Khote لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Khote لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 15 مارچ، 2016

چیچہ وطنی کی کھوتی

یہ غالبا" سن اکہتر کی بات ہے۔۔ میری عمر اس وقت دس یا گیارہ سال کی ہو گی ۔۔۔ ہمارے امی ابا ایک گاؤں چیچہ وطنی گاؤں کے ایک "" چک گیارہ ایل "" میں ایک بزرگ مولانا عبدالعزیز صاحب کے ہاں دعا کے لئے جایا کرتے تھے۔۔۔۔ ویسے تو ہم بزرگوں کی عزت و توقیر کے ساتھ ان کی تعظیم کے بھی قائل ہیں ۔۔۔ مگر خصوصی طور حاضری دینا اپنے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔ بحرحال وہ دور شاید جاہلانہ زیادہ تھا اس لئے ہمارا گھر بھی اس میں رنگا ہوا تھا۔۔۔۔۔ویسے اب بھی ہمارے خاندان میں تقریبا" ہر فرقے کے لوگ موجود ہیں ۔۔۔۔

چیچہ وطنی کے اسٹیشن پر اتریں تو وہاں سے تانگہ ملا کرتا تھا جو تقریبا کھیتوں کے درمیان کچی پگڈنڈیوں پر جسم کے انجر پنجر کو ہلاتا دو یا ڈھائی گھٹوں میں چک گیارہ ایل میں جا پہنچاتا تھا۔

شدید گرمی میں جب ہم مولانا عبداالعزیز صاحب کے گاؤں پہنچے تو ان کے مہمانوں کے کمرے میں لگے بڑے کپڑے سے بنے چھت سے بندھے رسی کی ڈور سے کھینچنے والے پنکھے نے وہ لطف دیا کہ بس مت پوچھئے۔۔۔وہ ٹھنڈی ہوا آج تک میں نے کسی اے سی والے کمرے میں بھی محسوس نہیں کی۔

شام ہوئی تو میں اٹھ کر باہر نکل آیا۔۔۔کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک گدھی ( کھوتی ) کھونٹے سے بندھی کھڑی تھی ۔۔۔۔جانے کیا خیال آیا کہ میں قریب جا کر گدھی ( کھوتی) کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیر بیٹھا ۔۔۔۔ اُس نے جو دولتی ماری ۔۔۔ کم از کم دوقلابازیاں کھا کر گرا ہونگا ۔۔تھوڑی کا نچلا حصہ سارا پھٹ گیا ۔۔۔چانگریں مار مار رویا ۔۔۔ڈاکٹر وغیرہ کوئی نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ انہوں نے سپرٹ لیمپ سے روئی پر سپرٹ لگا کر پورے منہہ پر پٹی لپیٹ دی ۔۔۔ سپرٹ کی تکلیف سے ڈبل چانگریں ماریں ۔۔۔۔۔

آج سوچتا اور شکر کرتا ہوں کہ وہ کھوتی تھی۔۔۔۔۔۔کہیں اگر وہ کھوتا ہوتا تو جانے میرا کیا حشر کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔

چیچہ وطنی کی کھوتی کی دولتی کا نشان آج بھی میری تھوڑی پر موجود ہے جو اب میرے شناختی کارڈ پر شناختی علامت کے طور پر لکھا جاچکا ہے۔