منگل، 3 جولائی، 2018
کراچی کے عوام انسان ہیں یا بے زبان جانور
ہفتہ، 30 جون، 2018
انسان اور انسانیت ابھی زندہ ہے
تحریر ۔۔ محمد دین
اندرون سندھ, محراب پور کے قریب گوٹھ💞 "نوّں پوترا"💖 کے مکینوں کا یادگار کردار
آج 27 up شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے محراب پور سے چند کلو میٹر آگے ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی.🌹الحمدوللّہ🌷 ٹرین جبکہ تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیے ہی ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے.ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا.
سخت گرمی میں دو بڑے سٹیشنوں کے درمیان ٹرین ایسی جگہ کھڑی تھی کہ جہاں کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا. مسافر سخت پریشان. بچوں کے رونے دھونے کی آوزیں. خواتین گرمی میں بے حال اور اس پر مزید یہ کہ بقول ٹرین سٹاف, امدادی کاروائیوں میں چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں.
اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کریں.
اچانک ایک ایسا منظر دیکھا کہ جسے الفاظ میں بیان کرنے کا میں اپنے اندر حوصلہ نہیں پاتا. وہ منظر دیکھ کر بے اختیار , زار و قطار میری آنکھوں سے اشک رواں تھے. درختوں کے بیچ کھیتوں کے درمیان نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے.
عجیب منظر تھا.
کسی نے پانی کا کولر اٹھایا ہوا ہے اور کسی نے گھڑا. کوئ جگ اٹھاے ہوے ہے اور کوئ دودھ کا برتن. اپنی پگڑی میں کوئ بزرگ برف کا تحفہ لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں. ہر ایک کی خواہش ہے کہ مسافر اسے خدمت کا موقع دیں.
چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی بھری ہوئ دیگ ایک رکشہ پر لائ گئ. غریب لوگوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے تو چاول کھلانے کے لیے مٹی کی بنی ہوئ پلیٹیں اٹھاے ہوے تھے. آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں. ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لاے تھے.
گاؤں کے نوجوانوں کا کردار مثالی تھا. گرمی کی شدت سے بے نیاز تمتاتے چہروں کے ساتھ ایک جنونی انداز میں امدادی کام میں شریک تھے.
نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ وہ جس کی مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے, کس ذات برادری, کس مزہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں؟
بس ایک ہی رشتہ تھا, انسانیت کا, پاکستانیت کا اور احسان کا.
اسی دوران اطلاع ملنے پر پولیس کے مقامی افسر اللّہ رکھیو رند بھی اپنی پولیس پارٹی کے ہمراہ پہنچ گئے اور اپنے فرائض سنبھال لیے.
میں نے گاؤں کے ان نیک سیرت امدادی کارکنوں سے انفرادی طور پر مل کر ان کا شکریہ ادا کیا اور دل کی گہرائیوں سے انہیں دعائیں دیں. وہ انسانی ہمدردی کے جزبہ سے سرشار سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ انہیں خدمت کا موقع ملا.
اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا. ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رخصت کیا جاتا ہے. ہماری آنکھوں میں بھی تشکر کے آنسو تھے.
چند گھنٹوں کی یہ رفاقت بہت سے سبق دے گئ کہ ہمارے پاکستان کے عوام کتنے اچھے ہیں, ہمدرد, دکھ درد بانٹنے والے, مصیبت میں کام آنے والے, اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناس.
اس جزبے اور ایثار کو میں کوئ نام دینے اور الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں. مٹی کا گھڑا اٹھاے وہ سادہ سا دیہاتی شخص اور مٹی کی پلیٹوں میں کھلایا جانے والا پلاؤ انمول تھا.
اللّہ تعالیٰ ان سب کو جزائےعظیم دے, ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائ عطا فرماے. آمین
اچھی بات کو پھیلانا بھی نیکی ہے. اس تحریر کو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ معاشرہ میں بھلائ اور نیکی عام ہو. میں یہ تحریر جائے حادثہ پر ہی لکھ کر محراب پور سٹیشن سے پوسٹ کر رہا ہوں
Muhammad Deen
واقعہ کی تصاویر ملاحظہ فرمائیں.
اتوار، 9 مارچ، 2014
تھر کے لنگر خانے
سر جی جواب نہیں تہاڈا ۔۔ سندھ دیاں شاناں آپ کے ہی دم سے ہیں اور پھر بچوں نے تو کمال ہی کر دیا ۔۔ چھوٹی بی بی نے تو سندھ فیسٹیول کے ہر رنگ میں شامل ہو کر اسے چار چاند ہی لگا دئے تھے۔اور تو اور سر جی اختتامی تقریر میں تو اپنے چھوٹے سردار نے طالبان کو ایسا لتاڑا کہ مزا آگیا ۔۔
سر جی یہ جو آپ کے پیچھے دائیں ہاتھ اتنا بڑا صحرا ہے ۔۔۔۔
کونسا ملک صاحب ۔۔۔ کہیں تم تھر کے علاقے کی بات تو نہیں کر رہے
جی سر جی یہی تھر کا صحرا
سر جی ۔۔۔ مم ۔۔ میرا مطلب ہے ہم اسے آباد کر دیتے ہیں ۔۔۔۔دیکھیں نہ سر جی کتنی غربت ہے ۔۔۔ نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی پینے کو ۔۔۔۔
ہممم ۔۔۔۔ ملک صاحب پہلے لوگوں کا دھیان ادھر ڈلواؤ ۔۔۔لوگوں کو بتاؤ کہ تھر میں کتنی غربت ہے ۔۔۔ وہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں
میڈیا کو استمال کرو ۔۔۔ سوشل میڈیا پر کانٹے ڈالو ۔۔۔۔۔۔ باقی بھیڑ چال ہے ملک صاحب بھیڑ چال ۔۔۔ سب ادھر چڑھ دوڑیں گے ۔۔۔۔ جب چڑھ دوڑین تو امداد کا اعلان کر دینا ۔۔۔ وہاں لنگر خانے کھلوا دو ۔۔۔ باقی ہماری طرف سے جو ہوا کریں گے ۔
واہ سر جی واہ ۔۔۔ فکر ہی نہ کریں سر جی ۔۔۔ لنگر خانے کھول دیتے ہیں وہاں ۔۔۔
سر جی وہاں آپ کی شکار گاہ کے لئے میں نے دس مربوں کا علیحدہ نقشہ بنوا لیا ہے ۔۔۔ یہ اضافی ہوگا سر جی
ملک صاحب باتیں چھوڑو ۔۔۔ بس کام شروع کرو
پیر، 9 ستمبر، 2013
پاکستان کے مستقبل کا لیڈر
ہم نے بھی سوچا کہ آج پھر ایک بار اپنی ناقص عقل کا سہارا اور اپنے شتونگڑوں اور موکلوں کی رائے کو سامنے رکھ کر ایک پشین گوئی عوام کے سامنے پھینک دینی چاہئے تاکہ وہ وقت آنے پر اپنے دانتوں میں اپنی یا کسی اور کی انگلیاں نہ چبائیں
اپنی تحریر کے نیچے ہم جو تصویر پیش کر رہے ہیں وہ جناب عزت ماٰب شاہ رخ جتوئی صاحب کی ہے ۔یہ محترم پاکستان کے مستقبل میں اہم وزرا میں شمار ہوں گے ۔