جمعہ، 24 نومبر، 2017

خراٹوں سے نجات کیسے پائی جائے

خراٹے لینا ایک ایسی بیماری ہے جس پر عام طور پر کسی کا دھیان نہیں جاتا جس کی وجہ سے آپ کے ساتھ سوئے ہوئے افراد کو کافی کوفت اٹھانی پڑتی ہے اور نہ ہی خراٹے لینے کو بظاہر ایک بیماری تسلیم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے تدارک کیلئے بھی کچھ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ لیکن خراٹے لینا ایک خطرناک عادت ہے جس سے سانس میں خلل پڑتا ہے۔ اور یہ دل کی بیماریوں کے خطرات کو بڑھا دیتی ہے لہٰذا اس کا علاج بھی ضروری ہے۔ خراٹے لینے سے نہ صرف دل کی بیماریاں جنم لیتی ہے بلکہ آپ کا شریک حیات اس عادت کی وجہ سے علیحدہ کمرے میں سونے تک مجبور ہو جاتا ہے اور آپ کے اذدواجی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ یہاں پر چند گھریلو ٹوٹکے بیان کئے گئے ہیں جن کی مدد سے اس بیماری سے نجات پائی جا سکتی ہے۔

نمکین پانی کے غرارے: خراٹے لینے کی عام وجہ ناک کا بند ہونا ہے اور یہ علامات اکثر سردیوں میں دیکھنے میں آتی ہےں اس کی دوسری بڑی وجہ ناک کی بڑھی ہوئی ہڈیاں، ناک میں انفیکشن اور سوجن ہو سکتی ہے جس کے نتیجہ میں خراٹے آتے ہیں۔ اس سے نجات کیلئے غرارے اور ناک میں نمکین پانی کا سپرے کیا جائے تو بیماری سے نجات مل سکتی ہے۔ ایک چوتھائی کپ پانی میں نمک ڈال کر ڈاپر کی مدد سے ناک میں سپرے کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔ سونے سے قبل یہ عمل کریں 5 دن کے اندر اندر مرض دور ہو جائے گا۔

پودینے کا تیل: پودینے کا تیل سوزش ختم کرنے میں بہت ہی معاون دوا ہے اور یہ ناک کی اندرونی پرت کی جھلیوں میں سوزش کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے کیلئے انگلی پر چند قطرے پودینے کے تیل کے ڈالیں اور ناک کے دونوں اطراف میں زیریں جگہ پر لگائیں۔ یا پھر پانی میں چند قطرے پودینے کے تیل کے ڈال کر اس کی بھاپ لیں۔ پانی میں پودینے کا تیل ڈال کر غرارے کرنے سے بھی مرض دور ہوگا۔

گھی: قدیم روایتی طریقہ علاج کے مطابق اس مرض میں گھی کا استعمال بھی بہت سود مند ہے جو خراٹوں سمیت کئی بیماریوں کا علاج ہے۔ جو صدیوں سے اس مرض سے نجات دلانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گھی کے چند قطرے ناف میں لگانے سے بھی مرض دور ہوتا ہے رات کو سونے کے قبل چند قطرے گھی ناک میں ڈال لیں مرض دور ہو جائے گا۔

زیتون کا تیل: زیتون کے تیل کے کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک خراٹوں سے نجات بھی ہے۔ ناک کا حلق میں ضرورت سے زیادہ تناﺅ بھی خراٹوں کی بڑی وجہ ہے۔ زیتون کے تیل کا استعمال بھی خراٹوں سے نجات کیلئے روایتی علاج کے طور پر ہزاروں برس سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ تیل خراٹوں سے نجات کے علاج طالو کے پٹھوں کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ زیتون کے تیل کے دو چمچ طالو میں لگانے سے مرض دور ہو جائے گا۔

چائے: عموما سانس کی بیماریوں اور الرجی کی وجہ سے سانس کی نالی میں سوزش ہو جاتی ہے جو خراٹوں کی وجہ بنتی ہے ایسی صورتحال میں گزنا یا بچھو بوٹی بھی بہت معاون ثابت ہوتی ہے جو سانس کی نالی کی سوزش کو ختم کرتی ہے۔ اس کو استعمال کرنے کیلئے بوٹی کے چند پتے چائے میں ڈال لیں یا پرتن میں خشک پتے ڈال کر ان پر کھولتا ہوا پانی ڈالیں اور 5منٹ بعد استعمال کریں۔ یہ بوٹی بھی مرض دور کرے گی۔

یوکلپٹس : یوکلپٹس کا تیل بلغم کو ختم کرنے اور سانس کی رکاوٹ کو دور کرنے میں ایک اہم دوا تصور کیا جاتا ہے جو قدرتی طور ر ناک کی سوزش کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا بہترین طریقہ علاج اس کی بھاپ لینا ہے۔ یوکلپٹس کے 2 سے 4 قطرے گرم پانی میں ڈال کر بھاپ لیں۔

پودینے کی چائے: پودینے کا تیل خراٹوں کیلئے مفید علاج تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ پودینے کی چائے بھی پھپھڑوں کی چپچپاہٹ دور کرتی ہے اور اس میں شامل مینتھال سانس کی نالی کی سوزش کو ختم کرتا ہے جبکہ پودینے میں وٹامن، معدنیات اور منٹ بھی شامل ہیں۔ رات کو سونے سے قبل 8 سے 10پتے پودینے کے لئے انہیں ابال کراستعمال کریں۔

اس کے علاج ادرک، لہسن کا استعمال اور سونے کے طریقہ کار اور اوقات میں تبدیلی لا کر بھی خراٹوں کی بیماری سے نجات مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزن بڑھنا بھی خراٹوں کی بڑی وجہ ہو سکتا ہے۔ وزن کو کنٹرول کر کے خراٹوں میں کمی لائی جا سکتی ہے

جمعرات، 23 نومبر، 2017

داستان ایک برہنہ لڑکی کی

ڈی آئی خان کا المناک واقعہ سندھ یا پنجاب میں وقوع پذیر ہوتا تو نہ جانے میڈیا میں کیا قیامت برپا ہوتی لیکن چونکہ یہ واقعہ اس خیبرپختونخوا میں رونما ہوا ہے جہاں کے حکمران لاڈلے سیاستدان ہیں ، اس لئے سب کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں ۔

یہ سانحہ اندرون سندھ ، جنوبی پنجاب یا بلوچستان میں نہیں بلکہ اسی خیبر پختونخوا میں وقوع پذیر ہوا جس کے بارے میں پی ٹی آئی کی قیادت یہ دعوے کر رہی ہے کہ وہاں پولیس کو غیرسیاسی بنادیا گیا ہے۔ 27اکتوبر 2017ء کو یہ واقعہ اس ڈی آئی خان کے اس علاقے میں رونما ہوا جہاں ایم پی اے اور ایم این اے بھی پی ٹی آئی کے ہیں اور وزرا بھی ۔

دن دہاڑے ایک معصوم اور یتیم بچی کو برہنہ کرکے گلیوں میں گھمایا گیا اور ساتھ اس معصوم کی ویڈیو بھی بنائی گئی ۔ مظلوم خاندان تھانے پہنچا تو ایس ایچ او نے حکمران خاندان کے قریب سمجھے جانے والے مبینہ ملزم سجاول کو بچانے کے لئے الٹا متاثرہ خاندان کو ڈرایا دھمکایا اور ملزمان کے سرغنہ کے کہنے پر متاثرہ خاندان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی ۔

اس ظلم کی کہانی اسی روز سوشل میڈیا پر عام ہوئی لیکن عمران خان صاحب حرکت میں آئے اور نہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے ہیلی کاپٹر کو حرکت دی ۔ روزانہ ٹی وی ٹاک شوز میں گلے پھاڑ پھاڑ کر انصاف انصاف کے نعرے لگانے والے خیبر پختونخوا کے کسی ایم این اے کو لب کشائی کی توفیق ہوئی اور نہ کسی ٹی وی چینل کو آواز اٹھانے کی ہمت۔ ہمت ہوئی تو بس پی ٹی آئی کے ایک مغضوب ایم این اے داور کنڈی کو ہوئی ۔ وہ متاثرہ لڑکی کے گھر پہنچے تو انہوں نے اپنا دکھڑا سناتے ہوئے یہ بھی بتادیا کہ ملزم سجاول کی سرپرستی مبینہ طور پوصوبائی وزیر علی امین گنڈاپور کے قریبی عزیز کررہے ہیں ۔ داورکنڈی نے ایس ایچ او کے ظلم کے خلاف اعلیٰ پولیس حکام سے رابطہ کیا لیکن چونکہ دعوئوں کے برعکس تمام ایس ایچ اوز، خان صاحب اور وزیراعلیٰ صاحب کے چہیتے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی مرضی سے لگائے گئے ہیں اور چونکہ داورکنڈی چہیتے نہیں بلکہ مغضوب ہیں ، اس لئے وہ ایس ایچ او کا کچھ نہیں بگاڑسکے ۔ اس لئے انہوں نے عمران خان صاحب کو خط تحریر کرکے پوری صورت حال بتادی (خط کی کاپی میرے پاس موجود ہے)لیکن پھر بھی ایس ایچ او کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی اور نہ متاثرہ خاندان کی داد رسی کے لئے صوبائی حکومت حرکت میں آئی ۔ چنانچہ12نومبر کو داور خان کنڈی میرے’’ جرگہ‘‘ میں تشریف لائے اور میرے سوالات کے جواب میں سانحہ کی تفصیل بیان کردی ۔ حکومت خیبر پختونخوا کا موقف جاننے کے لئے میں نے صوبائی وزیرعلی امین گنڈاپور کو زحمت دی ۔ سچ یہ ہے کہ داورکنڈی نے اپنی طرف سے کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ جو کچھ انہوں نے متاثرہ خاندان سے سنا تھا، وہی بیان کردیاالبتہ علی امین گنڈاپور سے متعلق ماضی کے ان الزامات کا بھی اعادہ کیا جو دو سال سے وہ اور پی ٹی آئی کے بعض دیگر ممبران اسمبلی لگاتے آرہے ہیں ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وقوعہ کے دن (27اکتوبر) اور داور خان کنڈی کے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں اظہار خیال کے دن (12نومبر ) تک دو ہفتے گزر چکے تھے ۔ ان دو ہفتوں میں نہ تو متاثرہ خاندان کے خلاف غلط درج کی گئی ایف آئی آر مکمل طور پر واپس لی گئی تھی ، نہ ملزمان کا سرغنہ سجاول گرفتار ہوا تھا، نہ عمران خان صاحب متاثرہ خاندان کی داد رسی کے لئے گئے تھے ، نہ شادیوں کے لئے جانے کی خاطر سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے والے پرویز خٹک نے نوٹس لیا تھا اور نہ اس علاقے کے خان صاحب کے چہیتے وزیر علی امین گنڈا پور نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لئے وہاں جانے کی زحمت گوارا کی تھی۔ اور تو اور ان دو ہفتوں میں عمران خان صاحب، ان کے کسی ترجمان یا پھر وزیراعلیٰ نے مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا تھا۔ ریحام خان صاحبہ کے متاثرہ خاندان کے پاس پہنچ جانے اور میرے ٹی وی پروگرام کے اگلے روز ایس ایچ او کو لائن حاضر کیا گیا اور متاثرہ خاندان کے خلاف جھوٹی اور غلط ایف آئی آر واپس کرنے کا اعلان کیا گیا تاہم اصل ملزم تادم تحریر گرفتار نہیں ہوا۔ البتہ میرے پروگرام میں جب میں نے علی امین گنڈاپور سے پوچھا کہ وہ ابھی تک متاثرہ بچی کے گھر کیوں نہیں گئے تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کل جائیں گے اور اگلے روز وہ متاثرہ بچی کے گھر چلے گئے ۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان صاحب دو ہفتے تک معاملے پر خاموش رہنے پر قوم سے معافی مانگتے اور پرویز خٹک سے باز پرس کرتے کہ ان کے صوبے میں یہ کیا ہورہا ہے۔ اسی طرح ہونا تو یہ بھی چاہئے تھا کہ وہ اپنے ایم این اے داورکنڈی کو شاباش دیتے کہ وہ متاثرہ خاندان کے پاس سب سے پہلے پہنچے اورخط لکھ کر معاملے کو خود ان کے نوٹس میں لے آئے ۔ پھر علی امین گنڈاپور کے کردار سے متعلق تحقیقات کے لئے ایک آزاد اور خودمختار کمیٹی بناتے لیکن انہوں نے الٹا علی امین گنڈاپور کو شاباش دے کر داور کنڈی کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا۔ اسے کہتے ہیں انصاف کے نام لیوائوں کا انصاف ۔ دلیل یہ دی کہ انہوںنے آئی جی سے معلوم کیا ہے اور آئی جی نے داور کنڈی کے الزامات کو غلط قرار دیا ہے ۔ ویسے اگر سانحہ ماڈل ٹائون کے بارے میں میاں نوازشریف یہ موقف اپناتے کہ آئی جی پنجاب کو فون کرکے انہوںنے معلوم کیا ہے اور پنجاب حکومت کا کوئی قصور نہیں تو کیا عمران خان صاحب ان کو معاف رکھتے ۔ لیکن عمران خان صاحب میڈیا اور میڈیا چلانے والوں کی طرف سے معاف ہیں کیوں کہ لاڈلے جو ہوئے ۔ لیکن اس انوکھے انصاف کا مظاہرہ انصاف کے نام لیوا خان صاحب نے پہلی مرتبہ نہیںکیا۔ خان صاحب کے پاس جو بھی شکایت لایا ہے ، اس نے ہمیشہ شکایت کرنے والے کو سزا دی ۔ جاوید ہاشمی نے شکایت کی کہ امپائر ان سے غلط کام کروارہے ہیں تو امپائروں سے پوچھنے کی بجائے خان صاحب نے جاوید ہاشمی کی چھٹی کرا دی ۔ جسٹس وجیہہ الدین نے الیکشن کمشنر کی حیثیت سے شکایت کی کہ پارٹی انتخابات میں بے ضابطگی ہوئی ہے تو بے ضابطگیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کی بجائے انہو ں نے جسٹس وجیہہ الدین کی چھٹی کرادی ۔ مشکل دنوں کے ساتھی اور پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے شکایت کی کہ پارٹی فنڈز خوردبرد ہوئے ہیں تو خورد برد کی تحقیقات کی بجائے انہوںنے ان کی چھٹی کرادی ۔ ضیاء اللہ آفریدی نے پرویز خٹک پر کرپشن کے الزامات لگائے تو تحقیقات کی بجائے انہوںنے ان کو گرفتار کروایا ۔صوبائی احتساب کمیشن کے وہ سربراہ (جنرل حامد خان ) جنہیں خود خان صاحب نے چناتھا، نے جب وزیراعلیٰ اور وزرا کی کرپشن کی طرف توجہ دلادی تو ان کے خلاف کارروائی کی بجائے جنرل حامد خان کی چھٹی کرادی گئی ۔ دوسری طرف شوکت یوسفزئی اور یاسین خلیل پر خود کرپشن کے الزامات لگا کر وزارتوں سے الگ کیا اور اپنے مذکورہ اصولوں کے تحت ہونا توچاہئے تھا کہ خود اپنے خلاف کارروائی کرتے لیکن اپنے خلاف کارروائی کی اور نہ ان کو پارٹی سے نکالا بلکہ اب ان کو عہدے دئیے گئے۔
اسی طرح آفتاب شیرپائو کی جماعت کے وزراء کے خلاف کرپشن کے الزامات لگاکر حکومت سے الگ کیا لیکن پھر خود ہی اسد قیصر کی قیادت میں وزراء کا جرگہ بھیج کر اس وزیر(بخت بیدار) سے معافی مانگی جن کے خلاف کرپشن کا الزام لگایا تھا اور اس کے بعد اس جماعت کو دوبارہ منتیں کرکے حکومت میں شامل کروایا اور اب دوبارہ علیحدہ کیا ۔ اسے کہتے ہیں تحریک انصاف کا انصاف اور اب وہ اس انوکھے انصاف کو پورے ملک میں رائج کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ سندھ ،پنجاب اور بلوچستان کے عوام کی مرضی ہے ۔ وہ اگر اپنے اپنے صوبوں میں اسی طرح کا نظام انصاف رائج کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ ۔ خیبر پختونخوا کے لوگ تو ان شاء اللہ دوبارہ یہ غلطی نہیں دہرائیں گے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کے وزرا اور اراکین اسمبلی کے یونین کونسلوں کے نتائج ملاحظہ کر لیں۔

پیر، 13 نومبر، 2017

پیرا ڈائز لیک میں شرفاء کے ناموں کی لسٹ


پیرا ڈائز لیک ۔۔۔دیکھئے کیسے کیسے شرفاء اس میں شامل ہیں

کیا آپ بھی اِن شرفاء میں سے تو نہیں ؟

نرل (ر)مرزا اسلم بیگ ، لیفٹیننٹ جنرل (ر)زاہد علی اکبر ، ایڈمرل (ر) منصور الحق ، ایڈمرل (ر) سعیدمحمد خان ، ائیر 
چیف مارشل (ر) انور شمیم ، بریگیڈئیر (ر) امتیاز ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فضل حق ، ائیر چیف مارشل(ر) عباس خٹک ، میجر جنرل (ر) شجاعت علی بخاری


بیوروکریٹس:
جاوید خانزادہ ، احمد صادق ، جاوید قریشی ، ایم بی عباسی ، اے آر صدیقی ، بریگیڈئیر (ر)اسلم حیات قریشی ، کیپٹن ایس ناصر ، مسعود شریف ،سلمان فاروقی ،شفیع شہوانی ، عثمان فاروقی ، شاہد رفیع ، واجد شمس الحسن ، شوکت علی کاظمی


بزنس مین:
صدر الدین ہاشوانی، بہرام ڈی آواری، سعید شیخ، سلطان لاکھانی، امین لاکھانی، ذوالفقار لاکھانی، اقبال لاکھانی، یونس ڈالیا، عبدالرزاق یعقوب، علی جعفری، اسد اللہ شیخ، اصغر ملک ، آصف میمن، حسین لوائی، اقبال میمن، جاوید سلطان، ریاض لعل جی، نسیم الرحمن، آصف اقبال، ہارون حاجی کباڈیا، آصف سیہگل، عارف سہگل، عابد سہگل، شیخ عبدالشمویل قریشی، محفوظ مصطفیٰ، ماجد بشیر، محمد آصف، محمد رضی، محمد صالح، جاوید سلطان، بدرالزمان، میاں فاروق احمد شیخ، میاں سہیل احمد شیخ، عبدالشکور اسماعیل کلوڈی، عبداللہ کلوڈی، صدر الدین گانجی، ہاشم گانجی، چوہدری زاہد احمد، چوہدری شاہد حمید، بشرازاہد حمید، میاں شہزاد اسلم، میاں شمیم انور، میاں فرخ نسیم، میاں محمد احمد، جاوید اشرف، سعید جاوید طارق، وقار عظیم ، نصرت عظیم ، شوکت عظیم ، سجاد عظیم ، شفیق سہگل ، شاہد سہگل ، شہزاد سہگل، سرور علی، رفیق سہگل ، چوہدری محمد انور حسین سندھو، انور نسرین ، خالد حسین چوہدری، فوزیہ بی بی ، نسیم منور، سید ثمینہ ابرار، ضیاء الرحمٰن ، کیپٹن نصیر احمد ،سید شہزاد ظہور ، فوزیہ حیدر ،جاوید احمد شاہ ،دردانہ شاہ ،فوزیہ علی کاظمی ، عبدالستار کیریو،ڈاکٹر غنی انصاری ،فرید ویریانی ،فرید عطاءاللہ ،حبیب اللہ خان کنڈی ،میاں محمد علی طارق، محمدصالح،مسلم لاکھانی ، ناہید خان ، ناصر وسیم خان ،نیئر باری ،ایس ایم اسحٰق،سید جاوید طارق ،سجاد حسین ،شجاع الحسن ،سراج شمس الدین ،طاہر خان نیازی، طفیل شیخ ،مسعود شاہ ، سید طاہر حسین ، ناہر حسین ،سید عامر حسین ،انجم طاہر حسین ،فرح ناصر حسین ،کیپٹن ایس ایچ اطہر ، فرناز عامر حسین ، شیخ ضمیر احمد ،عائشہ آفتاب ، ایم ایم اسلم خان ،مریم آفتاب ، ایس جے او فاطمی ، بیگم پروین حیات، ڈاکٹر جریر ایس دجانی ، ایم ابراہیم فیاض حمید ،حیدر علی خان ،حسن محمود سیال ،میجر (ر) جہانگیر خان ، کے ایچ ایم عبدالرحمان جامی ،بلقیس اختر، نور جہاں، کے ایچ ایم یوسف ، کے ایچ ایم عبداللہ ،عائشہ فرزانہ ، مہر فاطمہ ،کنیز فاطمہ ، عبدالشکور ،حاکم شیخ ، اختر علی ، قمر جہاں، محمد بہاؤالدین پرویز،محمد سعید خان ، شلیم انڈریوز


سیاستدان:
میاں محمد شریف ، میاں محمد نواز شریف ، میاں محمد شہباز شریف ،میاں محمد عباس شریف ، میاں حسین نواز،میاں حسن نواز،میاں حمزہ نواز، بیگم کلثوم نواز، شمیم اختر ، آصف علی زرداری ، بینظیر بھٹو ، آفتاب احمد شیرپائو، جہانگیر بدر، خاقان عباسی ، سید غوث علی شاہ ، سید عبداللہ شاہ ، شاہدہ فیصل ، زوجہ فیصل صالح حیات ، سید اسد حیات بھائی فیصل صالح حیات، فیصل صالح حیات ،عامر مگسی ، انور سیف اللہ ، اعظم ہوتی ، چوہدری شیر علی، غلام مصطفیٰ کھر ، گوہر ایوب، گلزار احمد (سینیٹر)، ہارون اختر، ہمایوں اختر، جام معشوق علی ، جاوید ہاشمی ، منظور وٹو ،منور حسین منج، نادر مگسی ،نواب یوسف تالپور ، رانا شوکت محمود ، وقار احمد، ذوالقار مگسی ، احمد مختار ،ڈاکٹر ذوالفقار مرزا،خالد کھرل ،رائو سکندر، رحمان ملک ، سردار مہتاب احمد خان ،فوزیہ یوسف رضا گیلانی ، آفتاب اے شیخ ، نسرین آفتاب، اسلام الدین شیخ ، نورمحمد شیخ ، نورالدین شیخ ، نورین شیخ ۔

پیر، 6 نومبر، 2017

سعودی عرب تباہی کے دہانے پر

دنیا بھر کا میڈیا جب سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا عین اُسی وقت سعودی خاندان اور ریاست کے اندر انتہائی خفیہ اور پُراسرار طور پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ بحیرہ احمر کے کنارے شرعی قوانین اور صنفی اختلاط کی پابندی سے مبرا ’ریزورٹ منصوبے‘ کا اعلان بھی دنیا کے لیے حیران کن خبر تھی۔

ایک اور سرپرائز سعودی خواتین کو نئے سال کے آغاز پر اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا اعلان تھا۔ اِن سب اقدامات کو سعودی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک آئی واش قرار دے رہے ہیں۔

4 نومبر کی رات، سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے 11 اہم ترین افراد سمیت درجنوں وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔

اِس کارروائی کو ایران اور اسامہ بن لادن کے مبینہ تعلق کے حوالے سے سی آئی اے کی جاری کردہ تازہ دستاویزات، قطر بحران، لبنان کے تازہ سیاسی دھماکے، امریکا کے سعودی عرب سے گرم جوش ہوتے تعلقات، متحدہ عرب امارات کی خطے میں مرکزی کردار کی خواہش، سعودی عرب میں مصنوعی لبرل ازم، کمزور پڑتی سعودی معیشت جیسے اہم عناصر سے الگ رکھ کر دیکھنا ایک نظری مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔

شاہ سلمان نے پہلے شاہی فرمان میں اپنے جانشینوں کا اعلان کیا۔ شہزادہ مقرن کو ہٹا کر شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد جبکہ اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا اور اُنہیں ’نائب ولی عہد‘ بنادیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیردفاع، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرامکو کے چیئرمین کا عہدہ اِس سے پہلے شاہی خاندان سے ہٹ کر صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی دیا جاتا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے شراکت اقتدار پاتے ہی پاؤں پھیلائے، یمن جنگ چھیڑی، سعودی عرب کا تیل سے انحصار ختم کرکے ریاست کو صنعت و کاروبار کی طرف لانے کے اعلانات کئے اور ساتھ ہی سفارتی سطح پر رابطے بڑھائے۔

مارچ 2017 میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں لنچ پر ملاقات کی، یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک معتمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ ملاقات امریکا سعودی عرب تعلقات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی۔‘

اِس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر اُٹھی اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار کی کشمکش میں امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِسی ملاقات میں ٹرمپ کا پہلا دورہِ سعودی عرب بھی طے پایا۔ پھر مارچ میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ 21 جون کو سامنے آیا، جب امریکا اور سابق صدر اوباما کے منظورِ نظر سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن نائف کو نہ صرف ولی عہد سے ہٹایا گیا بلکہ ریاست کے تمام عہدوں سے ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا گیا، اور نائب ولی عہد کا فرمائشی عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔

اِس بڑے اور غیر معمولی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب اندرونی کشمکش بڑھ جائے گی جسے روکنے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو برطرف ولی عہد محمد بن نائف کے ہاتھوں کو چومتے دکھایا گیا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں کے درمیان کوئی چپقلش نہیں ہے۔ لیکن اِس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ اطلاعات مستقل آتی رہیں کہ محمد بن نائف نظر بند ہیں اور کوئی اُن سے ملاقات نہیں کرسکتا۔

ولی عہد بنتے ہی محمد بن سلمان نے شاہ سلمان تک اہم افراد کی رسائی بھی محدود کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن کر قطر کے خلاف محاذ کھولا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار کی کشمکش پر جرمن خفیہ ادارہ بی این ڈی نے 2016 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ محمد بن سلمان کی دیگر ریاستوں میں مداخلت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کے ساتھ سعودی ریاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار تمام افراد اہم ہیں لیکن 2 شہزادوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سب سے پہلے شہزادہ الولید بن طلال، جو شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کے بڑے اور کھلے ناقد ہیں۔ شہزادہ الولید بن طلال، محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں بالخصوص سعودی آرامکو کے حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کے عمل کی شہزادہ ولید نے کھل کر مخالفت کی۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والے شہزادہ ولید نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کو امریکا کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا تھا جس کا جواب ٹرمپ نے ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ شہزادہ ولید باپ کی دولت کے بل پر امریکی سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سے ملاقات ہے، جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے۔ شہزادہ ولید اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے درمیان اُس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ گرفتاریوں کے اعلان سے ایک ہفتہ ہی پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز، بلومبرگ سمیت امریکی میڈیا نے اِن سب عوامل کو بھی شہزادہ ولید کی گرفتاری سے جوڑا ہے۔

اِسی طرح شہزادہ متعب کی گرفتاری بھی اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے کیونکہ شہزادہ متعب کو تخت کے جائز اُمیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شہزادہ متعب سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ اُنہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔

سعودی شہزادوں کی کرپشن کے نام پر گرفتاریوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی سرکاری علماء سے فتویٰ بھی جاری کرایا گیا لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ شاہی خاندان کی دولت اور سرکاری خزانے کے استعمال میں آج تک کوئی فروق روا نہیں رکھا گیا۔ کرپشن کی تعریف ہی متعین نہیں کہ شہزادوں پر کون سا مال حلال ہے اور کون سا حرام؟

جرمن انٹیلی جنس ایجنسی کا انتباہ اپنی جگہ، مگر مئی 2017 میں محمد بن سلمان نے العربیہ ٹی وی اور سعودی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔ اُس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے بارے میں فرقہ وارانہ انداز میں گفتگو کی اور کہا کہ ایران مکہ اور مدینہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر شیعہ نظریات نافذ کرکے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے عزائم پر شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ایک طرف لیکن سعودی عرب خود خطے میں کس طرح کے عزائم رکھتا ہے، اِس کا اندازہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہونے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے ایک عشرے کے لیے 350 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کرکے سعودی عرب نے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی حمایت کی قیمت ادا کی۔ ٹرمپ اِس معاہدے کو اپنے بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں اور کسی قدر وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ صدر اوباما کے دور میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور تناؤ کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر سمجھوتہ تھا جسے اوباما اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو نہ صرف ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے موڈ میں بھی ہیں۔ جس کا واضح اشارہ یکم نومبر کو سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات ہیں، جن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور ایران کے مبینہ تعلقات کا ذکر ہے۔ اِن دستاویزات کے اجراء پر امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی ایران کے خلاف جنگی مہم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بھی اِن دستاویزات کے اجراء کے پیچھے چھپے ارادوں پر تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔

ایرانی اثر و رسوخ کے توڑ کے لیے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت اہم سعودی عہدیداروں نے عراق کے 3 دورے کئے اور اِن دوروں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جون میں ریاض جاکر سعودی شاہ سلمان سے ملاقات بھی خطے میں بنتے نئے اتحادوں کی طرف اہم اشارہ ہے۔ دو دن پہلے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کا سعودی ٹی وی کے ذریعے ویڈیو بیان میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھی خطے میں کشمکش کا نکتہ عروج ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اتنے بڑے منصب سے استعفیٰ کی وجوہات ہمیشہ سیاسی یا ذاتی بتاتا ہے، لیکن سعد الحریری نے لبنان میں حزب اللہ اور ایران کی سرگرمیوں، اپنے قتل کی سازش کو استعفیٰ کی بنیاد بنایا۔ سعد الحریری کا بیان بھی ایران کے لیے ایک چارج شیٹ ہے۔

سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔