روسی آرہے ہیں!روسی آرہے ہیں!
12 June 2017
کیا آپکے الیکٹرک گیرج کے دروازے کام نہیں کررہے؟کیا آپ کا کتا آدھی رات کو اٹھ کر زور سے روتا ہے؟کیا موسم تغیرپذیر ہے گرم،سرد ،طوفانی،خشک یا تر ہے ؟کیا آپکے ٹیلی وژن سیٹ(فریج یا ساونڈ سسٹم یا گھر کے آلارم) پراسرار طور پر آن اور آف ہو جاتے ہیں؟
اگر کو ئی بھی کارپوریٹ کنٹرول میڈیا کے واشنگٹن کے سرکاری بیانات کا غیر تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اسکے ظاہری اور سطحی رخ کو تسلیم کرے اور خاص کر ڈیموکریٹک پارٹی کے تو کوئی بھی بڑی آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ روسیوں کی مداخلت سے ہورہا ہے۔
امریکی میڈیااور سیاسی اسٹبلشمنٹ جنون وحشت کی کیفیت سے دوچار ہے دوسروں پر شک و شبہ ایک ذہنی بیماری کی طرح ان میں سرایت کرگیا ہے ۔ حکمران اشرافیہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کو کمانڈ کرتی ہے یعنی(18ٹرلین ڈالرز جو کہ دنیا کی جی ڈی پی کا24.3فی صد ہے ) اور دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھنے کے علاوہ جاسوسی کے انتہائی اعلیٰ اپریٹس ہونے کے باوجود گورنمنٹ کے اندر روس کے حوالے سے خوف اور شک طاری ہوگیا ہے جو دنیا کی12ویں بڑی معیشت ہے(جو دنیا کی جی ڈی پی کا1.8فیصد یا امریکہ کے مقابلے میں1/14حصہ ہے) جو کمپیوٹر کے عہد میں امریکہ سے نسلوں پچھلے ہے یعنی سیلی کون ویلی کے بعد داخل ہوئے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے پاس اس وقت 3.6ملین کمپیوٹرز پروگرام ہیں جو کہ دنیا کے کل پروگراموں کا20فیصد ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں روس کے پاس5لاکھ ہیں ۔امریکہ کے پاس اس وقت دنیا کے سب سے طاقتور،سافٹ وئیر، ہارڈ وےئر اور انٹرنیٹ کی کمپنیاں موجود ہیں۔روس کی ابھی تک کوئی کمپنی دنیا کی ٹاپ100کمپنیوں کی فہرست میں نہیں ہے ۔لیکن اس کے باوجود بھی امریکی میڈیا روس کیخلاف اپنی مہم میں امریکہ کے2016کے الیکشن کو ہیک کرنے کا الزام عائد کررہا ہے۔روس کے سائیبر وار فیرآپریشن نے امریکی آئی ٹی کے نظام کو ایسے کاٹ دیا جیسے کے مکھن کو چھری سے کاٹ دیا جاتا ہے۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کو می جمعرات کے روز جب سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تو امریکی میڈیا میں روس کے خلاف غیظ و غصب میں اضافہ دیوانگی کی حد تک بڑھ گیا ہے ۔ امریکہ کے سابقہ سیاسی پولیس کے سربراہ نے روس کی امریکی الیکشن میں مداخلت کو یہ کہاکہ یہ امریکی جمہوریت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔’’وہ آرہے ہیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی کا سہارا لیتے ہوئے مداخلت کریں ’’اس نے انتباہ کیا کہ وہ دوبار آئینگے‘‘’’امریکہ کیلئے وہ آرہے ہیں‘‘ ۔
تمام ہفتے کی میڈیا رپورٹوں میں منحوس پیشنگویوں کے حوالے سے انتباہ کیاگیا ہے نیویارک ٹائمز کے ہفتے کے اخبار کے پہلے صفحہ میں انتباہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ اورٹومی کے درمیان لڑائی کو اس حد تک نہ بڑھنے دیا جائے جس سے انتہائی اہم ایشو’’امریکہ کو لرزش ناک خطرہ‘‘ پس پردہ نہ ہو جائے یعنی روس کا امریکی انتخابی نظام میں مداخلت کا ہونا۔
ٹائم کے مطابق’’نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر سے لیکر سٹیٹ کیپٹلز تک سب نے دریافت کیا ہے کہ روسی وٹرز رجسٹریشن سسٹم کے اندر داخل تھے المیہ ہے کہ روسیوں نے کیسے امریکی جمہوریت کو گزشتہ سال نقصان پہنچایا اور اسے دوبارہ کیسے روکا جاسکتا ہے اسکا رخ مڑا جارہا ہے‘‘
مضمون آگے چلا کر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے رائے پیش کرتا ہے کہ روسی حکومت کے ہیکرز امریکہ کی وٹنگ سسٹم کے سافٹ وےئر بجلی کے پاور گریڈ اور دوسرے بنیادی انفراسٹریکچرز میں گھس چکے ہیں ۔اس نے کومی کی رائے کو مزید آگے بڑھتے ہوئے ’’مہرین‘‘ کے حوالے دیتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ ’’سائبر دار فےئر میں شدت آئے گی‘‘
پولیٹیکو ڈٹ کام نے جو کمینٹری چھاپی ہے وہ زیادہ پر جوش ہے اس نے لکھا ہے کہ ’’کومی کو بھول جاؤ اصل کہانی یہ ہے کہ روس امریکہ پر حملہ آور ہے ۔ اس کمینٹری کی مصنف مولی کے میک کیو جار جبیا مول ڈورا روس مخالف حکومتوں کی سابقہ امریکن مشیر رہی تھیں۔
اس نے صدر ٹرمپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ اس میں روس کے اقدامات کو سمجھنے کی جستجو میں کمی تھی،یہ کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ روس کے ان اقدامات سے امریکی جمہوریت پر خطرناک اور دو رس نتیجہ مرتب ہونگے۔
اس نے وائٹ ہاوس پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ’’امریکہ اور اس کے اتحادی کو جو وہ ناکام رہا ہے اس اقدامات کو روک سکے۔ اس نے ویٹ ہاؤس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ اور اتحادیوں کو بہت بڑا خطرہ درپیش ہے جو کبھی بھی تاریخ میں نہیں تھا وہ روس کے اقدامات کو روکنے کیلئے ہنرمند انہ طور پر کوئی عملی اقدام نہیں کرسکا۔میک کیو لکھتی ہے ’’روس کی عالمی سامراجی بغاوت‘‘ کے مدنظر جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ ’’ نئی سرد جنگ‘‘ سے بڑھ کر ہے جو لازمی طور پر دنیا کی بڑی نیو کلےئر طاقتوں کے درمیان مقابلہ بازی پر منتج ہوگی۔
ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیڈ نے بار بار روس مخالف مہم کی وضاحت کی ہے یہ ان قوتوں کے ایماء پر ہے جو کہ فوجی انٹیلی جنس اپریٹس کے انتہائی طاقتور حصوں اور جیسے ڈیموکریٹک پارٹی کی اشیرباد حاصل ہیں اس کے علاوہ کارپوریٹ میڈیا کی بڑی تعداد بھی اس میں شامل ہے جنکا مقصد ہے کہ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس روس کے حوالے سے وہ اس خارجہ پالیسی کو آگے بڑھے جو صدر اوباما کی انتظامیہ نے اپنے دوسرے صدارتی پیریڈ میں متعارف کی تھی اور خاص کر2014میں یوکرین میں انتہاء پسند قوم پرست کْوکے بعد جیسے امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔
روس مخالف مہم میں حکمران طبقے کے وہ دھڑے اور انٹیلی جنس جنکے غصے کی خاص وجہ روس کی شام میں مداخلت ہے جس سے شام میں امریکی پروکسی جنگ میں حکومتی تبدیلی کے عمل کے پراسس کو دھچکا لگا ہے ۔ وہ صدراسد کو شام میں اس طرح دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح کرنل قذافی کو لیبیا میں اور عراق میں صدام حسین، انکی پیوٹین کیخلاف نفرت اس بات کا اظہار ہے کہ انکے ذہن میں اسکے بارے میں بھی یہ ہی خواہش ہے
روس مخالف مہم سرے ہی سے فراڈ اور جھوٹ پر مبنی ہے ۔فوجی انٹیلی جنس ایجنسیاں ،ڈیموکریٹک پارٹی اور میڈیا پہلے سے تیار کردہ جعلی سکنڈلز کو آگے بڑھا رہی ہیں ،ماضی میں اسکی مہارت ریپبلکن پارٹی کو حاصل تھی جیسا کہ کلنٹن کے اوپر وائٹ واٹر سکینڈل اوبامہ مسلمان ہے اور ہیلری کلنٹن اور بین غازی وغیرہ، یہ تمام فضول اور بے ہودہ مہمیں پہلے الزامات کے طور پر شروع ہوئیں بعد میں یہ خود متحرک ہو کر چلتی گئیں۔
امریکن جمہوریت کو ’’کھوکھلا‘‘ کرنے کے جو الزامات ہیکنگ کے حوالے سے روس پر عائد کیے گئے وہ کس پر مشتمل ہیں؟ کوئی بھی ووٹ کو تبدیل اور نہ ہی کسی ووٹ کو رد کیاگیا جس طرح کے 2000میں فلوریڈا میں جمہوریت مخالف مہم کی امریکی سپریم کورٹ پیش روی کررہا تھا اسکی بجائے ویکی لیکس کو نامعلوم ذرائع نے حقیقی معلومات فراہم کی تھیں جس نے اسے شائع کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی نے کیسے برنی سینڈر کی مہم کو سبوتاژ کیا اور ہیلری کلنٹن کس طرح وال سٹریٹ کے انتہائی قریب ہو کر اس نے انہیں یقین دہانی کروائی کے نئی کلنٹن انتظامیہ بڑے مالیاتی سرمائے کے مفادات کے حوالے سے انکی جیب میں ہو گی ان انکشافات نے ہیلری کلنٹن کو یقینی طور پر نقصان پہنچایا لیکن اس حد تک کہ ان انکشافات نے امریکی عوام کی بات کو درست ثابت کیا جو کہ پہلے ہی سے اسے جانتے تھے کہ وہ مالیاتی اشرافیہ کی ایک کرپٹ کٹھ پتلی ہے ۔
جہاں تک دوسرے ممالک میں الیکشن میں مداخلت کا سوال ہے تو اس حوالے سے امریکی حکمران طبقہ خاص عملی مہارت رکھتا ہے ایک کیس خاص کر مستحق ہے کہ اسکا ذکر کیا جائے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت سے امریکہ کے سیاسی پیشہ وروں کی مداخلت روس کے1996 کے الیکشن میں کی گئی جس کا بنیادی مقصد تھا کہ بورس یلسن کو دوبارہ یقینی طور پر منتخب کیا جا سکے۔ مہم کے آغاز میں یلسن کے ووٹ ایک عددی ہندسے میں جارہے تھے اور اسے سخت اپوزیشن کا سامنا تھا۔1996کے جولائی کے ٹائم میگزین کے سرورق پر یلسن کی تصویر چھاپی گئی جس میں دیکھاگیا اس کے ہاتھ میں امریکن جھنڈا ہے اور وہ مہم کو ختم کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ’’ جلدی سے مدد کرکے بچاؤ‘‘ ’’ خفیہ کہانی کہ کس طرح امریکن مشیروں نے یلسن کو الیکشن میں جیتنے کی مدد کی‘‘
ہیلری کلنٹن نے2016کے الیکشن میں اس لیے شکست کھائی کیونکہ وہ وال سٹریٹ اور فوجی اسٹبلشمنٹ کی امیدوار تھی اس نے محنت کشوں کے اضطراب اور بے چینی کے حوالے سے ان سے کوئی اپیل نہیں کی ۔یہ اس وقت جب اوبامہ نے گزشتہ6سالوں سے اجراتوں میں کٹوتیوں اسٹریٹی اور معاشی جمود کی پالیسیوں کو دھائیوں جاری رکھا جس کی وجہ سے سماجی نابرابری میں مزید اضافہ ہوا ۔ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے ماہ کے اقتدار کے دوران بھی ڈیموکریٹک پارٹی میں دائیں بازو کے رحجانات ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنمائی کرتے رہے ۔ٹرمپ کیخلاف ڈیموکریٹک پارٹی ہیلتھ کیر، تارکین وطن او ر اسکی دنیا کو فوجی لحاظ سے ڈرانے اور د دھمکانے کی پالیسیوں کیخلاف نہیں لڑنا چاہتی اور نہ ہی وہ ٹرمپ کے صدر کے مینڈیٹ کے حوالے سے جو کہ اس نے پاپولر ووٹوں میں شکست کھائی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہے ۔اس کی بجائے انہوں نے ٹرمپ پروار کرنے کا انتخاب دائیں جانب سے کیا ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ میں ٹرمپ دائیں بازو کا صدر ہے اور اسکی مخالفت اس بنیاد پر کی جارہی ہے کہ وہ روس کیخلاف محاذ آرائی کی پالیسیوں پر ناکافی طور پر اتفاق کرتا ہے۔
پیٹرک مارٹین