اتوار، 22 جولائی، 2018

الیکشن 2018 سوشل میڈیا اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر


آج سے تین دن پیشتر مجھے فرخ منظور نے پاکستان کی ایک معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی جانب سے آیا ہوا ایک دعوت نامہ پہنچایا کہ اتوار صبح گیارہ بجے سے ایک بجے تک ‘‘ برگد ‘‘ کی جانب سے پاکستان الیکشن 2018 کے سلسلہ میں سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام پر ایک مکالمہ ہو رہا ہے جس میں بلاگرز نے بھی شرکت کرنی ہے ۔

موضوع چونکہ دلچسپ تھا اس لئے سوچا شرکت لازمی کرنا چاہئے ۔۔۔ وقت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے صرف لاہور کے مرد و زن اور ایک خواجہ سرا بلاگر کو بھی اپنی طرف سے اس مکالمے میں شرکت کی درخواست کر دی ۔۔۔مگر خواتین اور خواجہ سرا بلاگر نے مصروفیت زیادہ ہونے کی وجہ سے مکالمے میں شرکت پر معذرت کر لی ۔۔۔ جس کا مجھے افسوس ہوا۔

وقت مقررہ پر جب ہم معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کے آفس پہنچے تو انہوں نے بڑی عزت سے ہمیں خوش آمدید کہا ۔۔۔ آپس میں تعارف کروانے کے بعد ہمیں الیکشن 2018 کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر مختلف لوگوں اور تنظیمیوں کی جانب سے جو نفرت انگیز مواد شائع کیا جارہا تھا اس کے سروے سے آگاہ کیا گیا اور اس پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔


معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فیس بک کے ماہانہ صارفین کی تعداد ‘‘ تین کروڑ ‘‘ کے لگ بھگ ہے جبکہ دوسری جانب اس کے مقابلے میں ٹیویٹر کے ماہانہ صارفین صرف 35 لاکھ ہیں ۔۔مگر پھر بھی فیس بک کی نسبت ٹویٹر پر نفرت انگیز مواد اور اس پر اظہار رائے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے ۔۔الیکشن 2018 اور سوشل میڈیا صارفین کے حوالے سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ کے لئے تیس ہزار صارفین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا تین ماہ ( اپریل 2018 تا جولائی 2018 تک ڈیٹقا اکھٹا کیا گیا ۔

یہ تحقیقایک پراجیکٹ ‘‘ پر امن الیکشن اور نوجوانوں کا کردار ‘‘ کا حصہ تھی جس میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی کل دس یونیورسٹیز کے 200 طلباء و طالبات نے براہ راست دو دن کے مشاورتی اجلاسوں میں حصہ لیا اور تربیت حاصل کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں پر امن الیکشن اور نوجوانوں کے کردار کے حوالہ سے 100 کے قریب مختلف پراجیکٹس کئے ۔

اس رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ سوشل میڈیا نفرت نانگیز مواد کی اشاعت میں کس طرح مددگار ثابت ہو رہا ہے۔اور سیاسی تشہیر میں اس قابل نفرت مواد کو سیاسی رہنما اور اس کے حامی کس طرح استمال کر رہے ہیں ۔


تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی کی تحریری مواد کے ساتھ ساتھ تصاویر ، آڈیو اور ویڈیوز کا استمال نفرت انگیز مواد پھیلانے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔۔۔اپریل سے جولائی تک کی سیاسی تشہیر میں سب سے زیادہ نفرت انگیز مواد کا استمال کیا گیا جس میں نفرت انگیز مواد کی تائید ، تشہیر اور اس پر مباحث شامل تھے ۔اس رپورٹ سے یہ بھی بات سامنے آئی کہ نفرت انگیز مواد میں اعتراضات ،الزامات اور شخصی تشخص کو نشانہ بنانے کا استمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔۔مزید مذہبی عدم برداشت اور صنفی اعتبار سے مخالفین کو تضحیک اور قابل نفرت انداز میں پیش کرنا بھی ایک مقبول طرز عمل ہے ۔۔اس حوالے سے ٹویٹر پر ایسے ہیش ٹیگ کا استمال جا بجا دیکھا گیا جو براہ راست نفرت انگیز بیانئے پر مشتمل تھے ۔سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر براہ راست گالم گلوچ ،عقیدے ، برادری ، پیشہ اور صنفی اعتبار سے نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ زیادہ نمایاں طور پر سامنے آیا ۔۔


اس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بات سامنے آئی کہ الیکشن کے دنوں میں انفرادی اور ایک گروہ کی صورت میں نفرت انگیز مواد کی تخلیق و تشہیر کو باقاعدہ ایک منظم طریقے سے بھی کیا جارہا ہے اور ایسے کئی صارفین اور پیج متحرک ہیں جو نفرت انگیز مواد کی تشہیر باقاعدہ کرتے ہیں ۔۔


معروف این جی اوز ‘‘ برگد ‘‘ کی اس حالیہ رپورٹ کی رو سے ہمیں ضرورت ہے کہ نفرت انگیز مواد کے حوالے سے قابل عمل قانون سازی کی جائے اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں جانکاری بڑھانے کے لئے نصاب میں ایسے اسباق شامل کئے جائیں جو کہ قابل نفرت رویے اور ان کے اظہار کو روکنے میں مدد دے سکیں ۔

منگل، 17 جولائی، 2018

تجربات سے سیکھنا اور "کمینگی" ۔۔۔۔ یاسر جاپانی



آ ئیے آپ کو "تجربات" کا سفر پڑھائیں :D

یکسانیت کے شکار ہوں یا تکرار مسلسل لگے تو مرغِ بسمل کی طرح بانگنا منع نہیں ہے :D

مسلمانوں کی "معصومیت" صدیوں سے "مشہور ومعروف" ہے اور "یہود ونصاری" کی عیارانہ و مکارانہ "سازشیں" بھی صدیوں سے مشہور و معروف ہیں۔۔

اسپین میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوئیں مسلمان کو سپین سے مار نکال دیا گیا۔

اٹلی کے "سسلی" اور سابقہ "صقیلیہ" میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں۔

اور مسلمان "سسلی" میں اپنی عظیم والشان نشانیاں ہی چھوڑ گئے۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ "پناہ گزین" مسلمان اب بھی اسپین اور اٹلی میں ہی اپنی جان ومال و عزت مسلم ممالک کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔

ھندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی ۔

مسلمانوں کی "سلطنت" ختم ہونے کے قریب ہی تھی کہ

"احمد شاہ ابدالی" نے "مرہٹوں" کو ایسی شکست فاش دی کہ "مرہٹے" ہمیشہ ہمیشہ کیلئے "پانی پت " میں نیست و نابود ہوگئے۔

پھر "برطانوی گوروں " نے "سازش کرکے "مسلمانوں" کی حکومت کا خاتمہ کیا اور "جھوٹا" بیان دے دیا کہ

ہم نے تو انڈیا کا "اقتدار" مسلمانوں سے نہیں "مرہٹوں" سے چھینا ہے۔

"مغل شہنشاہیت" ایک "نشانی" کے طور پر وجود ضرور رکھتی تھی۔

زیادہ تر "مولوی" اور "شاعر" اس شہنشاہت کے "ٖخطبے و قصیدے" پڑھتے رہتے تھے۔

اور ہندوں سکھوں اور مسلمانوں کے راجاؤں ،نوابوں اور نکے نکے بادشاہوں کی اپنی اپن ریاستیں تھیں۔

جو کہ ایک دوسرے سے ہمیشہ "خطرے" میں ہی رہتی تھیں۔جیسے ہی "بیرونی" طاقت کو دیکھا سب ایک دوسرے کے خوف سے اس "بیرونی" طاقت کے ہاتھ پاؤں مضبوط کرنا شروع ہوگئے تھے اور ہوجاتے تھے۔

"خلافت عثمانیہ" کی بحالی تحریک "ہندوستان " میں زور وشور سے جاری تھی۔۔۔

"عرب" ترکوں سے "آزادی" کی جنگ لڑ رہے تھے۔یہودی اسرائیل کے قیام کی سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔

تھوڑا ماضی میں جائیں تو "برصغیر" کا یہی حال تھا۔ہر "بیرونی طاقت" سے مل کر ایک دوسرے کی "بینڈ " ہی بجائی جاتی تھی۔

اللہ انگریز کی عمردراز کرے اور برطانیہ کو تاقیامت قائم رکھے۔ کہ وکٹوریائی ہندوستان کے تمام راجے مہاراجے نواب وغیرہ کے خاندان اب بھی اپنے لئے "لندن" کو ہی زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔

اور اپنی "بادشاہت" کے مزے لینے کیلئے سال میں چند بار انڈیا پاکستان بھی آجاتے ہیں۔

ہم نے اپنے تجربے سے یہی سیکھا ہے کہ " ہندوستانی ، پاکستانی ، افغانستانی" مسلمان نے ہر حال میں ایک دوسرے کے "خلاف" سازش کرنی ہوتی ہے۔

چاھے اس کا ایک ٹکے کا فائدہ بھی نہ ہو۔

فیس بک کی وجہ سے جاپان میں بھی "پاکستانی و جاپانی " ہمارے "انجانے" جاننے والے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ جس کا ہمیں کافی عرصے بعد "علم" ہوا۔

وہ بھی اس طرح کہ فیس بک نے پرانی آئی ڈی بلاک کردی تو

"تھرتھلی" مچ گئی۔۔۔

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا ۔۔۔۔روزانہ کوئی نا کوئی کسی ناکسی طریقے سے "کھوج " لگا رہاہے۔!!

بس کچھ ایسی ہی حالت تھی۔

ابے ۔۔اگر پڑھتے دیکھتے تھے تو "لائیک " ہی کر دیا کرتے؟

یا کم ازکم "اچھا یا برا" کمنٹ ہی کردیا کرتے تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوا۔ آپ کو ہمارا "لکھا" سمجھ آیا ہے کہ نہیں؟ یا کم ازکم "مہذب" انداز میں آپ اپنی "رائے" کا اظہار ہی کردیتے؟

تاکہ ہم ہی آپ سے کچھ سیکھ سکتے۔

غیر ضروری "سازشی" ذہنیت کا آخری تازہ تازہ انتہائی "بے فضول تجربہ " ہمارے ساتھ تین چار ماہ پہلے واقعہ ہوا تھا کہ

ایک جاننے والے جو کہ کافی " کمپلیکیٹڈ پرسنالٹی" ہیں۔ کبھی کبھی ملاقات کرنے آجاتے تھے۔ تو ہم بھی "مروت"میں صاف انکار نہیں کرتے تھے کہ کسی کی دل آزاری کرنا بھی اچھی بات نہیں ہے۔

ایک بارریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ بل ادائیگی کے وقت "میں دوں گا ، میں دوں گا" کا ڈرامہ چلا اور آخر کار "ہیرو" کا سین مجھے مل گیا۔

جب میں بل ادا کر رہا تھا۔ تو سامنے "کھڑکی کے شیشے" پر نظر پڑی رات کا وقت تھا۔ دیکھا ایک "ارب پتی " بزنس مین کرسی پہ بیٹھے بیٹھے ہی خوشی میں دیوانگی سے ہاتھ اٹھائے ناچ رہے ہیں۔

ارے۔۔پین دی سری ۔انہیں کیا ہوا؟!!

حیرت سے گردن موڑ کردیکھا تو

بالکل سنجیدہ چہرے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔!!!

ابے۔۔۔۔۔یہ کیا؟!!

ظاہر ہے ہم نے اپنی " سادگی" کے باوجود دنیا دیکھی ہے۔بندے کے "اندر کا چینل" میرے خیال میں ، میں بہت اچھی طرح "پڑھ " لیتا ہوں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ عموماً "نظر انداز" کر دیتا ہوں۔ جس سے مجھے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اچھے برے لوگوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

بحرحال ۔۔۔

کہنے کا مقصد یہ ہے۔

کم ازکم پاکستانی "عیاری و مکاری و چالاکی" موقعہ پرستی، مفاد پرستی ، خود غرضی اور خاص کر ضروری و غیر ضروری سازشیں کرنے میں "اپنی مثال" آپ ہیں۔

مجھے ان "ارب پتی" صاحب کی حرکت کا "مقصد" بالکل سمجھ نہیں آیا تھا اور نا ہی آیا ہے۔

شاید ان کی " خوشی " کی وجہ

1ٓ- ہم لوگوں نے جو مشترکہ کھانا پینا کیا تھا اس کا خرچہ میری جیب سے کروانا انہیں میرا نقصان لگا تھا اور انہیں میرے نقصان کی "خوشی" ہوئی تھی۔

حالانکہ ان سے میری نا ہی دوستی ہے اور نا ہی کوئی کاروباری تعلق!۔

بس ایک "مشترکہ " دوست یا جاننے والے صاحب کی وجہ سے دسترخوان کااشتراک ہوگیا تھا۔

2- ان صاحب کے دل میں میرے لئے کسی "وجہ" سے شدید کا قسم کا "بغض و عناد یا حسد" جڑ پکڑے بیٹھی تھی۔

اور ان کے خیال میں "بل" کی ادائیگی کرنے سے میرا "نقصان" ہوا ہے ۔ اور میرے جیسے غریب مسکین بندے کیلئے یہ بہت بڑا" جانی نقصان" ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہوئی تھی؟

3- یا صرف صدیوں کی اپنے آپ کو "مسلمان" کہنے والی "ذہنیت" کی "گندگی" تھی ۔

جو کہ وجہ بلاوجہ ایک دوسرے کے خلاف موقعہ پاتے ہی متحرک ہو جاتی ہے۔ اور "تعلق واسطے رشتے" کی کوئی بھی کم سے کم شکل ہونے کی صورت میں "تکلیف" پہونچانے کی "کمینگی" اچھل کر باہر آگئی تھی؟۔

*

ہماری یہ "کمینگی" اس وقت "پائے تسکین" پہونچتی ہے۔ جب تک ہم "دوسرے" کا جانی مالی نقصان نہ کردیں۔

یہ "کمینگی" ہمیں سماجی ، معاشرتی معاملات میں "اکثر" دکھائی دیتی ہے اور ہم بہت اچھی طرح اس "کمینگی" سے واقف ہیں۔

ملکی قومی اور سیاسی سطح پر آجکل ہمیں "باپ بیٹی " کا جیل جانا ایک عجیب سی "کمینی قسم " کی "تسکین" دے رہا ہے ۔

سابقہ بیوی ریحام خان کی "کتاب" کے بارویں باب کے بعد جو "رنگین" قسم کی "تذلیل" پڑھنے کو ملتی ہے اس کا اپنا ہی مزا ہے۔

اور عمران خان کا "پٹواریوں" اور لہوریوں کا "کھوتا" کہنے کے انداز نے جو لطف دیا اس "کمینگی" کو لہوریوں کی کھوتا خوری سے جوڑ کر جو مزا آیا اس کے کیا کہنے۔

اور ڈی چوک میں کٹی پتنگ کی طرح جھوم جھوم کر ناچ گانا کرنے والے پرویز خٹک کا "ناچ گانا" کرنے والوں کے گھر کو جھنڈے والا"طوائف" کا گھر کہنے سے "دل ہی دل" میں جو "کمینی سی خوشی" ہوئی اس کا تو جواب ہی نہیں۔ :D

مندرجہ بالا تمام "کمینگیوں" پر غور کیجئے۔!!

ان کے فوائد بھی اور نقصانات بھی "ہم سب" کے "مشترکہ" ہیں۔

جب ہم "خاک" ہو جائیں گئے۔

تو "یاد " کرنے والے "اچھے یا برے" الفاظ میں ہمیں ضرور یاد کریں گے۔

لیکن کیا ہے کہ

ہم نہ ہوں گے۔ اور دنیا چند دنوں کی ہی ہے۔

ہم صدیوں سے "جاری " کمینگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔۔

جو کہ

"بارودی جیکٹ" پہن کر پھٹے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ :D

خلافت راشدہ جیسی "بابرکت و مقدس" ریاست تاقیامت قائم نہ رہ سکی تو ہماری تمہاری "ڈیڑھ اینٹ " کی "عبادت گاہ" کس کھیت کی مولی ہے۔

بحرحال "خدا" واقعی ہمیں "تجربات" سے "سیکھنے" کا موقعہ دیتا ہے۔

اور ہمارے اندر کی "کمینگی" ہمیں "سیکھنے " نہیں دیتی۔

اتوار، 8 جولائی، 2018

شہزاد سلیم وفات تو پاگئے مگر۔۔۔۔۔۔۔تحمینہ رانا

شہزاد سلیم وفات تو پاگئے مگر۔۔۔۔۔۔۔
جیسی کرنی ۔۔۔ویسی بھرنی 🤔🙄😢
اللہ ظالم کی رسی دراز کرکے جب سمیٹتا ہے تو بڑے بڑے پھنے خان۔۔۔ بھیگی بلی بن جایا کرتے ہیں
یہ ایم کیو ایم کلر اسکواڈ کا سربراہ سلیم شہزاد ہے۔ اس کے اشاروں اور ذو معنی باتو ں کو قتل کا آرڈر ٹصور کیا جاتا تھا۔ جب یہ کہتا تھا کہ فلاں شخص کی آنکھیں خوبصورت ہیں تو ایم کیو کے قآتل اسکواڈ کے لوگ اس شخص کو قتل کر کے اس کی آنکھیں پلیٹ میں رکھ کر سلیم  شہزاد  کو پیش کرتے تھے۔ جب یہ کہتا تھا کہ فلاں شخص بہت اچھی باتیں کرتا ہے تو اس کی زبان اسے پیش کی جاتی تھی۔ جب یہ کہتا تھا کہ انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا فلاں کھلاڑی کل سنچری بنائے گا تو کراجی میں دوسرے دن سو سے زیادہ قتل ہوتے تھے۔ اس کا کلر اسکواڈ پر اتنا کنٹرول تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگ بشمول قاتل اعظم الطاف حسین اس سے خوفزدہ رہتا تھا۔ خلائی مخلوق کے لوگ بھی یہ جاننے کی کوشش میں لگے رہتے تھے کہ آج اس نے کس سے کیا بات کی اور اس بات کا مطلب کیا ہے۔ تاریخ نے ہماری نسلوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وقت سلیم شہزاد سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ہے۔ شاید ہماری نسلیں سلیم شہزاد کے ظلم کے خوف سے اس حقیقت کو تسلیم نہ کر سکیں لیکن تاریخ کی یہ حقیقت کئی بار بے شمار نسلیں تسلیم کر  چکی ہیں کہ وقت سلیم شہزاد سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ہے۔

کافر کافر کردی نی میں آپے کافر ہوئی

منگل، 3 جولائی، 2018

کراچی کے عوام انسان ہیں یا بے زبان جانور


تمام حکمرانوں نے پاکستان بننے سے آج تک عوام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا سو کیا ۔۔۔۔ مگر کراچی کے ساتھ جو ظلم و بربریت کی گئی ۔۔۔ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔۔۔۔

پاکستان بننے سے آج تک وہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں
ڈاکو زنی عام ہے
قتل و غارت گری عام ہے
چوری چکاری اور راہزنی کی روزانہ ہزاروں وارداتیں ہوتی ہیں
بھتہ خوری وصول کرنے میں تمام سیاسی جماعتوں کے غنڈے دھڑلے سے پیسے وصول رہے ہیں
کراچی والو ۔۔۔۔ اب تو ہوش کے ناخن لو ۔۔۔۔۔۔۔ اور
بتا دو ان سب حکمرانوں کو تم بھی انسان ہو

پیر، 2 جولائی، 2018

‘‘ تصوف‘‘ کا ایک فرقہ ، فرقہ سہیلیہ کا تعارف اور اس کے کمالات ۔۔۔یاسر جاپانی


‘‘ تصوف‘‘ کا ایک فرقہ ، فرقہ سہیلیہ ہے

اس کے پیشوا کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ ایک بار اپنے مرید کو حکم دیا کہ
دن رات یاللہ یااللہ یاللہ کا ورد ہی کرتے رہا کرو۔
مرید دن رات ہر وقت یہی کرتا رہا تو ایک وقت آیا کہ سوتا تھا تو "خواب" میں بھی یہی ورد کرتا رہتا تھا۔
ایک دن مرید اپنے گھر میں "اکیلا" تھا۔ کہ
گھر کی وزنی لکڑی گری اور مرید کا سر پھٹ گیا۔
مرید کیا دیکھتا ہے۔ کہ
اس کا بہتا خون بھی "یاللہ یااللہ یااللہ" لکھتا جا رہا ہے۔
یہ فرقہ سہیلیہ کے مرشد کے مرید کی کرامت "کشف المحجوب" میں رقم ہے۔
""مرشد" کی "پہونچ" کہاں تک ہوگی ؟
میرے خیال میں یہ سوچنا بھی "گستاخی" ہے۔
کیونکہ مذکورہ بالا "کرامت" میں اللہ کا ذکر آگیا ہے۔
تو اس کے بعد کسی "ایمان" والے "مسلمان" کا اس واقعہ پر شک کرنا "گناہ" ہی سمجھا جائے گا۔
اس لئے ہم گستاخی سے بچتے ہوئے مزید "کشف المحجوب" میں رقم "بزرگان دین" کی "خوابوں" اور "کرامتوں" کے تذکرات سے اجتناب کرتے ہیں۔
اگر آپ "شوق" رکھتے ہیں۔ تو خود مطالعہ کرلیں۔
باقی اللہ جسے "ھدایت نصیب کرتا ہے" اس کیلئے "دنیا و آخرت " کے "رول اینڈ لاء" آسان آسان الفاظ میں بتا چکا ہے۔ فاتحہ پڑھنے تک پہونچنے والا جب سیدھے رستے والے "نیوی گیشن " کیلئے "اپلیکیشن" ڈالتا ہے ۔
تو سورہ بقرہ کی پہلی آیت ہی میں کہاگیا ہے کہ "ھدایت یافتہ " کیلئے یہ "روڈ میپ" ہے۔اسے فالو کری جاؤ تے بیڑے پار ہو جائیں گئے۔
موجودہ دور کے "قطب" مولانا علامہ ڈاکٹر پروفیسر شیخ الاسلام جناب اعلی حضرت عزت مآب طاہر القادری برکاتہم کی بہت ساری کرامتوں کی ابتداء ان کی "وڈیو" ثبوت کے ساتھ موجود ہے۔ کہ
انہیں ایک "خواب " دکھائی دیا۔ اور پھر "خواب ہی خواب" میں "پی آئی اے" کے ٹکٹ کے علاوہ رہائیشی اور کھانے پینے کا خرچہ بھی ان کے ذمے ڈال دیا گیا۔
حضرت طاہرالقادری رحمۃ اللہ علیہ کی یہی کرامت بہت مشہور ہے کہ
وہ کبھی بھی صبح ناشتہ کرکے سکول نہیں گئے۔
اور ناہی کبھی "پک اینڈ ڈراپ" والے انکل انہیں سکول مدرسے لانے لیجانے کیلئے "ہائیر " کئے گئے۔
"حضرت طاہر القادری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ان کے "والدین " اور "محلے" والے بھی شہادتیں دیتے ہیں۔ کہ
حضرت کی تعلیم و تربیت کا بندوبست اللہ تبارک تعالی نے خصوصی طور پر فرمایا تھا۔
وہ "بزرگان دین اور تمام مشائخ" سے "عالمِ بالا ، عالمِ ارواح ، عالمِ برزخ" میں تعلیم حاصل کرتے رہتے تھے۔
اور "دستار بندی" بھی ان کی "عالمِ برزخ" میں ہوئی ہے۔
کسی قسم کا شک یا سوال کرنا "گستاخی" سمجھا جائے گا "عاموں" کی ذہنیت پست ہوتی ہے۔
اللہ کے "مقرب" اور "پہونچے" ہوئے بندوں کی باتیں انہیں سمجھ نہیں آتیں۔
حضرت مولانا مرشد پاک خادم حسین رضوی برکاتہم والتبرکاتہم کی کئی "کرامتیں ہم ان کی زبان سے سن چکے ہیں ۔
جن کی وڈیو ز بھی "شوشل میڈیا" پر بکثرت پائی جاتی ہیں۔اور الحمد اللہ حضرت مرشد پاک "حیات" ہیں ۔
ان گنت "کرامتوں" کے ظہور کا مزید "ممکنہ" خدشہ موجود ہے۔
ہوسکتا ہے کہ 25 جولائی کے بعد قوم ان کا خطاب قومی اسمبلی سے ڈائریکٹ سنے۔
لیکن مرشد پاک کی دو کرامتیں آپ کو بتاتے چلیں ۔
کہ ایک شہید ممتاز قادری سے ایمبولینس میں "خلوت " ملتے ہی "گفت و شنید" اور "پُلس" آلوں کا واپس آتے ہی قادری شہید رحمۃ اللہ کا دوبارہ چادر اوڑھ کر سو جانا۔
اور جب ڈاکٹروں نے مرشد پاک کے گردے فیل ہونے کا کہہ کرجواب دے دیا تو مرشد پاک نے 'انگل" گردوں پر رکھی ۔
اور انہیں حکم دیا کہ "ٹھیک ٹھیک کام کرو اوئے"
بس اس دن کے بعد گردوں نے پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے کام کرنا شروع کردیا۔
اور "سٹیج " کے نیچے بیٹھے "مریداں" پر بارانِ رحمت برسنا شروع ہو گئی۔
ایک "مولوی" صاحب کو "خواب" آیا کہ جو "مرشد پاک " کے ساتھ ہے وہ "کُل" کے ساتھ ہے۔
یہ خواب مولوی صاحب نے "قسمیں" اٹھا کر مجمعے کو بتایا تو فضا نعرہِ تکبیرکی گونج سے "لرز" اٹھی۔
اب "ثانیِ حضرت رابعہ بصری" کی "کرامتوں" کا بھی ذکرکردیتے ہیں۔ حضرت بشری بی بی رحمت اللہ علیہ اپنے وقت کی "حسین ترین" خاتون ہوتی تھیں۔
پھران کی آزمائیش اسطرح شروع ہوئی کہ
ایک مشہور زمانہ "راشی " اعلی افسر سے ان کی شادی ہوگئی۔ اللہ تبارک تعالی نے انہیں استقامت عطا فرمائی ۔
نیک اور صالح اولاد سے نوازا۔
حضرت بشری بی بی برکاتہم کی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور پہلی "کرامت" کا ظہور ان کے "شوہر مجازی" کو خدا نے "عاجزی و انکساری " سے ایسا نوازا کہ "پاکپتن شریف کے "در " پر "حاضری کیلئے جاتے ہوئے ۔
ہر دو قدم پر دومیل کی مسافت سے "سجدہِ تعظیمی " کرتے ہوئے حاضری دیتے ہیں۔۔
حضرت بشری بی بی برکاتہم کو پھر "خواب" آیا۔
اور "گفت و شنید" کے بعد "رضائے الہی" سے "شوہر" سے "خلع" حاصل کی اور "مریدِ خاص" سے بعد از عدت "نکاح" فرما لیا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ "مرید خاص" کی ھئیت ہی بدل گئی ۔ عاجزی انکساری کا یہ عالم تھا کہ مرید خاص جو کہ ممکنہ "حکمران وقت" تھا۔
اور "شہنشاہیت " کی ہما کو "مرید" خاص کے سر پر بٹھانے کی "کرامت" بھی حضرت مرشدہ بشری بی بی کی ہے۔ مزید یہ کرامت ہے۔کہ ننگے پاؤں عاجزی و انکساری میں گلی گلی اور در در "ماتھا" ٹیک رہا تھا۔
تصور کیجئے۔۔۔
آج سے چند صدیوں بعد "ہمارا" لکھا یا کسی "پہونچے" ہوئے بزرگ کا مذکورہ بالا"بزرگ" مقدس ہستیوں کا لکھے تذکرے کی طرح کسی کتاب میں ہوگا تو کیا ہوگا؟
لوگ "عقیدت" سے ہی "علم ِتصوف" کی "کرامات" پہ "سبحان اللہ ہی کہہ رہے ہوں گئے۔
مرشد حضرت پاک طاہر القادری کا
وقتِ کے "فرعونوں" کے سامنے اور غریب و مظلوم عوام کی "حاجت روائی ، مشکل کشائی" کیلئے ڈٹ جانے والے "غوث ،قطب ، ابدال" کے طور پر "تذکرہ" شریف ہو سکتا ہے۔
اسی طرح سلسلہ پین دی سری کے مرشد پاک کا "تذکرہ شریف "دلووں اور کنجروں" سے معرکے اور "کرامتوں " کا ہو سکتا ہے۔
"سلسلہ رن مریداں" کی حضرت مرشدہ بشری بی بی کا تذکرہ شریف بھی " شوہروں" کو نتھ پانے اور "وزارت عظمی " سے آگے "تخت شہنشاہیت" پر بٹھانے کا مقدس طریقے سے ہو سکتا ہے۔
جس طرح "قرآن و حدیث " کو "کشف المحجوب" میں "کرامتوں " اور بزرگوں کے "تذکرے " کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔
اس طرح سے ہوبہو "نقل" کرنے کی صورت میں کون "انکار" کرنے کی گستاخی کر پائے گا؟
"شریعت اور طریقت" کو لازم و ملزوم کر دینے سے "آسان آسان آیات" میں بیان کر دیا گیا "دین" ایک عام مسلمان کیلئے "جان جوکھوں" اور دردر کی "چوکٹھوں " پر سجود کرنے کا مشکل دین بنے گا کہ نہہں؟
"بل بتوڑی" اور "زکوٹاجن" کا روحانی قصہ تو تاقیامت امر ہو جائے گا۔۔

اتوار، 1 جولائی، 2018

وڈے سائیں کا بھٹو اب بھی زندہ ہے




میں پیپلز پارٹی قائدین کی فراست کا انتہائی معترف ہوں

جب ایشوز، شک و شبہات اورالزام تراشیوں کے جکھڑ چل رہے ہوں تو بہت اعتدال اور صبر سے کام لیتے ہیں، بالکل ہی کوئی ہلکی حرکت نہیں کرتے، کوئی اوچھا بیان نہیں دیتے ۔

وقت کے ساتھ جب دھول بیٹھتی ہے تو پھر ایفی ڈرین کیس بھی دب جاتا ہے، حج سکینڈل بھی خاموش ہوجاتا ہے، ایان بھی باہر چلی جاتی ہے، اینٹ سے اینٹ بجا دینا بھی بھول جاتا ہے، نیب اور نیب کی بھی ماں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

یہ اپنے وفاداروں کو، اگر وہ زبان بند رکھنے کی شرط پر پورا اتر جائیں تو؛ معاملہ چار سو ارب کا ہو یا اسی ارب کا، بندہ جیل میں ہو یا پاتال میں، ناصرف باعزت باہر نکال کرتے ہیں بلکہ انہیں معاشرے کا باعزت فرد ثابت کرنے کیلئے سونے کے تاج پہناتے ہیں۔

ہاں کچھ ہولے اور کم ظرف ساتھی بھی تو صفوں میں آ جاتے ہیں تو ایسے میں بلوچ شلوچ جیسے دوست کس کام کیلئے ہوتےہیں۔ حادثے تو حادثے ہی ہوتے ہیں پوچھتے تھوڑا ہی ہیں کہ آپ خالد شہنشاہ ہیں یا مرتضی بھٹو_

آج کے ہنگامے میں کتنے بڑبولے ہونگے؟ دس، بیس، پچاس؟ تھنک ٹینکس ان کی خاموشی کیلئے کیا تجویز کرتے ہیں، حصول اقتدار کے سامنے نہ تو مہنگا ہے اور نہ ہی ناممکن۔

لیاری کل بھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا اور کل بھی گڑھ ہی رہے گا۔ ناراض جیالوں کو ٹھنڈا کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ وڈے سائیں کو خود جانا پڑ جائےگا۔

اور وڈے سائیں کے جلوس کے ساتھ اگر کسی نے ایسی ویسی حرکت کرنے کا سوچا بھی تو ۔۔۔۔۔۔

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ۔۔۔وڈے سائیں کا بھٹو زندہ ہے

ہفتہ، 30 جون، 2018

انسان اور انسانیت ابھی زندہ ہے

تحریر ۔۔ محمد دین

اندرون سندھ, محراب پور کے قریب گوٹھ💞 "نوّں پوترا"💖  کے مکینوں کا یادگار کردار

آج 27 up شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے محراب پور سے چند کلو میٹر آگے ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی.🌹الحمدوللّہ🌷 ٹرین جبکہ تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیے ہی ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے.ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا.
سخت گرمی میں دو بڑے سٹیشنوں کے درمیان ٹرین ایسی جگہ کھڑی تھی کہ جہاں کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا. مسافر سخت پریشان. بچوں کے رونے دھونے کی آوزیں. خواتین گرمی میں بے حال اور اس پر مزید یہ کہ بقول ٹرین سٹاف, امدادی کاروائیوں میں چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں.
اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کریں.
اچانک ایک ایسا منظر دیکھا کہ جسے الفاظ میں بیان کرنے کا میں اپنے اندر حوصلہ نہیں پاتا. وہ منظر دیکھ کر بے اختیار , زار و قطار میری آنکھوں سے اشک رواں تھے.  درختوں کے بیچ کھیتوں کے درمیان نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے.
عجیب منظر تھا.
کسی نے پانی کا کولر اٹھایا ہوا ہے اور کسی نے گھڑا. کوئ جگ اٹھاے ہوے ہے اور کوئ دودھ کا برتن. اپنی پگڑی میں کوئ بزرگ برف کا تحفہ لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں. ہر ایک کی خواہش ہے کہ مسافر اسے خدمت کا موقع دیں.
چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی بھری ہوئ دیگ ایک رکشہ پر لائ گئ. غریب لوگوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے تو چاول کھلانے کے لیے مٹی کی بنی ہوئ پلیٹیں اٹھاے ہوے تھے. آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں. ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لاے تھے.
گاؤں کے نوجوانوں کا کردار مثالی تھا. گرمی کی شدت سے بے نیاز  تمتاتے چہروں کے ساتھ ایک جنونی انداز میں امدادی کام میں شریک تھے.
نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ وہ جس کی مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے, کس ذات برادری, کس مزہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں؟
بس ایک ہی رشتہ تھا, انسانیت کا, پاکستانیت کا اور احسان کا.
اسی دوران اطلاع ملنے پر پولیس کے مقامی افسر اللّہ رکھیو رند بھی اپنی پولیس پارٹی کے ہمراہ پہنچ گئے اور اپنے فرائض سنبھال لیے.
میں نے گاؤں کے ان نیک سیرت امدادی کارکنوں سے انفرادی طور پر مل کر ان کا شکریہ ادا کیا اور دل کی گہرائیوں سے انہیں دعائیں دیں. وہ انسانی ہمدردی کے جزبہ سے سرشار سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ انہیں خدمت کا موقع ملا.
اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور  لانے کا فیصلہ ہوا. ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رخصت کیا جاتا ہے. ہماری آنکھوں میں بھی تشکر کے آنسو تھے.
چند گھنٹوں کی یہ رفاقت بہت سے سبق دے گئ کہ ہمارے پاکستان کے عوام کتنے اچھے ہیں, ہمدرد, دکھ درد بانٹنے والے, مصیبت میں کام آنے والے, اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناس.
اس جزبے اور ایثار کو میں کوئ نام دینے اور الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں. مٹی کا گھڑا اٹھاے وہ سادہ سا دیہاتی شخص اور  مٹی کی پلیٹوں میں کھلایا جانے والا پلاؤ انمول تھا.
اللّہ تعالیٰ ان سب کو جزائےعظیم دے, ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائ عطا فرماے. آمین

اچھی بات کو پھیلانا بھی نیکی ہے. اس تحریر کو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ معاشرہ میں بھلائ اور نیکی عام ہو. میں یہ تحریر جائے حادثہ پر ہی لکھ کر محراب پور سٹیشن سے پوسٹ کر رہا ہوں
Muhammad Deen

واقعہ کی تصاویر ملاحظہ فرمائیں.

جمعہ، 29 جون، 2018

مرشد پاک ۔۔۔سچی کہانی ۔۔یاسر جاپانی




سخت گرمی کا موسم تھی۔

"بھوک پیاس افلاس" کی شدت تھی۔

لیکن "مرشد" مجبور تھے۔

سفر کئے بغیر چارہ نہیں تھا۔ غریب عوام کی "حاجت روائی مشکل کشائی" کا فریضہ انجام دیناتھا۔

"عوام الناس" بہت دکھی تھی۔ کوئی سر پہ دستِ شفقت رکھنے والا نہیں تھا۔

ایک طویل تھکا دینے والا سفر کرکے "مرشد" نے اس "وحشت زدہ" شہر میں قدم رنجہ فرمایا تھا۔

منزل مقصود پر پہونچتے ہی "مرشد" پر "بھوک و پیاس" نے شدت سے حملہ کر دیا۔
"مرشد " نے آسمان کو دیکھا نیچے زمین کو دیکھا۔
لوگوں سے "کھانا پانی" کا تقاضا کیا۔

لوگ " بے راہرو راہنجار" تھے۔ "مذہب" سے دوری لوگوں کے چہروں پر نحوست برسا رہی تھی۔

ہر طرف سے "انکار" ہوا۔

ایک قصائی چھیچھڑے اور ھڈیاں علیحدہ کرکرکے دکان کے تھڑے تلے بیٹھے کتوں کے سامنے پھینک رہا تھا۔

قصائی کی نظر اچانک ۔۔۔۔۔"مرشد " پر پڑی تو اس کے "دل" میں رحم کا جھماکا ہوا۔۔۔۔۔۔اور قصائی نے سب سے اچھا گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر "مرشد" کی خدمت میں پیش کردیا۔

"مرشد" گلی گلی لوگوں کے در در پھرے کہ کوئی "آگ" دےدے تاکہ "گوشت" بھون کر اپنی بھوک مٹا سکیں۔

لیکن "بے رحم و ظالم" لوگوں نے "آگ" نہ دی۔

"مرشد" کو جلال آگیا۔۔اینج کرکے۔۔۔

مرشد نے ہاتھ لمبا کیا اور "سورج" کو اینج کرکے نیچے لے آئے اور سورج کی تپش سے "گوشت " کا ٹکڑا بھون کراپنی بھوک مٹائی۔

بس اس دن کے بعد "شہر" کے لوگوں کو سزا کے طور پر مسلسل صدیوں سے سورج کی "گرمی" سے ساڑے ہی جارہے ہیں۔

قصائی کے احسان کا صلہ اسطرح عطا کیا کہ
قصائی کو "برف کا کار خانہ " عطا کر دیا۔

اب قصائی مزے سے ٹھنڈے برف خانے میں بیٹھے برف بیچ رہا ہوتا ہے۔

اور ملتانی ۔۔۔۔۔۔۔استغفراللہ
ملتان تاں بھوں گرمی پیندی ھو۔۔۔۔۔۔اللہ ھو۔

نوٹ؛- چیلنج کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی مائی کا لال اس کہانی کو جھوٹا ثابت کرکے دکھائے۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔پُرتقدس انداز میں بیان کوئی بھی کر سکتا ہے۔۔

اور انیس بیس کا فرق تو چل ہی جاتا ہے۔۔انداز اپنا اپنا :D

دلچسپ بات ایک یہ بھی ہے کہ "تمام" مرشدان پاک موجودہ دور کے سیاستدانوں کیطرح علاقے بانٹا کرتے تھے۔

جمعرات، 28 جون، 2018

کیا عمران خان ہنی ٹریپ کا شکار ہوچکے ہیں؟؟ ۔۔ مہتاب عزیز






کیا عمران خان ہنی ٹریپ کا شکار ہوچکے ہیں؟؟

حالات تو اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ اس جال میں پھنس چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 66 سال کا جہاندیدہ سیاستدان کیا دامِ الفت (honey trap) کا شکار ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے، دنیا کے کئی سیاسی اور عسکری رہنماوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جہیں ڈھلتی یا آخری عمر میں دامِ الفت (honey trap) میں پھنسا کر استعمال کیا گیا۔

خصوصا پاکستانی سیاستدانوں اور فوجی سربراہوں کے ریکارڈ تو اس سلسلے میں بہت خراب ہے۔ یوں تو اس دامِ الفت (honey trap) میں پھنسنے والوں میں پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ جن کا تعلق پنجاب کے علاقے کرنال سے تھا۔ جنہوں نے 38 سال کی عمر میں دوسری شادی بیگم رعنا سے 1936 میں ہوئی۔ بیگم رعنا کی پیدائش ہندوستان کے علاقے اترکھنڈ میں الموڑہ کے مقام پرایک عیسائی خاندان میں ہوئی اور ان کے والد ڈینیل پنت نے ان کا نام شیلا آئرین پنت رکھا تھا۔ شیلا آئرین پنت نے بعد میں لیاقت علیخان کی محبت میں گرفتار ہو کر اپنا مذہب تبدیل کیا۔ اور شادی کے بعد رعنا لیاقت علی خان بن گئیں۔ پاکستان آرمی نے انہیں پہلی خاتون بریگیڈئر جنرل کا اعزاز دیا۔آپ نے پاکستان کی پہلی خاتون سفیر کے طور نیدرلینڈ، اٹلی اور تیونس میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر رہیں۔بعدازاں بھٹو نے انہیں سندھ کی پہلی خاتون گورنر کے طورپر تعنیات کیا۔ بیگم رعنا پاکستان میں خواتین کو گھروں سے نکالنے، آزاد خیالی اور پردے کی مخالفت کی بانی ہیں۔ انہوں نے اپوا کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کی ابتدا سے شرعی قوانین کے نفاذ کی مخالفت کی۔

دامِ الفت (honey trap) کا باقاعدہ شکار ہونے والا پہلا پاکستانی سربراہ گورنر جنرل غلام محمد تھا۔ فالج کا شکار یہ معذور شخص آخری عمر میں ایک جرمن نژاد امریکی خاتون روتھ بورال کی زلف کا اسیر ہوا۔ یہ ایک ایسا سربراہ تھا فالج کی وجہ سے جس کی زبان بھی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اور نہ ہی یہ کسی کاغذ پر دستخط کر سکتا تھا۔ اس کے بیانات اورہر طرح کے احکامات پر دستخط اس کی امریکی سیکریٹری ہی جاری کرتی تھی۔ اس حالت میں اس نے امریکیوں کو پہلی بار پاکستان میں مداخلت کا موقعہ دیا۔ اور پشاور کے نزدیک بڈبھیر کا ہوائی اڈا امریکیوں کو دیا۔ اسی نے اسمبلیاں توڑ کر غلط رسم کا آگاز کیا، امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا کو اچانک وزیر اعظم مقرر کر کے پورے ملک کو حیران کر دیا۔ یہی دور تھا جب پاکستان امریکی کالونی بنا۔

امریکی میں تعنات پاکستانی سفیر کو اچانک پاکستان کا تیسرا وزیراعظم محمد علی بوگرہ بنائے گئے تھے۔ جن کے دور میں پاکستان میں امریکیوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوئیں۔ بوگرا صاحب بھی امریکی میں تعناےی کے دوران دامِ الفت کا شکار ہوئے۔ انکی دوسری بیوی عالیہ سدی لبنانی نژاد امریکی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

پاکستان کے ایک اور وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی دام الفت کا شکار ہوئے۔ اُن کی دوسری اہلیہ کا تعلق روس سے تھا۔ وہ ماسکو آرٹ تھیٹر سے وابستہ ایک روسی اداکارہ تھیں۔ ان کا نام ویرا الیگزینڈرونا کالڈر تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حسین شہید سہروردی کا پاکستان میں جاری روس امریکہ کشمکش کے دوران جھکاو روس کی جانب تھا۔

پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی اہلیہ بیگم وقار النسا نون کا تعلق اسٹریا سے تھا۔ ان کا پیدائشی نام وکٹوریہ ریکھی تھا۔ ملک فیروز خان نون جب برطانیہ میں حکومت ہند کے ہائی کمشنر تھے تب ان کی ملاقات وکٹوریہ سے ہوئی۔ جس کے بعد دونوں کی محبت کا آغاز ہوا جو شادی پر منتہج ہوئی۔ بعد ازاں وکٹوریہ اپنا مذہب اور نام ترک کر کے بیگم وقار النسا نون ہوگئیں۔ یہ خواتین کی آزاد خیالی کی حامی اولین تنظیم اپواء کے بانیوں میں شامل تھیں۔ پاکستان میں تعلیم کو سیکولر خطوط پر ڈھالنے میں ان کا اہم کردار ہے۔

ہنی ٹریپ کا دوسرا شکار پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر سکندر مرزا تھا۔ جسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ معروف غدار میر جعفر کا پڑپوتا تھا۔ اس کی دوسری اہلیہ ناہید افغامی سے محبت اور شادی کو باقاعدہ ایرانی انٹیلیجنس کا کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اُس وقت کی ایرانی انٹیلیجنس امریکی سی آئی اے کا ایک ذیلی ادارہ سمجھی جاتی تھی۔ نائید افغامی پاکستان میں ایران کے ملٹری اتاشی کی بیوی کی حیثیت سے پاکستان آئیں۔ ایران کے ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ کی حیثیت سے اُن کی ملاقات اُس وقت کےڈیفنس سیکرٹری میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوئی۔ ملاقاتیں محبت میں بدل گئیں۔ پھر نائید نے اپنے ایرانی شوہر سے طلاق حاصل کر کے اسکندر مرزا سے شادی کر لی۔ میجر جنرل سکندر مرزا کے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے بعد نائید ملک کے سیاہ اور سفید کی مالک بن گئیں۔ اس دور میں ایران اور امریکہ کے مفاد میں ہونے والے اقدامات کی تفصیل کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے۔

پاکستان کے دوسرے فوجی آمر آغا محمد یحیٰ خان کا کردار اتنا گھنونہ ہے کہ اُس پر بات کرت ہوئے گھن آتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یحیٰ خان کی داشتہ اقلیم اختر المعروف جنرل رانی بھی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایجنٹ تھی۔

ایرانی انٹیلیجنس کا دوسرا کارنامہ ذولفقار علی بھٹو کو دام الفت میں گرفتار کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی دوسری اہلیہ بیگم نصرت اصفحانی کا تعلق ایران کے شہر اصفحان سے تھا۔ وہ گریجویشن کے بعد پاکستان آئیں، جہاں کراچی میں اُن کی ملاقات بھٹو سے کرائی گئی۔ جو پہلے محبت اور پھر شادی کا باعث بنی۔ ذولفقار علی بھٹو کے کئی اقدامات کے پیچھے نصرت بھٹو کی وساطت سے ایرانی اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے ذولفقار علی بھٹو کی اقتدار سے برطرفی کے بعد میں سزائے موت کے بعد ان کا خاندان افغانستان اور پھر شام منتقل ہوا۔ دونوں ممالک اُس وقت ایران کے زیر اثر تھے۔ خاندان کے باقی افراد بعد ازاں مغربی ممالک چلے گئے لیکن دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں پاکستان کو مطلوب میر مرتضیٰ بھٹو شام میں ہی مقیم رہے۔ جن کی اہلیہ غنویٰ بھٹو کا تعلق بھی شام سے ہے۔

بدھ، 27 جون، 2018

100 کاروباروں کی فہرست

تحریر و ترتیب ۔۔۔ کنور ایم عابد

100 کاروباروں کی فہرست

آپ بھی لازماً ان میں سے کوئی ایک کاروبار کرنے کے قابل ہوں گے۔تو سیکھیے۔اور شروع کیجیے۔

1 : کپڑے کا کاروبار

2 : دودھ ، دہی کاکاروبار

3 : ہوٹل ، ریسٹورنٹ

4 : بچوں کے کھلونے

5 : برتنوں کا کاروبار

6 : کتابوں کی تجارت

7 : الیکٹرونکس کا کاروبار

8 : موبائل کا کاروبار

9 : مختلف علوم کی ٹیویشن

10 : ڈیزائنگ ، گرافکس

11 : فرنیچر کا کاروبار

12: زرعی پیداوار کی خرید و فروخت
جس چیز کی جہاں فراوانی ہو وہاں سے خرید کر دوسرے مقام پر جہاں اسکی ضرورت محسوس کی جاتی ہو وہاں فروخت کردی جائے .

13: پرندوں کی پرورش یا پرندوں کی تجارت. ہو سکے تو دونوں. اس میں بہت سی ورائٹیز ہیں.

14 : شترمرغ فارمنگ

15 : ہربل میڈیسن

16 : کهمبی کی کاشت

17 : ردی بھنگار کا کاروبار

18 : پرچون مصالحہ جات

19 : جنرل اسٹور

20 : اسکول اسٹیشنری

21 : چپل جوتوں کی دکان

22 : آئس کریم شاپ

23 : عطر ، لوبان ، اگربتی

24 : پان کی دکان

25 : پان سے متعلق سامان کی دکان

26 : مچھلیاں

27 : مرغیاں

28 : مچھلیاں شوقیہ پالنے والی

29 : مچھلی فرائی کرکے بیچنا

30 : نیوز پیپر اسٹال

31 : پانی ، منرل واٹر

32 : ماربل ،گرینائٹ

33 : ٹائلس

34 : سانیٹری

35 : ہارڈویئر

36 : بیکری

37 : ریئل اسٹیٹ ، پلاٹ ، زرعی اراضی کی بیع و فروخت

38 :عینک کی دکان.

39 :گھڑی فروشی اور مرمت.

40 : زیراکس اور موبائل ریچارج.

41 : آن لائن فارم بھرنا ، اور ٹکٹس بکنگ.

42 : ہوم نیڈس. جیسے صاف صفائی کے جدید آلات وغیرہ.

43 : امپورٹ ایکسپورٹ

44 : مینوفیکچررینگ

45 : گارمینٹس

46 : فرینچائیزی

47 : مینپاورسپلائے.

48 : کیٹرینگ

49 : جوئن وینچر

50 : لیبرسپلائے

51 : انٹرپرینرشیپ

52 : اسکول اور ٹیوشنس

53 : اسپتال

54 : اسلامک بینک

55 : فرنیچر

56 : امیٹیشن زیور

57 : گلاس کروکری

58 : مارکیٹینگ

59 : ہال

60 : ڈیکوریشن

61 : نیو اورجونی بائک کار سپلایر

62 : فولڈ ایبل فرنیچر

63 : کمپیوٹر اور اےسی Aanual mantainance contract

64 : پرینٹینگ پریس

65 : ویبسائٹ ڈیسائنگ

66 : ھوڑڈئنگ اور بوڑڈنگ ورک

67 : الومینم سلائڈنگ ورک

68 : گریل فیبریکیشن

69 : ایپس ڈیلوپنگ

70 : پیکیپ ڈراپ کونٹریکٹ(اسکول,آفسیس)

71 : لیدر ورک ( بیگ,بیلٹ,جیکِٹ وغیرہ)

72 : کوریر سرویسیس

73 : ٹائر ریمونڈینگ ,سیل ,وِیل بیلینسینگ, الا ئنگمینٹ, پنچر سرویسیس

74 : ٹِیفِنس سرویس(بیسی کا کھانا)

75 : شوپنگ مال

76 : جیوس سینٹر

77 : کسٹم کلیرینگ

78 : لیبارٹری

79 : ٹمبر مارٹ.

80 : رڈیمیڈ مسالوں کا کاروبار (..مسالہ اتنا ریڈی میڈ ہو کہ پانی اور گوشت تیل کے علاوہ تمام ضرورت کو پورا کردے.)

81 : کسی بھی مشہور پروڈکٹ کی ایجنسی (جیسے بسلیری وغیرہ جس کی مارکیٹینگ نہ کرنا پڑے لوگ ڈھنونڈ کر آئے )

82 : زری ، آری ، دردوزی گارمیننٹس کا را (raw material) سپلائے.( ویرائٹی اتنی ہو کے کالے کلر میں بھی 12 شیڈ کے دھاگے ہو آپ کی دکان میں.کوئی واپس نہ جائے.)

83 : پیکنگ انڈسٹری (,attractive printed paper bag,cartoon & box )

84 : پیکر اینڈ مور سرویسیس (زمین کے علاوہ ہر چیز شفٹ کرنے کی گیرنٹی...)

85 : ایمبو لینس

86 : فیٹنیس سینٹر ( aerobic,special bath facility, latest machine) جان ہے تو جہان ہے.کچھ دنوں کا جزبہ اگلے ہفتے نیو ایڈمیشن....

87 : ایڈورٹائسمیینٹ ایجنسی( 3D بینر، بلون، ) unique ideas کے ساتھ.

88 : ٹاوینگ وین.( بڑی شو روم کی گاڑیاں ایکسیڈینٹ یا خراب ہونے پر پرائیویٹ ٹوچن والوں کو ہی بلایا جاتا ہے 1800 سے بھاڑا شروع ہوتا ہے جیسا گراہک ویسی پڑی.ساتھ میں ٹرافیک چوکی میں بھی کافی کام ہے.بس آفیسر سیٹ بزنیس سیٹ...

89 : ویکیشن ٹور : ایک رات دودن. وغیرہ . weekend میں لوگ شہر سے باہر جاکر فرسٹریشن نکالتے ہیں .صرف ایک بار بس ، ہوٹل سب سے سیٹینگ .ان کو کسٹمر اور آپ کو بزنیس مل جاتا ہے.

90 : کنسلٹینسی سرویس:( جس میں آپ کو مہارت ہو.

91 : آٹو سرویس

92 : مختلف ڈیپارٹمنٹل اشیا کی سیلز مین کا کام جیسا کہ ٹافی ٹکیاں پاپر چپس..

93 : بیکری کی اشیا کی ڈلیوری شاپ ٹو شاپ.

94 : موٹرسائیکل سپیر پارٹس کی دوکان.
دوکان کے بغیر سپیر پارٹس کی سپلائی.

95 : انڈوں کا کاروبار ان کی سپلائی

96 : چوزوں کی سپلائی کا کاروبار

97 : پلاسٹک کے برتن بنانے کا کارخانہ

98 : جس نے آی ٹی کی ہو اس کے لیے سب بیسٹ انٹرنیشنل سطح پر کاروباری لوگوں کے لیے موبائلز سافٹ وییرز بنانا....

* اسی طرح کسی سافٹ وییر کو پلے سٹور پر یا پھر آی او ایس میں شامل کروانا مع قیمت...... یعنی سافٹویئر ڈویلپر

99 : منگ ، تور ، مٹر ، چولی ، چنا ، کسان سے ٹھوک بھاؤ میں خرید کر مشین سے دال بنا کر پالیس کر کے بازار میں خوبصورت پیکیج بناکر فروخت کیا جائے.

100 : چشموں کا کاروبار
فینسی سنگلاسیس اور نمبر والے فریم بنا نمبر لینس کے آن لائن بھی فروخت کر سکتے ہے
ساتھ ہی بیلٹ, وائلٹ, لیڈیس پرس اور فیشن سے جڑی بہت سی اشیاء۔

منگل، 26 جون، 2018

سوئیڈن میں لوگوں نے جسم میں مائیکرو چپ لگوانا شروع کر دی



سوئیڈن میں لوگوں نے جسم میں مائیکرو چپ لگوانا شروع کر دی


ہزاروں افراد نے خود کو جدید دور کی نئی تبدیلی کی پیش کر دیا ہے اور اب وہ گاڑی کی چابیوں، اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈز اور بسوں، ٹرینوں اور ٹرام کے ٹرانسپورٹ کارڈ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اپنے جسم میں مائیکرو چپ نصب کروا رہے ہیں۔


اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپ کی جِلد کے نیچے نصب ایک چھُپی ہوئی چھوٹی سی مائیکرو چپ آپ کے روزمرہ استعمال کے کارڈز، چابیاں اور پرس کھو جانے سے بچنے میں مدد فراہم کرے گی۔


اسمارٹ فون کے بعد اسمارٹ پیپل بننے کا رجحان تیزی سے جاری ہے اور لوگ خود کو رضاکارانہ طور پر اس تبدیلی کی پیش کر رہے ہیں۔
یہ چپ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے بیچ میں نصب کی جاتی ہے اور اس کی مدد سے صارفین اپنی کار اسٹارٹ کر سکتے ہیں، انہیں بس، ٹرین یا ٹرام کا کرایہ ادا کرنے کیلئے پرس کی ضرورت نہیں ہوگی، صرف مخصوص مشین پر ہاتھ پھیرنے سے ادائیگی ہو جائے گی اور اس طرح کے کئی دیگر کام باآسانی کیے جا سکیں گے۔

پیر، 25 جون، 2018

پنجابی کلینڈر ۔۔۔ دیسی دن وار

*پنجابی (دیسی) کیلنڈر*

برِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا اغاز 100 قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔

بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بکرم اجیت" کے دور میں ہوا۔ *راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "ویساکھ" کے مہینے سے شروع ہوتا ہے۔*

تین سو پینسٹھ (365 )دنوں کے اس کلینڈر کے نو مہینے تیس (30) تیس دن کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینا وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔

*1. ویساکھ ਵੈਸਾਖ*
(وسط اپریل – وسط مئی)

*2. جیٹھ ਜੇਠ*
(وسط مئی – وسط جون)

*3. ہاڑھ ਹਾੜ*
(وسط جون – وسط جولائی)

*4. ساون ਸਾਵਣ*
(وسط جولائی – وسط اگست)

*5. بھادوں ਭਾਦੋਂ*
(وسط اگست – وسط ستمبر)

*6. اسو ਅੱਸੂ*
(وسط ستمبر – وسط اکتوبر)

*7. کاتک ਕੱਤਕ*
(وسط اکتوبر – وسط نومبر)

*8. مگھڑ ਮੱਘਰ*
(وسط نومبر – وسط دسمبر)

*9. پوہ ਪੋਹ*
(وسط دسمبر – وسط جنوری)

*10. ماگھ ਮਾ*
(وسط جنوری – وسط فروری)

*11. پھاگن ਫੱਗਣ*
(وسط فروری – وسط مارچ)

*12. چیت ਚੇਤ*
(وسط مارچ – وسط اپریل)

بکرمی کلینڈر (پنجابی دیسی کیلنڈر) میں ایک دن کے آٹھ پہر ہوتے ہیں، ایک پہر جدید گھڑی کے مطابق تین گھنٹوں کا ہوتا ہے.

*ان پہروں کے نام یہ ہیں:*

*دھمی ویلا:* صبح 6 بجے سے 9 بجے تک کا وقت

*دوپہر ویلا:* صبح کے 9 بچے سے دوپہر 12 بجے تک کا وقت

*پیشی ویلا:* دوپہر کے 12 سے دن 3 بجے تک کا وقت

*دیگر ویلا:* سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت

*نماشاںویلا:* رات کے اوّلین لمحات، شام 6 بجے سے لے کر رات 9 بجے تک کا وقت

*کفتاں ویلا:* رات 9بجے سے رات 12بجے تک کا وقت

*ادھ رات ویلا:* رات 12 بجے سے سحر کے 3 بجے تک کا وقت

*اسور ویلا:* صبح کے 3 بجے سے صبح 6 بجے تک کا وقت

*لفظ " ویلا " وقت کے معنوں میں بر صغیر کی کئی زبانوں میں بولا جاتا ہے۔*