محلاتی شب خون یا طبقاتی جدوجہد:واشنگٹن میں سیاسی بحران اور محنت کش طبقے کی حکمت عملی
13 June 2017
-1پانچ ماہ کے انڈر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ واشنگٹن میں شدید سیاسی جنگ و جدل کے نازک موڑ میں داخل ہو گئی ہے ایف بی آئی کے سابقہ ڈائریکٹر جیمز کومی کی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے گزشتہ ہفتے کی گواہی جیسے ٹرمپ کے مخالفین نے میڈیا اور سیاسی اسٹبلشمنٹ کے اندر امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت کے بے جا الزامات کو شدید انداز میں بڑھایا اور حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئے ٹرمپ اور اسکے انتظامیہ کے دوسرے آفیسروں پر روس کے ساتھ خفیہ ساز باز کے الزامات عائد کیے۔
-2ٹرمپ کے خلاف الزامات مصنوعی اور جھوٹ پر مبنی ہیں جیسا کہ ریپبلکن کی جانب سے سابقہ صدر بل کلنٹن پر وائٹ واٹر رئیل اسٹیٹ انوسٹمینٹ اور وائٹ ہاؤس میں ڈاکٹر کی مددگار مونیکا لیونیسکی کے ساتھ جنسی تعلقات کے حوالے سے کیچڑ اچھا لاگیا تھا ، اس طرح2012میں ہیلری کلنٹن کے بین غازی پر حملے کی تحقیقات اور اس کے ذاتی ای میل سرور کے استعمال،بارک اوبامہ امریکہ کا شہری نہیں ہے، جیسے الزامات جس سے ٹرمپ نے خود بڑھ چڑھ کر پیش کیا ۔ ان تمام دعوؤں میں جان بوجھ کر انتہائی بدبودار الزمات کا سہارا لیتے ہوئے حکمران اشرافیہ کی سیاسی تقسیم کو چھپایاگیا۔
-3واشنگٹن میں جو حالیہ سیاسی جنگ وجدل ابھری ہے اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سماجی و معاشی اور جوپولٹیکل بحران نے امریکہ کی قومی اور عالمی بالادستی کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے اور وہ اس پر قابو نہیں پاسکتا ۔سویت یونین کے انہدام کے25سالوں کے بعد امریکی سامراج کی عالمی سطح پر بالادستی کی وہ تمام تر فوجی کارروائیوں کے ذریعے کوششیں یکے بعدد یگر اقدامات سخت ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں تقریباً ایک دہائی پہلے2008کے معاشی کریش کے بعدجس میں وال سٹریٹ کی غفلت نے ایک بڑا کردار ادا کیا۔ امریکہ کا مالیاتی نظام انتہائی شدید طور پر عدم استحکام سے دوچار ہے اور نہ ختم ہونیوالے قرصوں کے بوجھ تلے قرضوں میں پھنستا جارہا ہے ۔امریکہ کے بیمار معاشی نظام نے اولیگارشی سماجی نظام کو پیدا کیا ہے جسکے بنیادی خدوخال پیراسائٹ ازم (طفیلی وجود کا ہونا) اور بڑے پیمانے پر سماجی نابرابری ہے ۔
-4ٹرمپ کا الیکشن میں آنا کوئی اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ امریکہ میں امراشاہی کے اقتدار کی خصوصیات کی مثالی صورت ہے۔ اسکی انتظامیہ کرب پتی اور سابقہ جنرلوں پر مشتمل ہے جو کہ تیزی کے ساتھ دو نقطوں پر مشتمل پروگرام پر عمل پیرا ہیں جس میں سماجی ردانقلاب اور بین القوامی سطح پر فوجی اقدامات شامل ہیں لیکن امریکہ کے حکمران طبقے میں اندرونی طور پر اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ داری کے مسائل پر اختلافات کی وجہ سے گہری تقسیم پائی جاتی ہے ۔اس تقسیم کو مزید شہ اور اس میں شدت ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اور بھی تیز ہو گئی ہے ۔
-5ٹرمپ کی انتظامیہ نے محنت کش طبقہ کا سامنا بدترین دشمن سے ہے جویکسوئی کے ساتھ جمہوری حقوق کے خاتمے کے ساتھ مزید معیار زندگی کو گرنے کیلئے حملے کررہی ہے۔یہ حکومت شاونسٹ ’’امریکہ فسٹ‘‘ کے عالمی ایجنڈے کو عملی جامعہ پہنارہی ہے۔محنت کش طبقے کو اس حکومت کی مخالفت اور اسے تبدیل کرنا چاہئے محنت کش طبقے کو ٹرمپ اورڈ یموکریٹس کی لڑائی کے درمیان صرف تما شائی بن کر کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے جھنڈے تلے اور اپنے پروگرام کے حوالے سے ٹرمپ کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنا ہو گا اس کیلئے ضروری ہے کہ جو سیاسی بحران بتدریج ظاہرہورہا ہے اسکے طبقاتی حرکیات کا اسے واضح ادارک ہو۔
6۔ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف اس وقت تین اقسام کی مخالفین موجود ہیں جنکے طبقاتی طور پر مختلف سماجی مفادات ہیں۔
حکمران طبقے کی ٹرمپ کیخلاف اپوزیشن
-7پہلے طور پر سرمایہ دار طبقے کے طاقتور دھڑوں کی مزاحمت ہے۔ٹرمپ کے مخالف جس میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں شامل ہیں جو کہ مالیاتی اور کارپوریٹ کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں۔یہ ٹرمپ کیخلاف مہم میں جو طریقہ کار استعمال کررہے ہیں بنیادی طور پر غیر جمہوری ہے ان کی پشت پناہی فوجی انٹیلی جنس اسٹبلشمنٹ کررہی ہے اور ان سے کٹھ جوڑ اور ساز باز کرکے مزاحمت کررہے ہیں اور یہ طریقہ کار محلاتی شب خون کا ہے۔
-8ٹرمپ کے ساتھ ان کے اختلافات کی بنیادی نوعیت خارجہ پالیسی پر ہے ۔انکی حقیقی تشویش امریکہ کی جمہوریت کیخلاف روس کی سازش یا پھر بغاوت پر نہیں ہے اگر ایسا ہے تو امریکی جمہوریت کو زیادہ نقصان خود حکمران طبقے نے پہنچایا ہے لیکن حقیقی وجہ روس کے شام میں وہ اقدامات ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کی ان کوششوں کو دھچکا لگا ہے جو بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔وہ اس عزم اور ارادے پر قائم ہیں جو اوبامہ انتظامیہ کے دور میں روس کے خلاف پالیسی کو روارکھاگیاتھا جسے ہیلری کلنٹن نے اپنی الیکشن کمپین میں وسعت دی اس نقطہ نظر سے وہ ٹرمپ کو روک رہے ہیں کہ وہ روس کی مخالف پالیسی کو کمزور نہ کرئے۔
-9روس کیخلاف شدید جنونی مہم کوئی حادثہ نہیں ہے،ٹرمپ نے اپنی خارجہ پالیسی میں فوقیت جیسے چین سے مقابلہ بازی کے نام سے جانا جاتا ہے کو دی ہے۔ اسکی بیان کردہ روس کے ساتھ’’ معاہدہ‘‘ کی پیروی یا پالیسی فوجی انٹیلی جنس اور خارجہ پالیسی کی اسٹبلشمنٹ کے ان غالب دھڑوں کے سٹیٹجک پلان کے متضاد ہے۔ ان کے نقطہ نظر میں روس کی صلاحیت کو تباہ کرنا اورامریکن فوجی آپریشن کو ضروری اور بنیادی سمجھا جاتا ہے تاکہ وہ یوریشیاء پر کنٹرول کرسکے اس کے بغیر چین کے ساتھ لمبے عرصے کی لڑائی میں امریکی کامیابی کو ناممکن سمجھا جاتا ہے ۔
-10اگر ٹرمپ کو اس ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘سے اس کے مخالفین ہٹادیتے ہیں تو یہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوریت کیلئے فتح نہیں ہوگی اور نہ ہی محنت کشوں کی معیار زندگی میں بہتری واقع ہو گئی۔ حکمران طبقے نے صدر اوبامہ کے انتظامیہ کے دو ر میں امریکی تاریخ میں بہت بڑی دولت کی نیچے سے اوپر منتقلی کی تھی اور باہر جنگ کو وسعت دی تھی اور فوجی طاقت اور انٹیلی جنس اداروں کو بڑھاتے ہوئے اسے مزید طاقت دی تھی۔ ہیلری کلنٹن جو کہ وال سٹریٹ کی منظور نظر امیدوار تھیں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس پلان کو آگے بڑھائے گی اور ساتھ ہی اس نے شام میں جنگ کو اور روس کے ساتھ مقابلہ بازی کو تیز کیا ۔ڈیموکریٹس ہیلتھ کیر اور مزدور تارکین وطن پر حملوں ، انتظامیہ میں انتہائی قوم پرست قوتوں کے ابھرنے اور شمالی کوریا ،ایران اور چین کیخلاف جنگ کے پلان پر کوئی سماعت کا مطالبہ نہیں تک کررہے ہیں ۔
-11اگر ڈیموکریٹس کسی سیاسی شب خون میں ٹرمپ کو نکلنے میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسکی جگہ نائب صدر میک پینس لیگا جو کہ ٹرمپ سے زیادہ تربیت یافتہ ہے لیکن اس سے کم رجعتی نہیں ہے ۔
اپرمڈل کلاس کی اپوزیشن
-12ٹرمپ کے مخالف کیمپ میں دوسرا حصہ دولت مند اپرمڈل کلاس کے حلقوں کا ہے انکی ریپبلکن پارٹی کیخلاف مزاحمت اس بات پر ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دولت مند ترین 10فی صد آبادی کے درمیان اطمینان بخش دولت کی تقسیم کی جائے ۔اس حلقے میں مختلف سیاسی رحجانات کے نمائندے موجود ہیں جو کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکل میں کام کرتے ہیں ان میں مختلف جعلی بائیں بازو کی تنظیموں(ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ ،انٹرنیشنلسٹ سوشلسٹ آرگنائزیشن،سوشلسٹ الٹرنیٹوی، اور گرین) شامل ہیں جو نسلی،جنسی شنا خت اور جو جنس کے لحاظ سے منقسم سیاست کو طبقاتی تقسیم پر فوقیت دیتے ہیں ۔
-13اس مڈل کلاس کی سیاست کی مخصوص خصوصیت یہ ہے کہ وہ حکمران طبقے سے آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کی تلاش میں ا ور سرمایہ دارانہ نظام میں معمولی اصلاحات کے خواہاں ہیں ۔اسی سیاسی ماحول میں جبکہ بائیں بازو کے لبرل سماجی نابرابری کے ایشو کو اجاگر کرتے ہیں اور نیم اصلاحات کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکی سامراجی مقصد سے غیر اصولی طور پر اپیل کرتے ہیں۔انکا انکے ساتھ بندھن انکی مراعات یافتہ معاشی پوزیشن ہے جنکی بنیاد اسٹاک پرائسس اور کارپوریٹ منافع ہیں ریکارڈ اضافہ ہے۔ انکا بنیادی سیاسی کام یہ ہے کہ وہ محنت کش طبقے پر حکمران طبقے کا غالبہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں 2016کے الیکشن کے دوران انہوں نے ورمونٹ سینٹر برنی سینڈر کی کمپین کی حمایت کی جس نے ہیلری کلنٹن جو کہ وال سٹریٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی امیدوار تھیں کیخلاف مزاحمت کو ہلیری کلنٹن کے حق میں ڈالا،سینڈر اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے سینٹ کے سیاسی دھڑے کا اہم ممبر ہے ۔
محنت کش طبقے کی اپوزیشن
-14محنت کش طبقے اور حکمران طبقے کے درمیان بحیثیت مجموعی طور پر بہت سی قسموں کی طور پر مختلف لڑائیاں ابھررہی ہیں عوام کی اکثریت جنہیں سماجی بدحالی کے حالات کا سامنا ہے جو کہ مکمل طور پر سیاسی زندگی کے میدان سے نکل چکے ہیں۔
-15امریکہ میں سماجی بحران کی حقیقت کی عکاسی کی ٹھوس معروضی وجوہات ہیں جو محنت کشوں کی مختلف اقسام کی اپوزیشن اور مزاحمت کی صورت میں سامنے آرہی ہے ہیں۔ اس کے باوجود جب اوبامہ انتظامیہ نے اپنی مدت کے اختتام میں کہا کہ امریکہ میں زندگی اس سے اچھی نہیں تھی حقیقی بے روزگاری کی شرح 8.6فیصد ہے ۔اجراتیں جموداراور ٹھہرو کا شکار ہیں مزدوروں کو کام میں ظالمانہ صورت حال اور شدید استحصال کا سامنا ہے۔ کارپوریٹ منافع میں اورانکی آمدنی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ مزدوروں کی آمدنی میں ریکارڈ کمی واقعہ ہوئی ہے ۔
-16ہیلتھ کیر کا بحران شدید ہوتے ہوئے خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے اوبامہ کیر کو کارپوریشن کی جانب سے اسکے اخراجات کو انکے ملازمین کی جانب موڑ دیا ہے۔قومی صحت کے ادارے کی بربادی اوردوائیوں کی بڑھتی اور چڑھتی ہوئی قیمتوں کے پھیلانے کی وجہ سے شرح اموات اورعمر میں کمی میں نمایاں طور پر آئی ہے عمردراز مزدواپنے کام سے زیادہ کام کرتے ہیں کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کو برداشت نہیں کرسکتے جبکہ نوجوان مزدور قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔
-17امریکہ کی ایک چھوٹی سے تہہ نے دولت کو اجارداری کی شکل میں مبتمع کیا ہے امریکی عوام کی اکثریت کے سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے گلوبل عدم نابرابری کے کتاب کے مصنف اور ماہر معاشت دان برینکو میلانویک کی حالیہ شائع ہونیوالی کتاب میں بیان کیاگیا ہے کہ عوام کی اکثریت سادہ طور پر یہ نہیں سمجھ سکتی کہ بلین ڈالرز کیا ہیں اس دولت کی اس نے اس طرح وضاحت کی ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس ایک ملین ڈالر ہوں اور اگر وہ روزانہ ایک ہزار ڈالر خرچ کریں تو اپنے اس رقم کو تین سال کے کم مدت کے اندر ختم کردیگا اور اگر ایک ارب پتی اس رقم کو اس مقدر میں خرچ کرے تو اسے2700سال کا عرصہ لگے گا ۔
-18دولت مند ایک فیصد خاندانوں کے پاس اتنی دولت ہے جو نیچے کے 90فیصد افراد کے پاس ہے جبکہ 20فیصد افراد کے پاس جو دولت ہے وہ نیچے کے50فیصد افراد کے برابر ہے۔امریکہ میں40فیصد خاندانوں کے پاس زیرو یا نفی(دولت) ہے یعنی انکے اوپر قرض انکے اساسوں سے زیادہ ہیں ،وہ افراد جو انتہائی دولت مندوں میں شمار ہوتے ہیں یعنی جو کہ آبادی کے0.1اور0.01فی صد ہیں وہ اس سیاسی ماحول میں اپنی اس بڑی دولت سے وہ الیکشن کو خریدنے سیاست دانوں کو رشوت دینے کا کام کرتے ہیں یا پھر سیاسی محرکات کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ٹرمپ انتظامیہ بذات خود مالیاتی سرمائے کی اشرافیہ کا امریکہ کی سوسائٹی کا عکاس ہے جو کہ50برسوں پر محیط سماجی ردانقلاب کا نتیجہ ہے جیسے ڈیموکریٹس اور ر یپبلکن دونوں نے جاری رکھا۔
محنت کش طبقے کی سیاسی حکمت عملی۔
-19محنت کش طبقے کے بڑے حصوں میں سماجی طور پر نمایاں غصہ پایا جاتا ہے اور ان کیلئے یہ حالات ناقابل برداشت ہوچکے ہیں ۔امریکہ میں زندگی کے بارے میں پہلے یہ محاورے بیان کیے جاتے تھے ۔ کہ یہ سر زمین بے پناہ مواقعوں کی ہے’’امریکن کا خواب‘‘ وغیر ہ وغیرہ وہ اب حقیقی تعلق کے اعتبار سے بے معنی ہو چکے ہیں۔ محنت کش طبقے کے بڑے حصوں میں یہ بات صاف طور پر عیاں ہوچکی ہے کہ موجودہ سوسائٹی صرف ان دولت مند افراد جو پہلے ہی سے دولت مند ہیں کے مفادات کو صرف کررہی ہے۔ انکے نزدیک زندگی کی بنیادی ضروریات جیسا کہ اعلیٰ معیاری تعلیم ،محفوظ ماحولیات ،اچھا گھر،اچھی نوکری حاصل کرنا ،فارغ وقت اور میڈیکل کیر انکاتعین پیدائش پر ہوجاتا ہے یعنی کہ وہ افراد جو امیراور بڑے سٹیٹس کے حامل گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
-20امریکہ میں محنت کشوں کی گرتی اور بگڑتی ہوئی زندگی کی صورتحال اور حکمران طبقے کی جانب سے دنیا کی سطح پر ناختم ہونیوالی جنگ کا مسلط کرنے کے اقدامات سے عوام الناس کے بڑے حضوں میں سماجی شعور میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس ملک میں سیاسی لیڈرز اور میڈیا جو سرمایہ داری کے شان و شوکت کے گیت گارہے ہیں اس کے برعکس الیکشن نے اس چیز کا انکشاف کیا کہ سوشلزم کے حوالے سے لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں میں تیزی سے حمایت بڑھ رہی ہے ۔
-21امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر بحران کی معروضی صورتحال ایک دوسرے سے ملاپ سے سماجی شعور میں ریڈیکلیزیشن بڑھ رہی ہے جسکا اظہار لازمی طبقاتی جدوجہد کے پھٹنے پر ہوگا۔ دہائیوں سے طبقاتی جدوجہد کو ٹریڈ یونین کی بیوروکریسی،ڈیموکریٹک پارٹی اور دوسری خوشحال نسلی پارٹیوں نے دبارکر رکھاتھا اس دور کا خاتمہ قریب آچکا ہے امریکہ میں حکمران اشرافیہ کی جانب سے سماجی انقلاب کو امریکی محنت کش طبقے کی جانب سے مقابلے کا سامنا ہے مختلف اقسام کے سماجی احتجاجات کام کے اداروں(جگہوں) تمام شہروں اور کمیونٹیز میں محنت کش طبقے کی اپنی شناخت حاصل کررہی ہیں جس کا کردار سرمایہ دارانہ مخالف اور سوشلسٹ ہوتاجارہا ہے۔ انفرادی اداروں اور کمیونٹیزمیں جدوجہد روز بہ روز محنت کشوں کی مشترکہ اور بڑی بڑی جدوجہد میں تبدیلی ہو تی جارہی ہیں۔
-22اس کے علاوہ امریکہ میں طبقاتی جدوجہد اور عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کے ابھرنے سے اور اس کے ملاپ سے شاونسٹ نیشنلزم کے اثرات کمزور ہونگے اور جس سے بین الاقوامی طبقاتی یکجہتی کو گہرے پیمانے میں امریکی مزدوروں میں فروغ ملے گا ۔ محنت کش طبقہ اپنے ملک میں سماجی مظالم کیخلاف اور امریکہ کی سرحدوں سے باہر جنگ کیخلاف کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے منسلک جدوجہد کا حصہ سمجھے گا ۔
-23امریکہ میں محنت کشوں کی ایک بڑی جدوجہد ایجنڈے پر ہے ۔ احتجاجی ریلیاں و مظاہرے اور ہڑتالیں عمومی ہڑتالوں کے کردار کی شکل اختیار کرتے جائینگے۔ اس تجربے کو سمیٹا جائے تو اس سے یہ نتائج نکلتا ہے کہ ٹرمپ کیخلاف جدوجہد میں محنت کش طبقے جسکی وہ رہنمائی کرتے ہیں کو فوری اور ضروری سیاسی محنت کشوں کی تحریک کا سامنا ہے جو ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیوں سے آزاد اور خود مختار ہواور سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی ریاست کیخلاف ہو ،سماجی معروضی صورتحال میں رحجان کی بڑھوتی کو محنت کش طبقے کی جدوجہد کیلئے شعوری طو رپر مرتب کرنا چاہئے ۔سرمایہ داری کے تحت زندگی کے وہ تمام تر سماجی حالات جو قابل مزاحمت ہیں انہیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے ٹرمپ اور دونوں بڑی بزنس پارٹیوں کیخلاف سیاسی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے جس کی بنیاد سوشلسٹ پروگرام پر ہو اور جسے ہر فیکٹری ، کام کی جگہ محنت کشوں کے کمیونٹی میں سکولز اور کالجوں اور ملک کے تمام حصوں میں اولین ترجیحی کے طور پر بحث کیلئے اٹھنا چاہئے ۔
-24محنت کش طبقے کی بڑی طبقاتی جدوجہد کیلئے تیاریاں درکار ہیں اس میں پاپولر کام کے جگہوں کے نیٹ ورک اور قریبی موجودہ کمیٹیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنا ہے اور انہیں کارپوریٹ حامی اور محنت کشوں کی مخالف ٹریڈ یونیوں سے خود مختار اور آزاد رہتے ہوئے انکے خلاف ہونا ہوگا۔محنت کشوں میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف بڑی مزاحمت کو بڑے صاف انداز میں سرمایہ دار مخالف ،سامراج دشمن اور سوشلسٹ مطالبات کے تقاضوں پر پورا اترنا ہوگا۔
-25سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس بیان میں جدوجہد کیلئے جو حکمت عملی پیش کی گئی ہے اس پر بڑے پیمانے پر محنت کشوں کے تمام سیکشن میں نوجوانوں اور طلباء اور وہ تمام جو سرمایہ داری کیخلاف میں اور یہ مانتے ہیں کہ سوشلزم کی ضرورت ہے میں بحث کیلئے پیش اس بیان کو ہمکاروں اور دوستوں میں تقسیم کریں۔اپنے تصورات اور رائے کو ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس ارسال کریں ہم ان تمامعنی خیز کنٹری بیوشنز کو خوش آمدید کہیں گے جو محنت کش کے مفادات کو آگے بڑھاتا ہو۔
-26ہم ان تمام افراد کو جو اس جدوجہد کا حصہ بننا چاہتے ہیں وہ سوشلسٹ ایکولیٹی پارٹی میں شمولیت کریں۔ہم نوجوانوں اور طلباء سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ انٹرنیشنل یوتھ اور سٹوڈنٹس فار سوشلسٹ ایکولیٹی (آئی یو ایس ایس ای) بنائیں۔سوشلسٹ ایکولیٹی پارٹی اور آئی یو ایس ایس ای کا فریضہ یہ ہے کہ جو تحریک معروضی طور پر ابھررہی ہے ۔اس میں شامل ہوتے ہوئے بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو انکے مقاصد کی آگاہی اور شعور دے سکیں اور انہیں تحریک کے کردار کی فطرت اور جس طرف وہ بڑھ رہی ہے پر واضح کریں ۔ایس ای پی فیکٹری کمیٹیوں اور نوجوانوں اور طالب علموں میں اپوزیشن کے بنانے اور انکی مدد اور پیروی کریگی یہ محنت کشوں کی جدوجہد کو یکجا کرتے ہوئے سوشلسٹ بین القوامیت اور سامراج دشمن سیاسی تحریک کیلئے لڑیگی تاکہ ریاستی اقتدار حاصل کرتے ہوئے معاشی زندگی کی بنیادوں کو سماجی ضرورت کے مطاق ڈھال سکے ناکہ نجی منافع کیلئے۔
جوزف کشور اور ڈیوڈ نارتھ سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی کی سیاسی کمیٹی کی جانب سے
Follow the WSWS