ہفتہ، 30 دسمبر، 2006

صدام حسین کی پھانسی اور ہم مسلمان

اس میں کسی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ صدام حسین ظالم انسان تھا۔مگر ایک انسان کو پھانسی دینا کہاں کی شرافت ہے۔اب کہاں گئے انسانی حقوق اور کہاں گئی مغربی انسانیت۔
میں تو یہ کہوں گا کہ ہمیشہ کی طرح صدام کی پھانسی بھی ہم مسلمانوں کے خاص خصوصی دن یعنی حج کے موقع اور عید الضحیٰ کے وقت کو مد نظر رکھ کرجان بوجھ کر دی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کو ذہنی طور پر اور ٹارچر کر دیا جائے اور وہ امریکہ اور مغرب سے ہمیشہ ڈرتے رہیں۔
اصل میں ہم مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے دیکھا جائے تو مسلمان ملکوں کے تمام حکمران یا تو اپنے اپنے مفادات میں گم ہیں اور کچھ اپنی عیاشیوں کے ہاتھوں امریکہ اور مغربی ممالک کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
اگر مجموعی مسلم امہ کی عوام کی بات بھی کریں تو سب ہی اللہ کے احکامات کو ماننے سے انکاری ہیں جس کی وجہ سے اللہ کی مدد بھی نہیں آتی اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جیسے عوام ہوں گے ویسے ہی حکمران بھی ہوں گے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر سے یہ زوال کب ختم ہوگا۔اسلامی نقطہ نظر سے اگر اس پہلو کا جائزہ لیا جائے تو احادیث کی رو سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا زوال شروع ہو چکا ہے اور یہ ابھی اور ذلت کی پستیوں میں گریں گے ۔فتنے ہیں تو ہر روز کوئی نیا فتنہ سر ابھارتا ہے ، برائی ہے تو وہ ہم لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، دین کو ہم بیچ رہے ہیں، لین دین میں ہم لوگ بے اعتبار ہیں ناچ گانا ہر گھر میں ہے ، حرام کو ہم حلال کا درجہ دیتے ہیں، غرض کون سی چھوٹی یا بڑی برائی ہے جو ہم مسلمانوں میں نہیں ہے۔اور یہی سب کچھ روایات میں بھی آتا ہے۔
مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اب یہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیٰسی علیہ السلام کے آنے کے آثار شروع ہو چکے ہیں۔اور یہ ہم مسلمانوں کے ساتھ تب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا جب تک ان کا ظہور نہیں ہو جاتا۔

بدھ، 22 نومبر، 2006

میرے للو کی باتیں

لَلو ، ابے او لًلو ، اگر بازار جاوے گا تو ذرا سبزی تو پکڑتے لانا۔
صاحب جی آج کیا پکاویں گے ؟
ارے پکانا کیا ہے جو تجھے سب سے سستی ملے ، وہ لے آ ، بس کھا لیویں گے۔
پر صاحب جی آج کل بینگن بھی ٢٠ روپے کلو بکے ہیں اس سے سستا کیا ہووے گا اور کل وہ سبزی والا بھی کہہ رہا تھا کہ اپنے صاحب سے کہیو کہ کلو دو کلو پیاز خرید کر رکھ لیویں ، آج چالیس کا ریٹ ہے کل پچاس میں ہوویں گا۔
دفعہ کر سالے کو ، وہ تو یوں ہی ڈراوے ہے ، تو بس کوئی بھی لے آ ، بس ہووے سستی سی ۔ اچھا ایک بات تو بتا لًلوے ، تیرے سے اس لئے پوچھوں کہ تو پڑھا لکھا نہیں ہے اگر پڑھا لکھا ہوتا تو ، تو بھی اسمبلیوں میں بیٹھا ہوتا۔اور سیاسی بیان دیتا،
ہاں تو بتا للوے ، یہ روز روز غریبوں کی چیزیں ہی کیوں مہنگی ہوویں ۔روزانہ ہی سننے میں آوے ہے کہ ، چینی مہنگی ہو گئی ، دال مہنگی ہوگئی ،سبزی ہے تو وہ مرغے سے بھی مہنگی بکے ہے یہ سب کیا ہے للوے ؟
صاحب جی یہ سب وزیروں مشیروں کا گورکھ دھندا ہے ۔ فیکٹریاں ان کے پاس ہیں ، آڑھت پر ان کا قبضہ ہے جب ان کا جی چاہتا ہے وہ چیزیں مہنگی کر دیتے ہیں۔
مگر للوے یار وہ اپنا صدر صاحب بھی تو بیٹھا ہے نا وہ ان کی کیوں پکڑ نہیں کرتا؟
صاحب جی نام تو میرا للو ہے مگر آپ بھی کم نہیں لگے ہو۔
صاحب جی اگر وہ پکڑ کرے گا تو اپنی کرسی کیسے چلاوے گا۔
مگر للوے یار ، استاد شیدا تو کہوے ہے کہ کرسی تو امریکہ چلائے ہے ، وہ بھی تو تیری طرح پڑھا لکھا نہیں ہے نا تو پھر اس کی بات تو جھوٹ نہ ہووے
صاحب جی شیدا جو جی چاہے کہتا روے مگر میں تو یہ کہوں کہ اگر اس نے ان کا دانہ پانی بند کیا تو جانو یہ سارے مل کے اس کا بھی بند کر دیویں گے۔
مگر یار للوے اس چکر میں دانہ پانی اپنے پہ تو بھاری ہو گیا نا۔
تو ہوا کرے صاحب جی ، ویسے بھی غریبوں کے مرنے سے کونسا فرق پڑے ہے۔

ہفتہ، 18 نومبر، 2006

روشن خیال مجرے

آج سوچا تھا کہ کچھ لکھوں گا ، کیا دیکھتا ہوں کہ میرا پاکستان والے جناب افضل صاحب نے لاہور کے ایک ناظم میاں محمود کی ایک طوائف کے ساتھ تصویر کو موضوع سخن بنایا ہے۔
لکھتا بھی ، تو کیا لکھتا ، ساری سوچیں غائب ہوگئیں ، کبھی جناب افضل صاحب کی تلخ اور تیکھی تحریر کو پڑھتا اور کبھی ناظم میاں محمود کی تہذیب یافتہ انداز میں کھنچوائی تصویر کو دیکھا کیا۔
جناب افضل صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں ، باہر رہ کر وہ اسی پرانے پاکستان کی تصویر کو اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں جس کو کبھی وہ چھوڑ کے گئے تھے۔انہیں نہیں پتہ کہ پاکستان اب ترقی پذیر ملکوں کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ اور روشن خیال ہو چکا ہے۔
سوچتا ہوں کہ اب جب وہ پاکستان آئے تو انہیں اپنے پاس بٹھا کر کیبل دکھاؤں گا جو ہر گھر میں چل رہی ہے۔جس پر روزانہ ننگے مجرے دھڑلے سے دکھائے جاتے ہیں۔دوپہر ہو یا رات کا کوئی پہر ، یہ ننگے مجرے سٹیج شو کے نام سے کیبل پر آپ کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں ۔روشن خیالی کی روایات کو مدِ مظر رکھتے ہوئے رات کے آخری پہر ان مجروں میں کپڑوں کی پابندی ختم کر دی جاتی ہے۔

محترم افضل صاحب نے اس خبر کو بڑی گروانا ہے ، کہتے ہیں اس خبر کے چھپنے کے باوجود اگر ملک میں بھونچال نہ آسکا تو وہ سمجھیں گے کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی ایسی ذلالتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔

کیا کریں عوام ؟ کس سے فریاد کریں ؟ کس عدالت میں فریاد کریں ؟
بھونچال کون لائے گا ، جن کے پاس کھانے کو نہیں ؟
بھونچال کون لائے گا ، وہ جو صرف فتویٰ دینا جانتے ہیں
بھونچال کون لائے گا ، جو خود اسٹیج پر بیٹھ کر مجرا دیکھتے ہیں ؟
وہ زمانے لَد گئے جب چیخ و پکار سے بھونچال آیا کرتے تھے۔
ایسے نہیں آنے کا بھونچال ،
جب تک بھوکے ننگے لوگ ( جو تن اور من سے بھی بھوکے ہو چکے ہیں ) سچے دل سے اپنے رب سے معافی اور روشن خیالی کو ٹھوکر نہ ماردیں تب تک بھونچال آنے سے رہا ۔

بدھ، 15 نومبر، 2006

کسی کو تو جواب دینا ہے

اپنا جگر جان خاور کھوکھر پوچھتا ہے،
دو انتہاؤں پاکستانی سید اور پاکستانی چوہڑے کی جسمانی ساخت کو علحیدہ کرنے کا فارمولا ہے کسی کے پاس ؟
ہے بالکل ہے ، میرے پاس ہے ۔چوہڑا چاہے گند کی ٹوکری اٹھاتا پھرے اگر اس کی سوچ ، ذہن اچھا ہو گا توسید جیسا لگے گااور سید چاہے عطر میں نہایا ہو اگر اس کی سوچ ، اس کا کردار اچھا نہیں ہو گا تو وہ چوڑے سے بھی بدتر دکھائی دے گا۔

خاور جگر ، کسی کو احساس کمتری ہوتا ہے اور کسی کو احساس برتری ، ذات پات ، برادری سسٹم یہ سب گاؤں ( پنڈوں ) کی روایات ہیں ۔اپنا نام یا اپنی ذات بڑی رکھنے سے انسان میں بڑا پن پیدا نہیں ہوتا۔بڑا پن اس کے اچھے ذہن ، سوچ اور کردار سے بنتا ہے۔اور یہ اچھا کردار چاہے چوڑا ادا کرے یا کہ سید ۔

جگر جانی ، جسمانی ساخت کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، ذہنی ساخت کی بات کیجیے ، لولا ، لنگڑا ، اندھا ، کانا ، اپاہیج ، کھسرا یہ سب شہنشاہوں کے گھروں میں بھی پیدا ہوئے اور غریبوں کے گھروں میں بھی۔

ہم مسلمانوں میں تو ویسے بھی ذات پات ، گورے کالے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔یہاں تو اعمال ، کردار کی بات ہے ۔جن جن کے اعمال و کردار اچھے ہوں گے وہی اعلیٰ ہوگا۔باقی ذات میں ، اپنی جسمانی ساخت میں کو ئی کیسا ہی بڑا یا خوبصرت دکھائی دے اس کی کوئی حثیت نہیں۔

آپ نے پوری دنیا گنوا دی مگر پھر بھی آپ اپنے گاؤں کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے ۔ یہ احساس کمتری ہے آپ کا ، اپنی اُس ذات پات کے حصار سے باہر نکلو جگر جان ، جس میں آپ باہر رہتے بھی الجھے ہوئے ہو۔دنیا ذات پات سے بہت دور جاچکی ۔

گیسوئے تاب دار کو

گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر

جمعرات، 9 نومبر، 2006

کالو کے نام کھلا خط

بیوقوف کہتے ہیں کہ پاگلوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں مگر بابے عیدو کا تجربہ ہے کہ سینگوں کے بغیر بھی پاگل دیکھے جا سکتے ہیں۔
بندہ پوچھے کہ بھئی جو لوگ آزاد رہنا چاہتے ہیں تو آپ کون ہوتے ہو ان پر پابندی لگانے والے وہ جو جی چاہے کریں ، کیا لگتے ہیں وہ آپ کے اور کیا آپ نے سارے انٹر نیٹ کا ٹھیکہ لے لیا ہے
کوئی گندی ویب سائٹ بنانے کے لئے تحریک دے یا کوئی اسے بنانے کی ہامی بھرے ۔ کیا رشتہ داری ہے آپ کی جو ان کو روکنے کی باتیں کرتے ہو۔
دیکھو میرے پیارے کالو جانی ، ایسا نہیں چلتا یارا،کیا تم بی بی سی والوں کو روک سکتے ہو جنہوں نے حال ہی میں ایک سیکس کی نئی سیریز شروع کی ہے۔اگر یہ لوگ بھی اسی طرح مغربی دھارے میں بہہ کر اسی جیسا طرز عمل اپنانا چاہتے ہیں تو تمہارا کیا جاتا ہے، اپنانے دو انہیں ، ان کو بھی اسی گنگا میں ہاتھ دھونے دو جسے یہ اجلا جانتے ہیں۔
اور پھر میرے جانی ، نگار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے یا تو پھر آپ کے ہاتھ میں کوئی طوطا ہو تو میں جانو کہ واقع میں آپ کچھ سدھار لا سکتے ہو ( میری یہاں مراد طوطا فال نکالنے والے طوطے سے ہے) ، جب جانی تمہارے پاس ایسا طوطا ہی نہیں تو یارا کیوں اپنی جان کھپاتے ہو۔
بھئی محفل ان کی ، باتیں ان کی اور لکھائی بھی ان کی ،آپ کون بیچ میں خوامخواہ ۔ اور پھر کالو جانی انہوں نے کوئی آپ کو دکھانے کے لئے تھوڑی کھولنی ہیں گندی ویب سائٹ ، ان کا شوق ہے پورا کرنے دو۔کیوں لگاتے ہو یارا ان کے شوق پر پہرے۔
میں مانتا ہوں میرے کالو جانی کہ یہ سب برا ہے مگر یارا یہ بھی تو دیکھو ، یہاں کیا برا نہیں ہے ، کیا آپ لوگوں کے دل و دماغ تبدیل کر لو گے ، کیا ایسے لوگوں کے ذہن میں ایسی باتیں ٹھونس دو گے جنہیں مذہب اسلام کے بارے میں مکمل آگاہی ہی حاصل نہیں کہ اسلام میں کیا برا ہے اور کیا اچھا۔
میری مانو تو چھوڑو ، دفع کرو ، ۔ کوئی اپنا اصلاحی کام شروع کرو ۔ ان کو ان کے حال میں کھلا چھوڑ دو۔یہ جو آپ کو بند ڈبے میں نظر آرہی ہے نا دنیا ، یہ اب بھی بہت وسیع ہے اور اس وسیع نگار خانے میں تمہارے لائق کرنے کے کام اور بھی ہوں گے ۔
میری بات پلے باندھ لو کہ ، تنقید ، اچھی تنقید ( میری مراد یہاں بری تنقید سے نہیں ہے ) ان پر ہی اثر کرتی ہے جو اُس کا اثر قبول کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔اور جو اہلیت نہیں رکھتے ان پر صرف تعریف اثر کرتی ہے۔

ذہن کو ٹھنڈا رکھا کرو کالو جانی ، جب ذہن ٹھنڈا ہو گا تو بات بھی ٹھنڈی نکلے گی اور یاد رکھنا ٹھندی بات اگلے کے سینے میں چبھتی ضرور ہے ۔

ہفتہ، 4 نومبر، 2006

وہ اک شخص جو چلا گیا

ایک نہایت ہی شریف ، ملنسار ، غریبوں کا ہمدرد ، کئی خیراتی اداروں کو چلانے والا حافظ قرآن جس کی کسی سے بھی دشمنی نہ تھی اسے پرسوں اس کے اپنے ہی نئے سیکورٹی گارڈ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
سیٹھ عابد کے لختِ جگر حافظ ایاز محمود کی شخصیت یوں تو بہت سی خوبیوں سے بھری ہوئی تھی مگر ایک خوبی ان سب میں بڑی تھی کہ اتنا امیر آدمی ہونے کے باوجود بھی اس میں غرور نام کی کوئی چیز نہ تھی۔جس سے ملتا ہمیشہ عاجزی کے ساتھ ۔دشمن اس کا کوئی نہ تھا۔غریب ہو یا امیر سب سے دوستانہ انداز میں گفتگو کرتا۔لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور رہتا۔میں نے نہیں دیکھا کبھی اس نے اونچی اواز سے بات بھی کی ہو، بولتا تو دھیمے لہجے سے لگتا جیسے منہہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔
ہر سال رمضان میں تراویح پڑھاتا،ملک سے باہر ہوتا تو تب بھی وہ رمضان میں میں پاکستان ضرور آجاتا۔اس سال بھی اس نے تراویح پڑھائی تھی۔مگر آنے والا سال اس کی قسمت میں نہیں تھا۔
لٹ گیا وہ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں
شہید ہو گیا کیونکہ اس کا گناہ کوئی نہ تھا
چلا گیا وہ اللہ کے پاس جس کی وہ بندگی کرتا تھا
انا للہ و انا علیہ راجعون
دعا ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین

ہفتہ، 7 اکتوبر، 2006

خاموش ہو جائیں

کل الصبح ہمارے پاکستان میں پچھلے سال زلزلے میں مرنے والوں کے غم اور بچ جانے والوں کی خوشی میں سائرن بجائے جائیں گے اور مکمل پورے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔آپ سب سے بھی التماس ہے کہ خاموشی اختیار کریں۔
دیارِ غیر میں رہنے والوں نے نے اپنے خون پسینے کی جو کمائی ان بچنے والوں کے نام بھیجی تھی وہ بھی خاطر جمع رکھیں اور خاموش رہیں کیونکہ ان کی کمائی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں خرچ ہوگی۔

پاکستان میں رہنے والوں سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ زلزلہ زدگان کے پھٹے ہوئے خیموں کے درمیان جا کر خاموشی اختیار کریں تاکہ بچ رہنے والے ان کی خاموشی سے سبق سیکھ سکیں۔

اتوار، 1 اکتوبر، 2006

اردو بلاگرز

ویسے تو سارے اردو بلاگرز اپنی مثال آپ ہیں اور سب کی تحریریں لاجواب بھی ہوتی ہیں مگر ان میں سے کچھ بلاگرز کی تحریروں کو میں ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں ۔ ان میں سے خاور کھوکھر ، افضل صاحب ( میرا پاکستان والے ) افتخار احمد بھوپال ، اردو دان اور بدتمیز اول ( ایم ایس این سپیس والے ) قابلِ ذکر ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اردو بلاگرز کی تحریروں کو میں پسند نہیں کرتا مگر قابلِ ذکر بلاگرز کی تحریروں میں ایک علیحدہ چاشنی ہے۔ان کی سب تحریروں میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے کہ بندہ سوچتا رہ جائے اور خود کو نوچتا بھی۔
بدتمیز اول اور خاور کھوکھر کی حالیہ تحریریں پڑھیں لطف آ گیا۔خاصی تلخ تحریریں تھیں کوشش کی کہ دونوں کے بلاگ پر جا کر تبصرہ بھی کروں مگر دونوں کے بلاگ میری پہنچ سے باہر تھے۔بلاگ سپاٹ اب پی کے بلاگ سے بھی نہیں کھلتا شاید کہ پاکستان میں اس پراکسی کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔اور ایم ایس این سپیس میرے جیسے غریب آدمی کے براؤزر کو ویسے ہی بلاک کر دیتی ہے۔
میرا ان دونوں دوستوں اور دوسرے بلاگ سپاٹ والے دوستوں کو یہ مشورہ ہے کہ برائے مہربانی کچھ پیسے ویسے خرچ کر کے اپنا کوئی انتظام کریں۔تاکہ ہم جیسے لوگوں کا بھلا ہو کیونکہ آپ ہیں کہ آپ سب دوستوں کو اس چیز کا احساس ہی نہیں ہے کہ آپ کی تحریروں کو پڑھنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے کہ اتنے جتن تو ہم نے کبھی کسی حسینہ کو منانے کے لئے نہیں کئے۔

جمعہ، 22 ستمبر، 2006

پوپ کا بیان اور مشرف کو دھمکی

دنیا میں جب بھی کہیں اسلام کے خلاف بات ہوتی ہے تو پاکستان ہی ایک ایسا واحد ملک ہے جس میں اس پر ردِعمل کی توقع فوراً کی جاسکتی ہے چاہے وہ ردِ عمل حقیقی ہو یادکھاوے کا ،
اگر تو ردِ عمل حقیقی ہو تو پھر یہ لہر دور تک جاتی ہے اور اس میں بہت کچھ بہہ بھی جاتا ہے اور اگر یہ ردِعمل دکھاوے کا ہو تو کچھ لے دے کر معاملہ نبٹ جاتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ کی طرف سے ایک بیان دیا گیا جس میں جہاد کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں بھی گستاخانہ الفاظ ادا کئے گئے ، جس پر پوری اسلامی دنیا میں اس کی مذمت کی گئی اور ساتھ ساتھ مظاہروں کا سلسلہ بھی زوروشور سے شروع ہوگیا۔
پوپ سے اپنا بیان واپس لینے کو کہا گیا، مظاہروں کی شدت دیکھتے ہوئے پوپ نے پینترا بدلا اور اپنے بیان پر معافی مانگی۔پاکستان میں مذہبی تنظیموں نے اس معافی کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور کہا کہ پوپ کو اپنا بیان واپس لینا چاہئے۔
اب جبکہ پاکستان میں آہستہ آہستہ ان مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا تو ہمارے صدر محترم نے امریکہ سے ایک تازہ بیان داغ دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اس کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو کھنڈر بنا دیا جائے گا ۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی خلافِ بعید بات بھی نہ تھی ، بالکل امریکہ دھمکی دے سکتا تھا۔مگر بابے شیدے کو ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ گڑے مردے اُٹھانے کا یہ کون سا وقت تھا۔
بابا عیدو کچھ اور ہی کہتا ہے ، کہتا ہے کہ ، یہ سب پاکستانی مذہبی جماعتوں کو پوپ کے بیان سے باہر نکالنے کی ایک چال ہے تاکہ ان کا دھیان کسی اور طرف لگا دیا جائے۔بابا عیدو یہ بھی کہتا ہے کہ دیکھنا اب سارے مذہبی لیڈر پوپ کو بھول کر صدر مشرف کی طرف لٹھ لے کر دوڑ پڑیں گے اور کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دے گی ، جب تک کہ کوئی اور شوشہ نہیں چھوڑ دیا جاتا۔

جمعہ، 15 ستمبر، 2006

پاگل کتا

ابھی کچھ عر صہ پیشتر ہی کتوں کی انجمن نے اپنے ہر دلعزیز سردار کے مرنے کے بعد پاگل کتے کو اپنا سردار نامزد کیا ۔یاد رہے کہ آج تک کتوں میں جتنے بھی سردار گذرے ہیں وہ کتوں کی انجمن کے علاوہ انسانوں کی انجمن میں بھی یکساں مقبول رہے تھے۔مگر پاگل کتے کے آنے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ۔اب کتوں نے بھی انسانوں پر سرعام بھونکنا شروع کر دیا ہے۔پاگل کتے نے ان کو ان کی اوقات بتا دی ہے اور کہا ہے کہ کتوں اور انسانوں کا کوئی میل نہیں ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ بچپن سے ہی پاگل کتے کو انسانوں سے چڑ تھی اس لئے سرداری کی پگڑی پہناتے ہوئے بھی کئی نامور کتوں سے اسکے سردار بننے کی شدید مخالفت کی تھی۔مگر پاگل کتے کا اثر رسوخ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ایک نہ سنی گئی۔
اب جبکہ پاگل کتے کی سرداری کا دور ہے اس لئے میرا انسانوں کو یہی مشورہ ہے کہ کتوں سے بچ کر رہیں یہ نہ ہو کہ انہیں پیٹ میں چودہ ٹیکے لگوانا پڑجائیں۔
ویسے بھی استاد شیدا کہتا تھا کہ کتا گلی کا ہو یا محل کا گر کاٹ جائے تو ٹیکے لگوانا ہی پڑتے ہیں ۔

جمعرات، 7 ستمبر، 2006

باندر کِلا

دنیا میں بہت سے کھیل ایسے ہیں جو زمانہِ قدیم سے چلے آرہے ہیں ۔ ان میں کچھ کھیل ایسے بھی ہیں جو صرف علاقائی سطح پر کھیلے جاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ان قدیم کھیلوں میں ہمیں صرف چند کھیل ہی ایسے ملیں گے جن کی اپنی اصل ابھی تک باقی ہے کیونکہ باقی کھیلوں کو چاہے وہ علاقائی ہوں یا بین الاقوامی جدیدیت کے آ جانے کی وجہ سے لوگ بھلا چکے ہیں۔
علاقائی کھیلوں میں یوں تو بہت سے کھیل ایسے تھے جو اپنی مثال آپ تھے اور اُن کھیلوں میں سے ایک کھیل بَاندر کِلا بھی تھا۔ باندر کِلا پنجابی زبان کا لفظ ہے ،اردو میں ہم اس کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ “ بندر کھونٹا“ اردو میں “ باندر “ کو بندر اور “ کلا “ کو کھونٹا کہا جاتا ہے۔کھونٹا یا کِلا وہ ہوتا ہے جس کا ایک حصہ پتلا ہوتا ہے اور یہ لکڑی کا ہوتا ہے ہے اور اسے زمیں میں گاڑ کر اُس سے کوئی چیز مثلاً گائے ، بھینس وغیرہ یعنی جانور باندھ دئے جاتے ہیں۔
اس کھیل میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ بہت سے لڑکے آپس میں جمع ہو کر آپس میں قرعہ نکالتے ہیں پھر جس لڑکے کا نام نکل آتا ہے اس کے ہاتھ میں رسی باندھ کر اسے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور باقی سارے لڑکے اپنی اپنی جوتیاں اتار کر اس کھونٹے کے پاس رکھ دیتے ہیں۔اب اس باندر ( بندر ) یعنی لڑکے نے چاروں طرف گھوم کر کسی لڑکے کو جوتیاں نہیں اُٹھانے دینی اور سب لڑکوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح ایک ایک کر کے یا پاؤں مار کر جوتیوں کو کھونٹے سے دور کر کے اُٹھا لی جائیں۔
اگر تو وہ باندر ( بندر ) یعنی لڑکا کسی لڑکے کو پکڑ لیتا ہے تو باندر بننے کی باری اس کی آ جاتی اور اگر لڑکے ساری جوتیاں اُٹھا لیتے ہیں تو پھر اُن جوتیوں سے باندر کی وہ درگت بنے گی کہ خدا کی پناہ۔
جو سیانا ( عقل مند ) باندر ہوتا ہے وہ تو باندر بنتے ہی اپنے ہاتھ کی رسی کو کھول کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے اور ایسا موقع آتے ہی کہ جب اُس کی درگت بنے کِلے ( کھونٹے ) سے ایسا بھاگتا ہے کہ ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔
مگر بابا عیدو اپنی ہی ہانکتا ہے ، بات کوئی بھی ہو وہ مثال دینے سے باز نہیں رہتا، کہتا ہے ،
“ بندر کے ہاتھ میں اگر ماچس آ جائے تو وہ جنگل کو ہی آگ لگائے گا“
ویسے سوچا جائے تو بابا عیدو بھی ٹھیک ہی کہتا ہے ، ماچس تو باندر کے ہاتھ میں ہی ہے۔

منگل، 29 اگست، 2006

اکبر بگٹی کی شخصیت پر ایک نظر

اکبر بگٹی نے ایک انٹرویو میں اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان ختم ہو گیا تو بلوچستان کی تجاویز یہ ہیں،
١۔ عظیم تر چھوٹا بلوچستان
٢۔ بلوچستان ، سندھ اور ڈیرہ غازی خاں کے ادغام سے ایک آزاد مملکت
٣۔ بلوچستان ، پختونستان اور افغانستان کے تین ممالک کی کنفیڈریشن
٤۔ سوویت ری پبلک آف بلوچ
افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء اور روس کی ٹوٹ پھوٹ سے پہلے اکبر بگٹی کا خیال کچھ اور تھا تاہم بعد میں ان کا یہ خیال بنا کہ مذکورہ تمام تجاویز میں سے سوویت ری پبلک آف بلوچ والی تجویز کی بجائے باقی تمام تجاویز پر عمل پیرائی کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔
ایک باخبر ذریعہ کے مطابق وفاقی حکومت سے سوئی گیس کی رائلٹی کے نام پر نقد اور سہولتوں کے حوالے سے تقریباً ٢٥ کروڑ روپے سالانہ وصول کرنے والے نواب اکبر بگٹی سوئی میں ہونے والے فوجی اپریشن کے خلاف متحرک تھے۔
بلوچستان میں بم دھماکوں ، گیس پلانٹ اور ایف سی کے قافلوں پر حملوں کا ذمہ دار ملک دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ بگٹیوں کا بھی ہاتھ تھا۔

نواب اکبر بگٹی ١٠ جولائی ١٩٢٧ کو پیدا ہوئے۔ان کا اصلی نام شہباز خان تھا جو ان کے دادا کے نام پر رکھا گیا لیکن وہ اکبر بگٹی کے نام سے مشہور تھے۔ابھی وہ چھوٹے تھے کہ ان کے والد نواب صحراب خان کا انتقال ہو گیا۔١٩٣٩ میں جب اکبر بگٹی کی عمر ١٢ سال کی تھی تو انہیں قبیلے کا سردار بنا دیا گیا۔لیکن بلوچستان کی روایت کے مطابق سردار کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے ٢٠ سال کی عمر ضروری تھی۔لہذا اس عمر تک پہنچنے کے لئے میر جمال خان بگٹی کو سردار مقرر کر دیا گیا۔
١٩٤٧ میں نواب اکبر بگٹی نے قبیلے کے سردار کی حثییت سے ذمہ داریاں سنبھالیں۔ابتدائی تعلیم انہوں نے کوئٹہ ، کراچی اور ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔١٩٤٣ میں بقول اکبر بگٹی کے کانگرس کی تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے ہیٹ اور ٹوپیاں جلا دیں اور گاندھی ٹوپی پہن لی۔١٩٤٧ میں ریفرنڈم ہوا اور اکبر بگٹی نے تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا۔ کیونکہ بقول ان کی عمر کم تھی ۔
ایوب خان کے دور میں ان پر اپنے چچا ہیبت خان کے قتل کا کیس بنا اور ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی تاہم بعد میں سزا ختم کر کے انہیں رہا کر دیا گیا۔
سیاست میں قدم رکھنے کے بعد اکبر بگٹی اعلیٰ عہدوں پر بھی براجمان رہے۔رکن اسمبلی اور صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔
اکبر بگٹی ١٩٥٨ میں سیاست میں داخل ہوئے اس وقت سکندر مرزا نے انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا لیکن ان کی اصل ہنگامہ خیز سیاست کا دور ١٩٧٠ سے شروع ہوا۔١٩٧٠ کے انتخابات مین اکبر بگٹی نے حصہ نہیں لیا۔١٢ فروری ١٩٧١ کے اخبارات میں ان کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ اکبر بگٹی شیخ مجیب الرحمن سے ملنے ڈھاکہ پہنچے ہیں۔یہاں دونوں لیڈروں نے آئین سازی کے اہم معاملات پر گفت و شنید کی۔بعد میں شیخ مجیب نے کہا لہ چھ نکاتی پروگرام صرف بنگلہ دیش کے لئے نہیں بلکہ بلوچستان اور دیگر صوبوں کے لئے بھی ہے اور اکبر بگٹی نے مجھ سے سو فیصد اتفاق کیا ہے۔
٣ سمبر ١٩٧١ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان میں اصغر خان واحد سیاستدان تھے جنہوں نے فوراً بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح ہم روٹھے بھائیوں کو منا سکتے ہیں۔اکبر بگٹی اس موقع پر اچانک تحریک استقلال کے پلیٹ فارم پر نظر آئے اور ١٨ جنوری ١٩٧٢ کو نشتر پارک کے جلسہ میں لوگوں نے انہیں دیکھا جس کی صدارت بگٹی نے ہی کی تھی۔
١٥ مارچ ١٩٧٢ کو وزیراعظم بنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو روس کے دورے پر روانہ ہوئے تو سیاسی حلقوں بڑی حیرانگی ہوئی کہ وہی اکبر بگٹی جو ایک ماہ پہلے تک بھٹو کے شدید مخالف تھے وہ بھٹو کے سرکاری وفد میں کیسے شامل ہیں۔بگٹی اس وفد کے ساتھ واپس نہیں آئے اور انہوں نے روس میں ہی رہنے کو ترجیح دی اور وہاں سے وہ پھر برطانیہ چلے گئے اس دوران انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان کے خلاف بات کرتے ہوئے آزاد بلوچستان اور بھارت کے ساتھ کنفیڈریشن کی بات کی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 26 اگست، 2006

جَلا دو ۔ گِرا دو ، مار ڈالو

اصول و ظوابط نہ جانے کہاں کھو گئے ، قانون کی پاسداری کا بھی خیال نہیں ، لاٹھی ہے تو ہانکے چلے جاؤ ۔ گولی ہے تو مار ڈالو ، خنجر ہے تو گھونپ دو ، تو پھر توپ داغنے میں بھی ڈر کیسا۔
انسانی قدریں جانے کہاں کھو گئیں مگرسنو تو حقوقِ انسانی کی بازگشت چارسُو گونج رہی ہے اور اس گونج میں انسان کی بے بسی صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
خوف پھیلتا جا رہا ہے ، اندھیرا ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ، کچھ قربان ہورہے ہیں تو کچھ قربان کر رہے ہیں اور کچھ اس تماشے کودیکھ رہے ہیں۔تماشا دیکھنے اور کرنے والوں کا اصطبل ایک ہی ہے دونوں ہی اپنے نشے میں مست ہیں۔اور یہ مستی ابھی اور رنگ دکھائے گی جس کا رنگ بھی گہرا ہوگا۔



اتوار، 20 اگست، 2006

محترم منتظمین اردو ویب اور محترم اجمل صاحب

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو کی ترویج میں اردو ویب کا کردار اور خصوصاً زکریا کی کاوشوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
مگر بات یہاں اصولوں اور نظریات کی تھی۔کوئی تو اپنے اصولوں اور نظریات کو وقتی مصلحت یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتا ہے اور کوئی کلیتہً رد کرتا ہے۔
یہاں بات انتظامیہ کی طرف سے نظریات کے رد کی تھی۔یہ صحیح ہے کہ ہر کسی کے نظریات ایک سے نہی ہو سکتے مگر ان نظریات کا احترام تو کرنا چاہئے۔ایک بندہ اسلام کا مذاق اُڑاتا رہے اور انتظامیہ لوگوں کے توجہ دلانے پر یہ کہہ کر خاموش کر دے کہ سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔
اگر یہی اظہار رائے کی آزادی تھی تو ہماری باتیں بھی برداشت کرنی چاہئے تھیں۔
ہر بندے کی ایک عمر ہوتی ہے اور عمر کے لحاظ سے اُس میں جذباتی پن بھی ہوتا ہے اور اس جذباتی پن میں علم اور عقل کا عمل دخل کم ہو جاتا ہے اور جہاں بات اسلام کی ہو تو ہم مسلمانوں میں جو مذہبی گھرانوں سے بھی تعلق رکھتے ہوں چاہے اُن کے خود کے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں ، مگر بات جب اور جہاں اسلام کی آجائے جذبات میں شدت آ جاتی ہے۔اور اسی شدت کی وجہ سے ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔
یہ بھی صحیح ہے کہ جذبات میں اسلامی تعلیمات اور تہذیب کو مدِ نظر رکھنا چاہئے تھا۔مگر ایسا نہیں ہوا، اس کی صرف ایک وجہ تھی وہ یہ کہ ، لاوا کافی عرصہ سے اُبل رہا تھا۔انتظامیہ کو پہلے ہی چاہئے تھا کہ شروع میں ہی ایسی باتوں کو روک لگاتی جس سے ہم مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو تاکہ یہ نوبت آنے ہی نہ پاتی۔
اب جبکہ سب کچھ ہو چکا تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد پہ اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے
محترم اجمل صاحب ، جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو آپ سے اور دوسرے محترم بزرگ بلاگروں سے درخواست کی گئی تھی کہ آگے بڑھ کر یہ سارے معاملات سلجھائیں۔تب آپ سب خاموش رہے تھے اگر تب آپ محترم بزرگ آگے آتے تو شاید یہ نوبت نہ آنے پاتی۔
اب آپ کی یہ تجویز یہ ہے کہ سب کو اکھٹا رہنا چاہئے ، اور کسی ایک تو اپنا شملہ نیچا کرنا چاہئے۔ہمیں اب بھی کوئی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ آپ آگے بڑھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں۔انصاف کے فیصلے مشکل ضرور ہوتے ہیں مگر ناممکن نہیں۔

ہفتہ، 19 اگست، 2006

خواجہ سرا

انڈین ہیجڑا کاجل

انسانوں میں تیسری مخلوق کو پنجابی میں ہیجڑا ، کھسرا ، اردو میں خواجہ سرا اور مغربی زبان میں لیڈی بوائے بھی کہا جاتا ہے۔یہ صنف دونوں میں سے یعنی مرد اور عورت میں سے کوئی بھی ہو سکتی ہے مگر عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ خواجہ سرا مردوں میں زیادہ ہوتے ہیں۔

خواجہ سرا عموماً معصوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے کچھ خواجہ سرا تشدد پسند بھی ہوتے ہیں۔پاکستان میں پیشہ ور خواجہ سراؤں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جبکہ ہندوستان میں ان کی تعداد ١٠ سے پندرہ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔

انڈین ہیجڑے

دس پندرہ سال پہلے تک پاکستان میں شہروں میں بھی خواجہ سرا کسی بچے کی پیدائیش یا شادی بیاہ کے موقع پر اپنا ناچ گانا دکھانے چلے آتے تھے مگر اب تو گاؤں دیہات میں بھی خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔جبکہ ہندوستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے کلکتہ ، ممبئی اور دہلی جیسے بڑے شہروں کی اندروں گلیوں میں اب بھی ان کا ناچ گانا سننے کا عام مل جاتا ہے۔

منگل، 15 اگست، 2006

گردن کٹی اور پاکستان آزاد ہو گیا

لاہور میں جشن آزادی کے موقع پر تین سالہ بچی کے گلے پر ڈور پھیر کر آزادی کے متوالوں نے چودہ اگست کی آزادی کا بھر پور جشن منایا۔
اسلامیہ پارک کی رہائیشی دادا ، دادی کے ہمراہ ایک تین سالہ بچی خدیجہ موٹر سائیکل پر سیر کے لئے جب علامہ اقبال روڑ پر پہنچے تو ایک کٹی پتنگ کی ڈور نے خدیجہ کی شہہ رگ کاٹ دی۔خدیجہ کو فوری طور پر شالامار ہستپال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکی۔
ایک اطلاع کےمطابق پولیس نے ایک پتنگ باز کو گرفتار کر لیا ہے۔مگر لاہور میں دوسرے پتنگ بازوں کے نعرے اب بھی چھتوں پر گونج رہے ہیں۔

پیر، 14 اگست، 2006

اک دعا

pkflag.gif

یا میرے اللہ پاک ، ہمارے ملک میں اسلام نافذ فرما
یا میرے اللہ پاک ، ہمارے ملک پاکستان کو چوروں ڈاکوؤں سے بچا
یا میرے اللہ پاک ، ہمارے ملک کو علماء سو سے بچا
یا میرے اللہ پاک ، ہمارے ملک کو گندے سیاستدانوں سے بچا
یا میرے اللہ پاک ، ہم سب کو اتفاق اور اتحاد سے رہنے کی توفیق عطا فرما
یا میرے اللہ پاک ، ہمارے ملک پاکستان میں امن و سکون عطا فرما
آمین

پاکستان زندہ باد

جمعہ، 11 اگست، 2006

واصف علی واصف

لاہور شہر میں چوبرجی کی طرف سے اگر آپ میانی صاحب کی طرف جائیں تو قبرستان ختم ہونے سے تھوڑا پہلے دائیں ہاتھ پر ایک بڑے سے بورڈ پر بڑے جعلی حروف میں حضرت واصف علی واصف لکھا نظر آتا ہے ١٩٩٠ اور ١٩٩١سے پہلے اسی جگہ میانی صاحب کے قبرستان کی آخری کھائیاں بنی ہوئی تھیں جہاں لوگ عموماً گندگی اور کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینکا کرتے تھے۔اور انہیں دنوں میں اور میرا دوست رضا شاہ ( جس کے ابھی تک دو امام باڑے ٹھیکے پر چل رہے ہیں) حسبِ معمول اپنی ڈیوٹی پر جارہے تھے کہ کیا دیکھتے ہیں ،سڑک سے تھوڑا اندر کھائی کے بالکل اوپری کنارے پر کچھ لوگ کھڑے ایک مردے کو دفنا رہے تھے۔میں بڑا حیران ہوا اور شاہ سے کہنے لگا ، یار شاہ جی اس بیچارے کا آگے پیچھے کوئی نہیں لگتا جو یہ لوگ پورے قبرستان کی جگہ کو چھوڑ کر ایسی جگہ اس کو دفنائے جا رہے ہیں۔
کہنے لگا آؤ دیکھے لیتے ہیں کہ کیا مسلئہ ہے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ نشئی آدمی تھا اور پتہ نہیں کیا لکھتا رہتا تھا اور آخر کار آج چل بسا ، اسی کو دفنا رہے ہیں۔
ہم اپنی راہ ہو لئے ، گذر تو ہمارا روزانہ اُدھر سے ہی ہوتا تھا ، کیا دیکھتے ہیں کہ مہینہ بھر بعد ہی وہاں پر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا دیا گیا جس پر صرف واصف علی لکھا ہوا تھا۔بورڈ کو دیکھتے ہی میں نے شاہ سے کہا ، یار شاہ جی دیکھنا،یہاں ایک مزار ضرور بنے گا اور اگلے سال سے یہاں عرس بھی ہو گا، شاہ ہنسنے لگا اور کہا ، نہیں یار اب ایسا بھی کیا۔مگر میں اپنی بات پر مصر رہا۔
وقت گذرتا چلا گیا ۔روزانہ ہی ہماری نگاہ اس قبر پر ضرور پڑتی تھی ، آہستہ آہستہ پہلے اُس قبر کو پختہ کیا گیا پھر سڑک سے قبر تک جانے والے راستے کو تھوڑی سی مٹی ڈال راستہ بنا دیا گیا۔
ایک سال گذرنے کے بعد وہاں عرس تو نہ ہوا مگر یہ ضرور ہوا کہ دو چار ڈھول والے وہاں ڈھول پیٹتے ضرور دیکھے گئے۔میں نے پھر شاہ کو یاد کروایا اور کہا ، شاہ جی یہاں عرس ضرور ہو گا۔
١٩٩٤تک ہم نے دیکھا کہ قبر کو مکمل پختہ کر دیا گیا اور اُس کے اوپر ٹین کی چھت ڈال دی گئی تھی اور قبر کے باہر بائیں ہاتھ پر ساتھ ہی ایک لیٹرین بنا دی گئی اور واصف علی کی جگہ ، حضرت واصف علی واصف لکھا جا چکا تھا،قبر تک جانے والی جگہ کو پکی کر دیا گیا اور قبر کے پیچھے کھائیوں پر آہستہ آہستہ بھرتی ڈلوائی جا رہی تھی۔١٩٩٤ میں ہی پہلی د فعہ ہم نے میانی صاحب کی دیواروں پر حضرت واصف علی واصف نام کے عرس کے اشتہار بھی لگے ہوئے دیکھے ۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے شاہ کو کہا تھا کہ یار شاہ جی اس مزار کا ٹھیکہ لے لو ساری عمر عیش کرو گے۔شاہ میری بات سن کر ہنس پڑا تھا۔
آج جب کہ اتنا عرصہ بیت چکا،واصف علی کو لوگ حضرت واصف علی واصف کے نام سے جانتے ہیں اور اُس کا عرس بڑی شان سے منایا جاتا ہے۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اُس کی ایک ویب سائٹ بھی انٹر نیٹ پر موجود ہےاور بہت سی صوفیانہ کتابیں جو کمائی کی خاطر پتہ نہیں کس کی لکھیں ہوئی ہیں ، مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔


بدھ، 9 اگست، 2006

اسرائیل اور امریکہ کی امن پسندی

آج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُنتسویں روز بھی امریکہ اور اسرائیل کا دنیا کو امن پسندی کا گہوارہ بنانے کے لئے لبنان پر امن کے گولے داغنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ شاید امریکہ اور اسرائیل کے خیال میں یہی بچے کل کو جوان ہو کر دنیا کا امن تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

Source:
http://www.fromisraeltolebanon.info

http://www.fromisraeltolebanon.info



منگل، 8 اگست، 2006

بَلوں کی خود کشی


آج انگلینڈ کے خلاف میچ میں پاکستان کے بلوں نے خود کشی کر لی جس کی وجہ سے ہماری پاکستانی ٹیم کو خالی ہاتھوں سے کھیلنا پڑا۔اور خالی ہاتھوں کھیلنے کی وجہ سے مجبوراً انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
دیکھا جائے تو یہ معمول کی بات تھی مگر بابا عیدو کہتا ہے کہ کچھ کھلاڑی بِک چکے تھے۔اور ایسے کھلاڑی ہمیشہ سے ہی پاکستان کی عزت ہمیشہ داؤ پر لگاتے رہے ہیں۔
اصل میں بابا عیدو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے عموماً ایسی ہی بےوقوفی کی باتیں کرتا رہتا ہے ، دیکھا جائے تو ایسا پاکستانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ ہمارے کسی کھلاڑی نے ایسا کر کے پاکستان کی عزت داؤ پر لگائی ہو، ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے کوئی غریب کھلاڑی کسی امیر آدمی سے کبھی کبھار دال روٹی کے پیسے لے لیتا ہو مگر اس سے یہ کہنا کہ ایسا کرکے اُس نے پاکستان کی عزت کو داؤ پر لگا دیا ،سراسر نا انصافی کی بات ہوگی۔
کھیل تو کھیل ہے اس میں عزت کا کیا کام ، مگر بابا عیدو مصر ہے اپنی بات پر ، پاگل جو ہوا۔

پیر، 7 اگست، 2006

ہم اور ہمارے لوگ

یہ خوبصورت تصویر نیٹ سے لی گئی ہے اور یہ ہمارے پاکستان کے خوبصورت لوگوں کی تصویر ہے۔یہی ہمارا کلچر ہے انہیں میں سے لوگ ہمارے ہاں بڑے آدمی بھی بنتے ہیں اور جب ایسے لوگوں میں سے کوئی بڑا آدمی بنے تو اسی کے دل میں ہی غریب آدمی کا درد جاگتا ہے۔محلوں اور کوٹھیوں میں رہنے والوں کو کیا پتہ کہ غریب آدمی کا درد کیا ہوتا ہے۔


ہم اور ہمارے لوگ

جمعہ، 4 اگست، 2006

زیادتی

ہمارے پاکستان میں جب کسی عورت سے زیادتی ہو جائے چاہے وہ زیادتی جان بوجھ کر میڈیا والوں نے ہی کیوں نہ اُچھالی ہو تو این جی اوز ایسا واویلا مچاتی ہیں کہ خدا کی پناہ ، پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کی جاتی ہے اور ایسے ایسے الزامات پاکستان پر لگائے جاتے ہیں کہ ہلاکو خان کے دور کو لوگ اچھا جاننے لگ جاتے ہیں۔اور ساتھ ہی ساتھ ہمسایہ ملک بھارت کی جمہوریت کی ایسی مثالیں بیان کی جاتی ہیں کہ جیسے جنت بھارت ہی کے قدموں تلے ہو۔
ابھی پرسوں کی ہی بات ہے کہ ہمارے ملک کی مایہ ناز این جی اوز کی سربراہ محترمہ عاصمہ جہانگیر جن کا تقریباً پچھلے دو سالوں میں زیادہ تر وقت انڈیا میں گذرتا تھا، کے ساتھ انڈیا میں ہی زیادتی ہو گئی ، کہا یہ جاتا ہے ان کی جامہ تلاشی لی گئی اور جامہ تلاشی بھی بھارت کے مردوں نے زبردستی لی۔جب اس پر احتجاج کیا گیا تو ان مردوں کی طرف سے معذرت کی بجائے وزیر اعظم نے بذاتِ خود معافی مانگ لی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں ، اگر یہی بات پاکستان میں وقوع پذیر ہوئی ہوتی تو این جی اوز اسے اتنا اچھالتیں کہ بالاخر صدر بش کو اس میں دخل اندازی کرنا پڑتی اور تلاشی لینے والوں کوالقاعدہ کے دہشت گرد ہونے کے جرم میں اندر کر دیا جاتا۔


ہر لمحہ تازہ ترین اردو راکٹ

منگل، 1 اگست، 2006

گھوم برابر گھوم ، لاٹو

بٹیر بازی ہو یا ککڑ بازی ( مرغ ) ، کتے اور ریچھ کی لڑائی ہو یا اخروٹ بازی ، پِل گولی ہو یا گِلی ڈنڈا ، کبوتر بازی ہو یا تاش کی بازی ، لُڈو ہو یا شطرنج کی بازی ، ان سب کا اپنا ایک علیحدہ مزا ہے۔
لاٹو بازی ( لًٹو ) بھی ایک فن ہے۔اور پھر لًٹو کو چلانا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں۔لَٹو کی تین قسمیں عموماً دیکھنے کو ملتی ہیں۔
مٹی کا لًٹو ، یہ خاص مٹی کو گوندھ کر بنایا جاتا ہے ایسی مٹی جس سے عموماً مٹی کے برتن بنتے ہیں۔
سلور اور پلاسٹک کا مکس لًٹو، یہ لًٹو کھلونے جیسا ہوتا ہے۔اور یہ لَٹو بازی میں کام نہیں آتا۔
لکڑی کا لًٹو ، یہ لکڑی کا بنا ہوا خوبصورت نقش و نگار والا لًٹو ہوتا ہے اور یہی لًٹو ایسا ہے جس سے بازیاں کھیلی جاتی ہیں۔
کسی زمانے میں ملتان شہر میں اس کی بڑی بڑی بازیاں لگتی تھیں دور دور سے لوگ ان لاٹو بازیوں کو کھیلنے اور دیکھنے آیا کرتے تھے۔سب سے زیادہ لاٹو بنتے بھی ملتان شہر کے ایک علاقے حرم گیٹ میں ہی تھے۔
حرم گیٹ میں اگر آپ داخل ہوں تو بالکل سیدھا بازارِ حسن ہے ۔سننے میں آیا ہے کہ اپنا انٹر نیٹ والا بیلا پہلوان بھی وہیں کا ہے۔دائیں ہاتھ کو لوہاری گیٹ کی طرف راستہ جاتا ہے اور بائیں ہاتھ پر لاٹوؤں کے استادوں کی دکانیں تھیں۔جن میں تین بڑے استاد ، مستانہ ، دیوانہ اور پوستی نام کے تھے۔اور ان کے لاٹو بھی انہیں کے ناموں سے منسوب بھی تھے۔
مستانہ لاٹو کو جب چھوڑا جاتا تھا کہ جانو گھنٹہ بھر تو گرے گا نہیں اور سبک رفتار اتنا تھا کہ بنانے والے پر رشک آتا تھا۔آخری وقت میں تو اس کی چال ایسے ہوتی تھی کہ اب گرا کہ اب گرا ، مگر گرتے گرتے بھی پانچ منٹ کھا جاتا تھا۔
اس کے برعکس دیوانہ لاٹو شروع سے ہی بہت تیز رفتاری سے گھومتا تھا اپنے نام کی مناسبت سے لگتا سب کو ایسا ہی تھا کہ اس کی دیوانگی کبھی رکنے کی نہیں مگر گرتے وقت اس کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب گرا۔
پوستی لاٹو ، اپنے نام کی طرح عجیب چال پے گھومتا تھا ، پھینکتے ہی یوں محسوس ہونا شروع ہوجاتا تھا کہ جیسے تھم سا گیا ہو ،دکھائی ہی نہیں دیتا تھا کہ گھوم بھی رہا ہے یا نہیں ، لگتا یوں ہی تھا جیسے زمین پر کوئی چیز چمٹی ہوئی ہو ۔خوب چال تھی اس کی بھی۔
لاٹو کوئی بھی ہو آخر گھومتا ہی ہے اور اگر لاٹو مستانے ، دیوانے اور پوستی جیسا ہو تو گھومنے کے ساتھ جھومتا بھی ہے ۔
دیکھا جائے تو انسان بھی ایک لاٹو ہی ہے ، فرق صرف اتنا سا ہے کہ یہ لاٹو اپنے ہی بنائے ہوئے خود ساختہ مدار میں گھوم رہے ہیں۔اور اگر یہ اسی طرح گھومتے رہے تو دیکھنا آخر یہ ایک دن ضرور گر پڑیں گے۔



ہر لمحہ تازہ ترین اردو راکٹ

ہفتہ، 29 جولائی، 2006

بابے عیدو کی باتیں

بابا عیدو یوں تو شطرنج کی بساط پر بیٹھا اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے مگر جب بھی بات کرتا ہے تو ہمیشہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ، کہنے لگا ، جب تک پاکستان میں لبنان کے حق میں بھرپور مظاہرے نہیں ہوتے دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں کبھی تیزی نہیں آئے گی۔ کیونکہ پاکستان ہی ایک ایسا واحد ملک ہے جہاں اسلامی تحریکیں گو کہ وہ جیسی بھی ہوں اسلام کے نام پر عوام کو تیزی سے حرکت میں لا کر مظاہرے کروا سکتی ہیں اور جب مظاہرے ہوں گے تو لامحالہ ان میں شدت بھی ہو گی اور اسی شدت میں خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے۔اور جب یہی چیزیں میڈیا پر آئیں گی تو پوری دنیا خصوصاً اسلامی دنیا میں اس پر ردِ عمل بھی ہو گا اور یہ مظاہرے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں۔
بابا عیدو کہنے لگا اگر تم تھوڑا سا غور کرو تو تمہیں سہی اندازہ ہو گا کہ یہی سب چیزوں کو روکنے کئے لبنان پر حملہ کرنے سے پہلے اس پر بھر پور پلاننگ کی گئی تھی۔یہ پلاننگ اہل سننت کی میلاد کانفرنس سے شروع کی گئی۔وہاں بم دھماکہ کروا کر فرقہ واریت کو ھَوا دی گئی اور ابھی اس کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ عین لبنان کے حملے کے ابتدائی ایام میں ایک شعیہ عالم کو مروا دیا گیا تاکہ شعیہ اور سنی کو آپس میں لڑوا کر ان کو علحیدہ رکھا جا سکے۔
کہنے لگا ، ان مظاہروں کو روکنے کے لئے سب سے بڑی جو بساط بچھائی گئی وہ جان بوجھ کر حکومت کے خلاف باتوں کو ہوا دینے کا عمل شروع کر دیا گیا تاکہ سیاست دانوں اور تمام اسلامی تحریکوں کا دھیان اس طرف لگایا جاسکے۔اوراس کھیل میں بھرپور رنگ بھرنے کے لئے طافو بھائی ( الطاف بھائی ) کا کردار سب سے اہم تھا۔
بابا عیدو کی آخری بات مجھے اب بھی پریشان کر رہی ہے ، کہنے لگا ، ایران کی باری بھی بس آیا ہی چاہتی ہے ، بساط بچھا دی گئی ہے بس مہرے آگے کرنا باقی ہیں۔



ہمارے اردو راکٹ کے اس لوگو کو اپنی ویب سائٹ یا بلاگ کے کسی کونے کھدرے میں جگہ دے کر مشکور فرمائیں

اگر آپ ہمارے اردو راکٹ کا یہ لوگو اپنی ویب سائٹ یا بلاگ پر لگاتے ہیں تو ہم آپ کے انتہائی مشکور ہوں گے

جمعہ، 28 جولائی، 2006

مان کے ہی نہیں رہتے

شیدا ٹلی سے میری ملاقات سعید چائے والے کے ہوٹل میں ہوئی تھی۔بڑا خوش تھا۔پوچھنے پر کہنے لگا۔لگی بھئی لگی، میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا، کیا مطلب شیدے ، کچھ پلے نہیں پڑا،کس کو لگی اور کیا لگی ، کہاں کی ہانکے جا رہا شیدے یار۔
وہ جو انٹر نیٹ پر تیری الفاظوں کی مارا ماری ہے نا ،اُس کی بات سوچ رہا تھا کہ سچی بات کی چھبن ضرور ہووے ہے۔
وہ تو ہے یار شیدے ، پر تجھے کیسے پتہ چلا۔
ارے جانی پتہ کیسے نہیں چلے گا تو کیا جانے ہے ارے ساری نظر ہے۔
کس پر؟
ارے جانے دے اور سن ، یہ جو ہووئیں ہیں نا ، یہ تکیہ کرتے ہیں ، تو جتا جی چاہے کہتا رہ ، مان کے ہی نہیں رہتے۔

جمعرات، 27 جولائی، 2006

یہودیوں کے ہمنوا

ہمارے باہر کے رہنے والے بہت سے مسلمانوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ جو باہر رہ کر اور زیادہ مسلمان ہو جاتے ہیں اور کچھ میں سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ، جان و مال اور وہاں رہنے کی خاطر مسلمانی تو کیا سب کچھ بھول کر ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔اس کی مثال ہماری اردو کیمونٹی میں دیکھنے کو عام ملتی ہے۔اس کیمونٹی میں سے کرتا دھرتا دو کردار ایسے ہیں جو سرعام یہودیوں کو اچھا بھی کہتے ہیں اور انہیں سپورٹ بھی کرتے ہیں اور روشن خیالی ( جس کو میں جدید دہریت کہتا ہوں ) میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

ان میں سے ایک کردار آج کل لبنان کی صورتحال کو دیکھ کر بڑھ چڑھ کر اسرائیل کے حق میں چنگھاڑ رہا ہے۔لبنان میں جب بچوں پر گولہ بارود گرتا ہے تو اس کی چنگھاڑ میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔مردوں کو مردہ بنایا جا رہا ہے تو اس کی تحریروں اسرائیل کے حق میں اور مٹھاس شامل ہوتی جارہی ہے۔

آج کی چنگھاڑ میں تو اس کے منہہ سے خون نکلتے بھی دیکھا گیا ہے۔القاعدہ کی ایک خبر پر تو لگا جیسے اس کو دورہ سا پڑ گیا ہو فوراً ہی اس نے ایک تحریر زہر میں بجھی ہوئی اپنے آقا اسرائیل کے حق میں لکھ ماری ہے۔اُس کی اس چنگھاڑ کو دیکھ کر مجھے خاص حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ حزب اللہ ایک شعیہ تنظیم ہے اور اگر ایک شعیہ ہی اُس پر چنگھاڑے تو حیرت کے جھٹکے لگنا ایک فطری عمل ہے۔مگر شاید اس روشن خیال کو بھی ابھی باہر کے ملک رہنا ہے اور باہر والوں کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ انہیں اپنے مذہب سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔

منگل، 25 جولائی، 2006

مدد کیوں نہیں آتی ؟

کشمیر ، فلسطین ، چیچینا ، بوسینا ، افغانستان پر بمباری ،عراق کی تباہی اور اب لبنان کا ملیا میٹ ہونا ، یہ سب کیا ہے؟ ایسا ظلم مسلمانوں پر ہی کیوں؟
ذرا نظر تو دوڑایے ہم مسلمانوں کے رہن سہن پر ، ذرا نظر تو دوڑایے ہمارے مسلمانوں کے اعمالوں پر، تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہر قوم میں کوئی نہ کوئی برائی تھی ،کوئی قوم لوط تھی تو کوئی قومِ عاد ، کوئی قومِ ثمود تھی تو کوئی قوم فرعون ، کہاں گئیں یہ قومیں؟ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ملیا میٹ کر دیا، کیوں کیا؟ ان سب کے اعمال کے سبب۔
ذرا نظر تو دوڑایے آج کل ہم مسلمانوں میں پچھلی تمام قوموں کی برائیوں میں کس چیز کی کمی ہے۔ہاں فرق صرف اتنا ہے کہ پچھلی قوموں میں صرف ایک ایک برائی تھی جبکہ ہم میں تمام قوموں کی برائیاں جمع ہیں۔
تو پھر بم کیوں نہ گریں ، زلزلے کیوں نہ آئیں ، ذلت و خواری ہم مسلمانوں کے حصہ میں کیوں نہ آئے۔

روشن خیال لوگ ( جدید دہریے ) کہتے ہیں کہ یہی سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ مغرب ممالک میں بھی ہوتا ہے۔وہاں تو تباہی نہیں آتی ، وہاں تو بم نہیں گرتے ، بلکہ وہ تو خوش حال ہیں ، سب کچھ تو ہے ان کے پاس ، بلکہ کچھ روشن خیال تو آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی زمین کو جنت بنا رکھا ہے۔

بیوقوف ہیں یہ لوگ ، یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلم بنایا،اور مسلمانوں کے لئے کچھ قوانین مقرر کئے۔اور یہ قوانین ہماری بہتری ، ہماری بھلائی کے لئے بنائے، ہم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے۔ہمیں ان کافر لوگوں کی طرح کھلا نہیں چھوڑا گیا کیونکہ ان کے مقدر میں جہنم ہے،جبکہ ہم مسلمانوں کو دونوں راستے بتا دئے گئے اور اس کے لئے جزا و سزا بھی مقرر کر دی گئی۔اب ہم اس راستوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کریں۔
دنیا کی سزا ، بم گرنا ، زلزلے آنا ، مسلمانوں کا ذلیل و رسوا ہونا ہمارے اپنے اعمالوں کی سزا ہے۔اور اگر ہم اسی طرح رہے تو یہی سزائیں ہمیں ملتی رہیں گی۔اور اگر ہم ان سزاؤں کو دیکھ کر بھی نہیں سنبھلتے تو پھر ہمارا آخری کنارہ جہنم ہے۔جبکہ کافر لوگوں کو یہاں صرف عارضی یعنی دکھاوے کی خوشیاں نصیب ہیں جبکہ ان کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیش جہنم ہی ہے۔
ہمیں اب بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہئے۔اپنے اعمالوں کو درست کرنا چاہئے اپنی ماؤں بہنوں کو اسلام کے مطابق چلنے کی تلقین کرنی چاہئے اور اگر یہ سب اب بھی ہم نے نہ کیا تو تو اس سے بدتر حالات بھی آ سکتے ہیں۔


اگر آپ ہمارے اردو راکٹ کا یہ لوگو اپنی ویب سائٹ یا بلاگ پر لگاتے ہیں تو ہم آپ کے انتہائی مشکور ہوں گے

پیر، 24 جولائی، 2006

مسلمان پھر سو گئے

یہ لبنان ہے ، کہتے ہیں یہ ہمارا مسلمان ملک ہے۔سوچتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان ملک ہوتا تو او آئی سی ضرور چیختی ، عرب ممالک واویلا ضرور کرتے اور تو اور ہمارے ملک کے صدرِ محترم اسرائیل اور امریکہ کی اس درندگی پر مذمت کے کچھ الفاظ ضرور کہتے۔


Source:
http://www.fromisraeltolebanon.info



Monday, July 17, 2006:South Lebanon: A Lebanese Child Receiving the message from the Israeli girls!

http://www.fromisraeltolebanon.info


http://www.fromisraeltolebanon.info


http://www.fromisraeltolebanon.info


http://www.fromisraeltolebanon.info

http://www.fromisraeltolebanon.info

اتوار، 23 جولائی، 2006

واہ رے علماء سوء

واہ رے علماء سوء
تم سے اچھا تو احمد فراز نکلا۔جس نے صدارتی ایوارڈ واپس کر دیا ایک تم ہو کہ اب تک اپنے عہدوں سے چمٹے ہوئے اسلام کو بیچ کر پاکستان کو اندھیرے کوئیں کی طرف دھکیل رہے ہو۔
اے علماء سوء اگر تم لوگ استعفے دیتے تو بات شائد پھر بھی نہ بن پاتی ، مگر اب دیکھنا عوام میں سے کسی نے آواز اُٹھائی ہے اور یہ آواز وہ ہے جس پر ہمیشہ تم جیسے لوگوں نے روک لگائی ،فتوے صادر کئے۔مگر یہ آواز تمہارے ضمیر کی آواز سے زیادہ زندہ ہے ، یہ آواز وہ ہے جس میں عوام کا لہو شامل ہے،اس کی گونج سے تمہارے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔اور عنقریب دیکھنا یہ آواز تمہارے ایوانوں میں بھی گونجے گی۔



اردو راکٹ

اردو بلاگرز کے نام

تمام محترم اردو بلاگرز کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اب آپ ہمارے اردو راکٹ پر اپنی اور تمام اردو بلاگرز کی تحریروں کا ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔آپ اپنی تحریروں کے علاوعہ بی بی سی اردو ، جنگ اردو اور بوریت ڈاٹ کوم کی تحریروں کو بھی ایک جگہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔
اگر آپ کی فیڈ ہمارے اردو راکٹ میں شامل نہیں ہے تو ذیل میں دیے گئے برقی پتہ پر آپ اپنا آر ایس ایس ایڈریس ہمیں لکھ بھجیے۔


sheikho@gmail.com

اردو راکٹ

ہفتہ، 22 جولائی، 2006

بدتمیز کی میل اور شعیب کی دھمکی

شہزادے بدتمیز نے مجھے جو میل بھیجی ہے وہ میں اردو سیارہ پر دے رہا ہوں
شعیب نے مجھے بھی ایک دھمکی آمیز میل بھیجی ہے جسے میں ساتھ ہی آپ کے دیکھنے اور سند رکھنے کے لئے اردو سیارہ پر پیش کر رہا ہوں۔مجھے امید ہے اردو سیارہ کے ایڈمن اور محترم اردو بلاگر اس پر مثبت اقدام اُٹھائیں گے۔



badtameez mail

badtameez mail

shuaib mail



یہ کیسا انصاف ہے

ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ بدتمیز شہزادے کو اردو سیارہ پر بلاک کر دیا گیا ہے۔مجھے چنداں حیرت نہیں ہوئی۔کیونکہ برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔اور پھر اردو سیارہ کا ایڈمن ذکریا خدا کی شان میں گستاخی پر خاموش رہتا ہے اور جب اپنے اپنے جذبات میں خدا کی شان میں گستاخی کرنے والے بلاگر کے خلاف کوئی بولتا ہے تو اسے غلط کہتا ہے۔اور اسے بلاک بھی کر دیتا ہے
میں تمام محترم بزرگ بلاگر ، جناب ذکریا کے والد صاحب اجمل بھوپال صاحب ، جناب میرا پاکستان صاحب اور دوسرے محترم بلاگرز سے گذارش کرتا ہوں کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر اس مسئلہ پر انصاف کروایا جائے اور بد تمیز کی رکنیت بحال کروانے کے ساتھ ساتھ اردو سیارہ کی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی جائے۔




بدھ، 19 جولائی، 2006

میں نے دو کُتے پال لئے

لوگ کہتے تھے شیخو روشن خیال نہیں ہے ، لو جی آخر کار ہم نے بھی اس دنیا میں قدم رکھنے کا ارادہ کر ہی لیا۔اسی سلسلے میں ہم نے جو پہلا قدم اُٹھایا ہے وہ دو عدد کتوں کا پالنا ہے۔چونکہ مغربی ممالک میں کتوں سے سب سے زیادہ محبت کی جاتی ہے اور یہی محبت پچھلے دنوں آپ سب نے بھی دیکھی ہو گی کہ ورلڈ کپ کے دوران کتوں کو یار لوگوں نے اپنے ملک کی ٹیم کی وردیاں تک پہنا دی اور اسے تمام دنیا میں خوب سراہا بھی گیا۔
سوچتا ہوں ہم پاکستانی بھی کتنے دقیانوسی ہیں کہ کتوں جیسی عظیم شخصیات کو ایویں ہی کتا کتا کرتے رہتے ہیں۔اور تو اور ہم نے کتا کہنے کو بھی گالی بنا لیا ہوا ہے ، شرم آنی چاہئے ہمیں ، مغرب والے کیا سوچیں گے ۔
ویسے تو کُتوں کی بہت سی نایاب نسلیں پوری دنیا میں موجود ہیں مگر جو بات پاکستانی کُتوں اور ہندوستانی کُتوں میں ہے اور کسی میں نہیں۔پاکستانی کتوں میں بگہیاڑ اور ڈبو کتے کی نسل کا توجواب ہی نہیں ہے۔یہ وہ نسل ہے جو انسان کو پھاڑ کھاتی ہے ، شاید اس وجہ سے کہ انسان کا انہیں کُتا کہنا پسند نہ آتا ہو۔
میں نے جن دو کُتوں کا انتخاب کیا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان میں یکساں پائے جاتے ہیں ان کی نسل کا نام گلیڑ ( گَل یَڑ ) ہے ، جنہیں ہم گلیوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں کا نام دیتے ہیں۔یہ گلیڑ نسل بھی بڑی نایاب سی نسلوں میں سے ہے۔جب سے کُتوں کا وجود منظرِعام پر آیا تھا تب سے یہ نایاب نسل ہمارے پاکستان اور ہندوستان میں موجود ہے۔
ہندوستان سے جو گلیڑ کُتا میں نے منگوایا تھا ، اُس کے لانے والے کہتے ہیں کہ اِس گلیڑ کُتے کے خاندان میں واحد کتیا اُس کی ماں ہی تھی جو سب سے زیادہ خوبصورت تھی اور اسی وجہ سے اُس پر بہت سے کُتے فدا بھی تھے اور انہیں فدا ہونے والوں میں سے کسی ڈبو نسل کے کُتے کی یہ واحد اولاد ہے۔اِس کُتے کو لانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس گلیڑ کُتے کی بچپن سے ہی عادتیں ذرا وکھری ٹائپ کی تھیں۔گلیڑ نسل کا ہوتے ہوئے بھی اسے اپنی نسل کے کتے پسند نہیں آتے تھے۔باہر سے جو بھی کتا آتا تھا چاہے وہ کسی بھی نسل کا ہو یہ اُس کے آگے پیچھے دم ہلاتا نظر آتا تھا۔بچپن سے ہی اسے مندروں سے بھی خاص لگاؤ تھا جس کی وجہ سے اُس کی ماں بھی اس سے تنگ تھی۔کھوج لگانے پر پتہ یہ چلا تھا کہ ایک دفعہ مندر کے پروہتوں نے اُس کی ماں کے ساتھ زیادتی کی تھی جس کی وجہ سے اُس کو اپنے بیٹے کا مندروں میں جانا پسند نہیں تھا۔شائد وہ نہیں چاہتی ہو گی کہ اُس کے بیٹے کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو اُس کے ساتھ ہوا۔مگر یہ بھی عجیب کُتا تھا ، مجال ہے جو اپنی ماں کی مانی ہو۔اب یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کُتے کے ساتھ پروہتوں نے کیا برتاؤ کیا ہو گا۔

جاری ہے۔۔۔




منگل، 18 جولائی، 2006

اردو سیارہ کی پالیسی

اردو سیارہ کے ایڈمن کی طرف سے اردو سیارہ کی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ اردو سیارہ کا کوئی عقیدہ نہیں ہے،
اس کا مطلب ہے جس کا جی چاہے جس مرضی عقیدے کا مذاق اُڑائے حتٰکہ خدا کی شان میں بھی گستاخی کرتا پھرے۔مگر اُس پر کوئی انگلی نہ اُٹھائے اس لئے کہ وہ معتبر ہے،کیونکہ وہ انسان ہے اور مذہب انسانیت سے تعلق رکھتا ہے ۔
جناب ایڈمن کے نزدیک تمیز اور اخلاق کے دائرہ غالباً یہ ہے کہ خدا کی شان میں تو گستاخی ہو سکتی ہے مگر انسان کی شان میں نہیں۔
جناب ایڈمن صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں اظہار رائے کی آزادی ہے اور بلاگر کی تحریروں کو اردو ویب والوں کے نظریات نہ سمجھیں۔
جناب ایڈمن صاحب یہ کون سا اظہار رائے ہے،اور آپ کے نظریات کیا اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک بلاگر خدا کی شان میں گستاخی کرتا پھرے۔اگر آپ کی یہی نظریات ہیں تو یہ میرے نزدیک خالصتاً کیمونزم ( دہریہ ٹائپ ) نظریات ہیں۔جو ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتے۔یا تو پھر آپ اردو ویب کی پالیسی کا واضع اعلان کریں کہ یہاں کے ایڈمن حضرات کے نظریات کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہ ہے۔
آخر میں جناب ایڈمن صاحب نے نصیحت کی ہے کہ کہ کسی بلاگر کو تنگ نہ کریں اور اس کے خلاف محاز آرائی وغیرہ شروع نہ کریں اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور بات تحمل اور خوش اسلوبی سے سنیں وغیرہ وغیرہ۔
حیرت ہے ایڈمن صاحب،واقع میں حیرت ہے،ایک بندہ عرصہ سے خدا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہے اور آپ پھر بھی مشورے ہمیں ہی دے رہے ہیں۔
ٹھیک ہے اظہار رائے کی آزادی کو ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کتنی ہے اور کہاں تک ہے۔دیکھتے ہیں ایڈمن صاحب ، ضرور دیکھتے ہیں کہ آپ کا ذہن کہاں تک کھلا ہے،بلاگر بھی اس چیز کے گواہ رہیں گے۔ہم بھی لکھتے ہیں دیکھتے ہیں آپ کی برداشت کہاں تک ساتھ دیتی ہے آزادی اظہار میں۔





لعنتی کردار پر پابندی لگائیں

مسلمان چاہے کسی بھی قوم ، ملک ، جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہلاتا مسلمان ہی ہے ،۔مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دہریے ہو چکے ہیں۔ ایک ہندوستانی اردو بلاگر جو سرِعام خدا کی شان میں گستاخی کر رہا ہے۔اور میرے خیال میں اس نے اپنا نام جان بوجھ کر مسلمانوں والا رکھا ہوا ہے۔لگتا مجھے یہ کوئی ہندو ہی ہے۔اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا اردو بلاگر نہیں ہے جو اس کو ایسا کرنے سے منع کرتا ہو۔بہت سے اردو بلاگر تو اُس دہریے کی تحریر پر واہ واہ بھی کرتے نظر آتے ہیں۔اور آزادیء اظہار کے پیروکار ہمارے کچھ مسلمان ساتھی کافی عرصہ سے جان بوجھ کر خاموش ہیں۔
میں تو کہتا ہوں لعنت ہے ایسی آزادی اظہار پر۔مجھے یاد ہے بڑے بھائی پردیسی نے اس طرف اردو بلاگر کو توجہ بھی دلائی تھی۔مگر اس کا نتیجہ بھی کوئی برامد نہیں ہوا تھا۔
میں بھی تمام محترم اردو بلاگرز کی توجہ اس جانب مبذول کروا رہا ہوں کہ خدارا ایسی اظہار رائے کی آزادی پر روک لگایے جو بے لگام ہو اور اس بلاگر کو ہالینڈ کے کسی تاریک کو ئنیں میں پھینک دیجیے تاکہ یہ وہاں جا کر مادر پدر آزاد ہو کر جو جی چاہے لکھتا رہے اور لعنتی ہو کر مرے ، انشااللہ
نوٹ ۔ اگر آپ محترم ایڈمن اور ساتھی اردو بلاگرز نے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا تو پھر اس اردو سیارہ پر لفظوں کی کھلی جنگ ہو گی۔پھر مجھ سے نہ کہا جائے۔اور اگر مجھے آپ اردو سیارہ پر بلاک کرتے ہیں تو میں اس مسئلہ کو ہر قسم کے فورم پر اُٹھاؤن گا۔اور ثبوت کے طور پر جو میں نے اس شخص کی تحریریں اور اس پر بلاگرز کی رائے محفوظ کی ہوئی ہے ، وہ تمام مذہبی فورم اور سیاسی فورم پر اس کو اُ ٹھاؤن گا۔چاہے اس سے ہمارے تمام بلاگرز پر پابندی ہی کیوں نہ لگ جائے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ میں بہت سچا مسلمان ہوں مگر کم از کم میں یہ گوارا نہیں کروں گا کہ ایک ہندو خدا کی شان میں ایسے گستاخی کرتا پھرے۔اور اگر یہ مسلمان ہے تو اس پر خدا کی بے شمار لعنت ہو۔




اتوار، 16 جولائی، 2006

شکر ہے ہم جوتشی نہیں

محفل میں جب تک نوک جھونک نہ ہو مزا ہی نہیں آتا اور محفل جب بلاگروں کی ہو تو مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ابھی دو تین دن پیشتر ہی اپنے شہزادے بدتمیز نمبر ١ یا ٢ ( یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ ان شہزادوں میں سے ایک نمبر بدتمیز کون ہے) نے سیارہ پر دھماکے کر دیے اور یہ دھماکے ہمیں اتنے سہی اور بروقت لگے کہ ہم نے بدتمیز ١ یا ٢ کو شہزادے کا خطاب دے دیا۔خطاب کا دینا تھا کہ اپنے جگر جان خاور کھوکھر جو پیرس کی رعنائیوں میں کھوئے رہتے ہیں نے ہم سے ان شاہ صاحب کا پتہ پوچھا ہے جن کے یہ صاحبزادے ہیں۔تاکہ بقول جگر جان خاور کھوکھر کے کہ لوگوں کے علم میں اضافہ ہو۔
اب اگر ہم آپ کو جگر جان کہہ بیٹھے ہیں تو کل کلاں کو اگر لوگوں کے علم میں اضافہ کرنے کے لئے کسی نے ہمارے جگر جان کے بارے میں پوچھ لیا تو ہم بھلا کیا جواب دے سکیں گے۔
شکر کرتے ہیں کہ ہم جوتشی نہیں ہیں۔




ہفتہ، 15 جولائی، 2006

اک آواز جو زندگی تھی

مجھے فون نہ کیا کرو ، الجھن ہوتی ہے اور پھر میں شادی شدہ ہوں تمہاری مدھر آواز سن کر پریشان سا ہو جاتا ہوں۔
کہنے لگی تو کیا ہوا گر تم شادی شدہ ہو ، بس تم مجھے اچھے لگتے ہو ، تمہاری باتیں ، تمہارا لہجہ اور سب سے بڑھ کر تم مجھے اچھے لگتے ہو۔جب تک دن میں تمہاری آواز سن نہ لوں مجھے چین نہیں پڑتا۔
جانو یہ سب وقتی باتیں ہیں جب تم اپنے پیا کے گھر چلی گئی نا تو دیکھنا تم سب بھول جاؤ گی ، دن تو کیا تم سالوں بھی فون نہ کرو گی۔
کہنے لگی ایسا کبھی نہیں ہوگا گر تمہارے بنا میری شادی ہو بھی گئی نا تو تب بھی جب تک میں تمہاری آواز نہیں سنوں گی مجھے چین نہیں پڑے گا۔
آج سالوں بیت گئے میری جانو کی شادی کو مگر کہیں سے بھی اُس کی آواز نہیں آتی۔





جمعرات، 13 جولائی، 2006

لو کر لو باتاں

ابھی ابھی مدھر تال کے ساتھ اتنی زور سے بارش برسی کہ مزا آ گیا سوچا آج سرکاری پانی کی بچت کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پانی سے نہا کر ہی انٹر نیٹ پر بیٹھا جائے تاکہ شائد مجھے کوئی عقل کی بات سوجھ جائے۔
کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے بدتمیز شہزادے نے سیارہ پر ایک اور گولہ داغ دیا ہے مگر اس گولے میں شہزادے نے ہتھ واقع میں ہولا رکھا ہے۔
اس گولے میں شہزادے نے ہمیں بھی رگڑا دے دیا ہے، غالباً شہزادے میاں نے ہماری تحریر پر غور ہی نہیں کیا، ہم نے تو صرف شہزادے میاں سے اپنی معلومات بڑھانے کی خاطر صرف سوال پر سوال کیے تھے کہ کیا واقع میں ، مرزا ٹٹی میں مرا تھا یا اس کے منہہ سے ٹٹی نکل رہی تھی؟
اور دوسرا واقع میں مرزا کانا تھا؟ کیونکہ ہم نے پڑھا یہ تھا کہ وہ افیون کھانے کی زیادتی کی وجہ سے بھینگا سا ہو گیا تھا۔
اپنا بدتمیز شہزادے میاں ہم نے آپ کی معلومات کو غلط نہیں کہا اور نہ ہی آپ پر کوئی الزام دھرا ، اصل میں شہزادے جی ہمارے سننے میں کوتاہی بھی ہو سکتی ہے۔ہم نے تو صرف تصدیق چاہی تھی کیونکہ دیر سے سنے یا پڑھے گئے الفاظ ذہن میں گڈ مڈ بھی تو ہو سکتے ہیں۔
ویسے ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے شہزادے جی وہ میں نے مرزائیوں کی کتابوں ہی سے پڑھی تھی کہ مرزا گالیاں ایسے نکالتا تھا کہ جیسے اس کے منہہ سے کنول کے پھول جھڑ رہے ہوں،
کیا یہ بات بھی سہی ہے شہزادے جی؟


اردو راکٹ



بدھ، 12 جولائی، 2006

ہتھ ہولا رکھو

نیند بڑی آ رہی تھی سوچا جاتے جاتے سیارہ پر ایک نظر مارتا ہوا سو جاتا ہوں ، کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے بدتمیز شہزادے مرزائیوں سے کچھ تقاضا کئے جارہے ہیں اور تقاضے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مرزائیوں پر دو سوال بھی داغ دیے ہیں۔
اب بندہ پوچھے اپنے شہزادے بدتمیز سے کہ ایک تو آپ ان سے کچھ مانگ رہے ہیں پھر انہیں مشکل میں بھی ڈال رہے ہیں۔
ویسے یار شہزادے جی ، کیا واقع مرزا غلام احمد قادیانی کانا تھا ؟ میں نے تو یارا یہ سنا تھا کہ افیون پینے کی وجہ سے اس کی آنکھیں بند سی رہتی تھیں اور وہ بھینگا دکھائی دیتا تھا ، مگر آپ کہہ رہیں ہیں کہ وہ کانا تھا۔
دوسرا آپ نے یہ کہا کہ وہ ٹٹی میں مرا ؟ واقع ؟ مگر شہزادے جی لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب مرزا غلام احمد قادیان مرا اُس کے مہنہ سے ٹٹی نکل رہی تھی ۔ کیا واقع ایسا تھا؟




بدھ، 10 مئی، 2006

میں پاکستان میں رہتا ہوں

میں سری لنکا گیا ، غریب ملک ہے۔عورت اور مرد دونوں ہی کام کرتے ہیں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔عورتوں کا لباس سادہ مگر مکمل ترین ہے۔فحاشی ہے مگر عورتوں کی آنکھوں اور لباس سے ظاہر نہیں ہوتی۔

میں سنگا پور گیا ، امیر ملک ہے ۔ عرورت اور مرد دونوں ہی کام کرتے ہیں کوئی مرد اگر کسی عورت سے ملنا چاہتا ہے تو تہذیب یافتہ انداز اختیار کرتا ہے۔لباسِ عورت مختصر مگر مکمل ہے۔

میں تھائی لینڈ گیا ، امیر اور غریب سب کا ایک ہی پیشہ ہے۔خوش حال ملک ہے عورتیں اپنے حال اور مرد اپنی چال میں مست ہیں۔کسی کو کسی سے سروکار ہی نہیں۔پیسہ ہے تو خرید لو نہیں تودیکھے جاؤ دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔لباس چھوٹا مگر مکمل ہے۔نظریں دوڑاتے تھک جائیں مایوسی ہی ملے۔ چہرہ اگر دیکھیں تو معصومیت ایسی جیسے انہیں کسی نے چھوا تک نہیں ،شادی شدہ بھی کنواری دکھائی دیتی ہے۔

میں پاکستان میں رہتا ہوں ، مسلمان ملک ہے ، غریبی عام ہے ۔لوگ اپنے آپ سے تنگ ہیں۔خوش حالی اخباروں تک محدود ہے۔عورتیں اور مرد یہاں بھی اپنے حال میں مست ہیں۔عورتوں کا فیشن یہاں سب سے جدا ہے ۔گرمی ہو یا سردی آپ آسانی سے ان کے تمام جسم کے نشیب و فراز دیکھ سکتے ہیں۔چھیڑنا منع ہے اور دیکھنے پر بھی پابندی عائد ہے۔
بیوی ہو یا بیٹی ، بہن ہو یا ماں ، میری ہو یا ۔۔۔۔سب کا حال ایک جیسا ہے۔لباس سب کا ننگا ہے۔گرمیوں میں کپڑے اتنے باریک کہ آپ ان کے جسم کا ایک ایک حصہ باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ گھر میں ہو یا باہر ،گاڑی میں ہو یا موٹر سائیکل پر ، ننگا پن آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔
اب تو کچھ نیا رواج چل نکلا ہے نوجوان لڑکیوں نے ظاہری نقاب اوڑھ لئے ہیں اور بوڑھیں عورتیں سرعام اپنی خود ساختہ جوانی دکھا رہی ہیں۔بھائی ہو یا باپ ، خاوند ہو یا بیٹا ، بڑے فخریہ انداز میں انہیں ہر جگہ لئے پھرتا ہے اور اگر کوئی ان کو کچھ کہہ بیٹھے تو بیوقوف اور اگر کوئی ان کو چیھڑ بیٹھے تو مقتول کہلائے گا۔

منگل، 2 مئی، 2006

زندگی کے ٤٥ برس

زندگی کے ٤٥ برس کے شروع ہوتے ہی بیماریوں نے حملہ آور ہونا شروع کر دیا ہے۔ابھی چند دن پہلے طبعیت خراب ہوجانے کے سبب ڈاکٹر صاحب نے ہائی بلڈ پریشر تشخیص کیا ہے اور تمام ٹیسٹ رپورٹیں پڑحنے کے بعد میرے ان تمام کھابوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے جو میں کبھی کبھار کسی پارٹی یا تقریب میں خوش قسمتی سے کھا لیا کرتا تھا۔
ایک تو مہنگی دوائیاں اور دوسرا پرہیزی غذا کھانے کی وجہ سے کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہتا۔اور تو اور ڈاکٹر صاحب نے سگریٹ پینے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔بلڈ پریشر ہےکہ کم ہونے کو نہیں آرہا۔اخبار ، ٹی وی ، رسالے سب بند ہیں تاکہ کہیں میری نظر کسی ایسی خبر پر نہ پڑ جائے جس کی وجہ سے لینے کے دینے پڑ جائیں۔بس ایک انٹر نیٹ کا سہارا ہے مگر وہ بھی بنا سگریٹ کے بد صورت سا لگ رہا ہے۔

جمعہ، 14 اپریل، 2006

موبائیل فون سے بچیں

آج صبح کےاخبار میں ایک خبر پڑھ کر ایسے لگا کہ جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو۔خبر کے متن کے مطابق ایک پرتگالی باشندے کا موبائل فون دھماکے سے پھٹ گیااور اس کی ٹانگوں پر شدید زخم آئے۔اب یہ نہیں پتہ چلا کہ اس کی ٹانگوں میں سے کیا کیا چیزیں زخمی ہوئی ہیں۔
وہ تو شکر ہے کہ میں اپنا موبائیل فون اپنی پینٹ کی جیب میں نہیں رکھتا ۔اپنی عادت کے مطابق میں اسے اپنی قمیض کے اوپری حصہ کی بائیں جیب میں ٹھونسے رکھتا ہوں۔اب سوچتا ہوں وقت کا کیا پتہ ،ویسے بھی پاکستان میں دھماکوں کا عام رواج ہے اور اگر میرے موبائیل فون نے بھی دھماکہ کر دیا تو میرا دل تو گیا نا۔

منگل، 4 اپریل، 2006

صفِ نازک اور ڈکیتی

آج راہ چلتے ہوئے میری ملاقات اسلم خان سے ہوئی جو شالامار باغ کے ساتھ والی آبادی محمود بوٹی میں بند کے قریب رہتا ہے۔بڑا اداس تھا، اُداسی کی وجہ پوچھنے پر کہنے لگا کہ کل میں اپنے رکشہ
LOT - 7446
کو لئے رات نو بجے کے قریب سواری کے انتظار میں ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ ایک خوبصورت عورت اور مرد میرے پاس آئے اور کہنے لگے شاہدرہ ، امامیہ کالونی جانا ہے ۔جب میں انہیں ان کی منزل مقصود کے پاس لے آیا تو پوچھا کہ کس جگہ اترنا ہے تو انہوں نے ایک اندھیری گلی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بس وہاں اتار دو۔جونہی میں اس گلی میں پہنچا تو عورت نے فوراً ہی میری کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور کہا کہ جو کچھ ہے نکال دو ،اس کے ساتھ والے مرد نے بھی ایک چھری میری گردن پر رکھ دی اور کہنے لگا کہ اگر آواز نکالی تو ہم کسی اور کو تو کچھ نہیں کہیں گے مگر تمہیں ضرور جان سے مار دیں گے۔میں نے تھوڑی سی ہمت باندھی اور عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ بی بی ، میں غریب آدمی ہوں مجھے معاف کردو ، اتنا سنتے ہی اس عورت نے اتنی تیزی سے پستول کے چیمبر کو کھینچ کر آگے پیچھے کیا کہ اس وقت ایسے لگا کہ جیسے میری جان نکل گئی ہو ، کہنے لگی بکواس نہ کر اؤے پٹھان ، تیرا میں بھیجہ کھول دوں گی مگر فوراً ہی اس کے ساتھ والا آدمی کہنے لگا گولی نہ چلانا ، گولی نہ چلانا۔کہنے لگا اؤے خان جلدی تلاشی دو اور جو کچھ ہے باہر نکالو۔میں نے جلدی جلدی اپنا موبائل اور اس دن کی ساری کمائی جو تین سو روپے کے قریب تھی ان کے ہاتھ میں تھما دی۔وہ عورت اور مرد فوراً ہی گلی کے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
اس کے بعد میں کچھ دیر تو اپنے حواس میں ہی نہیں رہا جب ذرا تھوڑی میری طبعیت سنبھلی تو میرے سے رکشہ سٹارٹ نہیں ہو رہا تھا۔آخر اللہ کا نام لے کر میں نے رکشہ سٹارت کیا اور مین روڈ پر چلا آیا۔باہر مین روڈ پر پولیس کا دونوں طرف ناکہ لگا ہوا تھا انہوں نے مجھے فوراً روک لیا اور کہنے لگے کہاں سے آرہے ہو۔میں نے انہیں اپنی پوری رواداد سنائی ، وہ سن کر کہنے لگے ، کون ہے ، کدھر ہے ، ابھی چلو ہمارے ساتھ۔میں نے کہا نہیں صاحب رہنے دو اب میں نے کہیں نہیں جانا، بس صرف مجھے اتنا بتا دیں کہ جب میں ادھر سے گذرا تھا تو تب بھی آپ لوگوں کا ناکہ لگا ہوا تھا مگر آپ نے مجھے نہیں روکا تھا۔ان میں سے ایک کہنے لگا ، چل اؤے خان ،جا اپنا کام کر۔

پیر، 3 اپریل، 2006

زندہ دلی

لاہور کے شہری بھی کیا زندہ دل واقع ہوئے ہیں۔ہر اتوار کو صبح ہوتے ہی یہ تیز دھار ننگی تلواریں لئے اپنی چھتوں پر چڑھ کر جب تک دو تین معصوم بچوں کی گردنیں کاٹ نہ ڈالیں انہیں سکون نہیں ملتا۔
اس دفعہ لاہوریوں نے تین بڑے انسانوں کی گردنیں کاٹنے کا اعزاز حاصل کیا ہے جس میں میاں بیوی اور ایک دوسرا موٹر سائکل سوار شامل تھا۔زندہ دلانِ لاہور کے نزدیک ان گردن کٹوانے والوں کا قصور یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گھروں سے ہی کیوں نکلے۔




بدھ، 29 مارچ، 2006

محاورے

دنیا میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور ہر زبان میں بے شمار محاورے بھی ہیں۔اسی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سی زبانیں رائج ہیں اور ہمارے محاورے دنیا کی اور زبانوں سے زیادہ حقیقت کے قریب ہیں تر ہیں۔شاید اس لئے کہ ہمارے بڑے بوڑھے زیادہ تجربہ کار ہوں یا شائد ہم اہل زبان ہوتے ہوئے ان محاوروں کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ کہنے والا کہتا کچھ ہے اور سمجھنے والا جو جی چاہے سمجھے اور چاہے تو اپنی مرضی کا مفہوم بھی پہنا لے۔

ہمارے ہاں بولی جانے والی زبانوں میں اردو اور پنجابی کو جو فوقیت حاصل ہے وہ کسی اور زبان کو نہیں اور محاوروں کا جو استمال اردو اور پنجابی میں ہوا وہ سب سے زیادہ حقیقت کے قریب تر ہے۔پنجابی زبان کے زیادہ تر محاورے اردو سے بھی لئے گئے ہیں مگر پنجابی زبان کے کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جن کا تعلق خاص اسی زبان تک محدود ہے اور ایسے محاورے خصوصیت میں شمار ہوتے ہیں۔

پنجابی کا ایک محاورہ جو کہ خاصا مقبول ہے اور عمومی طور پر اس پر ہر جگہ عمل ہوتا ہے ،
“ کہنا دھی نوں ، سنانا نوں نوں
( بات کرنی بیٹی سے مگر طعنہ بہو کو)
اس محاورے کا زیادہ تر استمال اچھائی کے لئے ہی ہوتا ہے کیونکہ اس طریقہ کار میں لڑائی ہونے کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔اور کہنے والا اپنا مطلب دوسرے کی نسبت دے کر بیان کر دیتا ہے۔
پنجابی کا ایک اور محاورہ بھی بڑا اہم ہے جس کی مثال ہر وہ انسان دیتا نظر آتا ہے جس کو کسی کی تحقیر کرنی مقصود ہو۔اس محاورے کا جس قدر غلط استمال ناسمجھی کی بنا پر ہوتا ہے وہاں اس محاورے میں بہت سی ایسی باتیں بھی پنہاں ہیں جو بہت کم محاوروں میں پائی جاتی ہیں۔

“ جات دی کوڑ کرلی ، چھتیریاں نال جپھے “
( چھوٹی ذات ، غلیظ ذات کے لوگ اور بات کرتے ہیں یا خیالات ہیں اونچے لوگوں کے یا اونچی چیزوں کے )
“ کوڑ کرلی “ کو اردو میں چھپکلی کہا جاتا ہے جو غلیظ ترین سمجھی جاتی ہے۔

اماں پھاتاں کہتی ہے ، اس محاورے میں جتنی تحقیر انسانیت کی کی گئی ہے شائد ہی کسی اور محاورے میں کی گئی ہو۔

محاورے تو ہوتے ہی مثالیں دینے کے لئے ہیں مگر کچھ لوگ سیدھی باتیں بھی کرتے ہیں اور سیدھی باتیں زیادہ سچی ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔اور اگر یہ کڑوا گھونٹ گلے سے نیچے اتار لیا جائے تو کایا پلٹ جاتی ہے۔اور اگر یہ کڑوا گھونٹ منہہ میں ہی رکھ کر کہنے والے کے چہرے پر تھوک دیا جائے تو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہوا کا رخ بدلتے ہی وہ تھوک خود کے چہرے پر بھی آسکتا ہے۔




اتوار، 26 مارچ، 2006

انارکلی

پاکستان کے شہر لاہور کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہےاور اس دل کے اندر بھی ایک دل موجود ہے جس کا نام انارکلی ہے۔تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے انارکلی بازار کی ایک الگ اہمیت ہے اور اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً چار سال پیشتر پرانی انارکلی کو نیا رنگ روپ پہنا کر “ فوڈ سٹریٹ “ کا نام دے دیا گیا۔شروع شروع میں تو یہاں گہما گہمی بہت کم دیکھنے میں آتی تھی مگر آجکل یہاں کی رونق دیکھنے قابل ہے۔
شام ہوتے ہی یہاں رنگوں کی محفل جمنے لگتی ہے اور جوں جوں رات گہری ہوتی ہے یہی رنگوں کی محفل اپنے عروج پر ہوتی ہے۔بالا خانے کی تمام خوبصورت تتلیاں سڑک کے دونوں اطراف بظاہر سیر کرنے میں مصروف اپنا اپنا شکار ڈھونڈنے کے لئے کھنکناتے قہقے لگاتی نظر آتی ہیں۔اور یہ کھنکناتے قہقے جب دور میزوں پر بیٹھے شرفاء کے کانوں میں گونجتے ہیں تو ان میں سے ہر کوئی اپنی انارکلی کو لے کر اپنی بھوک مٹانے کے لئے فوڈ سٹریٹ سے خوشی خوشی رخصت ہو جاتا ہے۔

ہفتہ، 25 مارچ، 2006

یاسر اور نوید زندہ باد

بلاگ اسپاٹ کی تمام سائٹ کھولنے کے لئے آپ سب دوست مسڑ یاسر اور نوید کی ویب سائٹ سے اپنی تمام بلاگ سپاٹ کی سائٹ اب بڑی آسانی سے کھول سکتے ہیں۔اس کے لئے آپ کو صرف
http://www.pkblogs.com/your blog name
لکھنا ہے۔
ہم سب بلاگر مسٹر یاسر اور مسٹر نوید کو اس عظیم کاوش پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔



http://www.pkblogs.com

جمعہ، 24 مارچ، 2006

ایک نئی دنیا ممکن ہے

ایک نئی دنیا ممکن ہے کے نعرے کے تحت کراچی میں جمہ کی رات سے ورلڈ سوشل فورم کا افتاح کیا گیا ہے۔توقع ہے کہ اس میں تقریباً دنیا کے اٹھاون کے قریب ممالک کے مِلے جُلے لوگ جہاں آپس میں مل بیٹھیں گے وہاں وہ “ پیس پیس “ کے نعرے بھی لگائیں گے۔اور گمان غالب ہے کہ ان “ پیس پیس “ کے نعروں کی آواز دنیا کے صدر بش اور ہمارے محترم جنرل مشرف صاحب تک ضرور پہنچے گی اور وہ ورلڈ سوشل فورم والوں کی خواہشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا پیسنے کا عمل اور تیز کردیں گے۔جس سے ایک نئی دنیا وجود میں آنے کی راہ ہموار ہو گی ۔

اتوار، 19 مارچ، 2006

پاکستان کی ترقی کا ایک جائزہ

































































































پاکستان کی ترقی
کا ایک جائزہ


سپر پٹرول
لیٹر


چھوٹا گوشت
کلو


دال چنا
کلو


گھی
کلو


چینی
کلو 


آٹا فی کلو

 
0.15 ps 1.25 Rs  0.25
ps
2.50 Rs 0.60 ps  0.20
ps
لیاقت
علی خان

1947-51

0.35
ps
1.75
Rs
 0.35
ps
 3.00
Rs
0.75
ps
0.25
ps
خواجہ
ناظم الدین

1951-53

2.75
Rs

12.00 Rs
1.50
Rs
5.00
Rs
1.75
Rs
0.50
ps
جنرل
محمد ایوب خان

1958-69

3.45
Rs

16.00 Rs
2.50
Rs
9.00
Rs
6.00
Rs
1.00
Rs

ذوالفقار علی بھٹو

1970-77

7.75
Rs

40.00 Rs
9.00
Rs

15.00 Rs
9.00
Rs
2.50
Rs
جنرل
ضیاء الحق

1977-88


12.00 Rs

50.00 Rs

10.00 Rs

20.00 Rs

10.00 Rs
3.25
Rs

بینظیر بھٹو

1988-90


14.00 Rs

80.00 Rs

18.00 Rs

32.00 Rs

13.00 Rs
4.25
Rs
محمد
نواز شریف

1990-93


18.55 Rs

110.00 Rs

18.00 Rs

48.00 Rs

21.00 Rs
6.60
Rs
 بینظیر
بھٹو

1993-96


18.55 Rs

110.00 Rs

18.00 Rs

50.00 Rs

22.00 Rs
7.50
Rs
محمد
نواز شریف

1997




١٩٩٧ میں جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا اس وقت کے ریٹ درج ذیل ہیں اس کے بعد پاکستان نے جو ترقی کی وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے اور اگر آج کل دیکھا جائے تو آج کل کسی بھی چیز کا کوئی بھاؤ نہیں ہے۔آج ریٹ کچھ ہوتا ہے اور کل کچھ۔اب دیکھنا یہ ہے غریب اور کتنے دن جیتے ہیں۔

منگل، 14 مارچ، 2006

عجیب سے عجیب تر

صدر ایوب کا دور بھی عجیب تھا۔ چینی مہنگی ہو گئی لوگ سڑکوں پر آ کر ایوب کو گالیاں نکالنے لگے تو صدر ایوب چلا گیا۔

یحییٰ کا دور بھی عجیب تھا۔پاکستان کا ایک حصہ جدا ہو گیا اور خود یحییٰ شراب کے نشے میں دھت چین کی بانسری بجاتا رہا۔

بھٹو کا دور بھی عجیب تھا۔سب کو آزادی کا مطلب سمجھایا اور ہر شے پر حکومت کی اجارہ داری بھی قائم کی ، لوگوں کو لائینوں میں لگا کر آٹا چینی گھی خریدنے کا عادی بھی بنایا اور آخر کار آزادی کے نام پر پھانسی چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچا۔

ضیاء کا دور بھی عجیب تھا۔کلاشنکوف کلچر کوفروغ دیا ، ہیروین کو عام کر کے جدید جہاز متعارف کروائے۔فرقہ پرسستی اور قوم پرستی کی بنیاد رکھی، اسلام کے نام کو بیچ کر اپنے اقتدار کو طول دیا اور آخر کار جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کروا کر فیصل مسسجد کے اندر اپنا مزار بنوایا۔

بے نظیر کا دور بھی عجیب تھا۔اپنے باپ کے انتقام کی قسم کھانے والی، پاکستان کا سارا پیسہ کھا گئی ، بڑے بڑے محل بنائے ، پاکستان کے قانون کے ساتھ اپنے بچپن کے کھلونوں کی طرح کھیلی۔خود حاکم ہوتے ہوئے اپنے خاوند کو حاکم بنایا جس نے ہر چیز میں کمیشن کی بنیاد ڈالی اور خود مسٹر ٹین پرسنٹ کہلایا۔ اور آخر کار اپنے اسی خاوند کوجیل میں چھوڑ کر دور دیسوں میں جا بسی۔

نواز شریف کا دور بھی عجیب تھا۔بہت سے ڈکٹریٹروں کو مات دی ، عدلیہ کو ذلیل کیا ،جب جی چاہا بجٹ بنانے کی نئی روایت ڈالی۔بہت سے ایمانوں کو بیچا اور خریدا ، پولیس کو بے لگام کیا اور آخر کار ایک ڈکٹیٹر سے شہ مات کھا کر سعودیہ کی مقدس زمین پر جا بسیرا کیا۔

آج کا دور بھی عجیب تر ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔کسی چیز پر کوئی پابندی نہیں۔جس کے پاس مشرف کی لاٹھی ہے وہ جو جی چاہے کرے۔مولویوں کا گریبان پکڑے یا اسلام کو بیچے ، پولیس ہے تو وہ بے لگام ،جس کا جی چاہے گھر کھنگالے اور دہشت گردی میں اندر کرے ، کھانے پینے کی چیزوں کا کوئی پرسان حال نہیں ، آج بھاؤ کچھ ہے تو کل کچھ ، یوٹیلٹی بل جب جی چاہے بڑھا دیں۔جس کے گھر کھانے کو نہیں اسے پانی پینا بھی منع ہے۔
عدلیہ بیچاری معذور ہے ، وزیراعلیٰ حکم کرے تو پابندی لگے اور پھر حکم کرے تو پابندی ہٹے ، کوئی سیاستدان بولے تو اندر جو نہ بولے وہ بندر ، عجیب انصاف کا بول بالا ہے۔اور عجیب بے ایمانی ہے کہ بے ایمانی میں بھی ایمانداری نہیں۔بولیں تو اندر ، نہ بولیں تو قبر کے اندر
میراتھن ہو تو شہر سیل گر نام اسلام کا ہو تو سب فیل ، اور یہی سب مست ہاتھی کہاں سے آئے ،کوئی پتہ نہیں ؟ عوام کی تصویریں تھانوں میں لگی ہیں گھروں میں اب تک چھاپے ہیں ، لوگوں کے اپنے سیاپے ہیں۔اور آخر کا یہی سیاپے عجیب تر کو بھی اپنے منتقی انجام تک پہنچائیں گے۔




منگل، 7 مارچ، 2006

چند اشتہار اور آف دی ریکارڈ باتیں

لاہور کے دل انارکلی بازار میں بسنت کے لئے چھت موجود ہے۔
20x28
خوبصورت لوکیشن ۔آزادانہ ماحول ۔ علیحدہ سیڑھیاں
رابطہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------------
اندرون لوہاری گیٹ میں بسنت کے لئے بہترین اور کھلی چھت
بسنت کی رات اور پورے دن کے لئے رابطہ قائم کریں
لائیٹنگ کا مکمل انتظام
رابطہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
------------------------------------------------------
بسنت کے لئے چھت موجود ہے
بھاٹی دروازہ کے اندر خوبصورت لوکیشن
کباب اور چانپیں بنانے کا مکمل سامان اور لائٹنگ کی اضافی سہولت موجود
رابطہ۔۔۔۔۔۔۔
----------------------------------------------
ہیلو۔۔۔
کیا حال ہیں جناب
کون صاحب بول رہے ہیں
وہ جی آپ کا اشتہار اخبار میں پڑھا تھا
اوہ اچھا،آپ کو بسنت کے لئے چھت چاہئے
جی جی ۔یہ انارکلی میں کس جگہ واقع ہے
درمیان میں ہے جی
اچھا ، تو کیا کرایہ ہو گا جی اس کا
کرایہ تو صرف تھوڑا ہی ہے صرف دس ہزار ، جگہ دیکھیں گے تو آپ کا دل خوش ہو جائے گا۔
کرایہ تو بہت زیادہ ہے رات اور دن کا
اوہ جی ، یہ صرف دن کے لئے ہے رات کو تو ہماری چھت بک ہے
ہو۔۔اچھا ، اچھا یہ بتائیں جناب کسی قسم کی کوئی پابندی تو نہیں ہے
ہاہاہاہا۔۔ہا۔بھولے بادشاہو یہ صرف چھت کا کرایہ ہے۔
کیا مطلب؟
جناب اگر ماحول بھی آزادانہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے علیحدہ پیسے ہوں گے
اچھا ، مگر وہ کتنے
پندرہ ہزار اور ،وہ جی سب کو دینے پڑیں گے نا
اوہ یہ تو بہت زیادہ ہیں۔دس ہزار میں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے کیا؟
اوہ نہیں جی ، آپ کہیں اور دیکھ لیں ، سلاما لیکم
سنیں جناب
جناب پہلے آپ پتہ کر لیں شہر میں ، سلاما لیکم
---------------------------------------------------------
ہیلو۔۔ہیلو ، کیا حال ہیں جناب
ٹھیک ہوں ، کون ؟
وہ جی آپ کا لوہاری دروازہ کے اندر بسنت کے لئے چھت کا اشتہار پڑھا تھا
ہاں جی اپنی ہی چھت ہے
کیا کرایہ ہے جناب اس چھت کا
بیس ہزار روپے لائٹنگ کے ساتھ اور اگر آپ لائٹنگ کا اپنا انتظام کرنا چاہیں تو اٹھارہ ہزار
مگر جناب انارکلی میں تو ہمیں دس ہزار کی مل رہی ہے
تو وہاں سے لے لیں ۔میرے پاس دن اور رات کے لئے ہے اور اتنے کم ریٹ میں آپ کو کوئی نہیں دے گا
کچھ کم نہیں ہو سکتے جناب
نہیں جناب ، سال میں چھت کی ایک دن ہی تو کمائی کرتے ہیں نہیں تو کون پوچھتا ہے چھتوں کو
اچھا تو جناب یہ بتائیں کہ ماحول کیسا ہوگا،میرا مطلب کوئی پابندی وغیرہ تو نہیں ہے
کیا مطلب ؟ پابندی کیسی جناب
میرا مطلب ، پیاس شیاس تو بندے کو لگتی ہے کوئی پانی شانی کا انتظام
پانی بہت۔۔۔اوہ۔۔اچھا، بادشاہو ، سفارش ہے تو اپنے رسک پر کر لو اپنا کوئی ذمہ نہیں
اچھا جناب بتاتے ہیں پھر آپ کو
اچھا جی
خدا حافظ
-----------------------------------------------------------------
ہیلو ۔۔ہیلو جناب ، کیا حال ہیں
کون بول رہا ہے
وہ جناب آپ کی بھاٹی دروازہ والی چھت کے بارے میں پوچھنا تھا
جی جی پوچھیں
کیا کرایہ ہو گا چھت کا ،دن اور رات کے لئے چاہئے
نہیں جی دن کی تو بکنگ ہو چکی ہے صرف رات کے لئے فارغ ہے
اچھا تو رات کا ہی بتا دیں
سہولتوں کے ساتھ چاہئے یا صرف خالی چھت درکار ہے
دونوں طرح بتا دیں
خالی چھت کے دس ہزار اور اگر تمام سہولتیں لینی ہو تو پچاس ہزار
جناب۔۔۔جناب میں نے چھت کرایہ پر لینی ہے خریدنی نہیں
آپ کو کرایہ ہی بتا یا ہے
اچھا تو یہ تو بتائیں سہولتیں کیا کیا ہوں گی
ہر قسم کی ، مگر سامان آپ کا اپنا
ہر قسم سے آپ کی کیا مراد ہے جناب
مکمل آزادی ، آپکو کوئی پوچھے گا نہیں جو جی چاہے کریں ، فائرنگ اور آتشبازی کے علاوعہ
اور اگر سہولتیں کم لینا چاہیں یعنی صرف پانی شانی کا انتظام کریں
وہ آپ کی مرضی مگر پیسے اتنے ہی ہوں گے
اچھا جناب دیکھتے ہیں پھر
ہاں چل پھر لیں مگر ہاں کرنی ہو تو شام تک بتا دیں ،ورنہ پھر مشکل ہے
اچھا جناب
اچھا جی
------------------------------------------------




پیر، 6 مارچ، 2006

معصوم خون سے جشن

کل اتوار کو ہمارے ہاں لاہور میں بڑی دھوم دھام سے مِنی بسنت منائی گئی۔لوگوں نے شان کے ساتھ ایک اور معصوم بچے کی گردن کاٹ کر اسے آسمان کی وسعتوں میں بھیجا اور شام دیر تک اسی جشن میں پٹاخے بھی چلائے۔لوگ سارا دن اندحیرے میں بیٹھے انہیں پٹاخوں کی روشنی میں پاکستان کی روشن خیالی کے گیت گاتے رہے۔اور سوچتے رہے کہ آنے والے اتوار کو بڑی بسنت ہے تب تک کیوں نہ ہم چند اور خوبصورت سے بچوں کی گردنیں کاٹ کر اسے ہوا میں اُ ڑائیں ۔




اتوار، 5 مارچ، 2006

پاکستان ایک امن پسند ملک ہے

صدر بش کے پاکستان کے دورہ سے ایک بات بڑی واضع ہو گئی ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔یہاں آپ سکون سے کرکٹ کھیل اور سیکھ سکتے ہیں۔جو کہ شائد کسی اور ملک میں ممکن نہیں ہے۔اسی لئے اب پاکستان کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔چاہے ہندوستان ایٹمی ٹکنالوجی میں کتنا ہی آگے نکل جائے ، چاہے امریکہ بذات خود اسے اپنے جیسی ایک ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ تسلیم کرے۔
ہتھیاروں کی یا ایٹمی ٹیکنالوجی کی ضرورت ان ملکوں کو پڑتی ہے جن کی سرحدیں دشمنوں سے ملی ہوں یا پھر ان کو ہوتی ہے جن کو کسی دشمن کا خطرہ ہو۔چونکہ اب پاکستان کی نزدیکی سرحدوں میں دوستی کے گیت گائے جاتے ہیں اس لئے وہاں اب امن ہی امن ہے اسی لئے اب ہمیں کسی ایسی ٹکنالوجی کی ضرورت نہیں ہو گی۔
ہمیں ضرورت ہے صرف کھیل کی اور اب تو ہم نے کھیل کے اسراو رموز بھی جناب صدر بش سے سیکھ لئے ہیں اس لئے اب ہمارے ملک میں چین ہی چین ہو گا۔





ہفتہ، 4 مارچ، 2006

بلاگ اسپاٹ سروس بحال کی جائے

پچھلے دنوں انٹر نیٹ کی سب سے بڑی بلاگر سروس بلاگ اسپاٹ کو پاکستان سے بلاک کر دیا گیا ہے اور ایشو یہ اُٹھایا گیا ہے کہ یہ سب توہین آمیز خاکوں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔جو کہ سراسر غلط ہے۔حالانکہ پاکستانی بلاگرز کے بلاگ پر جتنی مذمت توہین آمیز خاکوں کی گئی ہے شاید ہی کہیں اور کی گئی ہو۔
یہ ضرور ہے کہ ہم پاکستانی بلاگرز اپنے پاکستان اورغیر ملکی مسائل پر یہاں کھل کر گفتگو کرتے ہیں جو کہ شاید ہماری حکومت کو پسند نہیں ہے۔
اگر ہماری حکومت کو توہین آمیز خاکوں کا اتنا ہی خیال ہوتا تو وہ ڈنمارک کے سفارتخانے پر پابندی لگاتی یا کم از کم وہاں سے اپنا سفیر ہی واپس بلاتی۔ہماری حکومت تو احتجاج کرنے کی بھی اجازت دینے سے انکاری تھی وہ تو عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے بعد میں پر امن احتجاج کی اجازت دے دی گئی۔اور اس پر بھی میڈیا کے ذریعے روزانہ توڑ پھوڑ کی ویڈیو روزانہ دکھائی جاتیں ہیں ، جو توڑ پھوڑ پتہ نہیں کون سی عوام نے کی تھی اور نہ ان کو میڈیا پر پیش کیا گیا جنہوں نے توڑ پھوڑ کی۔
پاکستانی بلاگرز نے ان تمام ایشوز کو اپنے بلاگ پر بھی پیش کیا اور ان پر بحث و مباحثہ بھی ہوا۔پاکستانی بلاگرز کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہر مسائل پر اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں اور شاید یہی آزادانہ اظہار رائے ہماری حکومت کو ناگوار گذرا ہو۔
ہم حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ جن اخبارات و جرائد یا ویب سائٹ نے ایسی قبیح حرکت کی ہے صرف صرف ان سائٹ کے ایڈریس کو بلاک کیا جائے۔

جمعہ، 3 مارچ، 2006

سوئی گیس کے بل

پرسوں رات کلفی کھانے کے شوق میں ہم جب بابا جی کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں بابا جی ہر ایک کو یہ بڑی بڑی گالیوں سے نواز رہے تھے۔ہم بڑے حیران ہوئے کہ بابا جی کی عمر اب اللہ اللہ کرنے کی ہے مگر بابا جی ہیں کہ ایسی ایسی گالیاں نکال رہے تھے کہ شائد ہماری پاکستانی پولیس کے علاوعہ کسی اور کو ایسی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
بابا جی جب سانس لینے کے لئے رکے تو ہم نے پوچھا ، بابا جی ایسی کیا آفت آ گئی جو آج آپ کے منہہ سے پولیس کے پھول جھڑ رہے ہیں۔کہنے لگے ، کیا بتائیں صاحب جی اس بگٹی کو تو مار دینا چاہئیے ، اسی کی وجہ سے ساری آفت آئی ہے ۔ہم بڑے حیران ہوئے اور پوچھا کیوں کیا ،کیا بگٹی نے آپ کے ساتھ۔ ارے اس کیا کرنا ہے ہمارا ، اسی کی وجہ سے تو ساری آفت آ رہی ہے ۔اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ صرف ایک چولہہ جلتا ہے ہمارے گھر کا اور بل تو دیکھو ذرا کیا آیا ہے ، ساڑھے نو سو روپے۔یہ تو ظلم ہے نا صاحب جی ، سراسر ناانصافی ہے غریبوں کے ساتھ ۔
مگر بابا جی اس دفعہ تو سب کا بل بہت زیادہ آیا ہے اور میرے خیال میں یہ بگٹی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ جو توڑ پھوڑ عوام نے احتجاج کے طور پر کی تھی یہ سب اسی کا ہرجانہ ہے۔اور یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ عوام کو اور پیس کر رکھو ، ابھی یہ اٹھنے کے قابل ہیں۔

جمعرات، 2 مارچ، 2006

کتے

آج کل ہمارے ہاں پاکستان میں امریکہ کے صدر بش جو ساری دنیا کے صدر بھی ہیں کا بڑا چرچا ہے۔ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر انکل بش انکل بش کا ورد ہے۔کوئی تو اسے کوستا نظر آتا ہے اور کوئی اتنے پیار سے نام لیتا ہے کہ شائد ہی اپنے کسی پیارے کا لیتا ہو۔
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ ساری دنیا کے صدر کے ساتھ سترہ عدد امریکی کتے بھی آئے ہیں۔جن پر صدر بش انسانوں سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔جرمن شیپرڈ اور لیبارڈور نسلوں کے یہ امریکی کتے بھارت کے شیراٹن ہوٹل اور لا میریڈین میں ٹھرے ہوئے ہیں جہاں عام آدمی پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
دکھائی کچھ یوں دیتا ہے کہ دنیا کے صدر کو بھارتی کتوں پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں ہے۔اب جب کہ ہمارے پاکستان کا دورہ شروع ہونے کو ہے تو ہمارے گلی کوچوں میں بھی یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ کیا دنیا کے صدر اپنی میزبانی کے ساتھ ساتھ اپنے امریکی کتوں کی میزبانی کے شرف سے نوازتے ہیں یا نہیں۔