Dalla لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Dalla لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 22 اگست، 2015

لاہور کی ہیرا منڈی میں چند لمحات

بڑے دنوں سے سوچ رہا تھا کہ رنگ محل جانا ہے اور فلاں فلاں چیز خریدنی ہے ۔آج اتفاق سے میرے پاس دوپہر میں دو تین گھنٹے فارغ تھے ، سوچا چونکہ کل اتوار ہے آج ہی رنگ محل والے کام نبٹا دیتا ہوں ۔۔
رنگ محل سے خرایداری کرنے کے بعد ایویں ہی دل میں خیال آیا کہ ساتھ ہی ہیرا منڈی ہے کیوں نہ آج پرانی یادیں تازہ کی جائیں۔۔ارداہ بنایا پہلے ‘‘ پھجے ، فجے ‘‘ کے پائے کھاؤں گا بعد آزاں ‘‘ آس ‘‘ کا ایک عدد پان کھا کر دل پشوری کروں گا۔۔

پھجے کے پائے تیار نہ ہونے کی صورت میں ، میں بُجھے دل کے ساتھ ‘‘ آس ‘‘ پان والے کی جانب پیدل ہی چل پڑا ۔۔ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے آواز آئی باؤ جی ذرا گل تے سننا( باؤ جی ذرا بات تو سنیں ) میں ایک دم چونک پڑا کیونکہ مجھے آواز جانی پہچانی سی لگی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ‘‘ ماجھا دَ لاً ‘‘ ( دلال ) جھکی ہوئی کمر کے ساتھ سڑک کنارے چارپائی پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔ میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا ۔۔ اوئے ماجھیا تینوں کی ہویا ( ارے ماجھے آپ کو کیا ہوا ) ۔۔۔۔ کہنے لگا باؤ جی تسی وی تے چٹے کر لے جے ( آپ کے بھی تو بال سفید ہو گئے ہیں ) ۔۔۔۔

ماجھے سناؤ اور کیا ہو رہا ہے آج کل ، میں نے پوچھا ۔۔۔ کہنے لگا باؤ جی بس ہونا کیا ہے سب کچھ آپ کے سامنے ہی ہے سب برباد ہوا پڑا ہے ، روٹی پانی بڑی مشکل سے چل رہا ہے۔رات مجرے میں بھی کم ظرف لوگ آتے ہیں ۔۔ویسے بھی باؤ جی وہ بہاریں کہاں ۔۔۔ میں نے ماجھے سے پوچھا کہ بازار میں اتنی خاموشی کیوں ہے ۔ نہ کسی دوکان پر گانوں کی آواز نہ کوئی ہلا گلا اور نہ ہی کوئی گالی گلوچ ۔۔۔ کدھر چلے گئے یہاں کہ سارے دَلًے ( دلال ) اور بدمعاش ۔۔۔۔

کہنے لگا ۔۔۔ باؤ جی جانا کہاں ہے بائیاں سب شرفا کے محلوں میں چلی گئیں ، کچھ دلے ( دلال) سیاستدانوں کے ساتھ ان کے بندہ خاص بن گئے اور جو بدمعاش تھے وہ اب بائیوں کے ساتھ رہ کر شرفاء کہلاتے ہیں ۔۔چھڈو باؤ جی آپ سناؤ کیا ہو رہا ہے آج کل ۔۔۔۔ فیس بک پر تو بڑی شریفوں والی تصویر لگا رکھی ہے ۔۔۔۔۔۔

تمہیں کیسے پتا ہے ماجھے ۔۔۔ میں حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔ سب پتا ہے باؤ جی ۔۔۔ مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بہت سے نام نہاد شرفاء بڑی گندی اور غلیظ گالیاں نکالتے ہیں ۔۔۔۔۔ چھوڑو ماجھے یہ تو چلتا رہتا ہے اب کسی کی زبان کو کوئی روک تو نہیں سکتا۔۔۔۔

باؤ جی یہ جو گندی اور غلیظ گالیاں اور حرکتیں کرنے والے ہیں نا ۔۔ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں اور انہی کنجریوں کے نطفے ہیں جو شرفاء کے محلوں میں جا کر بس گئی ہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں یار ماجھے ایسا نہیں ہے اور ایسا نہیں کہتے ۔۔۔ بری بات ہے۔۔اچھا چلو چھوڑو پھر بات ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ‘‘ آس ‘‘ پان والے طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔۔۔پیچھے سے ماجھے دَلًے کی آواز پھر مجھے آئی باؤ جی مان لو یہ حقیقت ہے ‘‘ یہ انہی کنجریوں کے نطفے ہیں جو شرفاء کے محلوں میں جا کر بس گئی ہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔

شام ہو چلی ہے مگر اب بھی ماجھے دَلًے کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ‘‘ یہ انہی کنجریوں کے نطفے ہیں جو شرفاء کے محلوں میں جا کر بس گئی ہیں ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔