھا۔افطار تک وقت کیسے گزرا ۔۔۔ بس مت پوچھئے ۔۔۔۔ بس اس ایک روزے کے بعد مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بہت عرصہ تک روزہ نہیں رکھا۔

1986 کو میری شادی ہوئی تب تک اور شادی کے بعد بھی میں نے کسی رمضان میں پندرہ یا سولہ روزوں سے زیادہ کبھی نہیں رکھے وہ بھی صرف ایک یا دو دفعہ ۔۔۔ ورنہ کبھی کسی رمضان میں دو رکھ لئے کسی میں تین ۔۔۔البتہ میں سحری بڑے اہتمام سے کرتا تھا یعنی پراٹھے وغیرہ کھا کر صبح پھر ناشتہ پھڑکا دینا۔۔۔جہاں تک نماز کی بات ہے تو جمعہ ضرور پڑھتا تھا مگر وہ بھی باقاعدہ نہیں ۔

1992 میری زندگی کا ایسا سال ہے جس میں اللہ کی رحمت سے میں بالکل تبدیل ہوگیا ۔۔۔ اسی سال میں نے الحمدللہ حج کی سعادت حاصل کی اور بعد ازاں آج تک الحمدللہ کبھی روزہ اور نماز نہیں چھوڑی ۔۔۔
میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دیتا ہے کہ میں روزہ رکھوں اور نماز پڑھوں ۔۔۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ معاف کردے اور مجھے بخش دے ۔ اور میں جب تک زندہ رہوں مجھے صحت و تندرستی کے ساتھ توفیق دے کہ میں اس کی عبادت کرتا رہوں ۔آمین

پیر، 15 جون، 2015

پاک ٹی ہاؤس اور ہیر رانجھا

اس تحریر کو آپ آڈیو میں بھی سن سکتے ہیں

[audio mp3="http://snaji.com/wp-content/uploads/2015/06/pak-tea-house-lhr.mp3"][/audio]

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے جو کہ نیلا گنبد کے قریب اور انار کلی بازار کے باہری حصے کی جانب واقع ہے ۔پاک ٹی ہاؤس کے سامنے کی جانب پنجاب یونیورسٹی ہے ، دائیں جانب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ہے اور بائیں جانب اے جی آفس کی جانب جانے والی سڑک نظر آتی ہے اور اگر ہم پیچے کی جانب دیکھیں تو وائی ایم سی کی پرانی بلڈنگ ہمیں کھڑی نطر آئے گی ۔

کہا یہ جاتا ہے کہ 1940 میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا تھا۔۔۔ تقریباً چار سال اس چائے خانے کو چلانے کے باوجود بھی بوٹا سنگھ کی اس چائے خانے سے آمدن نہ ہونے کے برابر تھی جس سے بوٹا سنگھ کا دل اس چائے خانے سے اچاٹ ہو گیا اور وہ اس کو بیچنے کے بارے میں سوچنے لگا ۔اس زمانے میں بوٹا سنگھ کے چائے خانے میں دو سکھ بھائی جو گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبا ر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے، اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کو بیچ دیا ۔


لاھور کے مشہور چائے خانوں میں سب سے مشہور چائے خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوں، نقاد کا مستقل گڑھ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کیا کرتی تھیں۔


اس زمانے میں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سوائے چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا اگر شکوہ کرتے تھے تو محبوب کی بے وفائی کا۔۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنی شاعری میں ۔۔۔



سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے

ساحر لدھیانوی بھارت جا چکے تھے اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام کما رہے تھے۔۔ اس وقت کے شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں

پاک ٹی ہاؤس کئ نشیب و فراز سے گزرا اور کئ مرتبہ بند ہو کر خبروں کا موضوع بنتا رہا
عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڈ گئ اور اھل قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا

دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ "میرا ٹی ہاؤس میں گزارہ نہیں ہوتا میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں" ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجائے ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جائے کیونکہ اس چائے خانے میں کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک ادبی محفلیں جماتے رھے
ادیبوں اور شاعروں نے اس چائے خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے لیکن 6 سال کے بعد مئ 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا


میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ 2012 کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے ۔

آجکل پاک ٹی ہاؤس میں ادبا اور شعرا تو خال خال ہی نظر آتے ہیں البتہ دوپہر گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک لیلی مجنوں ، شیریں فرہاد ، سسی پنوں اور ہیر رانجھا اپنی اپنی سرگوشیوں میں مشغول رہتے ہیں ۔

https://soundcloud.com/urduhome/pak-tea-house

.....................

اتوار، 14 جون، 2015

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے

وہی خدا ہے ۔۔۔۔ مظفر وارثی کی خوبصورت آواز میں سنئے

[audio mp3="http://snaji.com/wp-content/uploads/2015/06/wohi-kjuda-hai.mp3"][/audio]

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آ رہا ہے
وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق، وہی ہے مغرب
سفر کريں سب اُسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دِکھا رہا ہے
وہی خدا ہے
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں
وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے
وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے سماں پہ بھی
وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہ لاشعور میں جگمگا رہا ہے
وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا
وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیارِ بشر پے پہرے بٹھا رہا ہے
وہی خدا ہے
کسی کو تاج وقار بخشے،کسی کو ذلتِ کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پے مہر قدرت لگا رہا ہے
وہی خدا ہے
سفید اسکا، سیاہ اسکا، نفس نفس ہے گواہ اسکا
جو شعلہ جاں جلا رہا ہے، بجھا رہا ہے
وہی خدا ہے


https://soundcloud.com/urduhome/wohi-kjuda-hai

...................

ہفتہ، 13 جون، 2015

پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو

[audio mp3="http://snaji.com/wp-content/uploads/2015/06/pak-watan.mp3"][/audio]


یہ آڈیو پیغام ہمارے فیس بک کی انتہائی محترم ہستی جناب خالد نعیم الدین کی جانب سے ہے جو میرے اور آپ سب پاکستانیوں کے لئے ہے ۔اس پیغام کے کچھ درمیانی حصے کو میں نے تحریر میں لکھ دیا ہے ۔۔۔ مگر جو لطف اور جوش و ولولہ اس پیغام کو سننے میں ہے وہ تحریر میں ہر گز نہیں ۔

اسی خاک وطن سے اس جہاں میں راج ہے اپنا
اسی دھرتی کے صدقے میں یہ تخت و تاج ہے اپنا
اسی کو زندگی سمجھو اسی پر زندگی وارو
پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو

بقاء کی جو ضمانت ہے ہمارے حوصلوں تک ہے
ہمارے گھر کی مظبوطی ہمارے پربتوں تک ہے
ہماری شان آزادی ہماری سرحدوں تک ہے
غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں اس پار شہزادو
پاکستان سے باہر ہمارا کچھ نہیں یارو


اگر یہ آڈیو ساؤنڈ کلاؤڈ پر بھی سن دسکتے ہیں ۔۔۔ ساؤنڈ کلاؤڈ پر سننے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں

https://soundcloud.com/urduhome/pak-watan

...............

منگل، 9 جون، 2015

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں قیصرانی بھائی کے ساتھ ایک تعزیتی نشست

زندگی میں انسان کو بہت سے لوگ ملتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بے غرض اور بے لوث ہوتے ہیں ۔ منصور محمد المعروف قیصرانی بھائی بھی انہیں میں سے ایک شخصیت ہیں ۔قیصرانی بھائی سے میری شناسائی تب سے ہے جب اردو محفل نئی نئی وجود میں آئی تھی ۔ زیادہ یاد اللہ ان سے تقریباً چار سال پہلے ہوئی ۔انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کی ترویج میں قیصرانی بھائی کا نام بھی صف اول کے مجاہدوں میں شمار ہوتا ہے اور اردو بلاگنگ کی تاریخ میں قیصرانی بھائی کا نام شروع کے چند بلاگرز میں آتا ہے۔

پچھلے دنوں قیصرانی بھائی کی والدہ ماجدہ کا قضائے الہی سے انتقال ہوگیا تھا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔ اپنی والدہ کی وفات کی وجہ سے وہ پاکستان تشریف لائے ۔ میں ، ساجد بھائی اور عاطف بٹ بھائی تعزیت کرنے کے لئے ان کے گھر گئے ۔بعد ازاں گزشتہ روز پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جہاں فاتحہ خوانی کی گئی اور دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ والدہ محترمہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔

پاک ٹی ہاؤس لاہور کی اس تعزیتی نشست میں قیصرانی بھائی کے ساتھ ساجد شیخ ، عاطف بٹ ، محمد شاکر عزیز ، بابا جی ، حسیب نذیرگل اور خاکسار نجیب عالم نے شرکت کی ۔

تمام تصاویر آپ گوگل میں میری پروفائل سے بھی ڈانلوڈ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

[gallery link="file" ids="2034,2033,2032,2031,2030,2025,2026,2027,2028,2029,2024,2020,2021,2022,2023,2010,2011,2012,2013,2014,2009,2008,2007,2006,2005,2001,2003,2004,2015,2016,2017,2018,2019"]

اتوار، 7 جون، 2015

ایویں مفت کا تعصب

ذہن بڑی کپّتی اور متعصبانہ قسم کی شے ہے .....
نہ کسی سے جائیداد بانٹنی ہے , نہ کسی سے کچھ لینا دینا .....
ایویں مفت کا تعصب ۔۔۔۔

بندہ پوچھے بھئی ۔۔۔.کاہے کا غرور , کاہے کی اکڑ
زرا سوئی تو چبھو کے دیکھ خود کے جسم میں ۔۔۔۔۔

یہی کپّتا ذہن داد و تحسین کا بھی متمنی ہے....یہ جانتے ہوئے بھی کہ داد و تحسین کے ڈونگرے اُٹھانے والے لوگ کیا ہوئے ۔۔۔۔۔

اور یہی کپّتا ذہن جاہ و جلال کی بھی خواہش رکھتا ہے ۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جاہ و جلال والے بِنا کسی لاؤ لشکر کے کسی خستہ حال مقبرے میں اکیلے پڑے اپنے حساب کتاب کے منتظر ہیں ۔۔۔۔

سوچتا ہوں پھر تعصب , اکڑ , غرور کاہے کا ہے ۔۔۔۔
کیا کچھ ! بس میں ہے میرے ؟
اگر نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔
ایویں مفت کا تعصب

منگل، 2 جون، 2015

بلاگر بنیں مراثی نہ بنیں

پچھلے چند سالوں سے خبر گرم ہے کہ بلاگروں کی تحریریں فیس بکیے اور میڈیا والے دھڑلے سے چوری کرتے ہیں اور چوری بھی ایسے کرتے ہیں جیسے یہ اُن کی اپنی ذاتی جاگیر ہو۔
بابے عیدو سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے جو جواب دیا وہ میں یہاں حرف بہ حرف نقل کئے دیتا ہوں ۔۔۔۔ بابے عیدو کی تحقیق کے مطابق اصل میں جس بلاگرز کی تحریریں چوری ہوتی وہ بلاگ کی عین روح کے مطابق نہیں ہوتی ۔۔بابے عیدو کا کہنا یہ ہے کہ وہ تحریریں تہذیب کے دامن میں لپٹے ہوئے ایک مضمون یا کالم کی صورت ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی میڈیا والے کے مزاج اور اور ان کے اخبار کی پالیسی کے عین مطابق ہیں ۔اس لئے وہ ظالم لوگ ان تحریروں کو لے اُڑتے ہیں اور کسی بھی نسوانی نام سے ان کو اپنے اخبار کی زینت بنا کر بلاگر کی پیٹھ پر ٹھبہ لگانے میں دیر نہیں لگاتے ۔

اصل میں بلاگنگ ایک سوچ کا نام ہے اور سوچ جب بنا کپڑوں کے الفاظ میں ڈھلتی ہے تو سب کو ننگا کردیتی ہے اب اس ننگے پن کو ایک اچھے بلاگر نے اپنے اپنے انداز سے کپڑے پہنانے ہوتے ہیں ۔کوئی کم کپڑے پہناتا ہے تو کوئی زیادہ ۔اب اس ننگی سوچ کو کبھی بھی کوئی میڈیا والا چرا نہیں سکتا ۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایک بلاگر کی سوچ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے اور اس آواز کو جب وہ تحریر کے زریعہ سے لوگوں تک پہنچاتا ہے تو وہ اثر بھی رکھتی ہے ۔۔۔ میرے خیال میں ایک اچھے بلاگر کا تحریر کے قواعد و ضوابط یا تحریر کی حدود و قیود سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے ۔وہ اسی سوچ کو لکھے جو اس کے ذہن میں ہے اور جس کے متعلق وہ آگاہی دینا چاہتا ہے ۔

یاد رہے کہ بلاگرز پوری دنیا میں اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتے ہیں اور اسی لحاظ سے اردو بلاگرز کا بھی اپنا ایک قبیلہ ہے اور اس کی بھی دنیا میں اپنی ایک پہچان ہے ایک نام ہے ۔۔حال ہی میں دیکھا گیا ہے اردو بلاگرز میں بہت سے نئے لوگوں نے قدم رکھا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے ۔مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کچھ لوگ تحریر تو اچھی خاصی لکھ رہے ہیں مگر اپنی پہچان چھپا رہے ہیں ۔
بلاگر ایک آزاد منش اور ایک آزاد خیال انسان ہوتا ہے جسے اپنی پہچان چھپانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔ اگر آپ نے بلاگنگ کرنی ہے تو کھل کر کریں اور پہچان کے ساتھ کریں ۔یاد رکھئے چور بن کے سچی بات کا ڈھنڈورا کبھی نہیں پیٹا جا سکتا ۔

ایک بلاگر کو مراثی کی طرح کبھی بھی شاباشی کی چاہ نہیں ہونی چاہئے ، جو شاباشی کے لئے لکھتے ہیں وہ بلاگر نہیں مراثی ہیں اس لئے اگر آپ بلاگر ہیں تو اپنی سوچ کو تہذیب کی تحریر کے کپڑے ضرور پہنائیے ۔۔۔ اگر آپ اپنی ‘‘ میں ‘‘ کے لئے یا خود کو نمایاں کرنے کے لئے لکھنا چاہتے ہیں تو پھر میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ بلاگر نہیں مراثی بنئے کیونکہ مراثیوں کی آجکل میڈیا میں ویسے ہی بڑی مانگ ہے ۔۔۔