ہفتہ، 22 ستمبر، 2007

لِلی ڈیزی اور نگینہ

اپنے چوہدری کے عشق کی داستانوں سے پہلے اگر میں نے آپ کو لِلی ، ڈیزی اور نگینہ کے حسن کے بارے میں کچھ نہ بتایا تو میرے خیال میں یہ ان کے حسن کے ساتھ زیادتی ہوگی کیونکہ اس زمانے میں اگر آپ لاہور کے پوش علاقوں میں چلے جاتے ( یاد رہے کہ اس وقت لاہور کے پوش علاقے صرف ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ ہی تھے) تو وہاں کے رہنے والے کاؤ بوائے قسم کے لڑکے ہمارے چھوٹے سے علاقے کو لِلی ڈیزی کے گھر کی وجہ سے جانا کرتے تھے۔دروغ برگردن راوی ویسے تو ہمارا علاقہ ایسی حسین پریوں سے بھرا پڑا تھا جن کے چرچے ہر سو تھے مگر چونکہ اس وقت بات اپنے چوہدری کی مناسبت سے ہورہی ہے اس لئے فی الوقت ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں جانتا۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جوں جوں ذہن کا زنگ اترتا چلا جائے گا عشق کے چرچے بھی عام ہوں گے اس لئے خاطر جمع رکھئے۔

لِلی گھر میں سب سے بڑی تھی ،خوبصورت گاؤ ماتا جیسی بڑی بڑی آنکھیں ،ملائی جیسی سفید رنگت ، ستواں سا ناک اور خوبصورت ہونٹوں پر ہر سمے مسکراہٹ لئے ہوئے جہاں سے ایک دفعہ گذر جاتی تھی لوگ دل تھام لیا کرتے تھے۔اپنے چویدری سے دو چار برس ہی بڑی ہوگی جبھی تو چوہدری کو باجی جیسی دکھائی دیتی تھی۔اپنے چوہدری کی اعلیٰ ظرفیوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ جہاں چوہدری کی بات نہ بن پاتی وہاں وہ لڑکی کو بہن بنا لیا کرتا تھا۔

ڈیزی ، لِلی سے چھوٹی تھی مگر حسن میں لِلی سے بھی ایک ہاتھ آگے ، لگتا یوں تھا جیسے کوئی رانی جیسی ہو ،عجیب سا حسن جو سب کو اپنی جانب کھنچے جا رہا ہو،جو کوئی ایک دفعہ دیکھ لیتا بس اسی کا ہو رہتا۔سوچتا ہوں شاید ہمارے لڑکپن سے جوانی میں داخل ہونے کا دور تھا شاید اس لئے اس وقت ہمیں وہ اتنی خوبصورت دکھائی دیتی تھی کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ یہ ایسا دور ہوتا ہے جب آپ کو گدھی بھی خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔مگر ایسا نہیں تھا ، سچ پوچھیں تو آج بھی ان کا چہرہ اگر آنکھوں کے سامنے آ جائے تو خال خال ہی ایسا حسن دیکھنے کو ملتا ہے۔

نگینہ، دونوں سے چھوٹی تھی ، بالکل اپنے نام جیسی ، شاید ماں باپ نے اس کا نام بھی اس کے حسن کی مناسبت سے ہی رکھا ہوگا۔دونوں بہنوں سے تھوڑا زیادہ حسین ، ناک میں سیاہ دھاگہ پہنے کوئی اپسرا دکھائی دیتی تھی۔

اپنے چوہدری کا دل ان تینوں میں سے صرف ڈیزی پر ہی آیا ، لِلی بڑی تھی اور نگینہ چھوٹی ، یہ چوہدری کا ہمارے سامنے دوسرا یکطرفہ عشق تھا، یکطرفہ اس لئے کہ قسم لے لیں جو ڈیزی نے ایک دفعہ بھی اپنے چوہدری کو نظر بھر بھی دیکھا ہو ،اپنا چوہدری “ انڈر ففتھ انڈر فور ، تھڑے توڑ “ کے مصادق اور کہاں گاڑیوں کی لائینیں جو ڈیزی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب ۔مگر اپنا چوہدری بھی بڑی ڈھیٹ شے تھا، بڑی پتنگیں پھیکیں اس کی چھت پہ مگر مجال ہے جو اس نے چوہدری کو جھلک بھی دکھائی ہو۔
دن بییتتے گئے ، چوہدری کا عشق جنون میں تبدیل ہوتا گیا ، گھنٹوں گیٹ کے باہر کھڑا رہتا کہ کب کالج سے آئے گی اور کب شکل دیکھوں گا اور جب دیکھ لیتا تو سارا دن لوگوں سے ہنس ہنس کے ملتا، مجھے یاد ہے کہ جس دن کالج کی چھٹی ہوتی یا وہ کالج نہ جاتی تو ایسے کاٹنے کو دوڑتا کہ بس نہ پوچھیں۔
ایک دن چوہدری سگریٹ پھونکتے ہوئے کہنے لگا کہ یار شیخو، میں کیسا لگتا ہوں ، میں ہنسنے لگا اور کہا ، کیوں چوہدری آج تجھے یہ خیال کیسے آگیا ، کہنے لگا یار یہ ڈیزی گھاس نہیں ڈالتی ، کس چیز کی کمی ہے مجھ میں، میں نے کہا چوہدری بات کمی کی نہیں ہوتی ، دل کی ہوتی ہے اگر تیرا دل کسی چوڑی پر آسکتا ہے تو اس کا دل بھی کسی پر آسکتا ہے ، پیار میں کسی پر کوئی زور تھوڑا ہی ہوتا ہے ۔یہ دل کے معاملے ہیں چوہدری ، تو کیا جانے تو تو بھوک مٹانے کے چکر میں ہے۔لگا قسمیں کھانے کہ میں سچا پیار کرتا ہوں ، میں نے کہا چھوڑ یار میں جانتا ہوں یہ سچا پیار اپنے بس کی باتیں نہیں ہیں ، دفع کر تو ڈیزی کو ، کہیں اور دیکھ ، چوہدری لمبی ہوں کر کے پھر سگریٹ پھونکنے لگا۔
اچھا چوہدری ایک بات تو بتا یہ جو تمہارے پیچھے رہتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے تیرا ، کون یہ دھوبی ، ارے نہیں یار ، کالی سی تو ہے۔ ابے چوہدی کالی ہے تو کیا ہوا نین نقش تو اچھے ہیں نا۔میرا خیال ہے بات بن جائے گی ۔ ارے نہیں یار شیخو مجھے تو بس ڈیزی پسند ہے۔

ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ ۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 19 ستمبر، 2007

چوہدری کی بیٹھک

اپنے چوہدریوں کا بھی کیا کہنا، عجیب مخلوق ہوتے ہیں یہ بھی، ان پہ لکھنے بیٹھو تو سیاہی بھی نیلی سے کالی دکھائی دے۔اپنا ناطہ بھی چوہدریوں سے خاصا رہا ہے ، صفِ نازک ہو یا کلغی والا دونوں کی فطرت ایک جیسی ہی دکھائی دے گی۔ایک زمانے میں اپنا بھی اک یار چوہدری بن بیٹھا۔ہم نے شروع میں بڑا سمجھایا کہ یارا آرائیں فیملی سے ہو تو ملک کہلوایا کرو مگر وہ بھی ایسا کایاں انسان تھا کہ مانو تو الؤ ہی بڑا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملکوں کی کسی خاص بات سے خائف ہی ہو تبھی تو چوہدری کہنے سے اپنا سینہ ایک آدھ انچ پھُلا لیا کرتا تھا۔
اندھے کو کیا سوجھیں ، دو آنکھیں کے مصادق اپنے چوہدری صاحب کی فیملی میں سے ایک بدیس جا بسا اور بدیسی ملک بھی اگر امریکہ جیسا ہو تو آنکھیں کھل ہی جاتی ہیں۔قسمت اچھی تھی کہ اپنے چوہدری صاحب کی فیملی بھی اسی کے طفیل بدیسی ہوگئی۔
محبت کے معاملے میں بھی کچھ لوگ چوہدریوں کی مثال دیتے نظر آتے ہیں اور کچھ تو مجنوں کو بھی چوہدری گروانتے ہیں اب اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو لیلیٰ ہی بہتر جانتی ہوگی۔ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں تو اپنے چوہدری کی مثال کو مدِ نطر جانتے یہی کہوں گا کہ مجنوں واقع میں چوہدری ہی ہوگا۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ مجنوں کو اپنے چوہدری سے تشبیہ دینا مجھے تو چوہدری کی توہین دکھائی دیتی ہے کیونکہ مجنوں تو صرف لیلیٰ کی خاطر اپنی جان گنوا بیٹھا اور اپنا چوہدری ، بس مت پوچھیں کتنی لیلائیں تھیں۔اب آپ کہیں یہ نہ سوچیں کہ ان میں کتنے لیلے تھے ( لیلے پیجابی میں دنبے کے بچوں کو کہا جاتا ہے ) وضاحت اس لئے ضروری جانی کہ کہیں لوگ اپنے چوہدری کو بھی جانور ہی نہ گرواننے لگیں۔
جی تو بات اپنے چوہدری کی لیلاؤں کی ہورہی تھی ۔بچپن میں تو چوہدری کو ہر لڑکی ہی لیلیٰ دکھائی دیتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ چوہدری نے پہلا عشق اپنی جمعدارنی ( چوڑی ) سے کیا تھا۔یہ یکطرفہ عشق تھا کیونکہ اپنے چوہدری کو اس چوڑی نے گھاس تک نہیں ڈالی مگر چوہدری بھی کہاں ٹلنے والا تھا روزانہ ہی اس کے آنے پر آہیں بھرتا جب تک وہ گھر کی صفائی کرتی رہتی اپنے چوہدری کے چہرے کی خوشی دیدنی ہوتی اور جونہی وہ جاتی اپنا چوہدری سگریٹ پہ سگریٹ پھونکنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ یار دیکھا کتنی سوہنی ہے ۔
دن گزرتے رہے اپنے چوہدری کے یکطرفہ عشق میں بھی شدت آتی گئی ، منصوبے بنتے بگڑتے رہے کہ یار آج اگر آئی تو اکیلی دیکھ کر دبوچ لوں گا اور اسی اثنا میں اس چوڑی نے چوہدری کے گھر آنا بند کردیا۔اب اپنے چوہدری کی حالت دیدنی تھی کہ کبھی اس گھر جا تو کبھی اس گھر، چوہدری کو یہی دھڑکا لگ گیا کہ کہیں اسے میری کوئی بات بری تو نہیں لگ گئی۔ہم نے چوہدری کو بڑا سمجھایا کہ یارا تم نے کیا ہی کچھ نہیں تو بات کیا بری لگتی۔مگر چوہدری تھا کہ بس آہ بھرتا اور نیا سگریٹ سلگا کر سوچ میں ڈوب جاتا۔
کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ اس جمعدارنی نے اپنے ہی برادری کے لڑکے سے عشق کی شادی کر لی اور کچھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی برادری کے لڑکے کے عشق میں جل مری۔
کچھ عرصہ تک تو اپنے چوہدری کی آہ و آزاری جاری رہی آخر ہم سے نہ رہا گیا،ہم کہہ ہی بیٹھے کہ یار چویدری دفعہ کر ، لعنت بھیج اور تھوڑی ہیں زمانے میں اور ذرا ان کو تو دیکھ ، للی اور ڈیزی کو کتنی خوبصورت ہیں اتنا سنتے ہی چوہدری کو جیسے کرنٹ کا جھٹکا لگا ہو ، کہنے لگا ، بس بس ڈیزی کی بات نہ کرو ، وہ صرف میری ہے۔ہم ہکا بکا رہ گئے ، ہم نے کہا یارا اس کی تو اُڑان ہی بڑی اونچی ہے اور پھر اس کے پیچھے تو بڑی بڑی گاڑیوں والے لوگ آتے ہیں وہ ان کو گھاس تک نہیں ڈالتیں۔چوہدری کہنے لگا وہ میرا بچپن کا پیار ہے اور تم کیا سمجھتے ہو میں کسی سے کم ہوں کیا، میں شادی کروں گا تو بس ڈیزی سے ہی کروں گا،
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔