دہشت گردی کی جیو پولیٹکس کا ادراک
8 June 2017
ایران کی پارلیمنٹ (مجلس) اور سپریم لیڈر امام خمینی کے مزار پر بدھ کے روز یکے بعد دیگرے ہم ربتہ خونی دہشت گرد حملوں میں کم ازکم12افراد ہلاک اور 43کے قریب زخمی ہوئے ہیں جسے عراق اور شام کی اسلامی ریاست(آئی ایس آئی ایس) یعنی داعش سے منسوب کیاگیا ہے۔
امریکی حکومت اور مغربی میڈیا کا تہران پر ردعمل بالکل برعکس تھاان حملوں کے مقابلے میں جو کہ22مئی کے مانچسٹر ایرینا اور لندن برج پر ہوئے تھے جس میں22افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ٹرمپ کے وائٹ ہاوس نے جو فاسق بیان جاری کیا جس میں موثر طور پر ہلاکتوں کو بجا قراردیتے ہوئے کہاکہ’’ کہ ہم خصوصی طور پر اس بات کو نمایاں کرتے ہیں کہ جو ریاستیں دہشت گردی کی سپانسر کرتی ہیں وہ خود بھی اسکے خطرے کا شکار ہوتی ہیں ‘‘ اس رویہ سے یہ عکاسی ہوتی ہے کہ وہ ایرانی جانوں کے نقصان کو بے نسبت نظر انداز کرنا ہے اس سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ ایران کیخلاف دہشت گردی کے مخصوص سیاسی مقاصد ہیں جسے امریکی سامراج اور اسکے علاقائی اتحادی اپنے مفادات کے حصول کیلئے اسے ایک ساتھ بڑھ رہے ہیں ۔
تہران کا اس حملوں پر ردعمل غیر مبہم تھا۔ اس نے اسکی ذمہ داری امریکہ اور اس کے قریبی علاقائی اتحادی سعودی عرب پر عائد کی ایران کے پاسداران انقلاب کے فوجی دستے(آئی آرجی سی) کے ایک بیان میں کہاگیا جسے ایرانی میڈیا میں شائع کیا کہ ’’ دہشت گردی کا واقع اس وقت رونما ہو اجب صرف ایک ہفتہ پہلے امریکی صدر(ڈونلڈ ٹرمپ) اور (سعودی) پسماندہ لیڈرز جو کہ دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں انکے درمیان ایک میٹنگ ہوئی‘‘۔ ان حملوں کو ایران اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ ایک سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے کیے گئے جس میں قابل شناخت ریاستی عناصر اپنے جیو سٹیجک مفادات کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔
اسی طرح جو گزشتہ حملے مانچسٹر اور لندن میں ہوئے ۔پیرس،برسلز اور اس سے پہلے کے تمام حملوں کے بارے میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے۔
مغربی میڈیا معمول کے مطابق ان دہشت گرد کا رروائیوں اور مظالم کی الگ تھلگ توضیحات پیش کرتا ہے کبھی’’ ہوئے‘‘ یا مہذبی نفرت‘‘ کے طور پر یا پھر کسی دیوانے شخص کی کارروائی قراردیتے ہوئے ۔ لیکن درحقیقت یہ بین الاقوامی سطح پر ایک مربوط مہم کا حصہ ہے جسے مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یورپ کی سڑکوں پر جو تشدد ہورہا ہے اس کے برعکس اس سے گئیں سنگین اور بڑے پیمانے پر امریکی ،برطانوی،اور فرانسیسی سامراج نے مشرق وسط کی دائیں بازو کی بورژوا حکومتوں کے گٹھ جوڑ سے اسلامی شدت پسندوں کی مالی،مالیاتی اور فوجی امداد اور حمایت کرتے ہوئے مظالم اور اس خونی تشدد کو مشرق وسط پر مسلط کررکھا ہے ۔
داعش کا جنم بذات خود براہ راست مسلسل سامراجی جنگوں کا نتیجہ ہے جو کہ القاعدہ سے الگ ہوئی تھی۔القاعدہ جس کا ظہور سی ای اے کی اسلامی بنیاد سرپرستوں کی پشت پناہی ہیں ہوا جو افغانستان کی سوویت حمایت یافتہ حکومت کیخلاف جنگ لڑرہی تھی۔ پھر یہ امریکہ کی عراق میں جارحیت میں شامل ہوئی جس میں تقریباً ایک ملین عراقی لقمہ جان بنے اور پھر انہیں لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کا تختہ الٹنے کیلئے2011میں لیبیا کی جنگ میں استعمال کیاگیا پھر ان جنگجوؤں اور اسلحے کی سی آئی اے کی پشت پناہی سے شام میں حکومت کی تبدیلی کیلئے بھیجا گیا۔
اس تازہ ترین دہشت گردی کی لہر کے نقط آغاز کی بنیاد واشنگٹن کے مشرق وسطیٰ کے اتحادی اور اسکی اسلامک پروکسی قوتوں کا بے اطمینانی کا اظہار ہے جو سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی شام میں مداخلت سست روی کا شکار ہے گزشتہ6برسوں سے جاری جنگ میں واشنگٹن کامیاب طور پر شام میں حکومت کی تبدیلی کو کوئی منطقی شکل نہیں دے سکا ہے۔
وہ لوگ جوان دہشتگرد حملوں کی کارروائی کے احکامات صادر کرتے ہیں وہ لندن،پیرس اور دوسرے ممالک میں اپرکلاس کے علاقوں میں رہتے ہیں جنکے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سرکاری آفیسروں سے قریبی تعلقات استوار ہیں اور ان سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
اگر وہ اس وقت نظروں سے اوجھل ہیں لیکن اگر امریکہ کی پشت پناہی میں شام میں جاری جنگ اپنے عزائم اور مقاصد میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ہی اوجھل(افراد) حکومت کی وزارتوں اور سرکاری آفیسروں کے اوپر کے حصوں میں نمایاں مقام میں ہونگے۔
وہ دہشت گرد جو خونریز حملے کرتے ہیں یہ قربانی کرنے کے اثاثے ہیں جسے مشرق وسط میں آسانی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے سماج کی ان پرتوں میں جن میں سامراجی قتل و غارت کی وجہ سے انتہائی اشتعال اور جوش پایا جاتا ہے۔ ماس میڈیا ہمیشہ یہ بیان کرتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے حملوں کو اس لئے نہیں روک سکے کیونکہ سیکورٹی فورسز ’’نقطوں کو جوڑنے‘‘ میں ناکام رہی۔ اب اس بار بار کے جملے کو دوہرانے پر مستقل طور پر پابندی عائد کردینی چاہئے۔درحقیقت ہر دہشت گرد حملے میں جو اس میں ملوث ہوتے ہیں وہ انتظامیہ کو بخوبی طور پر ان کے بارے میں علم ہوتا ہے اور انکو جانتے ہیں ۔
برطانیہ میں تازہ ترین حملوں میں جو افراد ملوث پائے گئے وہ حیرت انگیز ہیں گزشتہ دہشتگردی کے حملوں کی طرح ان میں حقیقی طور پر یکسانیت پائی جاتی ہے ۔لندن برج کے حملے میں حملہ آوروں میں سے ایک کا نام یوسف زگابا ہے جسے اٹلی کے ائیر پورٹ پر روکاگیا جب وہ شام جانے کی کوششیں کررہا تھا اور اس نے خود تسلیم کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ دہشت گردبنے جس کے پاس داعش کا لٹریچر بھی تھا۔دوسرے دہشت گرد کو برطانوی ٹیلی وژن میں ایک دستاویزی فلم میں دیکھاگیا جس میں درج ہے کہ پولیس کے ساتھ اسکا مقابلہ اور اسکی نظر بندی ریجنٹ پارک میں اس وقت پیش آئی جب اس کے ہاتھ میں داعش کا جھنڈا تھا۔
اسی طرح مانچسٹر کے خودکش حملہ آور سلیمان عابدی کو برطانوی انتظامیہ اچھی طرح جانتی تھی۔اس کے والدین لبین اسلامک فاٹینگ گروپ(ایل آئی ایف جی) نامی تنظیم کے ممبر تھے2011میں اسے لیبیا جانے کی اجازت دی گئی تاکہ وہ امریکی،نیٹو جنگی آپریشن میں حصہ لیکر معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کرسکے اس نے خود لبین اسلامک اسٹیٹ جو کہ لیبیا میں کام کررہی تھی اور شام میں خانہ جنگی میں برسرپیکار سابقہ فوجی جنرلوں سے ملاقاتیں کئیں اور مانچسٹر میں رہتے ہوئے ان تنظیموں کے ساتھ اسکے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔
گزشتہ 16برسوں پر محیط اس نام نہاد ’’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘‘ نے صاف طور پر واضع کردیا ہے بشمول9/11کے ہائی جیکروں کے حملے تک کہ یہ دہشت گرد مشرق وسطی ،یورپ اور امریکہ میں بغیر کسی روک ٹوک کے آتے اور جاتے رہے یہاں تک کہ انہیں ریاستی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
یہ افراد (دہشتگرد)جب سپورٹ کنٹرول پر پہنچتے تو انکے نام ایک خاص ہدایات کے ساتھ سامنے آتے کہ انہیں روکا نہ جائے۔’’صاحب گھر میں خوش آمدید‘‘ ۔ لیبیا میں اپنی سیاحت سے لطف اندوز ہو‘‘ ۔ لیکن شام میں بس تھوڑی سی دہشتگردی کی کارروائی‘‘۔
انہیں یہ کھلی چھٹی کیوں دی گئی تھی کہ وہ جو چاہئیں کرسکیں ؟کیونکہ یہ یورپی اور امریکی انٹیلی جنس اداروں کے مددگار ہیں جو انکے لئے پروکسی کے طور پر لیبیا سے لیکر شام تک حکومت کی تبدیلی اور جنگ میں اور اس سے بڑھ کر سامراجی مفادات کے حصول کی خاطر ان کے لئے اہم اور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر کبھی کبھار یہ عناصر(دہشتگرد) اپنے ہی سپانسرز کیخلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو بھی انکا نشانہ معصوم شہریوں کو ادا کرنا ہوتا ہے اور یہ کاروبار کرنے کی قیمت کا حصہ ہے۔
دہشتگردی کے واقعات ہونے کے بعد حکومتوں کا ردعمل پھر جبراور نگرانی کو بڑھنا ہوتا ہے فوجیوں کو گلی اور کوچوں میں تعینات کرتے ہوئے جمہوری حقوق کو سلب کیا جاتا ہے اور جیسا کہ فرانس میں ہنگامی حالات کا نافذ کرکے اسے قانون کا اہم ذریعہ بنایا جاتا ہے۔یہ تمام اقدامات مستقبل کے دہشتگرد حملوں کو روکنے کے لحاظ سے بالکل ہی بیکار اور فضول ہیں لیکن ان کا مقصد اندرونی آبادی اور سماجی بے چینی کو دبانے اور کنٹرول کرنے کیلئے عمدہ خدمت کرنا ہے۔
اگر یہ ذرائع ابلاغ ایک دھائی یا اس سے زیادہ مدت میں جو دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جو بہت ہی عیاں ہیں انہیں بیان کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کہ کس طرح دہشتگردی اور یورپی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تعلقات استوار ہیں اور مشرق وسطیٰ میں نہ ختم ہونیوالی جنگ کسی طرح ایک ادارے کی شکل اختیار کرگئی ہے۔
معصوم مرد،عورتیں اور بچے خواہ وہ لندن،مانچسٹر یا پھر پیرس،تہران،بغداد یا کابل میں ہوں اس سامراجی مداخلت اور فوجی آپریشن کی خوفناک قیمت ادا کررہے ہیں جہاں ہر جانب خون اور تباہی پھیلی ہوئی ہے۔
ان دہشت گرد حملوں کو روکنے کیلئے اس نام نہاد’’دہشتگردی‘‘ کیخلاف جنگ کو روکنا ہوگا جو کہ ایک غارت گر جنگ کا جھوٹا بہانہ ہے جس میں القاعدہ اور اسکی دوسری ذیلی گروپ ایک پروکسی کے طور پر زمینی افواج کے طور پر تعینات ہیں جنکے انٹیلی جنس اداروں اور انکی فوجی کمانڈ کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور جو انکے سربراہی میں آپریشن کررہے ہیں۔
بل وان اوکن
Follow the WSWS