pia chauburji لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
pia chauburji لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 13 دسمبر، 2014

چوبرجی ائیرپورٹ سے براہ راست

pia-chauburji-01
اگر آپ لاہور کچہری سے تقریباً ایک کلومیٹر دور چوبرجی چوک سے تھوڑا پیچھے یونیورسٹی گراؤنڈ سے متصل ‘‘ چوبرجی ائیرپورٹ ‘‘ پر جائیں تو وہاں آپ کو آجکل رنگا رنگ میلہ دیکھنے کوملے گا ۔۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت بچوں کے ساتھ حسین چہرے آسمان کی وسعتوں میں ستاروں کی کھوج لگانے آئے ہوئے نزدیک کھڑے اس پی آئی اے کے جہاز کو گھور رہے ہوتے ہیں جس کے نیچے گندہ پانی کھڑا پی آئی اے انتظامیہ کا منہہ چڑا رہا ہوتا ہے ۔

pia-chauburji-02
پی آئی اے نے لاہور چوبرجی چوک میں یہ پلانٹ ائیریم 1987 میں بنایا تھا جس کو پی آئی اے میوزم اور سیارگاہ کا بھی نام دیا گیا ۔اور اس کو تعلیمی اور علمی مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ۔اس پلانٹ ائیریم کے اگر آپ مین گیٹ سے داخل ہو کر دائیں ہاتھ دیکھیں تو ایک جہاز چپ چاپ کھڑا پی آئی اے کی بے حسی پر آنسو بہارہا ہوگا۔اور اگر آپ کی نگاہ بائیں ہاتھ جاتی ہے تو ایک بڑا سا سرخ رنگ کا گنبد نما ہال آپ کو نظر آئے گا جس پر سالوں سے رنگ نہیں کیا گیا۔اس کے نزدیک جانے پر اندر داخلہ کے لئے آپ سے فی بندہ و بچہ سو روپیہ سکہ رائج الوقت کا تقاضا کیا جائے گا۔

pia-chauburji-03
اگر آپ ان مراحل سے گزر کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اندر داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ دوسری دنیا میں تشریف لے جارہے ہیں ۔۔۔آسمان کی وسعتوں کی سیر کرنے کے لئے جونہی بتی گل کی جاتی ہے ، لگتا یوں ہے جیسے آپ کی بتی بھی گل ۔۔۔ انتہائی گھٹن کا ماحول ۔۔۔ گھپ اندھیرا ۔۔۔۔ آب و ہوا کی صحیح نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے بندہ دم گھٹنے کی کفیت محسوس کرتا ہے ۔اگر آپ چاہیں کہ آپ وہاں سے نکل جائیں تو آپ کو نکلنے نہیں دیا جائے گا ۔پھر ہو گا یہ کہ اگر آپ زندہ رہے تو آپ تب تک اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں گے جب تک پی آئی اے کا یہ سیارگاہ کے شو کا اختتام نہیں ہوجاتا۔
کسی مزار کے گنبد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اگر آپ اس کے نیچے بنی قبر کا تصور کرنا چاہیں تو یہ اس سیارگاہ کی صحیح تصویر کشی ہوگی

pia-chauburji-04
شنید ہے (جس کی میں نے بذات خود تصدیق نہیں کی) کہ پی آئی اے پلانٹ ائیریم ( چوبرجی ائیرپورٹ ) پر کھڑا یہ وہ جہاز ہے جس کو الذوالفقار تنظیم نے اغوا کیا تھا ۔الذوالفقار نامی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم تھی جس کا سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا اور بے نظیر بھٹو کا بھائی مرتضی بھٹو تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزارت عظمی سے برطرف کرکے جب جیل میں ڈالا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں بیٹے مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے والد کی رہائی کیلئے بین الاقوامی طور پر مہم چلائی اور کئی ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی بے گناہی کا یقین دلایا اور انہیں رہا کروانے کی بھرپور کوششیں کیں ۔جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہورہی تو انہوں نے افغانسان میں روسی نواز کمیونسٹ حکومت کی مدد سے الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کی بنیاد ڈالی ۔ جس نے ضیاءالحق کے دور حکومت میں حکومت مخالف کارروائیاں بھی کیں تاہم دونوں بھائیوں کی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور ان کے والد کو 1979 میں پھانسی کی سزا دے دی گئی ۔

pia-chauburji-05
۔1981ء میں پی آئی اے کے جہاز کو اغواء کر لیا گیا اور اس کے اغوا میں اسی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کاہاتھ تھا۔ جہاز کے اغواء کے دوران ہائی جیکرز نے پاک فوج کے آفیسر لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی مار کر جہاز سے باہر پھینک دیا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو نے ماری تھی ۔ہائی جیکرز نے اپنے مطالبات میں پیپلز پارٹی کے متعدد رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جو اس وقت پورا کرلیا گیا - اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کا نام مختلف کارروائیوں میں لیا جاتا رہا ۔بعدزاں پل چرخی جیل میں سلام اللہ ٹیپو کو بھی ثبوت مٹانے کی خاطر مرتضی بھٹو کے حکم پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے اپنے ہی دور حکومت میں اس کے بھائی الذوالفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے بانی و سربراہ مرتضی بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔جس کا ثبوت آج بھی پولیس کی فائیلوں میں گم ہے ۔

نوٹ ۔۔ پی آئی اے پلانٹ ائیریم چو برجی کو ‘‘ چوبرجی ائیرپورٹ ‘‘ کا نام ازراہ مذاق دیا گیا ہے ۔دو تین دفعہ نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ کا ذکر ہے کہ جب یہ پی آئی اے کا پلانٹ ائیریم نیا نیا بنا اور اس پر جہاز لا کر کھڑا کیا گیا تو فنکار لوگوں نے دبئی جانے کے خواہشمند کئی حضرات سے پیسے لے انہیں یہاں چھوڑ دیا تھا ۔۔۔
یہ کہانی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔ کیونکہ یار زندہ صحبت باقی

میں اس تحریر میں تصحیح کروانے پر محترم ریاض شاہد کا بے حد مشکور ہوں