پیر، 27 جون، 2011

کالے نیلے پیلے اور زرد عاشق

ہمارا زمانہ تھا کہ لڑکیوں کے اسکول اور کالجوں کے باہر جن عاشقوں (عرف عام میں جنہیں آپ بھونڈ بھی کہہ سکتے ہیں) کا جھمگٹا ہوتا تھا وہ خوب بن سنور کر آتے تھے اور اس کے برعکس لڑکیاں بڑی سادہ سی،سلجھی ہوئیں بالکل گاؤ ماتا جیسی ہوتی تھیں۔

اگر کسی لڑکی سے ان میں سے کسی کا آنکھ مٹکا ہوتا تھا تو وہ بڑے سلیقے اور رازداری سے اس کی طرف اپنا محبت بھرا خط تھمادیتا تھا۔جس پر عموما کچھ اس قسم کے الفاظ درج ہوتے تھے کہ شام کو چھت پر یا کھڑکی پر ضرور آنا یا کہ میں تمہیں فون کروں گا۔اتنی سی بات کے لئے اس عاشق یا بھونڈ کو کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا اور فون کرنے کے لئے تو ہزاروں پاپڑ بیلنے پڑتے تھے کیونکہ فوں کبھی لڑکی کا ابا اٹھا لیتا تھا اور کبھی امی ۔۔۔ اور لڑکیاں بھی ایسی شرم حیا والی ہوتی تھیں فون کی گھنٹی سنتے ہی ان کی جان چلی جاتی تھی کہ کہیں ابا یا امی کو پتہ نہ چل جائے۔۔۔

کئی چالاک عاشق یا بھونڈوں کو اپنی بہن یا بھابی کی منتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا کہ باجی یا بھابھی جی صرف ایک بار اسے فون کر کے فون پر بلا دیں میں آپ کا احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔
غرض یہ کہ اس وقت کہ عاشق تہذیب یافتہ بھی تھے اور منہہ متھے بھی لگتے تھے اور لڑکیاں بھولی بھالی ،حقیقی خوبصورت اور گاؤ ماتا جسی ہوتی تھیں

آج بہت سالوں بعد مجھے لاہور میں وحدت کالونی کے خواتین کالج جانے کا اتفاق ہوا ۔میری بچی کا آج بی کام کا آخری پیپر تھا اور وہ پیپر صرف ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا ۔۔سوچا واپس گھر کیا جانا ہے دیڑھ گھنٹہ ہی تو ہے یہاں ہی انتظار کر لیتے ہیں۔۔۔ہو سکتا ہے ذہن میں پرانے جراثیم بھی ہوں جس کی وجہ سے مجھے وہاں ٹھرنے کی تحریک ملی ہو۔

دیکھتا ہوں آج بھی لڑکیوں کے کالج کے باہر ویسے ہی عاشقوں (بھونڈوں) کا جھمگٹا لگا ہوا ہے ۔کئی نیلے کالے سے لڑکے ، اپنے پیلے اور زرد چہرے لئے ہوئے کان سے موبائیل فون لگائے گیٹ سے کبھی ادھر جا رہے ہیں اور کبھی اُدھر ۔۔۔۔اور لڑکیاں جنہوں نے ابھی زمانہ دیکھنا ہے میک اپ کی تہہ میں اپنے چہرے کو سجائے ہوئے بڑے آرام سے گیٹ کے باہر آ کر اپنے اپنے عاشقوں کے ساتھ کھڑی ہو کر بڑے مزے سے خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتی ہیں ۔۔انہیں نہ اپنے باپ کی فکر اور عزت کا احساس ہے اور نہ ہی اپنے بھائی کی ۔۔جونہی ان میں سے کسی لڑکی کا باپ یا بھائی انہیں لینے آتا وہ بڑے مزے سے باتیں کرتے کرتے ان کے ساتھ روانہ ہو جاتیں۔

میں اب تک حیران ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا واقع میں ہمارا پاکستان ترقی کر گیا ہے ؟ کیا ترقی ایسی ہوتی ہے اور کیا اب ہمیں ہیرا منڈیوں پر پابندی نہیں لگادینی چاہئے کیونکہ ویسے بھی اب ان کا کوئی فائدہ نہیں رہ گیا



بدھ، 15 جون، 2011

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں ‌سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

مری محبوب پسِ پردہِ تشہیر وفا
سطوت کے نشانوں کے مقابر سے بہلنے والی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

ساحر لدھیانوی

ہفتہ، 11 جون، 2011

غلیظ عادتیں

لوگوں میں جہاں اچھی بری عادتیں دیکھنے کو ملتیں ہیں وہاں کچھ لوگوں میں ایسی غلیظ عادتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر کراہت محسوس ہوتی ہے ۔یہ لوگ جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں بہت سی ایسی غلیظ عادتوں کا شکار ہوتے ہیں جو کہ انتہائی کراہت آمیز ہیں ۔ان میں سے کچھ لوگ یہ حرکات عموما ‘‘ کسی بی قسم کی ٹینشن ‘‘ کے دوران کرتے ہیں ۔مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں یہ عادتیں بچپن سے ہی ہوتی ہیں ۔
ان عادتوں میں ہر وقت ناخن چباتے رہنا ، ہر وقت ناک میں انگلی ڈالے رکھنا ، ہر وقت تھوکتے رہنا یا کہ منہہ میں انگوٹھا یا انگلی کا چوستے رہنا شامل ہیں۔
منہہ میں انگوٹھے کے چوسنے کی عادت عموما بچپن میں ٩٩ پرسنٹ بچوں میں ہوتی ہے جو کہ وقت سے ساتھ ساتھ دو یا تین سال کی عمر میں ختم ہو جاتی ہے کسی کسی مرد یا عورت میں یہ عادت جوانی تک بھی قائم رہتی ہے مگر اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے
ناخن چبانے کی عادت عورت اور مرد میں کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے
ہر وقت اور ہر جگہ تھوکنے کی عادت زیادہ تر بچپن سے ہی شروع ہوتی ہے مگر دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ جوانی میں بھی یہ عادت مرد و عورت میں بکثرت پائی گئی ہیں
ہر وقت ناک میں انگلی ڈالے رکھنا اور ناک نکالتے رہنا ۔۔۔ یہ عادت انتہائی کراہت آمیز ہے اور یہ عادت بچپن اور جوانی میں بہت سے مرد و عورتوں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔

تھوڑے دن ہوئے مجھے ایک لیبارٹری جانے کا اتفاق ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کا ایک ایکسرے ٹیکنشین دنیا مافہیا سے بے خبر ناک میں انگلی ڈالے بڑے مزے سے ناک نکال نکال کر کبھی کہیں اچھال رہا تھا اور کبھی کہیں ۔اور دیدہ دلیری اس کی دیکھئے کہ کبھی کبھار وہ ناک کو اپنی ہی قمیض پر بھی مل دیتا تھا۔ابھی میں اس کی حرکتیں دیکھ ہی رہا تھا کہ وہاں ایک نوجوان مریضہ ڈینٹل ایکسرے ( دانت کا ایکسرے ) کروانے کے لئے آئی ۔ایکسرے ٹیکنیشن بڑے مزے سے اُٹھا اور بغیر ہاتھ دھوئے اس کا دانت کا ایکسرے کر ڈالا ۔یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ دانت کا ایکسرے کرنے کے لئے متاثرہ دانت کے ساتھ انگلیوں سے ایکسرے فلم کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے ۔۔سوچتا ہوں کہ اگر اس مریضہ کو اس ایکسرے ٹیکنیشن کی اس غلیظ حرکت کا پتہ ہوتا تو گالیاں تو ایک طرف رہ گئیں کم از کم اس کو الٹیاں ضرور شروع ہو جاتیں

ہفتہ، 4 جون، 2011

ذہنی کرپشن کو کوئی کیا کہے

میو ہسپتال لاہور شہر میں واقع ایک بڑا ہسپتال ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اس ہسپتال کا شمار ایشیا کے بڑے اور مشہور ہسپتالوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔اور ہمارے پاکستان کا یہ بھی اصول ہے کہ جو چیز ، جگہ جتنی بڑی ہوگی اس میں کرپشن کے مواقع بھی اتنے ہی ہوں گے ۔خالی خولی کرپشن ہو تو چلو گزارہ بھی کیا جاسکتا ہے مگر ذہنی کرپشن کو کوئی کیا کہے۔
ڈاکٹری پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے اس مقدس پیشے کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ڈاکٹروں کو آپ کیا کہیں گے ؟
یہ غالبا 1988 کا دور تھا ، مہینے کا کچھ یاد نہیں ، میں حسب معمول اپنی رات کی ڈیوٹی پر میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تھا۔ہمارے ساتھ ہمارا ایم او ( میڈیکل آفیسر) ڈاکٹر حفیظ الرحمن جو شکل سے انتہائی شریف آدمی دکھائی دیتا تھا موجود تھا۔ہماری ڈیوٹی رات 8 بجے سے صبح 8 بجے تک 12 گھنٹے پر محیط ہوتی تھی ۔اور رات 1 بجے کے بعد ایمرجنسی میں عموما رش کم ہو جایا کرتا تھا۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی روزانہ یہ روٹین ہوتی تھی کہ جب ایمرجنسی میں رش کم ہو جایا کرتا تھا تو کسی نہ کسی نوجوان خوبصورت لڑکی کو جو بیچاری اپنی بیماری کے باعث وہاں اپنے ماں باپ یا بھائی کے ساتھ آتی تھی ، اپنے قریب والے بیڈ پر لٹا کر اس کا علاج خود کیا کرتا تھا۔یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ہماری سب کی ڈیوٹی ایمرجنسی وارڈ کے باہر ( سی او ڈی ) میں ہوتی تھی جہاں پولیس کیس ، یعنی حادثات ، قتل وغیرہ کے کیس آیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ہاں جو میڈیکل آفیسر یعنی ( ایم او) ہوتا تھا وہ تمام مریضوں کو ایک نظر دیکھ کر اسے سرجیکل یا میڈیل میں ریفر کر دیا کرتا تھا۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی عموما روزانہ کی یہ عادت تھی کہ جب ایمرجنسی میں رش کم ہو جایا کرتا تھا تو کسی نہ کسی نوجوان خوبصورت لڑکی کو جو بیچاری اپنی بیماری کے باعث وہاں اپنے ماں باپ یا بھائی کے ساتھ آتی تھی ، اپنے قریب والے بیڈ پر لٹا کر اس کا علاج خود کیا کرتا تھا۔۔اور اسی علاج کے بہانے وہ لڑکی کے سینے پر اسٹتھیو اسکوپ ( عام آدمی اسے ٹوٹیاں سمجھ لیں جس سے سینے اور دل کا چیک اپ کیا جاتا ہے) لگا کر دیر تک اسے ہاتھوں سے ٹٹول کر مزے لیا کرتا تھا۔اس کی اس قبیح حرکت سے بہت سی لڑکیاں رونے لگتی تھیں ۔بیچارے ماں باپ یہی سمجھتے تھے کہ ان کی لڑکی تکلیف کی وجہ سے رو رہی ہے ۔ان کو کیا پتہ ہوتا تھا کہ یہ ڈاکٹر جو ان کی بچی کا علاج کر رہا ہے یہ ڈاکٹر کے روپ میں درندہ ہے۔ہم نے بارہا ڈاکٹر حفیظ الرحمن کو اس کی حرکتوں سے منع بھی کیا تھا اور بارہا شرم بھی دلائی تھی مگر اس کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی ۔
آج ہم سب نے ٹھان لیا تھا کہ آج اگر اس نے ایسی کوئی حرکت کی تو اس کا کوئی نہ کوئی سدباب کیا جائے گا۔اتفاق دیکھئے کہ ایک خوبصورت لڑکی پیٹ درد کی وجہ سے رات تقریبا ڈیڑھ بجے اپنی والدہ اور نوجوان بھائی کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئی میں اس وقت پرچی والے کے پاس ہی بیٹھا چائے پی رہا تھا میں نے پرچی والے کو اشارہ کیا کہ اس کی پرچی بنائو اور اسے ڈاکٹر حفیظ الرحمن کے پاس بھیج دو ۔ دوسری جانب میں نے اوپر لیباٹری ٹیکنیشن کو فون کر دیا کہ نیچے آ جائو اور باہری گیٹ کے پاس کھڑے ہو جائو۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے حسب معمول اس لڑکی کو اپنے ساتھ والے بیڈ پر لٹا کر قبیح حرکتیں شروع کر دیں ۔وہ لڑکی بھی کئی انتہائی شریف تھی اس نے اونچا اونچا رونا شروع کر دیا ۔ میں نے فورا لیبارٹری ٹیکنیشن کو اشارہ کیا ، اس نے اس کے نوجوان بھائی کو اشارے سے بلا کر اسے ڈاکٹر کے بارے میں بتایا اور غائب ہو گیا۔لڑکی کے بھائی کا یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر اس کی بہن کے ساتھ ایسی حرکتیں کر رہا ہے اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، مریضوں کا اسٹول اٹھا کر ڈاکٹر کو دے مارا اور لگا گالیاں نکالنے ۔۔۔لڑکے نے فوری طور پر اپنی بہن اور ماں کو وہاں سے لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔۔ہم نے سوچا کہ یارا یہ تو کچھ نہ ہوا مگر تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ساتھ ہی گوالمنڈی سے وہ بہت سے لڑکے لے کر دوبارہ آ دھمکا اور لگا ڈاکٹر کو مارنے۔۔جب وہ ڈاکٹر حفیظ کو کافی مار چکا تو اب ہمیں ڈاکٹر کو بچانے کی فکر ہوئی ۔۔بحرحال قصہ مختصر ڈاکٹر کو کسی نہ کسی طرح بچا کر وہاں سے بھگا دیا گیا اور صبح لڑکے کی درخواست پر سیکرٹری ہیلتھ نے اسے معطل کر دیا۔۔۔بعد میں سنا تھا کہ وہ بحال ہو گیا تھا۔۔مگر اس دن کے بعد سے آج تک میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی

ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے

نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے
پھوٹے ہیں چاندنی سے شگوفے جلے ہوئے
ہے اہتمام گریہ و ماتم چمن چمن
رکھے ہیں مقتلوں میں جنازے سجے ہوئے
ہر ایک سنگ میل ہے اب تگِ رہگذر
ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
اب میکدے میں بھی نہیں کچھ اہتمام کیف
ویران ہیں شعور تو دل ہیں بجھے ہوئے
ساغر یہ واردات سخن بھی عجیب ہے
نغمہ طراز شوق ہوں لب ہیں سلے ہوئے
ساغر صدیقی