پیر، 25 نومبر، 2013

انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے

1tکہتے ہیں کتے اور انسان کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور کہتے یہ بھی ہیں کہ جہاں انسان ہوتا ہے وہاں کتا بھی پایا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں کتا ہو وہاں انسان کا پایا جانا لازم نہیں ہے ۔جیسا کہ سننے میں آتا ہے انسان اور کتے کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور اب صدیوں میں دونوں نے ایک دوسرے سے کیا کیا سیکھا اس کے بارے میں تحقیق ہونا ابھی باقی ہے ۔۔کتے کے ‘‘ کتے پن ‘‘ پر تو تحقیق کرنا انتہائی آسان ہے مگر اس عرصہ میں انسان پر کتنا ‘‘ کتا پن ‘‘ چڑھا ، اس پر تحقیق کرنا از حد ضروری ہے ۔

کتوں کی پچاس سے زیادہ مقبول نسلیں ہیں ۔۔۔ جن میں جرمن شیفرڈ ، بیلجئیم شیفرڈ ، شیفرڈ سکاٹش ، پوائینٹر، افغان ہاؤنڈ ، اکیتا ہاؤنڈ ، بیگل ، باکسر، بلڈاگ ، فرانسیسی بلڈاگ ، بل ٹیریر - چیوہاؤ ، سکیں سکیں ، کوکر ، فاکس ٹیریر ،گولڈن ،ہسکی سائبیرین ، لیبرے ڈار ، مالٹی ، نیپولٹن ، سان برنارڈو ، سیٹر - آئرش سیٹر ، سکاٹش ٹیریر ، ویلش ٹیریر ، یارکشائر ٹیریر ۔۔۔۔ مقبول ترین ہیں

ان کتوں سے انسانوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے ہر کتے کا روزانہ کا خرچہ پاکستان کے ایک ہزار غریب آدمیوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور اگر آپ ان کتے کی نسلوں سے انسان کے پیار کا اندازہ لگانا اور ساتھ ہی اس کا نظارہ بھی کرنا چاہیں تو ان کے بیڈ رومز میں جا کر کر سکتے ہیں ۔

میری ذاتی تحقیق کے مطابق کتوں کی ان عظیم نسلوں میں سے کسی انسان کو میں نے ایسا نہیں دیکھا جو کہ ان کتوں کے ساتھ بیٹھنے میں اپنی تحقیر محسوس کرتا ہو ۔ہاں یہ ضرور ہے اور اس بارے میں بھی ابھی تحقیق ہونا باقی ہے کہ خود اعلیٰ نسل کے ان کتوں میں سے کسی کتے یا کتے کے بچے کو انسان کے ساتھ بیٹھنا یا میل ملاپ رکھنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔

کتوں کی ان عظیم نسلوں کے علاوہ ایک عظیم اور قدیم نسل اور بھی ہے جسے میں ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گل یڑ ) ۔( گلی کے آوارہ کتے ) کہتا ہوں ۔اسی نسل کو سب سے زیادہ ٹھڈے ، جوتے اور ڈنڈے بھی پڑتے ہیں اور گالیوں کا تو بس نہ ہی پوچھیں ۔۔۔مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی جب آپ اس کو روٹی کا ٹکڑا دیتے ہیں تو اس نسل یعنی ‘‘ گلیڑ ‘‘ کتے کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آپ صاف دیکھ سکتے ہیں ۔

کتوں کی اتنی عظیم نسلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی اگر کسی سیانے نے ‘‘ کتوں جیسی بے عزتی ‘‘ کا محاورہ ایجاد کر ہی دیا تھا تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تو ہوگی ۔اور جب یہ محاورہ ایجاد ہو ہی گیا تو لاگو بھی ہو گا اور جب لاگو ہوگا تو محسوس بھی ہوگا۔۔۔۔۔ مگر سیانوں کی باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور سیانے کہتے ہیں ۔ ‘‘ سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کرو گے اتنی زیادہ لگے گی ‘‘ ۔

کتے تو پھر کتے ہیں ان کو کیا کہنا ۔۔۔۔ انسانوں کی بات کیجئے جی ۔۔۔کیونکہ انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے مگر کتا انسان نہیں بن سکتا ۔



پیر، 11 نومبر، 2013

باجی کنجری ہار موتیے دے

motia-gajraسردیوں کی ٹھنڈی شامیں شروع ہوتے ہی موتیا کے پھولوں کا موسم بھی شروع ہو چکا ہوتا ہے ۔ویسے تو گلاب کو پھولوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے مگر موتیا کی خوشبو بھی اپنی مثال آپ ہے ۔بس یوں جانئے کہ اگر گلاب مرد ہے تو موتیا عورت ۔۔۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس دنیا میں عورت جیسی خوشبو کا بھی بھلا کوئی جوڑ ہوسکتا ہے ۔

موتیا کی خوشبو ایسی مدھر ہوتی ہے کہ مانو جیسے سونگھتے ہی مدہوشی چھا جائے ۔۔۔ ایسی مدہوشی کہ بندے کا دل چاہے کہ بس اسی خوشبو کی فضاؤں میں بیٹھا رہوں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پھولوں کے بادشاہ کی موجودگی میں بھی عورتیں موتیا کی خوشبو کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔۔۔ شاید کہ موتیا کی خوشبو میں انہیں خود کی خوشبو نظر آتی ہو ۔۔۔

لاہور شہر میں داتا دربار سے تھوڑا آگے دائیں ہاتھ کو جائیں تو ٹکسالی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے ۔جسے عرف عام میں ہیرا منڈی بھی کہا جاتا ہے ۔آجکل ہیرا منڈی محرم کے احترام میں بند ہے ۔رمضان سمیت باقی کے گیارہ مہینوں میں ہیرا منڈی رات گیارہ سے ایک بجے تک کھلی رہتی ہے ۔ان دو گھنٹوں میں گانے بجانے کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ۔باقی کے ٢٢ گھنٹوں میں چھپ چھپا کر ہیرا منڈی میں گاہکوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جو اپنی اپنی پسند کی مہہ جبیں کی زلفوں کے سائے تلے کچھ وقت گزار کر اپنی اپنی راہ لیتے نظر آتے ہیں ۔۔

لوگ کہتے ہیں اب ہیرا منڈی کی وہ بہاریں کہاں ۔۔۔۔۔۔ اب تو لوگ ہیرا منڈی میں صرف پاوے کھانے آتے ہیں ۔۔۔۔ اب کہاں باجی کنجری اور کہاں ہار موتیے کے ۔۔۔۔۔اب تو ایسی آوازیں بھی خواب ہوئیں ۔۔۔
باجی کنجری ہار موتیے دے